قانون امتناعِ توہین رسالت کو غیر مؤثر کرنا
پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کو سیکولر عناصر نے کبھی قبول نہیں کیا اور اس قانون کے نفاذ کے فوراً بعد سے پاکستان کو عالمی اداروں کی طرف سے ملنے والی تمام تر امداد اس قانون کے خاتمہ سے مشروط رہی ہے۔ اگر برطانیہ، فرانس یا امریکہ نے کبھی کوئی تجارتی لین دین، یا اسلحے کی خریدوفروخت کا معاہدہ کیا ہے تو اسے بھی اس قانون کے خاتمے سے مشروط کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بارہا اس بنا پر پاکستان کے خلاف رپورٹیں پیش کی ہے،حالانکہ بیشتررپورٹوں میں کوئی شے حقائق پر مبنی نہیں۔ ان عالمی اداروں کی رپورٹیں پاکستان میں مغرب کے گماشتوں کی تیار کردہ ان فرضی رپورٹوں کا چربہ ہوتی ہیں جنہیں وہ ادارے اپنے علاقائی یا عالمی مقاصد کے تحت ایک تسلسل سے امریکہ واقوام متحدہ وغیرہ میں ارسال کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال اس لگاتار مہم بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کےحکمران اس قانون کو نافذ کرنے کی بجائے اسےختم کرنے کے درپے ہوگئے۔
نواز شریف جس کے پہلے دور حکومت میں قومی اسمبلی نے یہ قانون منظور کیا تھا، اس کے دوسرے دورِحکومت میں اس قانون کی تاثیر پر اس طرح شب خون مارا گیا کہ اس پر جس قدر افسوس کیا جائے، کم ہے۔حکمرانوں میں نہ تو ایسی سیاسی قوت ہے کہ وہ اس قانون کو براہِ راست نشانہ بنا سکیں اور نہ ہی پاکستان کا دستور اس خلافِ شرع اقدام پران کی حمایت کرتاہے، چنانچہ حکمرانوں نے ہمیشہ اصل قانون کی بجائے قانون کے اجرا کے طریقہ کار میں ترمیم کی درپردہ کوششیں کیں۔
1 بینظیر حکومت اور قانون توہین رسالت: جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کا موجودہ قانون 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ اور پھر جولائی 1992ء میں پارلیمان کی قانون سازی کے نتیجے میں حتمی ہوکر کتابِ قانون کا حصہ بنا،لیکن قانون کی تشکیل کے موقع پر 1992ء میں ہی پیپلز پارٹی کی قیادت اس حوالے سے شدید پریشانی اور خلجان میں مبتلا تھی۔
٭ قائد ِحزب اختلاف بینظیر بھٹو نے جولائی 1992ء میں پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کے موقع پر اس بے چینی کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا کہ
’’پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک میں ایسا قانون غیر ضروری ہے ، یہاں کی مسلم اکثریت خود ہی اپنے نبی کے تقدس کی حفاظت کرسکتی ہے۔پارلیمنٹ کے ذریعے ایسا قانون منظور کرانا ملک کو بنیاد پرست ریاست بنانے کی کوشش ہے جس سے عوام کے حقوق سلب ہوں گے اور پاکستان بدنام ہوگا۔‘‘
٭ اگلے سال اقتدار میں آتے ہی بینظیر حکومت نے ’لاء کمیشن‘ کے ذریعے 20 دسمبر 1993ء کو اسلامی نظریاتی کونسل سے اس قانون میں ترمیم کی سفارش کی اور یہ مطالبہ کیا کہ اس جرم کو ناقابل دست اندازی پولیس بنادیا جائے۔
٭ اپریل 1994ء میں بینظیر حکومت کی وفاقی کابینہ نے اس جرم کی سزا محض 10 سال قید میں تبدیل کرنے کا فیصلہ دیا۔جولائی1994ء میں اس حکومت کے دو وزرا: وزیر تعلیم ڈاکٹر شیرافگن اور وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے یہ بیانات دیے کہ توہین رسالت اب ایک قابل دست اندازی پولیس جرم نہیں رہا، اب اس کی رپورٹ سیشن کورٹ یا کم ازکم علاقہ مجسٹریٹ کے پاس ہی بطورِ استغاثہ درج ہوگی۔ مزید برآں غلط شکایت پر 10 سال کی سزا بھی لاگو کردی گئی ہے۔
پولیس کے قابل دست اندازی جرم نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس جرم کی سزا دلوانا، دیگر جرائم کی طرح پاکستانی حکومت کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس جرم کے وقوع پر سیشن کورٹ میں شکایت درج کرانے پر ہی اس کے خلاف کاروائی ہوگی، اور پہلے شکایت کنندہ کو جرم کا وقوع ثابت کرنا ہوگا۔ گویا یہ جرم ریاست کے خلاف نہیں بلکہ مسلمان کے خلاف ہے، جس کی تلافی کے لئے اسے شکایت کرکے حکومت کی مدد حاصل کرنا ہوگی۔اس ترمیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ شکایت کنندہ مسلمان کووقوعہ کے اندراج کے تمام اخراجات نہ صرف خود ہی برداشت کرنا ہوں گے، بلکہ گواہوں کے ذریعے وقوعہ کو ثابت بھی کرنا ہوگا۔ اس ترمیم کا مقصد واضح طورپر اس جرم کی سزا کے نفاذ ميں رکاوٹیں کھڑی کرنا تھا۔
2 نواز شریف حکومت اور قانونِ توہین رسالت: بینظیر کے دور ِحکومت1996ء میں سینٹ کےقائد ِحزبِ اختلاف راجہ ظفر الحق نے 7 مارچ 1996ء کو امریکی حکومت کے مطالبے پر اس قانون کے طریقہ کار میں اس تبدیلی کو انتہائی مایوس کن قرار دیا۔ لیکن 1998ء میں جب نواز شریف حکومت کا دوسرا دور تھا، تو اس وقت وفاقی وزیر مذہبی واقلیتی اُمو رنے 7مئی 1998ء کو یہ بیان دیا کہ حکومت اس قانون میں تبدیلی کے بجائے طریقہ کار میں تبدیلی پر غورکررہی ہے۔اور وہ یہ کہ ’’ توہین رسالت کی سماعت عام عدالت کی بجائے سپیشل کورٹ میں کی جائے۔ علاوہ ازیں ایسے کیس چلنے سے قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس جائیں تاکہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ یہ کیس چلنا بھی چاہئے یا نہیں؟‘‘
افسوسنا ک امریہ ہے کہ یہ بیان دینے والی مبارک شخصیت وہی تھی جنہوں نے بینظیر دور میں اس قانون میں تبدیلی کی بھرپور مخالفت کی تھی لیکن اپنے دورِ حکومت میں وہ خود اس قانون میں تبدیلی پر کمر بستہ ہوگئےحتیٰ کہ نواز حکومت کے وفاقی وزیر قانون خالد انور نے تو چند دنوں بعد یہ بیان بھی دے دیا کہ ’’حکومت قانونِ توہین رسالت میں بھی ترمیم کرے گی۔‘‘
اس پس منظر کے ساتھ آخر کار وزیر اعظم نواز شریف نے جون 1998ء کو اس قانون کے طریقہ کار میں تبدیلی کی منظوری دے دی۔ ا س موقع پر روزنامہ ’نوائے وقت‘ میں شائع ہونے والی خبر کا متن یہ تھا:
’’وزیراعظم میاں نواز شریف نے وفاقی وزیرمذہبی واقلیتی اُمور سینیٹر راجہ ظفر الحق کی رپورٹ پر توہین رسالت کے مبینہ واقعات میں FIR کے اِندراج کے قانون میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے ۔ یہ انکشاف قومی اسمبلی کے رکن اور سابق وزیر مملکت ڈاکٹر روفن جولیس نے سینیٹر راجہ ظفر الحق کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے بات چیت کے دوران کیا ۔اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ جہاں توہین رسالت کا مبینہ واقعہ پیش آئے،اس علاقے کے اچھی شہرت کے حامل دوایمان دار، سچے مسلمان اور دو عیسائی منتخب کیے جائیں ۔ ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی اور ان چار اَفراد سمیت چھ اَفراد پر مشتمل ایک کمیٹی اس واقعہ کی تحقیقات کرے گی اور اگر تفتیش کے دوران جرم ثابت ہوگیا تو کمیٹی کی رپورٹ پرFIRدرج کی جائے گی۔ ‘‘
افسوس ناک امر یہ ہے کہ صدرِ مملکت محمد رفیق تارڑ، وفاقی وزیر مذہبی اُمور سینیٹر راجہ ظفر الحق اور نواز شریف وشہباز شریف جیسے بظاہر ’عاشقانِ رسول‘ کی حکومت میں قانون توہین رسالت کو غیرمؤثر کرنے کے قانونی تقاضے پورے کرلئے گئے۔یہ وہی لوگ تھے جو اس سے قبل عوام میں سستی مقبولیت کے لئے اس قانون کی برملا حمایت کیا کرتے تھے۔بینظیر حکومت نے اس قانون کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دیا، لیکن اصل قانون میں تبدیلی نہ کرسکی۔ جبکہ نواز حکومت نے ایسی کمیٹی کو اس کی شکایت کے لئے ضروری قرار دیا ، جو ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی اور دو مسلمان، دو عیسائی سچے افراد پر مشتمل ہو۔اس قد رسنیئر افسران اور ہر محلہ میں مسلم عیسائی افراد کی موجودگی کی مشکل اور تاخیری شرائط کے ذریعے جرم کی سزا کے نفاذ میں ایسی سنگین رکاوٹیں کھڑی کی گئیں کہ قانون بظاہر باقی رہے لیکن اس کی سزا کسی کو نہ ہوسکے۔ ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کی بیش بہا مصروفیات اوراس پر مستزاد اُن کےعموماً دین گریز رجحانات کا واضح نتیجہ یہ تھا کہ ایسے جرم کی سزا آغا ز میں ہی اس قدر مشکل بنا دی جائے کہ اس کی شکایت کرنے سے قبل کوئی مسلمان بیسیوں بار سوچے۔
3 مشرف حکومت اور قانونِ توہین رسالت: جنرل پرویز مشرف نے 21مئی 2000 کو یہ اعلان کیا کہ قانون توہینِ رسالت کا غلط استعمال ہورہا ہے، اس لئے اس کے طریقۂ نفاذ میں مزید تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن عوام کے شدید ردّ عمل کے بعد عملاً اس تبدیلی کوملتوی کردیا گیا۔مئی 2004ء میں جنرل مشرف نے قانونِ توہین رسالت پر دوبارہ نظرثانی کا اعلان کردیا۔ان دنوں اعجاز الحق وزیر مذہبی اُمور تھے، اُنہوں نے جولائی 2004ء میں یہ بیان جاری کیا کہ توہین رسالت کی غلط شکایت کرنے والے کو موت کی سزا دی جائے گی، گویا اصل جرم کی سزا کے عین برابر ۔ وزیر موصوف کی یہ قانون فہمی اور سفارش بھی شرمناک جسارت سے کم نہ تھی۔ آخرکار نومبر 2004ء میں پاکستان میں قتل غیرت کے جملہ قوانین کے ساتھ قانونِ توہین رسالت میں بھی تبدیلی کردی گئی۔ یاد رہے کہ قتل غیرت کے حوالے سے قانون سازی کے مطالبے میں بھی شیری رحمٰن پیش پیش تھی، اور اس موقع پر اس نے قومی اسمبلی میں ’خواتین کو با اختیار بنانا‘کے عنوان سے ایک بل جمع کرایا تھا۔
قانونِ توہین رسالت میں مشرف حکومت نے جو ترمیم پیش کی، اس کا تعلق بھی طریقۂ نفاذکی تبدیلی سے تھا۔ واضح رہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 156 کا تعلق وقوعہ جرم کی رپورٹ سے ہے، اس میں نومبر 2004ء میں پیش کئے جانے والے ’کریمنل لاء ایکٹ 2004ء‘ کی دفعہ 9 کی رو سے 156 اے اور بی، دو ترامیم کا اضافہ کیا گیا۔156 بی کا تعلق تو حدود قوانین کی رپورٹ سے تھا، جبکہ 156 ا ے کا تعلق قانونِ توہین رسالت کی تنفید سے۔اس بل کی منظوری کے بعدضابطہ فوجداری میں 156 اے کااضافہ کردیا گیا، جس کا متن یہ تھا:
١٥٦/اے: تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ٢٩٥ سی کے تحت جرم کی تفتیش : ’’سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدے سے کم رتبے کا کوئی پولیس آفیسر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت درج مقدمے کے ملزم سے تفتیش نہیں کرسکے گا۔‘‘
یہ قانون اس وقت ضابطہ فوجداری میں محولہ دفعہ کے تحت موجود اور نافذ عمل ہے۔
4 زرداری دور میں قانونِ توہین رسالت کو غیرمؤثر او رتبدیل کرنے کی کوشش
موجودہ دور میں آسیہ مسیح کے کیس کے ذریعہ ایک بار پھر قانونِ توہین رسالت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ننکانہ کی آسیہ مسیح کی دریدہ دہنی اور بار بار اس کا اعتراف، اپنی بقید ِحیات بہن کے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح جس کی بنا پر اس علاقہ کے عیسائی بھی آسیہ کے مخالف ہیں، اور مسیحیت کی تبلیغ کے ساتھ اس کی شانِ رسالت میں گستاخی کی تمام تفصیلات میڈیا پر آچکی ہیں۔اس کے باوجود 20 نومبر کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا اپنی بیٹیوں اور بیوی کےہمراہ شیخوپورہ جیل میں اس سے ملاقات کرنا اور اس کو بےگناہ قرار دینا، بعد ازاں حکومت کا شاتمہ آسیہ مسیح کو شیخوپورہ جیل سے نامعلوم مقام پر منتقل کرنا اور صدر زرداری کو اس کی سزا معافی کی درخواست، ایسی عجیب وغریب چیزیں ہیں جو حکمرانوں کی توہین رسالت کے مجرموں کے ساتھ غیر معمولی ہمدردی کا برملا اظہار کررہی ہیں۔
آسیہ مسیح نے شانِ رسالت میں چند مسلمان خواتین کی موجودگی میں مؤرخہ 14جون 2009ء کو گستاخی کا ارتکاب کیا۔ اور ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ جناب محمد نوید اقبال نے کئی ماہ پرمحیط تفصیلی سماعت کے بعد 8نومبر 2010ء کو ملزمہ کو سزاے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔جس کے بعد20 نومبر کو گورنر پنجاب نے جیل جا کر ، پورے عدالتی عمل کو سبوتاژ کرتے ہوئے آسیہ کو بے گناہ قرار دیا۔معلوم ہوا کہ قانون کے اجرا کی راہ میں ماضی میں تمام تر رکاوٹیں حائل کرنے کے باوجود، آخرکار سیشن کورٹ سے بھی کسی ملزمہ کو سزا ہوجائے تو پاکستان کے لادین عناصر اس کو بھی گواراکرنے کو تیار نہیں۔چنانچہ اُنہوں نے اصل قانون میں تبدیلی کی ضرورت کا اِدراک کرتے ہوئے اس بار مزید پیش قدمی کی۔
میڈیا میں اس واقعہ کے نمایاں ہونے کے چند ہی دنوں کے دوران شیری رحمٰن نے 24 نومبر کو قومی اسمبلی میں قانونِ توہین رسالت کے خلاف ترمیم کا بل [بنام توہین رسالت ترمیمی ایکٹ2010ء] داخل کردیا ۔ بل میں کوئی نئی بات نہیں، بلکہ اس بار اس کا مقصد ایک طرف اصل قانون میں تبدیلی اور دوسری طرف اس قانون کے ضمن میں شکایت کرنے والے کو نشانِ عبرت بنا دینا ہے۔
1 دفعہ 295 بی میں قرآنِ کریم کے تقدس کو پامال کرنے کی سزا عمر قید کی بجائے صرف پانچ سال قید یا جرمانہ کردی جائے۔
2 جبکہ 295 سی میں توہین رسالت کی سزا کو موت کی بجائے 10 سال قید یا جرمانہ سے تبدیل کردیا جائے۔
3 یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ 203 اے کی صورت میں یہ اضافہ کیا جائے کہ توہین کے تمام قوانین، 295اے بی اور سی کی غلط رپورٹ کرنے والے کو وہی سزا دی جائے جو اس جرم کے ارتکاب کی صورت میں بنتی ہے۔گویا توہین رسالت کی سزا کی غلط رپورٹ کرنے والے کو وہی سزا دی جائے جو توہین رسالت کے مرتکب کو دیا جانا مطلوب تھی۔
4 اقلیتوں کے تحفظ کے لئے مطالبہ یہ بھی ہے کہ 298 ای کی ایک شق کا اضافہ کیا جائے جس کی رو سے مذہبی منافرت پھیلانے میں ایسی معاونت جوامتیاز اورتشددکو تحریک دے، اس کے مرتکب کو سات سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزا ئیں دی جائے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ اس قدر سنگین اہانتوں کے مرتکب کے لئے سزائے قید یا جرمانہ ، ہردو کا امکان برقرار رکھا گیا ہے، جبکہ جرمانہ کا کوئی تعین بھی نہیں کیا گیا ۔ گویا توہین رسالت کے مرتکب کو چند روپے جرمانہ بھی کردیا جائے تو قانوناً اس کی گنجائش موجود ہے۔
تبصرہ وتجزیہ
مذکورہ بالا ترامیم سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی ترامیم ہیں جو قانونِ توہین رسالت کی منظوری کے معاً بعدبے نظیر بھٹو کی وفاقی کابینہ نے 1994ءمیں پیش کی تھیں کہ توہین رسالت کی سزا 10 سال قید اور غلط شکایت کرنے والے کو بھی وہی سزا دی جائے۔
مشرف دور میں کی جانے والی قانونی تبدیلی میں بظاہر تو ایف آئی آر کی تفتیش کے طریقۂ کار میں تبدیلی تجویز کی گئی تھی لیکن درحقیقت یہ تبدیلی قانون توہین رسالت کے تحت درج مقدمات میں پیش رفت کو سست بلکہ بے اثر بنانے کے لئے عمل میں لائی گئی تھی۔
فوجداری قانون کا یہ مسلمہ اُصول ہے کہ جب بھی کسی تھانہ کے انچارج پولیس آفیسر کو کسی قابل دست اندازی پولیس جرم کی اطلاع موصول ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس اطلاع کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کرے اور اس کے بعد اپنی تفتیش کا آغاز کرے۔ تفتیش کے بعد اگر وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ اطلاع غلط یا بے بنیاد تھی تو وہ دیگر اختیارات کے علاوہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ١٥٧ کے تحت متعلقہ مجسٹریٹ کو تحریری رپورٹ بھیجوا کر مزید کاروائی کو نہ صرف روک سکتا ہے بلکہ حتمی رائے قائم کرنے کے بعد دفعہ ١٨٢کے تحت جھوٹا مقدمہ درج کروانے پر، اطلاع دہندہ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسے عدالت سے باقاعدہ سزا بھی دلوا سکتا ہے۔ اس طے شدہ قانونی طریقے سے انحراف کرکے توہین رسالت کے معاملے میں تفتیش کو ایس ایچ او کے بجائے ایس پی کے حوالے کرنا ایک تو رائج الوقت قانونی تقاضوں سے ہٹ کر ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا ہر شخص جانتا ہے کہ ایک وسیع و عریض سرکل میں صرف ایک ایس پی تعینات ہوتا ہے۔ بے شمار دیگر انتظامی اُمور اسکے ذمہ ہوتے ہیں۔ عام آدمی کا اپنے علاقے کے تھانہ تک پہنچنابھی دشوار ہوتا ہے۔ دوسرے قصبات اور علاقوں سے سفر کرکے ایس پی صاحب کے دفتر میں حاضر ہونا اور پھر مسلسل شامل تفتیش ہونے کے مراحل سے گزرنا عملی طور پر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس جرم کے ارتکاب کی اطلاعات کا اندراج درپیش مشکلات کی وجہ سے از خود کم ہوجائے گا اور جو افراد ایس پی تک رسائی کرکے اطلاع فراہم بھی کردیں گے، اُنہیں بھی پہلے ایک مجرم کی طرح تفتیش کے مراحل سے گزرنا پڑے گا اور گواہوں کے سفروحضر کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر یقین ہونے لگتا ہے کہ توہین رسالت کے متعلق مقدمات کے اندراج اور مقدمات پر کارروائی کو عملی طور پر ناممکن بنایا جارہا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قانون توہین رسالت کی مخالفت کرنے والی این جی اوز دیگر خود ساختہ وجوہات کے علاوہ یہ اعتراض بھی بہت شدومد سے کرتی ہیں کہ قانونِ توہین رسالت ایک امتیازی قانون ہے۔ جبکہ ہمارے نزدیک ترمیمی قانون کے ذریعے اس کا طریقۂ تفتیش ضابطہ فوجداری میں بیان کردہ عام طریقے سے الگ کرنا بجائے خود ایک امتیازی اقدام ہے۔ جس کے نتیجے میں لازمی طور پر فریقین کو مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔ لہٰذا مغرب نواز این جی اوز کے اپنے نکتہ نظر کی روشنی میں بھی امتیازی خصوصیت کے باوصف یہ ترامیم قابل استرداد ہیں۔ قانونی ماہرین اور مسلم مفکرین کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلے میں عوام الناس میں آگہی کی ایک تحریک چلائیں اور ارکانِ اسمبلی کو درست سمت میں رہنمائی مہیا کرکے اُنہیں اس تبدیلی کے خلاف متحرک کریں۔ نیزقانونِ توہین رسالت کے اجرائی قانون میں تاخیری حربوں کے انسداد کی بھی تحریک چلائیں، جن کی بنا پر اس قانون کی بنا پر کسی کو سزا دلوانا انتہائی مشکل بنادیا گیا ہے۔
جہاں تک اصل قانون توہین رسالت میں تبدیلی کا تعلق ہے تو یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ 10 سال قید یا چند روپے جرمانہ کی سزا کا قانون شریعت ِاسلامی سے سنگین انحراف ہے، جو خلافِ اسلام ہونے کے ساتھ ساتھ دستورِ پاکستان کی دفعہ 227 وغیرہ کے بھی خلاف ہے،جن میں پاکستان کے تمام قوانین کو اسلام کے مطابق کرنے کا دعو یٰ کیا گیا ہے۔اندریں حالات پاکستان کے حکمرانوں، مقتدر طبقہ اور مسلمان عوام پر یہ لازم ہوتا ہے کہ اس خلافِ اسلام تبدیلی کو ہر مرحلہ پر ردّ کرنے کی بھر پور کوششیں کریں تاکہ پاکستان میں شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے اپنے حقیقی انجام کو پہنچ سکیں۔ دنیا بھر میں ناموسِ رسالت کو اس قدر اَرزاں کردیا گیا ہے کہ انسانی تاریخ اس ہمہ گیر ومسلسل زیادتی واہانت کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے ملک پاکستان میں بھی اگر شانِ مصطفیٰ ﷺ کی حفاظت نہ کی جاسکی اور سالہا سال میں ہونے والی ایک مثبت قانونی پیش قدمی کو تحفظ نہ دیا جاسکا تو پھر دیگر اسلامی قوانین کی کیا قدر و وقعت باقی رہ جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسی قوت ونصرت عطا فرمائے جس سے اس دور میں ناموسِ رسالت میں گستاخی کرنے والوں کو ان کے مکروہ انجام تک پہنچایا جاسکے۔ آمین!