محمد ثاقب صدیقی
رکن
- شمولیت
- مئی 20، 2011
- پیغامات
- 182
- ری ایکشن اسکور
- 522
- پوائنٹ
- 90
قاضی نصیر الدین برہان پوری
منقول کتاب '' برصغیر میں تحریکِ اھل حدیث - ایک تاریخی جائزہ ''
از قلم محمد تنزیل الصدیقی الحسینی ( غیر مطبوعہ )
'' قاضی نصیر الدین ابن سراج محمد بنبانی برہانپورکے ممتاز عالم اور سر بر آوردہ فرد تھے ، حکیم عثمان کی شاگردی پر اظہارِ فخر و مباہات کیا کرتے تھے ۔ '' ]برہان پور کے سندھی اولیاء : ٢٨٩[
علامہ عبد الحئی حسنی لکھتے ہیں :
'' و لازم شیخہ عثمان ملازمة طویلة حتی فاق اقرانہ فی العلم ۔ '' ] نزہة الخواطر:٥/٤٥١[
'' اپنے شیخ عثمان کے ساتھ طویل مدت تک منسلک رہے یہاں تک کہ اپنے معاصرین پر علم میں فائق ہوگئے ۔ ''
قاضی نصیر الدین فراغتِ تحصیل علم کے بعد خود مسند علم و فضیلت پر متمکن ہوئے انہیں کم عمری ہی میں شہرت و ناموری حاصل ہوئی ۔ ان کے علمی مقام و مرتبے کا ذکر کرتے ہوئے صاحبِ '' نز ہة الخواطر '' علامہ عبد الحئی حسنی لکھتے ہیں :
''الشیخ العالم المحدث الفقیہ القاضی نصیر الدین بن القاضی سراج محمد الحنفی االبرھانپوری ، أحد العلماء المبرزین فی الفقہ و الحدیث و العربیة ، لم یکن فی زمانہ أعلم منہ بالرجال و الحدیث ، و أطوع منہ للکتاب و السنة ، و أصدق منہ فی لھجة۔''] نزہة الخواطر:٥/٤٥١[
''شیخ عالم محدث فقیہ قاضی نصیر الدین بن قاضی سراج محمد حنفی برہان پوری فقہ ، حدیث اور ادبِ عربی میں یکتائے روزگار تھے ۔ ان کے زمانے میں فن رجال و حدیث میں ان سے زیادہ کوئی جاننے والا نہ تھا ، نہ ان سے زیادہ کوئی کتاب و سنت کا اطاعت گزار تھا اور نہ ان سے زیادہ کوئی صادق القول تھا ۔ ''
مولوی رحمان علی لکھتے ہیں:
'' قاضی نصیر الدین برہانپوری ولد قاضی سراج الدین از مشاہیر فضلای عصر است ۔ '' ]تذکرہ علمائے ہند ( فارسی ) : ٢٣٨[
''قاضی نصیر الدین برہان پوری ولد قاضی سراج ،اپنے زمانہ کے مشہور فاضل تھے۔''
ان کی زندگی میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے جس نے نہ صرف ان کی بقیہ پوری زندگی پر نہایت گہرا اثرا ڈالا بلکہ ان کے مسلک و نظریات کو بھی اہلِ زمانہ پر عیاں کردیا ۔ محض ١٨ برس کی عمر میں انہوں نے اپنے دور کے مشہور شیعہ عالم شکرا للہ شیرازی الملقب بہ افضل خاں کو میدان مناظرہ میں شکست دی ۔ شکر اللہ خاں شیرازی نے اس شکست کو اپنی بے عزتی پر محمول کیا اور طبعاً قاضی صاحب کی مخالفت کو اپنے اوپر لازم کرلیا ۔ چنانچہ جب آگے چل کر قاضی صاحب کی اپنے سسر اور استاذ شیخ علم اللہ سے مخاصمت ہوئی اور اس کے نتیجے میں قاضی صاحب کی نہایت شدت کے ساتھ مخالفت ہوئی تو شکر اللہ شیرازی نے بھی اپنا حقِ مخالفت ادا کیا ۔
جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ قاضی نصیر الدین اپنے سسر مولانا علم اللہ امیتھوی سے بعض کتبِ فقہ کی تحصیل کر رہے تھے ۔ دوران قرأت ایک مقام پر اشکال پیدا ہوا ۔ شیخ علم اللہ نے امام ابو حنیفہ کے قول کو بطورِ حجت پیش کیا ۔ جس پر قاضی صاحب نے فرمایا کہ ھو رجل و انا رجل ( یعنی وہ بھی آدمی ہی تھے میں بھی آدمی ہوں ۔) جس پر شیخ ناراض ہوگئے حتیٰ کہ داماد کو مارنے کے لیے تلوار تک نکال لی ۔ قاضی صاحب نے بھاگ کر اپنی جان بچائی ۔ صاحبِ '' نزہة الخواطر '' قاضی عبد الباقی نہاوندی کی '' مآثرِ رحیمی '' کے حوالے سے مولانا علم اللہ امیتھوی کے حالات میں لکھتے ہیں :
'' ان ختنہ نصیر الدین کان یرجح الحدیث أیا ما کان علی قیاس المجتہد ، و کان ینکر القیاس و یقول ان حدیث '' علماء أمتی کأنبیاء بنی اسرائیل '' موضوع ، فکفرہ علم اللّٰہ و أفتی بقتلہ و احراقہ فی النار و رتب المحضر لذلک ، فاثبت العلماء توقیعاتھم علی المحضر ۔''] نزہة الخواطر:٥/٣٠١[
''ان کے داماد نصیر الدین قیاسِ مجتہد کے بالمقابل حدیث کی ہر قسم کو ترجیح دیتے تھے اور قیاس کا انکار کرتے تھے۔حدیث ''علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل''کو موضوع کہتے تھے۔شیخ علم اﷲ نے ان کے کفر اور قتل کا فتویٰ دیا اور ایک محضرت مرتب کیا ، علماء نے اس محضر کی تائید میں مہریں کیں ۔ ''
مولوی رحمان علی لکھتے ہیں :
''شیخ علم اﷲ جو اپنے زمانہ کے بڑے عالم اور ان کے خسر تھے۔ان سے متفق نہ ہوئے،چونکہ قاضی حدیث کی ہر قسم کو ترجیح دیتے تھے اور قیاس کا انکار کرتے تھے۔حدیث ''علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل''کو موضوع کہتے تھے۔شیخ علم اﷲ نے داماد ہونے کے باوجود ان کو جلانے اور مار ڈالنے کا فتویٰ دیااور ایک محضر لکھا۔شیخ محمد فضل اﷲ اور شیخ عیسیٰ (جو وہاں کے مشائخ کبار سے تھے)کے علاوہ تمام علماء نے اس پر مہر کردی۔خانخاناں محمد قاضی تھے۔چونکہ دونوں عالموں (شیخ محمد فضل اﷲ و شیخ عیسیٰ ) نے مہر نہ کی تھی اس لیے ان کو کوئی مضرت نہ پہنچی۔جب جہانگیر بادشاہ نے خانخاناں پر اعتراض کیااور مدعیوں نے وہ ماجرا بیان کیاتو قاضی نصیر الدین اور شیخ علم اﷲ کی طلبی کے لیے فرمان پہنچا۔شیخ ابراہیم عادل شاہ کے پاس بیجاپور چلاگیا اور قاضی نے عربستان کا راستہ لیا۔'' ]تذکرہ علمائے ہند ( اردو ):٥٢٠-٥٢١[
سیّد مطیع اللہ راشد برہانپوری نے بھی اس واقعے کا ذکر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں :
'' برہانپور کے ایک نوجوان عالم ، قاضی نصیر الدین ابن مولوی سراج الدین بنبانی اور شکر اللہ شیرازی نے علم حدیث کی بحث(کی ، اس ) میں یہاں تک بات بڑھ گئی کہ مجتہد (شکر اللہ )صاحب نے اپنے عقیدے کے خلاف قاضی پر الزام عائد کرکے محضر جاری کیا کہ یہ شخص کشتنی ، گردن زدنی و سوختنی ہے اور ماحول سے متاثر ہوکر متعدد علماء نے بھی موافقت میں رائے لکھ کر مہریں کردیں ۔ لیکن مسیح الاولیاء (قاضی عیسیٰ سندھی)اور حضرت محمد ابن فضل اللہ نائب رسول اللہ نے اختلاف کیا اور قاضی صاحب شرعی سزا سے بچ گئے ۔ خانخاناں عبد الرحیم خان نے قاضی صاحب کے حجاز پاک جانے کا انتظام کردیا اور یہ فتنہ دب گیا ۔ '' ]برہان پور کے سندھی اولیاء :١ ٩[
سیّد مطیع اللہ نے دو واقعات کو گڈ مڈ کردیا ہے ۔ کیونکہ قاضی صاحب پر اصل آفت اپنے سسر کی مخالفت کی وجہ سے آئی تھی ۔ گو اس مخالفت میں شکر اللہ شیرازی بھی شریک ہوگئے تھے ۔ واللہ اعلم بالصواب
عرب اور وہاں سے مراجعت ہند کا ذکر کرتے ہوئے مولوی رحمان علی لکھتے ہیں :
''حرمین شریفین اور مقدس مقامات کی زیارت کی۔ پانچ سال کے بعد وطن کا ارادہ کیا،جہاز فرنگیوں کے ہاتھ پڑ گیا۔فرنگی قاضی کے کمالات سن کر ان کو اپنے حاکم کے پاس لے گئے وہ آداب جو ضروری تھے شیخ نے پورے نہیں کیے۔لوگوں نے پوچھا کہ تم نے حاکم کے آداب کیوں پورے نہیں کیے جواب دیا وہ آداب جو تم بجا لاتے ہوہم نہیں کر سکتے۔ وہاں سے رہائی پاکر بیجاپور پہنچے۔ابراہیم عادل شاہ تین کوس سے استقبال کرکے اپنے ہمراہ لے گیا۔جہانگیر بادشاہ نے جب یہ ماجرا سنا تو ان کی طلبی میں فرمان بھیجا اور حکیم خوشحال پسر حکیم ہمام کوتاکید فرمائی کہ ان کو لشکر میں رو انہ کرے۔طوعاً وکرہاً وہاں (بیجاپورسے)چل دیے اور اپنے وطن برہان پور پہنچے اور پختہ ارادہ کرلیاکہ گھر سے باہر نہ نکلیں گے۔اس زمانہ میں شاہجہاں اپنے والد کی طرف سے دکن کی صوبہ داری پر مامور ہوااور برہان پور میں آیا۔قاضی کو طلب فرمایا،قاضی نے اس سے احتراز کیا۔آخر حیلہ وحوالہ کے بعد شاہزادہ شاہ جہاں کے حضور میں آئے اور آداب پورے نہیں کیے۔شہزادے نے اس کا خیال نہیں کیااور کہا کہ اے قاضی !ہم تو تمہارے مشتاق تھے، قاضی نے کہا کس لیے؟شہزادے نے فرمایا:تمہارے کمالات سن کر ،قاضی نے جواب دیا: وہ حالت اب مجھ میں نہیں رہی۔آخر صحبت میں ناخوش گواری پیدا ہوگئی۔قاضی کو زبردستی دربارِ شاہی میں روانہ کیا۔دارالحکومت آگرہ پہنچے۔بادشاہ کی سواری باغ سے محل شاہی کی طرف جارہی تھی راستہ میں شرف ملازمت حاصل کیا اور تسلیم کا ارادہ کیا۔ بادشاہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی بغل میں لے لیا۔چند روز کے بعد بُرہان پور جانے کی اجازت مل گئی ۔بقیہ عمر اﷲ کی رضا میں بسر کردی۔ ١٠٣١ھ /٢-١٦٢١ء میں انتقال ہوا۔'' ]تذکرہ علمائے ہند:٥٢٠-٥٢١[
قاضی صاحب نے اپنی زندگی احقاقِ حق کے لیے گزاری ۔ انہوں نے اس دور میں جبکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ظہور بھی نہ ہوا تھا کفرزارِ ہند میں توحید و سنت کی شمع روشن کی ۔ اور اس ضمن میں کسی مخالفت کی ذرہ برابر پرواہ نہ کی ۔
قاضی صاحب نے درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا ۔ ان کا منہجِ تدریس بھی ان کے منہجِ فکر کے مطابق ہی تھا ۔ شیخ نظام الدین برہان پوری جو مرتبین ''فتاویٰ عالمگیری''میں سے تھے ،قاضی نصیر الدین کے تلمیذِ رشید تھے۔شیخ عباس برہان پوری قاضی نصیر الدین کے صاحبزادئہ گرامی اور تلمیذِ رشید تھے ۔ سلطانِ شاہجہاں نے انہیں دارالسلطنت دہلی میں بلایا اور بڑے اعزازِ و تکریم سے نوازا۔ افسوس ہے کہ ہم اس عہد میں قاضی صاحب کے مستفدین اور ان کے حلقۂ فکر سے متاثر ہونے والوں سے آگاہ نہیں ہوسکے ۔ کیونکہ یہ تو ظاہر ہے انہوں نے شاہراہِ عام سے الگ راہ اختیار کی ۔ تقلیدی جمود کے برعکس اتباعِ سنت کی جس شاہراہ پر وہ گامزن ہوئے ۔ اس کا اثر اگر بہت زیادہ نہ سہی مگر اس انفرادیت نے اہلِ علم کے ایک محدود حلقے کو تو متاثر کیا ہی ہوگا ۔
دیارِ ہند کے اس جلیل القدر اور عالی حوصلہ عالم دین ، فقیہ و محدث نے ١٠٣١ھ میں وفات پائی۔
ایک گزارش
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کا یہ مضمون ان کی غیر مطبوعہ کتاب سے ماخوذ ہے ۔ یہ مضمون انہوں نے ماہنامہ '' اسوئہ حسنہ '' میں بھی اشاعت کے لیے بھیجا ہے جو عنقریب شائع ہوجائے گا ۔ ان کے متعدد مضامین مختلف حضرات نے سرقہ کیے ہیں ۔ جن میں بعض نامی گرامی اہل علم بھی شامل ہیں ۔ جس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ۔
قاضی نصیر الدین برہان پوری ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے بھی سوا سو سال قبل کی شخصیت ہیں ۔ اس پر اس قدر مواد کو یکجا کرنا بلاشبہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ اور ایسے کارنامے انہوں نے خاصی تعداد میں انجام دے دیئے ہیں جو صرف منتظر طباعت ہیں ۔ مگر کیا کیجئے
جنہیں زندگی کا شعور تھا ، انہیں بے زری نے بچھا دیا
جو گراں تھے سینۂ خاک پر ، وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر
جو گراں تھے سینۂ خاک پر ، وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر