• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبرستان میں گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کر مردوں کو اس کا ایصال ثواب کرنے کی حدیث کی تحقیق

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
محترم @خان سلفي بھائی ۔۔تحقیق حدیث کے زمرے میں درج ذیل سوال کیا ہے ـ

جو قبرستان میں گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کر مردوں کو اس کا ایصال ثواب کرے ،تو مردوں ککی تعداد کے برابر ایصال ثواب کرنے والے کو اس کا اجر ملے گا ( جمع الجوامع للسیوطی ، جلد 7 ص 285 الحدیث 23152)
@اسحاق سلفی بھائی
الجواب ::
علامہ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ ’’ أحكام الجنائز ‘‘ میں فرماتے ہیں :
وأما حديث (من مر بالمقابر فقرأ (قل هو الله أحد) إحدى عشر مرة ثم وهب أجره للاموأت أعطي من الاجر بعدد الاموات).
فهو حديث باطل موضوع، رواه أبو محمد الحلال في (القراءة على القبور) (ق 201/ 2) والديلمي عن نسخة عبد الله بن أحمد بن عامر عن أبيه عن علي الرضا عن آبائه، وهي نسخة موضوعة باطلة لا تنفك عن وضع عبد الله هذا أو وضع أبيه، كما قال الذهبي في (الميزان) وتبعه الحافظ ابن حجر في (اللسان) ثم السيوطي في (ذيل الاحاديث الموضوعة)، وذكر له هذا الحديث وتبعه ابن عراق في (تنزيه الشريعة المرفوعة، عن الاحاديث الشيعة الموضوعة).

’’ وہ حدیث جس میں وارد ہے کہ :: جو آدمی قبرستان سے گزرے، اور گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کر مردوں کو اس کا ایصال ثواب کرے۔اس کو مردوں کی تعداد کے برابر اجر عطا کیا جائے گا ۔
یہ حدیث باطل اور موضوع یعنی گھڑی ہوئی ہے ، اس روایت کو ابو محمد خلال نے (القراءة على القبور) میں نقل کیا ہے ،
اور ’’ الدیلمی ‘‘ نے ’’ عبد الله بن أحمد بن عامر سے نقل کیا ہے ،عبد اللہ اپنے والد سے اور وہ علی رضا سے ،وہ اپنے آباء سے
نقل کرتے ہیں ،

اور یہ پورا نسخہ موضوع ،یعنی گھڑنت ہے ،جو عبد اللہ ۔۔یا۔۔اس کے والد کا گھڑاہوا ہے ،جیسا امام الذہبی ’’ میزان الاعتدال ‘‘
میں بتایا ہے ۔اور علامہ ابن حجر ؒ نے بھی ’’ لسان المیزان ‘‘ میں ذہبی کی پیروی میں یہی کہا ہے ۔
اور علامہ جلال الدین سیوطی نے ’’الموضوعات کے ذیل ‘‘ میں یہی لکھا ہے ،اور انکی اتباع میں ’’ ابن عراق ‘‘ نے
’’ تنزیہہ الشریعہ ‘‘ اسی طرح کہا ہے ۔‘‘

خلاصہ یہ کہ یہ حدیث بالکل موضوع ہے قابل اعتبار ،اور لائق عمل نہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
میت کو ثواب پہنچنے کے مسئلہ میں درج ذیل حدیث بنیادی اسلامی عقیدہ بیان کرتی ہے

عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ " إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة اشياء من صدقة جارية او علم ينتفع به او ولد صالح يدعو له ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (جن کا فیض اسے برابر پہنچتا رہتا ہے) : ایک صدقہ جاریہ ۱؎، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے ۲؎، تیسرا صالح اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے“۔

تخریج : صحیح مسلم/الوصایا ۳ (۱۶۳۱)، أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۴۰۲۶)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأحکام ۳۶ (۱۳۷۶)، سنن النسائی/الوصایا ۸ (۳۶۸۱)، مسند احمد (۲/۳۱۶،۳۵۰، ۳۷۲)

وضاحت: ۱؎ : ایسی خیرات جس کا فائدہ ہمیشہ جاری رہے مثلا مسجد ، مدرسہ ، کنواں وغیرہ۔ ۲؎ : مثلاً دینی تعلیم دینا ،کتاب و سنت کے مطابق کتابیں و تفسیریں

امام ابو داود ؒ ’’ مسائل احمدبن حنبل ؒ ‘‘ میں فرماتے ہیں :
( سمعت أحمد، " سئل عن القراءة عند القبر؟ فقال: لا " ) میں نے سنا : امام احمد سے قبر کے پاس قرآن پڑھنے کے بارے پوچھا گیا ، فرمایا :نہیں پڑھنا چاہیئے‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
قبرستان میں مردوں کیلئے دعاء


جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان جا کر مُردوں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے تھے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ :
‘‘حتی جاء البقیع فقام، فأطال القیام ، ثم رفع یدیہ ثلاث مرات، ثم انحرف فانحرفت۔۔۔’’

حتی کہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بقیع (مدینہ کے قبرستان) پہنچ کر کھڑے ہو گئے، آپ (کافی) لمبی دیر کھڑے رہے۔ پھر آپ نے تین دفعہ(دعا کے لئے) ہاتھ اُٹھائے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) واپس لوٹے تو میں (بھی) واپس لوٹی۔۔۔
[صحیح مسلم، کتاب الجنائز باب مایقال عند و خول القبور و الدعاء لأ ھلھا )) ح ۱۰۳؍۹۷۴ و ترقیم دارالسلام:۲۲۵۶]

اور کسی دلیل سے ثابت نہیں کہ آپ ﷺ نے مردوں کیلئے قرآن خوانی کی ہو ،
بلکہ قرآن کریم کی آیت: ( وَاَنْ لَّیْسَ لِلانْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ) : انسان کو وہی ملے گا جس کی وہ کوشش کرے(سورۃ النجم:۳۹)

سے ثابت ہے کہ قرآن مجید کا ثواب مُردوں کو نہیں پہنچتا۔
حافظ ابن کثیر الدمشقی(متوفی ۷۷۴ھ) لکھتے ہیں کہ:و من ھذہ الآیہ الکریمۃ استنبط الشافعی رحمہ اللہ ومن اتبعہ أن القراء ۃ لا یصل اھداء ثوابھا إلی الموتی لأ نہ لیس من عملھم ولا کسبھم ولھذا لم یندب إلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمتہ ولا حثھم علیہ ولا أرشدھم إلیہ بنص ولا إ یماء ولم ینقل ذلک عن أحد من الصحابۃ رضی اللہ عنھم ولو کان خیراً السبقونا إلیہ۔۔۔’’
یعنی اس آیت کریمہ سے (امام ) شافعی رحمہ اللہ اور ان کے متبعین نے یہ (مسئلہ) استنباط کیا ہے کہ قرأت کا ثواب مُردوں کو بخشنے سے نہیں پہنچتا کیونکہ یہ ان کے اعمال اور کمائی سے نہیں ہے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس طرف ترغیب اور حکم نہیں دیا اور نہ کوئی صریح یا غیر صریح بات ارشاد فرمائی ہے اور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں کسی ایک سے یہ کام ثابت ہے۔ اگر یہ کام بہتر ہوتا تو ہم سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر عمل کرتے۔(تفسیر ابن کثیر بتحقیق عبدالرزاق المھدی ج ۶ص۳۸، سورۃ النجم:۳۹)
[/FONT]
 
Top