• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبروں پر پھول چڑھانے كا حكم!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قبروں پر پھول چڑھانے كا حكم!

كيا مجہول فوجى كى قبر پر پھول چڑھانا بھى اولياء و صالحين كى قبر كى تعظيم اور قبر كى عبادت كے زمرہ ميں آتا ہے اور اس كا حكم بھى ايك ہے ؟

الحمد للہ:
يہ عمل بدعت اور مردوں ميں غلو اور حد سے تجاوز كرنا ہے، اور يہ عمل بالكل ان لوگوں كے عمل سے مشابہ ہے جو انہوں نے اپنے صالحين اور اولياء كے ساتھ كيا اور ان كى تعظيم كى اور انہيں شعار بنا ليا.
خدشہ ہے كہ ايام اور زمانہ گزرنے كے ساتھ ساتھ يہ قبروں پر قبہ كى تعمير اور ان سے تبرك كے حصول اور انہيں معبود بنانے كا باعث بن جائيگا، اس ليے شرك كے سد ذريعہ كے ليے ايسا كام ترك كرنا واجب و ضرورى ہے.
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء .
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 20 ).

http://islamqa.info/ur/14390
 
شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة الله تعالى علیه فرماتے ہیں،
"اور پھول اور خوشبو کی چیزیں قبر پر رکھنا اس سے ماخوذ ہے کہ میت کے کفن میں کافور وغیرہ خوشبو کی چیزیں رکھنا شرعا ثابت ہے. بعد دفن کے تو میت قبر کے اندر رہتی ہے. البتہ یہ چیزیں قبر پر رکھنے سے اس میت کی مشابہت جدید میت کے ساتھ ہوتی ہے تو احتمال ہے کہ خوشبو کی چیزیں قبر پر رکھنے سے میت کو سرور ہوتا ہو اس واسطے کے اس حالت میں روح کو خوشبو سے لذت حاصل ہوتی ہے. اور روح تو باقی رہتی ہے."
آگے حدیث 'فیاتیه من روحھا و طبیھا' اور آیت 'یرزقون فرحین' نقل کرنے کے بعد لکھتے ہی "اس سے ثابت ہوسکتا ہے کہ قبر پر خوشبو کی چیز رکھنے سے میت کو سرور ہوسکتا ہے. " (فتاوی عزیزی، باب التصوف، ١٧٣)

صفحہ ١٩٠ پر تحریر فرماتے ہیں،
" اس واسطے یہ چیزیں جب تک تر ہوتی ہیں تسبیح کرتی ہیں اور اس تسبیح سے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور میت کو انس ہوتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی الله تعالی عليه وسلم نے خرمے کے درخت کی تازہ دو شاخیں قبر پر سرہانے کے جانب رکھ کر فرمایا کہ امید ہے کہ جب تک یہ دونوں شاخیں خشک نہ ہونگی اس کی تسبیح کی برکت سے اس میت کے عذاب میں تخفیف رہے گی. اس لئے بعض علماء نے بہتر جانا کہ قبر پر پھول رکھا جائے"

میں کہتا ہوں کہ قبروں پر پھول ڈالنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ جو زیارت کے لئے ہوں انہیں اس خوشبو سے فائدہ پہنچے. اور مومنین کو فائدہ پہچانا باعث ثواب ہے.

سوال ہوتا ہے کہ رسول الله کے لئے یہ عمل مخصوص تھا، یہ بات اختلافی ہے جیسا کہ بعض دعوے بغیر دلیل کے ملے
ختلافات میں من چاہا موقف اپنا کر اپنے مقابل کے عمل کو بدعت کہنا، یہ کہاں کی شریعت ہے؟ کیا کسی عالم نے اسے بدعت کہا ہے؟ جس طرح چند لوگ کہتے ہیں.
کیا حضور صلی الله تعالی عليه وآله وسلم نے صحابہ کو منع بھی کیا؟ اگر نہیں تم انہیں کس نے اختیار دے دیا کہ منع کریں

بقول نذیر حسین دہلوی،
او مدہوش بے عقل، خدا اور رسول کا جائز نہ کہنا اور بات ہے اور ناجائز کہنا اور بات، یہ بتاؤ کہ تم جو ناجائز کہتے ہو خدا اور رسول نے ناجائز کہاں کہا ہے۔ (فتاوی نذیر حسین)

اگر یہ عمل رسول الله ﷺ کے لئے مخصوص ہوتا تو رسول ﷺ شاخوں کے تر ہونے کی قید نہ لگاتے.

کیا بريدۃ اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ نے وصيت كى تھى كہ ان كى قبر پر كھجور كى دو ٹہنياں ركھى جائيں، تو کیا بدعت کی وصیت کی تھی؟

اسے کوئی جاہل ہی بدعت کہتا ہوگا، آج کل کچھ لوگ بغیر علم کے فقہ کو کھیل جان کر طبع آزمائی کرنے کے لئے کمر کستے ہیں اور شعارانہ طور پر اسے بدعت کہہ بیٹھتے ہیں، ان کی مزید جہالت تعجب خیز ہے.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحیح حدیث شریف میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمل منقول ہے جس کی تفصیل یہ ہے :
عن ابن عباس، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ مر النبي صلى الله عليه وسلم بقبرين، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ "إنهما ليعذبان، ‏‏‏‏‏‏وما يعذبان في كبير، ‏‏‏‏‏‏اما احدهما فكان لا يستتر من البول، ‏‏‏‏‏‏واما الآخر فكان يمشي بالنميمة، ‏‏‏‏‏‏ثم اخذ جريدة رطبة فشقها نصفين فغرز في كل قبر واحدة، ‏‏‏‏‏‏قالوا:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏لم فعلت هذا؟ قال:‏‏‏‏ لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا"، ‏
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا) کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے
(صحيح البخاري 218، صحيح مسلم 292 ،باب الدليل على نجاسة البول، وسنن ابي داود 20)
ـــــــــــــــــ
اس حدیث سے اولیاء کی قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانے کی دلیل لینا پرلے درجہ کی جہالت اور حدیث کے نام پر عوام کو مغالطہ ہے ،کیونکہ بحیثیت نبی آپ ﷺ کو وحی سے علم ہوگیا تھا کہ ان دو قبروں والوں کو عذاب ہورہا ہے اور عذاب کا سبب فلاں عمل ہے ،تو آپ ﷺ نے ان کے عذاب میں تخفیف کیلئے یہ عمل کیا ، تو اب جو لوگ قبروں پر پھول ڈالتے ہیں انہیں بھی بذریعہ وحی علم ہوجاتا ہے کہ یہ صاحب قبر عذاب میں مبتلاء ہے ،
کیونکہ اس حدیث شریف سے تو اتنا ثابت ہوتا ہے کہ جن مردوں کے متعلق معلوم ہوجائے کہ انہیں عذاب ہورہا ہے ان کی قبروں پر سبز درخت کی شاخیں گاڑدی جائیں ،

ـــــــــــــــــــــ
مشہور حنفی محدث علامہ بدرالدین عینیؒ (المتوفى: 855 ھ)
شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
وَقَالَ النَّوَوِيّ: قَالَ الْعلمَاء: هُوَ مَحْمُول على أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم سَأَلَ الشَّفَاعَة لَهما فاجيبت شَفَاعَته بِالتَّخْفِيفِ عَنْهُمَا إِلَى أَن ييبسا. وَقيل: يحْتَمل أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَدْعُو لَهما تِلْكَ الْمدَّة، وَقيل: لِكَوْنِهِمَا يسبحان مَا دامتا رطبتين وَلَيْسَ لليابس بتسبيح، قَالُوا: فِي قَوْله تَعَالَى: {وَإِن من شَيْء إلاَّ يسبح بِحَمْدِهِ} (الْإِسْرَاء: 44) مَعْنَاهُ: وَإِن من شَيْء حَيّ، ثمَّ حَيَاة كل شَيْء بِحَسبِهِ، فحياة الْخَشَبَة مَا لم يتبس وحياة الْحجر مَا لم يقطع، وَذهب الْمُحَقِّقُونَ إِلَى أَنه على عُمُومه، ))
یعنی امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کا یہ عمل مبارک اس بات پر محمول ہے کہ آپ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے ان عذاب میں مبتلا ان دونوں افراد کیلئے دعاء و شفاعت فرمائی ،تو آپ کی شفاعت ان ٹہنیوں کے تر رہنے تک کیلئے قبول ہوئی ، اسلئے آپ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے یہ ٹہنیاں قبروں پر لگائیں ، اور ان ٹہنیوں کے گاڑنے کا ایک احتمال یہ بھی بتایا ہے کہ ان کے تر رہنے کی مدت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دعاء کی ہو ،جس سے ان پر سے اس وقت کیلئے عذاب میں تخفیف کی گئی ہو ، اور یہ تر ٹہنیاں لگانے کا یہ احتمال بھی بتایا گیا ہے کہ خشک ہونے تک وہ ٹہنیاں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں ،اسلئے فرمایا کہ ان کے خشک ہونے تک شاید ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے ، کیونکہ خشک (یعنی مردہ ٹہنی تسبیح نہیں کرتی ) اور یہ قول قرآن کی سورۃ اسراء 44 اس آیت سے ماخوذ ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ (ہر چیز اللہ کی تسبیح وحمدکرتی ہے ) جس کا معنی یہ ہے کہ ہر زندہ چیز اسکی تسبئح کرتی ہے ، اور ہر شیئے کی حیاۃ اپنے حساب سے ہے ،

اسی طرح امام شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743ھ) نے شرح مشکاۃ المصابیح میں اس حدیث کی شرح میں لکھا کہ :
"وأما وضعه صلى الله عليه وسلم الجريدتين علي القبر فقال العلماء: هو محمول علي أنه صلى الله عليه وسلم سأل الشفاعة لهما فأجيب بالتخفيف عنهما إلي أن ييبسا. وقد ذكر مسلم في آخر الكتاب في الحديث الطويل حديث جابر: ((أن صاحبي القبرين أجيبت شفاعتي [فيهما])) أي برفع] ذلك عنهما ما دام القضيبان رطبين. وقيل: يحتمل أنه صلى الله عليه وسلم كان يدعو لهما تلك المدة. وقيل: لكونهما يسبحان ما داما رطبين،
" یعنی امام الطیبی ؒ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کا دو قبروں پر دو شاخیں لگانے کی جہاں تک بات ہے تو علماء کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کا یہ عمل مبارک اس بات پر محمول ہے کہ آپ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے عذاب میں مبتلا ان دونوں افراد کیلئے دعاء و شفاعت فرمائی ،تو آپ کی شفاعت ان ٹہنیوں کے تر رہنے تک کیلئے قبول ہوئی ، اور امام مسلمؒ نے اپنی کتاب صحیح مسلم کے آخر میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث نقل فرمائی ہے ، جس میں پیارے نبی صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے فرمایا : : إني مررت بقبرين يعذبان فاحببت بشفاعتي ان يرفه عنهما ما دام الغصنان رطبين ’’میں دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرا، جن (کے مردوں) کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ میں نے اپنی شفاعت کی وجہ سے چاہا کہ یہ عذاب ان سے ہلکا ہو جائے، جب تک دونوں ٹہنیاں تر رہیں۔“ [صحيح مسلم : ح : 7518]۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ " جب تک یہ شاخیں ہری رہیں گی تسبیح کرتی رہیں گی ، "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام طیبیؒ کی اس توضیح سے اصل صورتحال سامنے آگئی کہ ٹہنیاں لگانے کا واقعہ اصل میں شفاعت رسول صلى الله عَلَيْهِ وَسلم اور دعائے پیمبر سے منسلک ہے ، وہ صرف دو شاخیں قبروں پر گاڑنے کا مسئلہ نہیں بلکہ نبی کریم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کی دعاء و شفاعت کے سبب تخفیف کیامید کی گئی تھی ،
جیسا چوتھی صدی کے عظیم محدث اور شارح
علامہ حمد بن محمد خطابی رحمہ اللہ (319-388 ھ) اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
فإنه من ناحية التبرك بأثر النبي صلى الله عليه وسلم ودعائه بالتخفيف عنهما، وكأنه صلى الله عليه وسلم جعل مدة بقاء النداوة فيهما حَدَّاً لما وقعت به المسألة من تخفيف العذاب عنهما، وليس ذلك من أجل أن في الجريد الرطب معنى ليس في اليابس، والعامة في كثير من البلدان تفرش الخوص في قبور موتاهم وأراهم ذهبوا إلى هذا، وليس لما تعاطوه من ذلك وجه .
’’ان دونوں شخصوں کو عذاب قبر میں تخفیف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیر و برکت اور دعا کی وجہ سے ہوئی۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذاب کی تخفیف کی حد ٹہنیوں کے تر رہنے تک اس لیے بیان کی کہ آپ نے تخفیف کی دعا اتنے ہی عرصے کے بارے میں کی تھی، یہ حد اس لیے بیان نہیں کی گئی کہ تر ٹہنی میں کوئی تاثیر تھی جو خشک میں نہ تھی۔ بہت سے علاقوں میں عام لوگ اپنے مردوں کی قبروں میں کھجور و ناریل وغیرہ کے پتے بچھاتے ہیں، میرے خیال میں ان کے مدنظر یہی بات ہوتی ہے حالانکہ ان کے اس کام کا کوئی جواز نہیں۔“ [معالم السنن للخطابي : 27/1]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ٭
٭٭٭
مصر کے نامور محقق اور محدث علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ (1309-1377ھ) علامہ خطابی کی تائید میں فرماتے ہیں :
وصدق الخطابي، وقد ازداد العامة إصراراً على هذا العمل الذي لا أصل له، وغلوا فيه خصوصاً في بلاد مصر تقليداً للنصارى حتى صاروا يضعون الزهور على القبور، ويتهادونها بينهم فيضعها الناس على قبور أقاربهم ومعارفهم تحيةً لهم ومجاملةً للأحياء، وحتى صارت عادة شبيهة بالرسمية في المجاملات الدولية، فتجد الكبراء من المسلمين إذا نزلوا بلدةً من بلاد أوروبا ذهبوا إلى قبور عظمائها أو إلى قبر من يسمونه الجندي المجهول، وضعوا عليها الزهور، وبعضهم يضع الزهور الصناعية التي لا نداوة فيها تقليداً للإفرنج واتباعاً لسنن من قبلهم ولا ينكر ذلك عليهم العلماء أشباه العامة، بل تراهم أنفسهم يصنعون ذلك في قبور موتاهم، ولقد علمت أن أكثر الأوقاف التي تسمى أوقافاً خيريةً موقوفٌ ريعها على الخوص والريحان الذي يوضع في القبور، وكل هذه بدع ومنكرات لا أصل لها في الدين، ولا مستند لها من الكتاب والسنة، ويجب على أهل العلم أن ينكروها، وأن يبطلوا هذه العادات ما استطاعوا .
’’علامہ خطابی رحمہ اللہ نے بالکل سچ فرمایا ہے۔ عام لوگ عیسائیوں کی تقلید میں اس بے اصل عمل کے کرنے پر بہت زیادہ مصر ہو گئے ہیں اور اس بارے میں غلو کا شکار ہو چکے ہیں، خصوصاً مصر کے علاقے میں، حتی کہ وہ قبروں پر پھول رکھنے لگے اور ایک دوسرے کو تحفے دینے لگے، پھر لوگ ان پھولوں کو اپنے عزیز و اقارب کی قبروں پر تحفے کے طور پر اور زندوں سے حسن سلوک کے طور پر رکھنے لگے۔ یہاں تک کہ یہ طریقہ علاقائی رسوم و رواج کے مشابہ ہو گیا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مسلمان ملکوں کے سربراہ جب یورپ کے کسی علاقے میں جاتے ہیں تو ان کے عظیم لوگوں یا کسی نامعلوم فوجیوں کی قبروں پر جاتے ہیں اور ان پر پھول چڑھاتے ہیں اور بعض تو بناوٹی پھول بھی رکھتے ہیں جن میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔ وہ لوگ یہ کام انگریزوں کی تقلید اور پہلی امتوں کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ عام لوگوں کی طرح کے علماء بھی ان کو اس بات سے منع نہیں کرتے بلکہ آپ ان علماءکو دیکھیں گے کہ وہ خود اپنے مردوں کی قبروں پر ایسا کرتے ہیں۔ یہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ اکثر اوقاف جنہیں فلاحی اوقاف کہا جاتا ہے، ان کی آمدنی قبروں پر پھول اور پتیاں چڑھانے کے لیے وقف ہے۔ یہ سارے کام بدعات و خرافات ہیں جن کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں۔ اہل علم پر ان کا ردّ کرنا اور حسب استطاعت ان رسوم کو ختم کرنا واجب ہے۔“
[تعليق احمد شاكر على الترمذي: 103/1]
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جید اور اکابر علماء پر مشتمل سعودی علماء کی کمیٹی (اللجنۃ الدائمۃ ) نے قبروں پر پھول ڈالنے کے مسئلہ پر مفصل فتویٰ دیا جو سلفی علماء سے محبت کرنے والے
بھائیوں کیلئے پیش ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــ
السؤال الثاني من الفتوى رقم (20517)
سوال 2: لي قريب مات وكنت وما زلت أحبه في الله، وأزوره في قبره يومين إلى ثلاثة في الأسبوع، أقف عند القبر وأدعو له ثم أضع على قبره ريحانا؛ لأني سمعت بأن من وضع شجرة أو ما شابه ذلك على القبر تستغفر له حتى تيبس. أفيدونا جزاكم الله خيرا.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب 2: وضع الأزهار أو الريحان أو ورق الشجر الأخضر أو غيرها على القبر زعما أنها تستغفر لصاحب القبر ما لم تيبس كل ذلك محدث وبدعة لا أصل له في الشرع المطهر، والمشروع هو الاستغفار للميت والدعاء له عند قبره أو في أي مكان، فذلك الذي ينفعه، وأما ما يحتج به بعض الناس على مشروعية وضع الجريد أو الورق الأخضر على القبور بحديث ابن عباس رضي الله عنهما، «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - مر بقبرين فقال: إنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير، أما أحدهما فكان لا يستتر من البول، وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم أخذ جريدة رطبة فشقها نصفين فغرز في كل قبر واحدة، فسئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن ذلك فقال: لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا (1) » رواه البخاري. فالجواب عن ذلك أن هذه الحادثة واقعة عين لا عموم لها في شخصين، أطلع الله نبيه - صلى الله عليه وسلم - على تعذيبهما وذلك خاص برسول الله - صلى الله عليه وسلم -، ولم يكن ذلك منه سنة مطردة في قبور المسلمين.
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
بكر أبو زيد ... صالح الفوزان ... عبد الله بن غديان ... عبد العزيز آل الشيخ ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز

ــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
سوال نمبر: 2 - فتوی نمبر:20517
سوال : میرا ایک قریبی دوست وفات کرگیا، میں اسے اب بھی بہت چاہتا ہوں، اور ہفتہ میں دو تین مرتبہ اسکی قبر کی زیارت کرتا ہوں، اسکی قبر کے پاس کھڑا ہوکردعاء کرتا ہوں، پھر پھول رکھتا ہوں، کیونکہ میں نے سنا ہے کہ جسکی قبر پر ہری پتیاں یا اس جیسی چیزیں رکھ دی جائیں، تو یہ سوکھنے تک استغفار کرتی ہیں، اس بارے میں فتوی مرحمت فرمائیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب:
قبر پر پھول یا ہری پتیاں وغیرہ اس عقیدہ سے رکھنا کہ صاحب قبر کے لئے یہ پتیاں سوکھنے تک استغفار کرتی ہیں، یہ سب چیزیں بدعت ہیں، اور شریعت مطہرہ میں اسکی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور مشروع یہ ہے کہ مسلمان میت کے لئے اسکی قبر کے پاس یا کسی بھی جگہ سے استغفار اور دعاء کی جائے، یہی چیزیں اس کو نفع دیں گی،
اور کھجور کی ڈالی یا ہری پتیوں کے قبر پر رکھنے کی مشروعیت پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث: صحيح بخاري، باب الْأَدَبِ، حدیث نمبر 6055، صحيح مسلم، باب الطَّهَارَةِ، حدیث نمبر 292، ترمذي، باب الطَّهَارَةِ، حدیث نمبر 70، نسائي، باب الْجَنَائِزِ، حدیث نمبر 2069، ابو داؤد، باب الطَّهَارَةِ، حدیث نمبر 20، سنن دارمی، باب الطَّهَارَةِ، حدیث نمبر 739.
كہ بے شك نبي صلى الله عليه وسلم کا دو قبروں کے قریب سے گزرہوا، تو آپ نے فرمایا: بے شک ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور ان دونوں کوعذاب کسی بڑے سبب کی وجہ سے نہیں دیا جارہا ہے، بلکہ ان دونوں میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا، اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا، پھر آپ نے کھجور کی تازہ ٹہنی منگوائی، اور اس کے دو ٹکڑے کئے، اور آپ نے ہر ایک قبر پرايک ٹکڑا گاڑ دیا ،اور فرمایا: امید ہے کہ ٹہنیوں کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائیگی۔
اس مذکورہ حدیث سے جو لوگ دلیل دیتے ہیں اسکا جواب یہ ہے کہ یہ حادثہ ان دو شخصوں کا عینی خاص واقعہ ہے، اس سے عمومیت کا مفہوم نہ لیا جائے، جسکی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالی نے دی تھی، اور یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، اور اس عمل سے مسلمانوں کی قبرکے سلسلے میں پتیاں رکھنے کے باضابطہ مسنون ہونے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
(مجموع فتاوی اللجنہ
( جلد 7، صفحہ 450)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
قبر پر پھول یا ہری پتیاں وغیرہ اس عقیدہ سے رکھنا کہ صاحب قبر کے لئے یہ پتیاں سوکھنے تک استغفار کرتی ہیں، یہ سب چیزیں بدعت ہیں،
یہ پرلے درجہ کی جہالت ہے. بلکہ پرلے درجہ کے اوپر والے درجہ کی، استغفار کرنے کی نیت سے کوئی نہیں رکھتا بلکہ نیت یہ ہوتی ہے کہ ہر شئے الله کی ثناء کرتی ہے اور پھول وغیرہ بھی چونکہ پھول کی خوشبو سے موجودہ لوگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اس لئے پھولوں کو مقدم رکھا گیا. جدید ذہنیت نے بدعت و شرک کا جو خودساختہ تصور قائم کیا ہوا ہے اس کا علاج گویا نا ممکن ہے آپ جیسے قدیم ممبر سے تو یہ توقع بھی نہیں رکھی جاتی. خیر انسان جس چیز کا عادی ہوچکا ہو اسے ہر دوسری چیز وہی نظر آتی ہے.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذاب کی تخفیف کی حد ٹہنیوں کے تر رہنے تک اس لیے بیان کی کہ آپ نے تخفیف کی دعا اتنے ہی عرصے کے بارے میں کی تھی، یہ حد اس لیے بیان نہیں کی گئی کہ تر ٹہنی میں کوئی تاثیر تھی جو خشک میں نہ تھی۔ بہت سے علاق
میرے نزدیک اگر بالفرض پھول تسبیح بھی نہ کرتے فقط نبی صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کی پیاری اداؤں کی نقل کرتے ہوئے یہ عمل کیا جاتا کہ میرے نبی نے بھی ایک دفعہ ایسا کیا تھا تو یہ ہی کیا ایک مسلمان کی بخشش کے لئے کم ہے؟

صرف دو شاخیں قبروں پر گاڑنے کا مسئلہ نہیں بلکہ نبی کریم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کی دعاء و شفاعت کے سبب تخفیف کیامید کی گئی تھی ،
اگر کوئی فوت شدہ کی قبر پر تخفیف عذاب کی دعا کرے اور ایک تر شاخ قبر پر لگا تو اور دعا کی مقبولیت کی قید شاخ کے تر ہونے تک رکھے تو کیا جائز ہوگا؟ اب بتائیں قبر پر پھول رکھنا کس رو سے بدعت ہوگا؟ اور کیا یہ جھنم میں لے جانے والی بدعت ہے کیونکہ مشہور کہ شریعت نجدیہ میں بدعت کی کوئی قسم نہیں ساری ہی گمراہی ہے.
اس حدیث سے اولیاء کی قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانے کی دلیل لینا پرلے درجہ کی جہالت اور حدیث کے نام پر عوام کو مغالطہ ہے ،کیونکہ بحیثیت
یہ جہالت آپ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی طرف منسوب کر رہے ہیں؟ کیونکہ میں نے ان کے فتاوی سے ہی نقل کیا ہے، خیر یہ رہی اسلاف کی عزت اور آپ کی سلفیت، اپنے فرقے کے آگے سارے مفتی مولوی سب جاہل
نہ ہی آپ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے ہم رتبہ ہیں نہ ہی ہوسکتے ہیں اور جن دلائل و قیاسات سے آپ نے ان کا رد کیا ہے ان دلائل سے انہی کا موقف ثابت ہوتا ہے بدعت تو دور کی بات آپ نے جو دلائل قائم کئے ان سے یہ عمل ناجائز بھی ثابت نہیں ہوتا. جن مفتیوں کے قیاسات وغیرہ آپ نے نقل کئے انہیں کوئی محدث دہلوی کے مقابل قبول بھی نہیں کرتا.

عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے
اس قول کی کوئی اصل نہیں ہے، ایک قیاس ہے فقط
مغفرت کی دعا کرنا امتیوں میں عام ہے، پھول کی خوشبو وہاں رکھنا جہاں مجمع ہوتا ہے یہ کسی طرح سے بدعت نہیں نہ ہی اس رو سے یہ دین میں ہے، دین میں اضافہ تب سمجھا جاتا ہے جب کوئی کسی عمل کو فرض یا واجب سمجھے جو اس میں نہ ہو.
پھول چڑھانے کو کس نے فرض قرار دیا؟
ہاں ضرور، جائز کاموں کو بدعت قرار دینا خود ایک بدعت ہے.
جید اور اکابر علماء پر مشتمل سعودی علماء کی کمیٹی (اللجنۃ الدائمۃ ) نے قبروں پر پھول ڈالنے کے مسئلہ پر مفصل فتویٰ دیا جو سلفی علماء سے محبت کرنے والے بھائیوں کیلئے پیش ہے
یہ دعوت تقلید نہیں تو اور کیا ہے؟
اکابر علماء پر مشتمل انجمن کے ذریعے لکھی گئی فتاوی ہندیہ کا موقف، علمائے اہل سنت [حنفی سنی، شافعی، مالکی، حنبلی] سے محبت کرنے والے جنتوں کے لئے پیش ہے، یہ اس میں مسالک اربعہ کا اختلاف نہیں (نظریہ ثانی، 75% موجودہ کلمہ پڑھنے والوں کا یہی مذہب ہے)
وضع الورد والریاحین علی القبور حسن
قبروں پر گلاب وغیرہ کے پھول رکھنا اچھا ہے
(فتاوٰی ہندیہ الباب السادس عشر فی زیارۃ القبور الخ ۵/ ۳۳۱)

لوگ عیسائیوں کی تقلید میں اس بے اصل عمل کے کرنے پر بہت زیادہ مصر ہو گئے ہیں اور اس بارے میں غلو کا شکار ہو چکا
عیسائیوں کی تقلید میں یہ عمل نہیں کیا جاتا اس سے آپ واقف ہے.
اتنا غلط اور ہر ہر عبارت کو اپنے موقف کی طرف کھینچ تان کر آپ کیسے ترجمہ کر لیتے ہیں؟ وہ بھی اتنی صفائی کے ساتھ!
یہ میں کئی دفعہ دیکھ چکا ہوں، آپ اپنی تحریفات سے عوام کو بے وقوف بناتے ہیں. گویا یہی مرجع ہے.
سدھر جاؤ، میرے لئے نہ سہی الله کے لئے سدھر جاؤ.
تحریر سے ہی نجدیت (دہشت گردیت) کی بو آتی ہے. دیوبندیوں کو تو آپ نے اپنے مثل کر لیا، اب بھولے بھالے سنیوں کے عقائد و معمولات میں دخل مت دو. عذاب تو دیکھتے ہی ہوں گے.
کیا یہ فورم صرف نجدیوں کے لئے ہے؟ یا کوئی اہلسنت والے بھائی بھی جلوہ افروز ہیں یہاں پر؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم کو اپنےلب و لہجہ پر نظرِ ثانی کی ” اشد“ ضرورت ہےکیونکہ ایسا لہجہ ” اہلِ سنت و الجماعت “ کے نزدیک ” جہالت و ضلالت “ ہے ۔ کیا آپ کو اس فورم پر ” کتاب و سنت“ کے جلی اور اصلی ” حروف “ نظر نہیں آئے جو ” اہلِ سنت و الجماعت“ ہی کے منہج اور” طریقے“ کو واضح کرتے ہیں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
سدھر جاؤ، میرے لئے نہ سہی الله کے لئے سدھر جاؤ.
تحریر سے ہی نجدیت (دہشت گردیت) کی بو آتی ہے. دیوبندیوں کو تو آپ نے اپنے مثل کر لیا، اب بھولے بھالے سنیوں کے عقائد و معمولات میں دخل مت دو. عذاب تو دیکھتے ہی ہوں گے.
کیا یہ فورم صرف نجدیوں کے لئے ہے؟ یا کوئی اہلسنت والے بھائی بھی جلوہ افروز ہیں یہاں پر؟
جس کی تحریر ہی بد اخلاقی پر مشتمل ہو وہ دوسروں کو نصیحت کرنے چلا ہے۔ چلو اگر نصیحت کرے تو خود بھی کچھ عمل کر لے۔ لیکن وہی جہالت بھرا راگ الاپنا لگتا ہے بریلویوں کا شیوہ ہے۔
محترم مجھے یہ بتانے کی تکلیف کریں گے کہ آپ کا طرز تخاطب کس حدیث کا ایجاد کردہ ہے؟؟؟
 
شمولیت
دسمبر 31، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
23
السلام علیکم!
لیکن قبروں پر پھول رکھنا بدعت کیسے ہو سکتا ہے؟
یہ صرف اس لئیے رکھے جاتے ہیں کہ میت کے عذاب میں تخفیف ہو۔ اگر صرف عذاب معلوم ہونے پر ہی پھول رکھے جاسکتے ہیں تو ہم میت کے لئیے دعا بھی تو کرتے ہیں کہ اس کو اللہ قبر کے عذاب سے بچاے وہ بھی تو ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ عذاب ہو رہا ہے کہ نہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم!
لیکن قبروں پر پھول رکھنا بدعت کیسے ہو سکتا ہے؟
یہ صرف اس لئیے رکھے جاتے ہیں کہ میت کے عذاب میں تخفیف ہو۔ اگر صرف عذاب معلوم ہونے پر ہی پھول رکھے جاسکتے ہیں تو ہم میت کے لئیے دعا بھی تو کرتے ہیں کہ اس کو اللہ قبر کے عذاب سے بچاے وہ بھی تو ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ عذاب ہو رہا ہے کہ نہیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
محترم بھائی قبروں والوں کیلئے خود نبی اکرم ﷺ نے بھی دعاء کی ،اور صحابہ کرام کو زیارت قبور کی دعاء تعلیم بھی فرمائی ،
اب قبروں پر پھول ،اور چادریں ڈالنا صحابہ کرام کو کہاں سکھلایا یہ آپ بتلا دیں ،
عن عائشة رضي الله عنها قالت: كيف أقول يا رسول الله؟ تعني في زيارة القبور قال: " قولي: السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء الله بكم للاحقون ". (رواه مسلم
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں زیارت قبور کے وقت کیا دعاء پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کہا کرو۔ دعا :
(السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ للاحقون )
ترجمہ : اس قبرستان میں مدفون مومنین و مسلمین پرسلامتی ہو ، اللہ ان پر رحم کرے جو ہم میں سے پہلے تھے اور ان پر بھی اپنی رحمت کا سایہ کرے جو ہم میں سے بعد میں آنے والے ہیں یقینا ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم سے ملنے ہی والے ہیں" (مسلم)
ـــــــــــــــــــــــ
اور جہاں تک
حدیث شریف میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں پر کھجور کی شاخیں لگانے کا تعلق ہے تو ہم پہلے بھی بتا چکے کہ یہ عمل عذاب میں مبتلاء مردوں کیلئے تھا ،جس کی بنیاد وحی تھی ،آپ تحمل سے حدیث شریف غور سے پڑھیں :
عن ابن عباس، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ مر النبي صلى الله عليه وسلم بقبرين، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ "إنهما ليعذبان، ‏‏‏‏‏‏وما يعذبان في كبير، ‏‏‏‏‏‏اما احدهما فكان لا يستتر من البول، ‏‏‏‏‏‏واما الآخر فكان يمشي بالنميمة، ‏‏‏‏‏‏ثم اخذ جريدة رطبة فشقها نصفين فغرز في كل قبر واحدة، ‏‏‏‏‏‏قالوا:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏لم فعلت هذا؟ قال:‏‏‏‏ لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا"، ‏
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا) کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے
(صحيح البخاري 218، صحيح مسلم 292 ،باب الدليل على نجاسة البول، وسنن ابي داود 20)

ـــــــــــــــــ
اس حدیث سے اولیاء کی قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانے کی دلیل لینا پرلے درجہ کی جہالت اور حدیث کے نام پر عوام کو مغالطہ ہے ،کیونکہ بحیثیت نبی آپ ﷺ کو وحی سے علم ہوگیا تھا کہ ان دو قبروں والوں کو عذاب ہورہا ہے اور عذاب کا سبب فلاں عمل ہے ،تو آپ ﷺ نے ان کے عذاب میں تخفیف کیلئے یہ عمل کیا ، تو اب جو لوگ قبروں پر پھول ڈالتے ہیں انہیں بھی بذریعہ وحی علم ہوجاتا ہے کہ یہ صاحب قبر عذاب میں مبتلاء ہے ،
کیونکہ اس حدیث شریف سے تو اتنا ثابت ہوتا ہے کہ جن مردوں کے متعلق معلوم ہوجائے کہ انہیں عذاب ہورہا ہے ان کی قبروں پر سبز درخت کی شاخیں گاڑدی جائیں ،
ـــــــــــــــــــــ
مشہور حنفی محدث علامہ بدرالدین عینیؒ
(المتوفى: 855 ھ)
شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
وَقَالَ النَّوَوِيّ: قَالَ الْعلمَاء: هُوَ مَحْمُول على أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم سَأَلَ الشَّفَاعَة لَهما فاجيبت شَفَاعَته بِالتَّخْفِيفِ عَنْهُمَا إِلَى أَن ييبسا. وَقيل: يحْتَمل أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَدْعُو لَهما تِلْكَ الْمدَّة، وَقيل: لِكَوْنِهِمَا يسبحان مَا دامتا رطبتين وَلَيْسَ لليابس بتسبيح، قَالُوا: فِي قَوْله تَعَالَى: {وَإِن من شَيْء إلاَّ يسبح بِحَمْدِهِ} (الْإِسْرَاء: 44) مَعْنَاهُ: وَإِن من شَيْء حَيّ، ثمَّ حَيَاة كل شَيْء بِحَسبِهِ، فحياة الْخَشَبَة مَا لم يتبس وحياة الْحجر مَا لم يقطع، وَذهب الْمُحَقِّقُونَ إِلَى أَنه على عُمُومه، ))
یعنی امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم کا یہ عمل مبارک اس بات پر محمول ہے کہ آپ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے ان عذاب میں مبتلا ان دونوں افراد کیلئے دعاء و شفاعت فرمائی ،تو آپ کی شفاعت ان ٹہنیوں کے تر رہنے تک کیلئے قبول ہوئی ، اسلئے آپ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نے یہ ٹہنیاں قبروں پر لگائیں ، اور ان ٹہنیوں کے گاڑنے کا ایک احتمال یہ بھی بتایا ہے کہ ان کے تر رہنے کی مدت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دعاء کی ہو ،جس سے ان پر سے اس وقت کیلئے عذاب میں تخفیف کی گئی ہو ، اور یہ تر ٹہنیاں لگانے کا یہ احتمال بھی بتایا گیا ہے کہ خشک ہونے تک وہ ٹہنیاں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں ،اسلئے فرمایا کہ ان کے خشک ہونے تک شاید ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے ، کیونکہ خشک (یعنی مردہ ٹہنی تسبیح نہیں کرتی ) اور یہ قول قرآن کی سورۃ اسراء 44 اس آیت سے ماخوذ ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ (ہر چیز اللہ کی تسبیح وحمدکرتی ہے ) جس کا معنی یہ ہے کہ ہر زندہ چیز اسکی تسبئح کرتی ہے ، اور ہر شیئے کی حیاۃ اپنے حساب سے ہے "
(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Top