رانا اویس سلفی
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 387
- ری ایکشن اسکور
- 1,609
- پوائنٹ
- 109
﷽
تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز میں حاکم بنائیں اور عادات قبائلی اور خود ساختہ قوانین کو فیصل بنانے سے اجتناب کریں ۔
اور اللہ تعالی فرماتے ہیں :
( کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا کہ جن باتوں میں اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالی ہی کی طرف ہے ) الشوری 10کا دعوی ہے کہ جو آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے لیکن وہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے ) النساء 60
اور اللہ تعالی کا فرمان :
( کیا یہ لوگ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لۓ اللہ تعالی سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے ؟) المائدہ 50
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
( اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالی کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالی کی طرف اور رسول کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے ) النساء 59
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے سامنے جھک جائے کسی حکم کو خواہ وہ کوئی بھی ہو اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر مقدم نہ کرے جس طرح عبادت صرف اللہ کے لۓ ہے اسی لۓ حکم بھی اسی ایک اللہ کا ہے ۔
جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
( بے شک حکم صرف اللہ کے لۓ ہے ) یوسف 40
کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرنا بہت بڑی اور قبیح برائیوں میں سے ہے بلکہ بسا اوقات تو کتاب وسنت کے علاوہ فیصلہ کروانے والا کافر ہو جاتا ہے جب اس کو حلال سمجھے اس کے اچھا ہونے کا اعتقاد رکھے ۔
جیسا کہ اللہ ذوالجلال فرماتے ہیں :
( سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ) النساء 65
جو اصول دین اور اس کی فروع میں اللہ اور اس کے رسول کو حاکم نہیں بناتا اس شخص کا ایمان نہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے اپنا فیصلہ کروانا طاغوت سے فیصلہ کروانا ہے ۔
اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قبائلی قوانین وعادات اور ان کے نظاموں کو زندہ کرنا جائز نہیں جن سے اس شریعت مطہرہ کی بجائے فیصلہ کروایا جائے جسے اللہ احکم الحاکمین اور ارحم الراحمین نے بنایا ہے بلکہ ان کو ختم کرنا اور دفن کرنا اور ان سے اعراض کرنا اور اللہ سبحانہ وتعالی کی شریعت کے فیصلہ پر اکتفا کرنا واجب ہے ۔
اسی میں تمام کی تمام بھلائی ہے اور ان کے دین اور دنیا کی سلامتی ہے ۔
قبائل کے سرداروں پر واجب ہے وہ ایسے قوانین کی بنا پر فیصلہ نہ کریں جن کی دین پر بنیاد نہیں اور اسلام نے اس سلسلہ میں کوئی دلیل نہیں اتاری بلکہ اپنے قبائلی جھگڑوں کو شرعی عدالتوں کی طرف لوٹانا واجب ہے اور عدالتوں کی طرف رجوع کا مطلب یہ نہیں کہ دو جھگڑا کرنے والوں کے درمیان صلح نہ کروائی جائے بلکہ وہ صلح جو بغض کو دور کرے اور اتحاد پیدا کرے اور بغیر مجبور کرنے کے فریقین کو راضی کرے اس کی کوشش کی جائے بشرطیکہ شریعت مطہرہ کے مخالف نہ ہو اللہ کا فرمان ہے ( صلح مفید ہے ) النساء 128
اسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں :
( ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں ہاں بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالی کی رضا مندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقینا بہت بڑا ثواب دیں گے ) النساء 114
اور اللہ تعالی فرماتے ہیں :
( سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اگر تم ایمان والے ہو ) الانفال 1
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی روشنی میں :
( صلح مسلمانوں کے درمیان جائز ہے مگر وہ صلح جائز نہیں جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنآئے )
کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تھامن اور ان کو حکم تسلیم کرنا اور ان دونوں کی مخالفت سے بچنا اور اللہ کی شریعت کی جو مخالفت ہوئی اس سے پختہ توبہ کرنا واجب ہے ۔
اللہ تعالی تمام کو وہ کام کرنے کی توفیق دے جس کو چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے اور ہمیں گمراہ کرنے والے شیطان کے چنگل سے بچآئے بے شک وہ سننے والا اور قریب ہے ۔
وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ اجمعین
کتاب مجموع فتاوی ومقالات متنوعہ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ جلد نمبر 1 صفحہ 272
تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز میں حاکم بنائیں اور عادات قبائلی اور خود ساختہ قوانین کو فیصل بنانے سے اجتناب کریں ۔
اور اللہ تعالی فرماتے ہیں :
( کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا کہ جن باتوں میں اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالی ہی کی طرف ہے ) الشوری 10کا دعوی ہے کہ جو آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے لیکن وہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے ) النساء 60
اور اللہ تعالی کا فرمان :
( کیا یہ لوگ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لۓ اللہ تعالی سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے ؟) المائدہ 50
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
( اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالی کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالی کی طرف اور رسول کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے ) النساء 59
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے سامنے جھک جائے کسی حکم کو خواہ وہ کوئی بھی ہو اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر مقدم نہ کرے جس طرح عبادت صرف اللہ کے لۓ ہے اسی لۓ حکم بھی اسی ایک اللہ کا ہے ۔
جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
( بے شک حکم صرف اللہ کے لۓ ہے ) یوسف 40
کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرنا بہت بڑی اور قبیح برائیوں میں سے ہے بلکہ بسا اوقات تو کتاب وسنت کے علاوہ فیصلہ کروانے والا کافر ہو جاتا ہے جب اس کو حلال سمجھے اس کے اچھا ہونے کا اعتقاد رکھے ۔
جیسا کہ اللہ ذوالجلال فرماتے ہیں :
( سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ) النساء 65
جو اصول دین اور اس کی فروع میں اللہ اور اس کے رسول کو حاکم نہیں بناتا اس شخص کا ایمان نہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے اپنا فیصلہ کروانا طاغوت سے فیصلہ کروانا ہے ۔
اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قبائلی قوانین وعادات اور ان کے نظاموں کو زندہ کرنا جائز نہیں جن سے اس شریعت مطہرہ کی بجائے فیصلہ کروایا جائے جسے اللہ احکم الحاکمین اور ارحم الراحمین نے بنایا ہے بلکہ ان کو ختم کرنا اور دفن کرنا اور ان سے اعراض کرنا اور اللہ سبحانہ وتعالی کی شریعت کے فیصلہ پر اکتفا کرنا واجب ہے ۔
اسی میں تمام کی تمام بھلائی ہے اور ان کے دین اور دنیا کی سلامتی ہے ۔
قبائل کے سرداروں پر واجب ہے وہ ایسے قوانین کی بنا پر فیصلہ نہ کریں جن کی دین پر بنیاد نہیں اور اسلام نے اس سلسلہ میں کوئی دلیل نہیں اتاری بلکہ اپنے قبائلی جھگڑوں کو شرعی عدالتوں کی طرف لوٹانا واجب ہے اور عدالتوں کی طرف رجوع کا مطلب یہ نہیں کہ دو جھگڑا کرنے والوں کے درمیان صلح نہ کروائی جائے بلکہ وہ صلح جو بغض کو دور کرے اور اتحاد پیدا کرے اور بغیر مجبور کرنے کے فریقین کو راضی کرے اس کی کوشش کی جائے بشرطیکہ شریعت مطہرہ کے مخالف نہ ہو اللہ کا فرمان ہے ( صلح مفید ہے ) النساء 128
اسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں :
( ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں ہاں بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالی کی رضا مندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقینا بہت بڑا ثواب دیں گے ) النساء 114
اور اللہ تعالی فرماتے ہیں :
( سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اگر تم ایمان والے ہو ) الانفال 1
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی روشنی میں :
( صلح مسلمانوں کے درمیان جائز ہے مگر وہ صلح جائز نہیں جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنآئے )
کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تھامن اور ان کو حکم تسلیم کرنا اور ان دونوں کی مخالفت سے بچنا اور اللہ کی شریعت کی جو مخالفت ہوئی اس سے پختہ توبہ کرنا واجب ہے ۔
اللہ تعالی تمام کو وہ کام کرنے کی توفیق دے جس کو چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے اور ہمیں گمراہ کرنے والے شیطان کے چنگل سے بچآئے بے شک وہ سننے والا اور قریب ہے ۔
وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ اجمعین
کتاب مجموع فتاوی ومقالات متنوعہ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ جلد نمبر 1 صفحہ 272