بنت عبد السمیع
رکن
- شمولیت
- جون 06، 2017
- پیغامات
- 240
- ری ایکشن اسکور
- 27
- پوائنٹ
- 40
قبر نبوی سے تبرک
نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک ہے،کیونکہ اس میں آپ صلی الله علیه وسلم کا جسدِ اطہر مدفون ہے،لیکن اسے متبرک قرار نہیں دیا جا سکتا،کیونکہ کسی صحابی رسول، کسی تابعی یا تبع تابعی سے با سند ِ صحیح آپ صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنا ثابت نہیں۔یہ دین میں غلوّ ہے اور غلوّ اسلام میں ممنوع ہے۔ اسی طرح قبرِ نبی کو مَس کرنا اور بوسہ دینا بھی ثابت نہیں۔
حق دین صرف وہ ہے،جو سلف صالحین نے اپنایا۔ شریعت میں ایسی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں،جن سے سلف صالحین ناواقف تھے۔
(1) سیّدنا انس بن مالک رضی الله عنه سے روایت ہے :
إِنَّهُمْ لَمَّا فَتَحُوا تُسْتَرَ، قَالَ : فَوَجَدَ رَجُلًا أَنْفُهٗ ذِرَاعٌ فِي التَّابُوتِ، کَانُوا یَسْتَظْهرُونَ وَیَسْتَمْطِرُونَ بِه، فَکَتَبَ أَبُو مُوسٰی إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِذٰلِکَ، فَکَتَبَ عُمَرُ : إِنَّ هذَا نَبِيٌّ مِّنَ الْْأَنْبِیَائِ، وَالنَّارُ لَا تَأْکُلُ الْْأَنْبِیَائَ، وَالْـأَرْضُ لَا تَأْکُلُ الْـأَنْبِیَائَ، فَکَتَبَ أَنِ انْظُرْ أَنْتَ وَأَصْحَابُکَ، یَعْنِي أَصْحَابَ أَبِي مُوسٰی، فَادْفِنُوہُ فِي مَکَانٍ لَّا یَعْلَمُه أَحَدٌ غَیْرُکُمَا، قَالَ : فَذَهبْتُ أَنَا وَأَبُو مُوسٰی، فَدَفَنَّاہُ ۔
’’جب صحابہ کرام نے تستر کو فتح کیا، تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا، ان کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش طلب کیا کرتے تھے۔ سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھ کر سارا واقعہ بیان کیا۔سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔نہ آگ نبی کو کھاتی ہے نہ زمین۔ پھر فرمایا:تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو، وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں اور سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما گئے اور انہیں (ایک گم نام جگہ میں)دفن کر دیا۔‘‘
[مصنّف ابن أبي شيبة: 27/13]-وسندہ صحیح
اگر نبی کی قبر سے تبرک لینا جائز ہوتا، تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کبھی یہ نہ فرماتے:تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو اور وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔صحابہ کرام کبھی ایسا نہ کرتے۔
حکمت کی بات تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے علاوہ کسی نبی کی قبر کا علم ہمیں نہیں دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو ہر قسم کے غلوّ سے بچا کر بھی رکھا گیا۔ اسی طرح بہت سے صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین اعلام کی قبروں کا ہمیں علم نہیں، کیونکہ قبروں سے تبرک اور وسیلہ جائز نہیں، ورنہ انبیائے کرام کی قبریں ہم پر ظاہر کر دی جاتیں۔
(2) سیّدنا عبدالله بن عمر رضی الله عنہما (سفر سے واپسی کے موقع پر)نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی قبر کی زیارت کرتے، تو آپ صلی الله علیه وسلم اور ابو بکر و عمر رضی الله عنہما کے لیے رحمت کی دُعا کرتے۔
[الموطأ للإمام مالک : 166/1، ح : 68]-وسندہٗ صحیحٌ
(3) نافع تابعی رحمه الله اپنے استاذ،صحابی جلیل کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
إِنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَکْرَہُ مَسَّ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْه وَسَلَّمَ ۔
’’سیّدنا عبد الله بن عمر رضی الله عنہما ،نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک کو چھونا مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘
[جزء محمّد بن عاصم الثقفيّ، ص : 106، ح : 27، سیر أعلام النبلاء للذھبي : 378/12]-وسنده صحيح
(4) مشہور تابعی،ابو العالیہ رحمه الله بیان کرتے ہیں:
لَمَّا افْتَتَحْنَا تُسْتَرَ؛ وَجَدْنَا فِي بَیْتِ مَالِ الْهرْمُزَانِ سَرِیرًا عَلَیْه رَجُلٌ مَیِّتٌ، عِنْدَ رَأْسِه مُصْحَفٌ لَّه، فَأَخَذْنَا الْمُصْحَفَ، فَحَمَلْنَاہُ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰه عَنهُ، فَدَعَا لهٗ کَعْبًا، فَنَسَخه بِالْعَرَبِیَّةِ، أَنَا أَوَّلُ رَجُلٍ مِّنَ الْعَرَبِ قَرَأَہٗ، قَرَأْتُه مِثْلَ مَا أَقْرَأُ الْقُرْآنَ هٰذَا، فَقُلْتُ لِأَبِي الْعَالِیةِ : مَا کَانَ فِیهِ؟ فَقَالَ : سِیرَتُکُمْ، وَأُمُورُکُمْ، وَدِینُکُمْ، وَلُحُونُ کَلَامِکُمْ، وَمَا هوَ کَائِنٌ بَعْدُ، قُلْتُ : فَمَا صَنَعْتُمْ بِالرَّجُلِ؟ قَالَ : حَفَرْنَا بِالنّهَارِ ثَلَاثَةَ عَشَرَ قَبْرًا مُتَفَرِّقَةً، فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّیْلِ دَفَنَّاہُ وَسَوَّیْنَا الْقُبُورَ کُلّهَا، لِنُعَمِّیَه عَلَی النَّاسِ لَا یَنْبُشُونَه، فَقُلْتُ : وَمَا تَرْجُونَ مِنْهُ؟ قَالَ : کَانَتِ السَّمَائُ إِذَا حُبِسَتْ عَلَیْهِمْ بَرَزُوا بِسَرِیرِہٖ، فَیُمْطَرُونَ، قُلْتُ : مَنْ کُنْتُمْ تَظُنُّونَ الرَّجُلَ؟ قَالَ : رَجُلٌ یُّقَالُ لَهٗ : دَانْیَالُ، فَقُلْتُ : مُذْ کَمْ وَجَدْتُمُوہُ مَاتَ؟ قَالَ : مُذْ ثَلَاثِمِائَة سَنَة، فَقُلْتُ : مَا کَانَ تَغَیَّرَ شَيْئٌ؟ قَالَ : لَا، إِلَّا شُعَیْرَاتٌ مِّنْ قَفَاہُ، إِنَّ لُحُومَ الْـأَنْبِیَائِ لَا تُبْلِیهَا الْـأَرْضُ، وَلَا تَأْکُلُهَا السِّبَاعُ ۔
’’ہم نے جب تستر شہر کو فتح کیا،تو ہرمزان کے بیت المال میں ایک چارپائی دیکھی،جس پر ایک فوت شدہ شخص پڑا تھا۔اس کے سر کے پاس ایک کتاب پڑی تھی۔ہم نے وہ کتاب اٹھالی اور اسے سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔انہوں نے کعب احبار تابعی رحمہ اللہ کو بلایا، جنہوں نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔میں عربوں میں پہلا شخص تھا،جس نے اس کتاب کو پڑھا۔میں اس کتاب کو یوں پڑھ رہا تھا گویا کہ قرآن کو پڑھ رہا ہوں۔
ابو العالیہ رحمہ اللہ کے شاگرد کہتے ہیں:میں نے ان سے پوچھا:اس کتاب میں کیا لکھاتھا؟انہوں نے فرمایا:اس میں امت ِمحمدیہ کی سیرت،معاملات،دین، تمہارے لہجے اور بعد کے حالات پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
میں نے عرض کیا:آپ نے اس فوت شدہ شخص کا کیا کیا؟ انہوں نے فرمایا:ہم نے دن کے وقت مختلف جگہوں پر تیرہ(13)قبریں کھودیں،پھر رات کے وقت ان میں سے ایک میں انہیں دفن کر دیا اور سب قبریں زمین کے برابر کر دیں۔ اس طرح کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح قبر کا علم نہ ہو اور قبر کشائی نہ کر سکیں۔میں نے عرض کیا:وہ لوگ اس فوت شدہ سے کیا امید رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا:ان کا خیال یہ تھا کہ جب وہ قحط سالی میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان کی چارپائی کو باہر نکالنے سے بارش برسائی جاتی ہے۔میں نے پوچھا:آپ کے خیال میں وہ شخص کون ہو سکتا تھا؟انہوں نے کہا:ایک آدمی تھا،جسے دانیال کہا جاتا تھا۔میں نے پوچھا:آپ کے خیال کے مطابق وہ کتنے عرصے سے فوت ہو چکے تھے؟ انہوں نے فرمایا:تین سو(300)سال سے(لگتا ہے کہ تین ہزار سال کے الفاظ تین سو سال میں تبدیل ہو گئے ہیں)۔ میں نے کہا:کیا ان کے جسم میں کوئی تبدیلی آئی تھی؟ انہوں نے فرمایا:بس گدی سے چند بال گرے تھے،کیونکہ انبیاء ِ کرام کے اجسام میں نہ زمین تصرف کرتی ہے، نہ درندے اسے کھاتے ہیں۔‘‘
[السیرۃ لابن إسحاق : 66، 67، طبع دار الفکر، دلائل النبوّۃ للبیہقي : 382/1]-وسندہ حسن
ان آثار سے ثابت ہوا کہ صحابہ،انبیاء ِ کرام کی قبروں سے تبرک اور توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔اسی لئے انہوں نے بڑے اہتمام سے ایک نبی کی قبر کو چھپا دیا تا کہ نہ لوگوں کو ان کی قبر کا علم ہو، نہ وہ اس سے تبرک اور توسل حاصل کر سکیں۔
(5) اسی بارے میں شیخ الاسلام، امام ابن تیمیه رحمه الله (661۔728ھ)فرماتے ہیں :
فَفِي هٰذِہِ الْقِصَّة مَا فَعَلَه الْمُهَاجِرُونَ وَالْـاَنْصَارُ، مِنْ تَعْمِیَة قَبْرِہٖ، لِئَلَّا یَفْتَتِنَ بِه النَّاسُ، وَهُوَ إِنْکَارٌ مِّنْهُمْ لِذٰلِکَ ۔
’’اس واقعے میں مہاجرین اور انصار صحابہ کرام yنے دانیال علیہ السلام کی قبر کو چھپایا تاکہ لوگ اس کی وجہ سے شرک و بدعت میں مبتلا نہ ہوں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام انبیا و صلحا کی قبروں سے توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔‘‘
[ماقتضاء الصراط المستقیم لمخالفة أصحاب الجحیم:200/2]
(6) شیخ الاسلام ثانی، عالِمِ ربانی، علامہ ابن قیم رحمه الله (751-691ھ) لکھتے ہیں:
فَفِي هذِہِ الْقِصَّةِ مَا فَعَلَه الْمُهاجِرُوْنَ وَالْـأَنْصَارُ مِنْ تَعْمِیَة قَبْرِہٖ، لِئَلَّا یَفْتَتِنَ بِهِ النَّاسُ، وَلَمْ یُبْرِزُوْہُ لِلدُّعَائِ عِنْدَہٗ وَالتَّبَرُّکِ بِه، وَلَوْ ظَفِرَ بِه الْمُتَأَخِّرُوْنَ لَجَادَلُوْا عَلَیْهِ بِالسُّیُوْفِ، وَلَعَبَدُوْہُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ، فَهُمْ قَدِ اتَّخَذُوْا مِنَ الْقُبُوْرِ أَوْثَاناً مَّنْ لَّا یُدَانِي هذَا وَلَا یُقَارِبُهٗ، وَأَقاَمُوْا لَها سَدَنَةً، وَجَعَلُوْها مَعَابِدَ أَعْظَمَ مِنَ الْمَسَاجِدِ ۔
فَلَوْ کَانَ الدُّعَائُ عِنْدَ الْقُبُوْرِ وَالصَّلاَۃُ عِنْدَهَا وَالتَّبَرُّکُ بِهَا فَضِیْلَةً أَوْ سُنَّة أَوْ مُبَاحاً؛ لَنَصَبَ الْمُهَاجِرُوْنَ وَالْـأَنْصَارُ هٰذَا الْقَبْرَ عِلْمًا لِّذٰلِکَ، وَدَعَوْا عِنْدَہٗ، وَسَنُّوْا ذٰلِکَ لِمَنْ بَّعْدَهمْ، وَلٰکِنْ کَانُوْا أَعْلَمَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِهٖ وَدِیْنِهٖ مِنَ الْخُلُوْفِ الَّتِي خَلَفَتْ بَعْدَهمْ، وَکَذٰلِکَ التَّابِعُوْنَ لَهُمْ بِإِحْسَانِ رَّاحُوْا عَلٰی هٰذَا السَّبِیْلِ، وَقَدْ کَانَ عِنْدَهمْ مِّنْ قُبُوْرِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰه صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ بِالْـأَمْصَارِ عَدَدٌ کَثِیْرٌ، وَهمْ مُّتَوَافِرُوْنَ، فَمَا مِنْهمْ مَنِ اسْتَغَاثَ عِنْدَ قَبْرِ صَاحِبٍ، وَلَا دَعَاہُ، وَلاَ دَعَا بِهٖ، وَلاَ دَعَا عِنْدَہٗ، وَلاَ اسْتَشْفٰی بِهٖ، وَلَا اسْتَسْقٰی بِهٖ، وَلَا اسْتَنْصَرَ بِهٖ، وَمِنَ الْمَعْلُوْمِ أَنَّ مِثْلَ هٰذَا مِمَّا تَتَوَفَّرُ الْهِمَمُ وَالدَّوَاعِي عَلٰی نَقْلِه، بَلْ عَلٰی نَقْلِ مَا هوْ دُوْنَه ۔
وَحِیْنَئِذٍ، فَلَا یَخْلُوْ، إِمَّا أَنْ یَّکُوْنَ الدُّعَائُ عِنْدَها وَالدُّعَائُ بِأَرْبَابِهَا أَفْضَلَ مِنْهُ فِي غَیْرِ تِلْکَ الْبُقْعَة، أَوْ لَا یَکُوْنَ، فَإِنْ کَانَ أَفْضَلَ، فَکَیْفَ خَفِيَ عِلْمًا وَّعَمَلاً عَلَی الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِیْنَ وَتَابِعِیْهمْ؟ فَتَکُوْنُ الْقُرُوْنُ الثَّلَاثَة الْفَاضِلَة جَاهلَةً بِهٰذَا الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ، وَتَظْفَرُ بِهِ الْخُلُوْفُ عِلْمًا وَّعَمَلاً؟ وَلَا یَجُوْزُ أَنْ یَّعْلَمُوْہُ وَیَزْهَدُوْا فِیْه، مَعَ حِرْصِهمْ عَلٰی کُلِّ خَیْرٍ لَّا سِیَّمَا الدُّعَائُ، فَإِنَّ الْمُضْطَرَّ یَتَشَبَّثُ بِکُلِّ سَبَبٍ، وَإِنْ کَانَ فِیْه کَرَاهَۃٌ مَّا، فَکَیْفَ یَکُوْنُوْنَ مُضْطَرِّیْنَ فِي کَثِیْرٍ مِّنَ الدُّعَائِ، وَهمْ یَعْلَمُوْنَ فَضْلَ الدُّعَائِ عِنْدَ الْقُبُوْرِ، ثُمَّ لَا یَقْصُدُوْنَه؟ هذَا مَحَالٌ طَبَعاً وَّشَرْعاً ۔
فَتَعَیَّنَ الْقِسْمُ الآخَرُ، وَهوَ أَنَّهٗ لاَ فَضْلَ لِلدُّعَائِ عِنْدَها، وَلَا هوَ مَشْرُوْعٌ، وَلَا مَأْذُوْنٌ فِیهِ بِقَصْدِ الْخُصُوْصِ، بَلْ تَخْصِیْصُهَا بِالدُّعَائِ عِنْدَهَا ذَرِیْعَةٌ إِلٰی مَا تَقَدَّمَ مِنَ الْمَفَاسِدِ، وَمِثْلُ هٰذَا مِمَّا لَا یَشْرَعُهُ اللّٰه وَرَسُوْلُهُ الْبَتَّةَ، بَلِ اسْتِحْبَابُ الدُّعَائِ عِنْدَها شَرْعُ عِبَادَۃٍ لَّمْ یَشْرَعْها اللّٰهُ، وَلَمْ یُنَزِّلْ بِها سُلْطَاناً ۔
’’اس واقعہ میں مہاجرین و انصار صحابہ کرام نے سیّدنا دانیال علیہ السلام کی قبر کو چھپا دیا تاکہ لوگ اس کی وجہ سے فتنہ شرک و بدعت میں مبتلا نہ ہوں۔ انہوں نے دعا اور تبرک کی خاطر قبر کو ظاہر نہیں کیا۔اگر بعد والے مشرک وہاں ہوتے،تو تلواریں لے کر ٹوٹ پڑتے،اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس کی عبادت کرتے،ان کی قبروں کو بت خانہ بنا لیتے،وہاں ایک قبہ بنا دیتے،اس پر مجاور بن بیٹھتے،اسے مساجد سے بھی بڑی عبادت گاہ بنا ڈالتے،کیونکہ وہ ان لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا چکے ہیں، جو ان سے کم درجہ ہیں۔
اگر قبروں کے پاس دعا مانگنا اور وہاں نماز پڑھنا اور فیض روحانی حاصل کرنا فضیلت والا کام یا سنت،بلکہ مباح بھی ہوتا، تو مہاجرین وانصار اس قبرپر جھنڈا گاڑ دیتے،وہاں اپنے لیے دعا کرتے اور بعدوالوں کے لیے ایک طریقہ جاری کر دیتے،لیکن وہ بعد والوں کی نسبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو زیادہ جاننے والے تھے۔یہی حال تابعین عظام کا تھا کہ وہ بھی انہی کے راستے پر چلتے رہے،حالانکہ ان کے پاس مختلف شہروں میں صحابہ کرام کی بے شما ر قبریں تھیں، لیکن انہوں نے کسی صحابی کی قبر سے فریاد نہیں کی،نہ اسے پکارا،نہ اس کے ذریعے دعا کی،نہ اس کے پاس جا کر دعاکی،نہ اس کے واسطے سے شفا طلب کی،نہ اس کے واسطے سے بارش طلب کی،نہ اس کے ذریعے سے مدد طلب کی اور یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ان کے پاس ایسی باتوں کو نقل کرنے کی استطاعت اور وافر اسباب موجود تھے،بلکہ انہوں نے اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی نقل کی ہوئی ہیں۔
یوں یہ صورتِ حال دوباتوں سے خالی نہیں ہے ؛یا تو قبر کے پاس دعا کرنا اور اس کے وسیلے سے مانگنا دوسری جگہوں سے افضل ہے یا نہیں۔اگر افضل ہے، تو اس کا علم اور عمل صحابہ کرام ، تابعین اورتبع تابعین سے کیسے مخفی رہا؟ کیا پھر تین افضل ادوار اس فضل عظیم سے لا علم رہے اور برے جانشینوں نے اسے ڈھونڈ لیا؟
کیونکہ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ انہیں پتہ بھی چل جائے، مگر وہ اس سے صرف ِنظر کر جائیں،حالانکہ وہ ہر نیکی بالخصوص دعا کے حریص تھے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مجبورآدمی تو ہر ذریعہ استعمال کرتا ہے،اگرچہ اس میں کراہت ہی ہو؟ توکیسے ہو سکتا ہے کہ وہ دعائوں کی قبولیت کے سلسلے میں مجبور بھی ہوں اور وہ قبروں کے پاس دعا کی فضیلت جانتے ہوئے بھی اس کا قصد نہ کرتے ہوں،یہ بات طبعاً اور شرعاً نا ممکن ہے؟
اب دوسری قسم کا تعین ہو گیاکہ ان قبروں کے پاس دعا کرنے میں فضیلت اور مشروعیت نہیں ہے،نہ خصوصی طور پر وہاں جانے کی اجازت ہے،بلکہ وہاں خصوصیت کے ساتھ دعا کرنا ان خرابیوں کا سبب بنتا ہے،جو شروع کتاب میں بیان ہو چکی ہیں۔وہاں اپنے لیے دعا مانگنے کو جائز اور افضل جاننا ایسی عبادت ہے،جس کی شرع میں اجازت نہیں،نہ ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز رکھا اور نہ ہی اس کے حق میں کوئی دلیل نازل کی ہے۔ ‘‘
[إغاثۃ اللھفان من مصاید الشیطان : 203/1۔204]
(7) من و عن یہی عبارت علامه برکوی حنفی رحمه الله (المتوفى 981ھ) نے اپنی کتاب زیارۃ القبور (ص:39۔40) میں ذکر کی ہے۔
قبروں کو چھونا اور بوسہ دینا علماء اسلام کی نظر میں :
قبروں کو چھونے اور ان کو بوسہ دینے کے بارے میں علماء ِاسلام کی آرا ملاحظہ ہوں:
(8) ابو حامد محمد بن محمد طوسی، المعروف به علامه غزالی (المتوفى 450۔505ھ) قبروں کو چھونے اور ان کو بوسہ دینے کے بارے میں فرماتے ہیں :
إِنَّه عَادَۃُ النَّصَارٰی وَالْیَھُودِ ۔
’’ایسا کرنا یہود و نصاریٰ کی عادت ہے۔‘‘[إحیاء علوم الدین : 244/1]
(9) امام نووی رحمه الله (المتوفى 631۔676ھ) نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبرمبارک کو چومنے اور اس پر ماتھا وغیرہ ٹیکنے کے بارے میں فرماتے ہیں :
لاَ یَجُوزُ أَنْ یُّطَافَ بِقَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَیُکْرَہُ إِلْصَاقُ الْبَطْنِ وَالظَّهرِ بِجِدَارِ الْقَبْرِ، قَالَه الْحَلِیمیُّ وَغَیْرُہٗ، وَیُکْرَہُ مَسْحُه بِالْیَدِ وَتَقْبِیلُهٗ، بَلِ الْـاَدَبُ أَنْ یَّبْعُدَ مِنْه کَمَا یَبْعُدُ مِنْه لَوْ حَضَرَ فِي حَیَاتِهٖ صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ، هٰذَا هُوَ الصَّوَابُ، وَهُوَ الَّذِي قَالَه الْعُلَمَائُ وَأَطْبَقُوا عَلَیْه، وَیَنْبَغِي أَنْ لاَّ یَغْتَرَّ بِکَثِیرٍ مِّنَ الْعَوَامِّ فِي مُخَالَفَتِهِمْ ذٰلِکَ، فَإِنَّ الِاقْتِدَائَ وَالْعَمَلَ؛ إِنَّمَا یَکُونُ بِأَقْوَالِ الْعُلمائِ، وَلاَ یُلْتَفَتُ إِلٰی مُحْدَثَاتِ الْعَوَّامِ وَجَهَالَاتِهِمْ، وَلَقَدْ أَحْسَنَ السَّیِّدُ الْجَلِیلُ أَبُو عَلِيٍّ الْفُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ رَّحِمَهُ اللّٰه تَعَالٰی فِي قَوْله مَا مَعْنَاہُ : اِتَّبِعْ طُرُقَ الْهدٰی وَلاَ یَضُرُّکَ قِلَّة السَّالِکِینَ، وَإِیَّاکَ وَطُرُقَ الضَّلاَلَة، وَلاَ تَغْتَرَّ بِکَثْرَۃِ الْهَالِکِینَ، وَمَنْ خَطَرَ بِبَالِه أَنَّ الْمَسْحَ بِالْیَدِ وَنَحْوِہٖ أَبْلَغُ فِي الْبَرَکَةِ، فَهوَ مِنْ جَہَالَتِه وَغَفْلَتِهٖ، لِأَنَّ الْبَرَکَةَ إِنَّمَا هيَ فِیمَا وَافَقَ الشَّرْعَ وَأَقْوَالَ الْعُلَمَائِ، وَکَیْفَ یُبْتَغَی الْفَضْلُ فِي مُخَالَفَة الصَّوَابِ ؟
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا طواف کرنا جائز نہیں۔اسی طرح قبر مبارک کی دیوار سے اپنا پیٹ اور اپنی پشت چمٹانا بھی مکروہ ہے،علامہ حلیمی وغیرہ نے یہ بات فرمائی ہے۔ قبر کو (تبرک کی نیت سے)ہاتھ لگانااور اسے بوسہ دینا بھی مکروہ عمل ہے۔قبر مبارک کا اصل ادب تو یہ ہے کہ اس سے دور رہا جائے،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں آپ کے پاس حاضر ہونے والے کے لیے ادب دور رہنا ہی تھا۔یہی بات درست ہے اور علماء ِ کرام نے اسی بات کی صراحت کی ہے اور اس پر اتفاق بھی کیا ہے۔کوئی مسلمان اس بات سے دھوکا نہ کھا جائے کہ عام لوگ ان ہدایات کے برعکس عمل کرتے ہیں،کیونکہ اقتدا تو علمائِ کرام کے (اتفاقی)اقوال کی ہوتی ہے ،نہ کہ عوام کی بدعات اور جہالتوں کی۔ سید جلیل،ابوعلی فضیل بن عیاض رحمه الله نے کیا خوب فرمایا ہے:راہِ ہدایت کی پیروی کرو،اس راہ پر چلنے والوں کی قلت نقصان دہ نہیں۔گمراہیوں سے بچواور گمراہوں کی کثرت ِافراد سے دھوکا نہ کھاؤ(ہم اس قول کی سند پر مطلع نہیں ہو سکے)۔جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قبرمبارک کو ہاتھ لگانے اور اس طرح کے دوسرے بدعی کاموں سے زیادہ برکت حاصل ہوتی ہے، وہ اپنی جہالت اور کم علمی کی بنا پر ایسا سوچتا ہے،کیونکہ برکت تو شریعت کی موافقت اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں ملتی ہے۔خلاف ِشریعت کاموں میں برکت کا حصول کیسے ممکن ہے؟۔‘‘
[الإیضاح في مناسک الحجّ والعمرۃ، ص : 456]
(10) شیخ الاسلام، ابن تیمیه رحمه الله (المتوفى 661۔728ھ) فرماتے ہیں :
وَأَمَّا التَّمَسُّحُ بِالْقَبْرِ أَوِ الصَّلَاۃُ عِنْدَہٗ، أَوْ قَصْدُہٗ لِأَجْلِ الدُّعَائِ عِنْدَہٗ، مُعْتَقِدًا أَنَّ الدُّعَائَ هُنَاکَ أَفْضَلُ مِنَ الدُّعَائِ فِي غَیْرِہٖ، أَوِ النَّذْرُ لَه وَنَحْوُ ذٰلِکَ، فَلَیْسَ هٰذَا مِنْ دِینِ الْمُسْلِمِینَ، بَلْ هوَ مِمَّا اُحْدِثَ مِنَ الْبِدَعِ الْقَبِیحَةِ الَّتِي هيَ مِنْ شُعَبِ الشِّرْکِ، وَاللّٰه أَعْلَمُ وَأَحْکَمُ ۔
’’قبر کو (تبرک کی نیت سے) ہاتھ لگانا، اس کے پاس نماز پڑھنا، دُعا مانگنے کے لیے قبر کے پاس جانا، یہ اعتقاد رکھنا کہ وہاں دُعا کرنا عام جگہوں پر دُعا کرنے سے افضل ہے اور قبر پر نذر و نیاز کا اہتمام کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کام تو ان قبیح بدعات میں سے ہیں، جو شرک کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتی ہیں۔ والله اعلم واحکم۔‘‘[مجموع الفتاوٰی لابن تيمية : 321/24]
نیز فرماتے ہیں :
وَأَمَّا التَّمَسُّحُ بِالْقَبْرِ، اَيَّ قَبْرٍ کَانَ، وَتَقْبِیلُه وَتَمْرِیغُ الْخَدِّ عَلَیْهِ، فَمَنْهيٌّ عَنْه بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِینَ، وَلَوْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْ قُبُورِ الْـاَنْبِیَائِ، وَلَمْ یَفْعَلْ هذَا أَحَدٌ مِّنْ سَلَفِ الْـأُمَّة وَأَئِمَّتِها، بَلْ هذَا مِنَ الشِّرْکِ، قَالَ اللّٰه تَعَالٰی : {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَاسُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا٭ وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا}(نوح71:24-23)، وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّ هٰؤُلَائِ أَسْمَائُ قَوْمٍ صَالِحِینَ، کَانُوا مِنْ قَوْمِ نُوحٍ، وَأَنَّهمْ عَکَفُوا عَلٰی قُبُورِهِمْ مُّدَّۃً، ثُمَّ طَالَ عَلَیْهِمُ الْـاَمَدُ، فَصَوَّرُوا تَمَاثِیلَهمْ، لَاسِیَّمَا إِذَا اقْتَرَنَ بِذٰلِکَ دُعَائُ الْمَیِّتِ وَالِاسْتِغَاثَة بِه -
’’قبر کسی کی بھی ہو، اس کو (تبرک کی نیت سے) چھونا، بوسہ دینا اور اس پر اپنے رخسار ملنا منع ہے اور اس بات پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ یہ کام انبیاء ِ کرام کی قبور ِمبارکہ کے ساتھ بھی کیا جائے، تو اس کا یہی حکم ہے۔ اسلافِ امت اور ائمہ دین میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا، بلکہ یہ کام شرک ہے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَاسُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا٭ وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا}(نوح 71 : 24-23)
کہ
"وہ (قوم نوح کے مشرکین) کہنے لگے: تم کسی بھی صورت وَد، سُوَاع، یَغُوث، یَعُوق اور نَسْر کو نہ چھوڑو،(یوں) انہوں نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کر دیا".
یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ یہ سب قومِ نوح کے نیک لوگوں کے نام تھے۔ایک عرصہ تک یہ (مشرکین قومِ نوح) لوگ ان کی قبروں پر ماتھے ٹیکتے رہے، پھر جب لمبی مدت گزر گئی، تو انہوں نے ان نیک ہستیوں کی مورتیاں گھڑ لیں۔ قبروں کی یہ تعظیم اس وقت خصوصاً شرک بن جاتی ہے جب اس کے ساتھ ساتھ میت کو پکارا جانے لگے اور اس سے مدد طلب کی جانے لگے۔‘‘
[مجموع الفتاوٰی لابن تيمية: 91/27۔92]
شیخ موصوف ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
اِتَّفَقَ السَّلَفُ عَلٰی أَنَّه لَا یَسْتَلِمُ قَبْرًا مِّنْ قُبُورِ الْـاَنْبِیَائِ وَغَیْرِهمْ، وَلَا یَتَمَسَّحُ بِه، وَلَا یُسْتَحَبُّ الصَّلَاۃُ عِنْدَہٗ، وَلَا قَصْدُہٗ لِلدُّعَائِ عِنْدَہٗ، أَوْ بِهٖ، لِأَنَّ هذِہِ الْـاُمُورَ کَانَتْ مِنْ أَسْبَابِ الشِّرْکِ وَعِبَادَۃِ الْـأَوْثَانِ ۔
’’سلف صالحین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبریں انبیاء ِ کرام کی ہوں یا عام لوگوں کی، ان کو نہ بوسہ دینا جائز ہے ،نہ ان کو (تبرک کی نیت سے) چھونا۔قبروں کے پاس نماز کی ادائیگی اور دعا کی قبولیت کی غرض سے جانا یا ان قبروں کے وسیلے سے دُعا کرنا مستحسن نہیں۔ یہ سارے کام شرک اور بت پرستی کا سبب بنتے ہیں۔‘‘
[مجموع الفتاوٰی لابن تيمية: 31/27]
(11) علامہ ابن الحاج رحمه الله (المتوفى:737ھ) قبرنبوی کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فَتَرٰی مَنْ لَّا عِلْمَ عِنْدَہٗ یَطُوفُ بِالْقَبْرِ الشَّرِیفِ، کَمَا یَطُوفُ بِالْکَعْبَة الْحَرَامِ، وَیَتَمَسَّحُ بِه وَیُقَبِّلُه، وَیُلْقُونَ عَلَیْهِ مَنَادِیلَهُمْ وَثِیَابَهمْ، یَقْصِدُونَ بِه التَّبَرُّکَ، وَذٰلِکَ کُلُّه مِنَ الْبِدَعِ، لِأَنَّ التَّبَرُّکَ إِنَّمَا یَکُونُ بِالِاتِّبَاعِ لَهٗ عَلَیْه الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، وَمَا کَانَ سَبَبُ عِبَادَۃِ الْجَاہِلِیَّة لِلْـاَصْنَامِ؛ إِلَّا مِنْ هذَا الْبَابِ ۔
’’آپ جاہلوں کو دیکھیں گے کہ وہ نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک کا کعبہ کی طرح طواف کرتے ہیں، اور تبرک کی نیت سے اس کو چھوتے ہیں ،بوسہ دیتے ہیں، اس پر اپنے رومال اور کپڑے ڈالتے ہیں۔ یہ سارے کام بدعت ہیں، کیونکہ برکت تو صرف اور صرف آپ علیه السلام کے اتباع سے حاصل ہوتی ہے۔ دور ِجاہلیت میں بتوں کی عبادت کا سبب یہی چیزیں بنی تھیں۔ ‘‘
[المدخل : 263/1]
(12) احمدونشریسی (المتوفى :914ھ) لکھتے ہیں:
وَمِنْھَا تَقْبِیلُ قَبْرِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ أَوِ الْعَالِمِ، فِإِنَّ ھٰذَا کُلَّه بِدْعَة ۔
’’ان کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی نیک شخص یا عالم کی قبر کو چوما جائے، یہ سب کام بدعت ہیں۔‘‘
[المعیار المعرب : 490/2]
(13) علامہ، عبد الرؤف، مناوی رحمه الله حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
’فَزُورُوا الْقُبُورَ‘، أَي بِشَرْطِ أَنْ لَّا یَقْتَرِنَ بِذٰلِکَ تَمَسُّحٌ بِالْقَبْرِ، أَوْ تَقْبِیلٌ، أَوْ سُجُودٌ عَلَیهِ، أَوْ نَحْوُ ذٰلِکَ، فَإِنَّه کَمَا قَالَ السُّبْکِيُّ : بِدْعَة مُّنْکَرَۃٌ، إِنَّمَا یَفْعَلُها الْجُهَّالُ ۔
’’تم قبروں کی زیارت کرو، یعنی اس شرط پر کہ زیارت کے ساتھ قبر کو چھونے یا چومنے یا اس پر سجدہ وغیرہ کرنے کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ کیونکہ یہ بقول علامہ سبکی منکر بدعت اور جاہلوں کا کام ہے۔‘‘
[فیض القدیر : 55/5، شفاء السقام للسبکي، ص : 313]
اس سے معلوم ہوا کہ سلف صالحین انبیاء ِکرام کی قبروں سے تبرک حاصل نہیں کرتے تھے، لیکن جو لوگ سلف صالحین کی مخالفت اور بدعت کو بھی جائز سمجھتے ہوں، ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
® علامہ ابن عابدین، شامی حنفی لکھتے ہیں :
وَضْعُ السُّتُورِ، وَالْعَمَائِمِ، وَالثِّیَابِ عَلٰی قُبُورِ الصَّالِحِینَ الْـأَوْلِیَائِ کَرِهَهُ الْفُقَهَائُ، حَتّٰی قَالَ فِي فَتَاوَی الْحُجَّةِ : وَتُکْرَہُ السُّتُورُ عَلَی الْقُبُورِ، وَلٰکِنْ نَّحْنُ الْآنَ نَقُولُ : إِنْ کَانَ الْقَصْدُ بِذٰلِکَ التَّعْظِیمَ فِي أَعْیُنِ الْعَامَّةِ، حَتّٰی لَا یَحْتَقِرُوا صَاحِبَ هذَا الْقَبْرِ۔۔۔، فَهُوَ أَمْرٌ جَائِزٌ لَّا یَنْبَغِي النَّهيُ عَنْهُ، لِأَنَّ الْـأَعْمَالَ بِالنِّیَّاتِ، وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَّا نَوٰی، فَإِنَّهٗ وَإِنْ کَانَ بِدْعَة عَلٰی خِلَافِ مَا کَانَ عَلَیْه السَّلَفُ ۔۔۔ ۔
’’نیک اولیا کی قبروں پر چادریں، پگڑیاں اور کپڑے رکھنے کو ہمارے (حنفی) فقہا نے مکروہ قرار دیا ہے، حتی کہ فتاوی الحجہ میں لکھا ہے : قبروں پر چادریں ڈالنا مکروہ ہے۔
لیکن ہم اب کہتے ہیں کہ اگر اس سے عام لوگوں کی نظروں میں صاحب ِقبر کی تعظیم پیدا کرنا مقصود ہو تاکہ وہ صاحب ِقبر کو حقیر نہ سمجھیں۔۔۔،تو یہ جائز ہے، اس سے روکنا درست نہیں، کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی کچھ ملتا ہے، جس کی وہ نیت کرتا ہے۔ یہ عمل اگرچہ بدعت ہے اور اس طریقے کے خلاف ہے، جس پر سلف صالحین کاربند تھے۔۔۔‘‘
[العقود الدریّة في تنقیح الفتاوی الحامدیّة : 325/2، فتاوی الشامي : 363/6]
✔ ملاحظہ فرمائیں کہ اسے بدعت بھی قرار دیا جا رہا ہے اور یہ بھی اقرار کیا جا رہا ہے کہ سلف صالحین اس عمل پر کاربند نہیں تھے، اور یہ عمل سلف صالحین کے عمل ومنھج کے خلاف ہے، لیکن پھر بھی اسے جائز کہا جا رہا ہے۔ کیا اس سے یہ بات بخوبی معلوم نہیں ہو جاتی کہ بعض لوگ اپنا دین کتاب وسنت اور سلف صالحین سے نہیں، بلکہ اپنے نفس کی آراء خواہشات سے اخذ کرتے ہیں؟؟ ان لوگوں کا قبروں کی جعلی اور خود ساختہ تعظیم سے شرک کی راہ ہموار کرنا مقصود ہے۔ اگر شریعت میں اس کا کوئی تصور ہوتا، تو سلف صالحین اسے ضرور اپناتے۔ صحابہ کرام نے قبر نبوی اور تابعین عظام نے قبور ِصحابہ کے ساتھ اور تبع تابعین اعلام نے قبور ِ تابعین کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں کیا۔
جبکہ فقه حنفي كی مستند کتاب میں لکھا ہے :
وَلَا یَمْسَحُ الْقَبْرَ وَلَا یُقَبِّلُه، فَإِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَادَۃِ النَّصَارٰی، وَلَا بَأْسَ بِتَقْبِیلِ قَبْرِ وَالِدَیْه ۔
’’قبرستان جانے والا قبر کو نہ چھوئے، نہ بوسہ دے، کیونکہ یہ نصاریٰ کی عادت ہے، البتہ اپنے والدین کی قبر کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
[الفتاوی الهندیّة المعروف به فتاویٰ عالمگیري : 351/5]
قبروں کو بوسہ دینا جب نصاریٰ کی عادت ہے تو یہ عادت والدین کی قبر پر کیسے سند ِجواز حاصل کر لے گی؟
صحابہ کرام اور قبر رسول صلى الله عليه وسلم سے تبرک
:بعض لوگ نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں، ان کے مزعومہ دلائل کا انتہائی مختصر اور جامع تبصرہ پیش خدمت ہے:
سیدنا عمر رضی الله عنه اور قبر نبوی سے تبرک
(1) جب سیّدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی الله عنه کے خط پر سیّدنا عمر رضی الله عنه نے لوگوں کو شام کی طرف کوچ کرنے کے لئے شہر سے باہر نکلے کو کہا، تو سیّدنا عمر بن خطاب رضی الله عنه نے سب سے پہلے مسجد ِنبوی میں حاضر ہو کر چار رکعت نماز ادا کی، پھر قبر رسول کی زیارت کی اور سلام کیا۔
[فتوح الشام للواقدي : 306/1۔307]
تبصرہ :
یہ بے سند کہانی محمد بن عمرواقدی کی گھڑنتل ہے۔
امام اسحاق بن راهویه رحمه الله فرماتے ہیں:
عِنْدِي مِمَّنْ یَّضَعُ الْحَدِیْثَ ۔
’’میرے نزدیک اس کا شمار حدیث گھڑنے والوں میں ہوتا ہے۔‘‘ [الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 21/8]-وسندہ صحیح
© اس (واقدی) کو ، امام ابو حاتم رازی رحمه الله، امام بخاری رحمه الله، امام مسلم رحمه الله، امام نسائی رحمه الله اور حافظ ابن حجر رحمه الله نے ’’متروک الحدیث‘‘کہا ہے۔
[الجرح والتعدیل : 21/8، الضعفاء الکبیر للعقیلي : 107/4، الکنٰی والأسماء : 1952، الضعفاء : 557، تقریب التهذیب : 6175]
© امام بندار بن بشار رحمه الله کہتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ أَکْذَبَ شَفَتَیْنِ مِنَ الْوَاقِدِيِّ ۔
’’میں نے واقدی سے بڑھ کر جھوٹے ہونٹوں والا راوی نہیں دیکھا۔‘‘
[تاریخ بغداد للخطیب : 14/3]-وسندہ صحیح
© اسے امام ابو زرعہ رازی رحمه الله، اور امام دارقطنی رحمه الله نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
[الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 21/8، سنن الدارقطني : 164/2]
© امام ابن عدی رحمه الله فرماتے ہیں:
یَرْوِي أَحَادِیثَ غَیْرَ مَحْفُوظَةٍ، وَّالْبَلَائُ مِنْهُ، وَمُتُونُ أَخْبَارِ الْوَاقِدِيِّ غَیْرُ مَحْفُوظَةٍ، وَھُوَ بَیِّنُ الضَّعْفِ ۔
’’یہ شخص غیر محفوظ احادیث بیان کرتا ہے اور یہ مصیبت اسی کی اپنی طرف سے ہے۔ نیز اس کی روایات کے متون غیر محفوظ ہیں اور وہ خود واضح ضعیف ہے۔‘‘
[الکامل في ضعفاء الرجال : 243/6]
© امام خطیب بغدادی رحمه الله فرماتے ہیں:
وَالْوَاقِدِيُّ عِنْدَ أَئِمَّةِ أَھْلِ النَّقْلِ؛ ذَاھِبُ الْحَدِیْثِ ۔
’’واقدی ائمہ محدثین کرام کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔‘‘[تاریخ بغداد للخطيب: 37/1]
© علامه هيثمی رحمه الله کہتے ہیں:
ضَعَّفَه الْجُمْهُوْرُ ۔
’’اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف کہا ہے۔‘‘[مجمع الزوائد : 255/3]
© علامه ابن الملقن رحمه الله کہتے ہیں:
وَقَدْ ضَعَّفَه الْجُمْهُوْرُ ۔
’’یقینا اسے جمہور محدثین نے ضعیف کہا ہے۔‘‘[البدر المنیر لابن الملقن: 324/5]
© حافظ ذهبی رحمه الله لکھتے ہیں:
وَقَدْ تَقَرَّرَ أَنَّ الْوَاقِدِيَّ ضَعِیْفٌ ۔
’’یہ بات مسلَّم ہے کہ واقدی ضعیف راوی ہے۔‘‘[سیر أعلام النبلاء للذهبي : 454/9]
(2) کعب احبار رحمه الله کے قبولِ اسلام کے بعد سیّدنا عمر فاروق رضی الله عنه نے انہیں فرمایا: کیا آپ قبرِ رسول کی زیارت کے لئے میرے ساتھ چلو گے؟ انہوں نے کہا: امیر المومنین، جی ہاں! پھر جب کعب احبار رحمه الله اور سیّدنا عمر رضی الله عنه مدینہ آئے، تو سب سے پہلے قبر رسول کی زیارت کی اور سلام کہا، پھر سیّدنا ابو بکر رضی الله عنه کی قبر پر کھڑے ہو کر سلام کیا اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔
[فتوح الشام للواقدي : 318/1]
تبصرہ :
یہ بے سند روایت بھی محمد بن عمر واقدی کی کارستانی ہے، اور اس واقدی کی حقیقت اوپر بیان کی جاچکی ہے
سیدہ عائشه رضی الله عنہا اور قبر نبی سے تبرک
:ابو الجوزا، اوس بن عبدالله تابعی رحمه الله سے مروی ہے :
قُحِطَ أَهلُ الْمَدِینَةِ قَحْطًا شَدِیدًا، فَشَکَوْا إِلٰی عَائِشَة، فَقَالَتْ : اُنْظُرُوا قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاجْعَلُوا مِنْه کِوًی إِلَی السَّمَائِ، حَتّٰی لَا یَکُونَ بَیْنَه وَبَیْنَ السَّمَائِ سَقْفٌ، قَالَ : فَفَعَلُوا، فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتّٰی نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الْإِبِلُ، حَتّٰی تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ ۔
’’ایک مرتبہ اہل مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے۔ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی الله عنہا سے (اس کیفیت کے بارے میں ) شکایت کی۔ سیدہ رضی الله عنہا نے فرمایا: نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی قبر کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے اسی طرح کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی، یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ ایسے ہوگئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہٰذا اس سال کا نام عام الفتق(پیٹ پھٹنے والا سال)رکھ دیا گیا۔‘‘
[سنن الدارمي : 58/1،ح : 93، مشکاۃ المصابیح : 5950]-وسنده ضعيف
تبصرہ :
اس روایت کی سند ’’ضعیف‘‘ہے ،کیونکہ اس کے راوی عمرو بن مالک نکری (ثقہ وحسن الحدیث) كی حدیث، ابوالجوزا سے غیر محفوظ ہوتی ہے۔ اور یہ روایت بھی ایسی ہی ہے ۔
© علامه ابنِ حجر رحمه الله لکھتے ہیں :
وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ : حَدَّثَ عَنْه عَمْرُو بْنُ مَالِکٍ قَدْرَ عَشْرَۃِ أَحَادِیثَ غَیْرِ مَحْفُوظَة۔
’’امام ابن عدی رحمه الله نے فرمایا ہے کہ ابوالجوزا سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔‘‘ [تهذیب التھذیب : 336/1]
یہ جرح مفسر ہے۔ اور یہ اثر بھی عمرو بن مالک نکری نے اپنے استاذ ابو الجوزا سے روایت کیا ہے، لہٰذا یہ غیر محفوظ، یعنی ’’منکر‘‘ہے ۔
√ اس کی نکارت پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام، ابن تیمیة رحمه الله (المتوفى 661۔728ھ) فرماتے ہیں:
وَمَا رُوِيَ عَنْ عَائِشَة رَضِيَ اللّٰه عَنْهَا مِنْ فَتْحِ الْکَوَّۃِ مِنْ قَبْرِہٖ إِلَی السَّمَائِ، لِیَنْزِلَ الْمَطَرُ، فَلَیْسَ بِصَحِیحٍ، وَلَا یَثْبُتُ إِسْنَادُہٗ، وَمِمَّا یُبَیِّنُ کِذْبَ هذَا أَنَّهٗ فِي مُدَّۃِ حَیَاۃِ عَائِشَۃَ لَمْ یَکُنْ لِلْبَیْتِ کَوَّۃٌ، بَلْ کَانَ بَاقِیاً کَمَا کَانَ عَلٰی عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ بَعْضُه مَسْقُوفٌ وَّبَعْضُه مَکْشُوفٌ، وَکَانَتِ الشَّمْسُ تَنْزِلُ فِیه، کَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِیحَیْنِ عَنْ عَائِشَة أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَآلهٖ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِها، لَمْ یَظْهَرِ الْفَيْئُ بَعْدُ، وَلَمْ تَزَلِ الْحُجْرَۃُ النَّبَوِیَّةُ کَذٰلِکَ فِي مَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَآلِه وَسَلَّمَ، وَمِنْ حِینَئِذٍ دَخَلَتِ الْحُجْرَۃُ النَّبَوِیّةُ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ إِنَّه بُنِيَ حَوْلَ حُجْرَۃِ عَائِشَة الَّتِي فِیها الْقَبْرُ؛ جِدَارٌ عَالٍ، وَبَعْدَ ذٰلِکَ جُعِلَتِ الْکَوَّۃُ لِیَنْزِلَ مِنْها مَنْ یَّنْزِلُ إِذَا احْتِیجَ إِلٰی ذٰلِکَ لِاَجْلِ کَنْسٍ أَوْ تَنْظِیفٍ، وَأَمَّا وُجُودُ الْکَوَّۃِ فِي حَیَاۃِ عَائِشَةَ؛ فَکَذِبٌ بَیِّنٌ".
’’سیدہ عائشہ رضی الله عنہا سے جو بارش کے لیے قبرنبوی پر سے کھڑکی کھولنے کی روایت مروی ہے، وہ صحیح نہیں۔ اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے۔ اس کے خلاف ِواقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کی حیات ِمبارکہ میں حجرہ مبارکہ میں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔ وہ حجرہ تو اسی طرح تھا، جس طرح نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کے عہد مبارک میں تھا. کہ اس کا بعض حصہ چھت والا اور بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ [صحیح بخاری:522 و صحيح مسلم:611] میں ثابت ہے۔ كہ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا ہی بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی الله علیه وسلم جب عصر کی نماز ادا فرماتے، تو ابھی حجرہ مبارکہ میں دھوپ ہوتی تھی اور ابھی تک سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد ِنبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔(پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی) تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہو گیا۔ پھر حجرہ عائشہ ،جس میں نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبرمبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میں داخل ہوا جا سکے۔ جہاں تک سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کی حیات ِمبارکہ میں کسی کھڑکی کے ہونے کی بات ہے تو یہ واضح طور پر جھوٹ ہے۔‘‘[الردّ علی البکري، ص : 68-74]
اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے، تو اس سے توسل کی وہ صورت ثابت نہیں ہوتی جس کا اثبات بعض لوگ اس سے کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ،نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی ذات سے توسل نہیں کرتے تھے۔
© شیخ الاسلام، ابن تیمیه رحمه الله ہی فرماتے ہیں :
لَوْ صَحَّ ذٰلِکَ لَکَانَ حُجَّةً وَّدَلِیلًا عَلٰی أَنَّ الْقَوْمَ لَمْ یَکُونُوا یُقْسِمُونَ عَلَی اللّٰهِ بِمَخْلُوقٍ، وَّلَا یَتَوَسَّلُونَ فِي دُعَائِهمْ بِمَیِّتٍ، وَلَا یَسْاَلُونَ اللّٰہَ بِهٖ، وَإِنَّمَا فَتَحُوا عَلَی الْقَبْرِ لِتَنْزِلَ الرَّحْمَةُ عَلَیْهِ، وَلَمْ یَکُنْ ہُنَاکَ دُعَاء ٌ یُّقْسِمُونَ بِه عَلَیْهِ، فَأَیْنَ هذَا مِنْ هٰذَا ۔
’’اگر یہ روایت صحیح ہو، تو بھی اس بات پر دلیل بنے گی کہ صحابہ کرام نہ تو الله تعالیٰ کو مخلوق کی قسم دیتے تھے، نہ اپنی دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دیتے تھے، نہ الله تعالیٰ سے اس کے وسیلے سے مانگتے تھے۔ انہوں نے تو صرف اس قبر مبارک سے روشن دان کھولا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو۔انہوں نے وہاں کوئی دعا تو نہیں مانگی تھی، جس میں وہ کوئی وسیلہ پکڑتے۔ لہٰذا اس کا مسئلہ توسل سے کیا تعلق؟‘‘
[الردّ علی البکري، ص : 74]
یعنی یہ روایت فوت شدگان سے توسل لینے والوں کو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔
® ایک الزامی جواب :
اس روایت کا ایک الزامی جواب یہ بھی ہے کہ سیّدہ عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں:
وَمَنْ حَدَّثَکَ أَنَّه یَعْلَمُ الْغَیْبَ، فَقَدْ کَذَبَ، وَهوَ یَقُولُ : لاَ یَعْلَمُ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰه ۔
’’جوکوئی تمہیں بتائے کہ سیّدنا محمد صلی الله علیه وسلم غیب جانتے ہیں، وہ جھوٹا ہے، الله تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ غیب کی باتوں کو الله کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘
[صحیح البخاري : 7380، صحیح مسلم : 177]
سیّدہ عائشہ رضی الله عنہا کی یہ بات چونکہ قبوری مذہب کے خلاف ہے، اس لیے اس کے جواب میں بعض الناس نے لکھا ہے:
’’آپ رضی الله عنہا کا یہ قول اپنی رائے سے ہے، اس پر کوئی حدیث ِمرفوع پیش نہیں فرماتیں، بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں۔‘‘[جاء الحق‘‘ : 124/1]
ہم پوچھتے ہیں کہ سیّدہ عائشہ رضی الله عنہا کا علم غیب کے متعلق قول قبول نہیں، تو ان کا نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی قبر کے متعلق یہ قول کیوں قبول ہے؟جبکہ وہ اس پر بھی کوئی آیت و حدیث پیش نہیں فرما رہیں۔ اس پر سہاگہ یہ کہ یہ قول ثابت بھی نہیں ہے۔
(4)
سیدنا جابر بن عبداللّٰه رضی الله عنہما اور قبر نبی سے تبرک :
© محمد بن منکدر تابعی رحمه الله کی طرف منسوب ہے
رَأَیْتُ جَابِرًا رَّضِيَ اللّٰه عَنْه، وَھُوَ یَبْکِي عِنْدَ قَبْرِ رَسُولِ اللّٰه صَلَّی اللّهُ عَلَیْه وَسَلَّمَ، وَھُوَ یَقُولُ : ھٰھُنَا تُسْکَبُ الْعَبَرَاتُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْه وَسَلَّمَ یَقُولُ : ’مَا بَیْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّة‘ ".
’’میں نے سیّدنا جابر رضی الله عنه کو نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک کے پاس روتے دیکھا۔ وہ فرما رہے تھے: آنسو بہانے کی جگہ یہی ہے۔ میں نے رسول الله صلی الله علیه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : کہ میری قبر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔ ‘‘[شعب الإیمان للبیهقي : 3866]-وسنده ضعيف
© تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ :
√ اس سند میں امام بیهقی رحمه الله کا استاذ "محمد بن حسین ابوعبد الرحمن سلمی" ’’ضعیف‘‘ ہے۔
√ اس کے بارے میں امام ذهبی رحمه الله فرماتے ہیں :
تَکَلَّمُوا فِیهِ، وَلَیْسَ بِعُمْدَۃٍ ۔
’’محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے، یہ قابل اعتماد شخص نہیں تھا۔‘‘
[میزان الاعتدال في نقد الرجال : 523/3]
√ امام ذهبي نے ایک اور مقام پر ’’ضعیف‘‘ بھی کہا ہے۔[تذکرۃ الحفّاظ : 166/3]
√ امام ابن حجر رحمه الله نے بھی اس پر جرح کی ہے۔
[الإصابة في تمییز الصحابة : 252/2]
√ امام محمد بن یوسف قطان، نیشاپوری رحمه الله فرماتے ہیں :
غَیْرُ ثِقَة، وَکَانَ یَضَعُ لِلصُّوفِیَة الْـأَحَادِیثَ ۔
’’یہ قابل اعتبار شخص نہیں تھا اوریہ صوفیوں کے لیے روایات گھڑتا تھا۔‘‘
[تاریخ بغداد للخطیب : 247/2]-وسندہ صحیح
2 اس روایت کے مرکزی راوی "محمد بن یونس بن موسیٰ کُدَیمی" کے بارے میں :
√ امام ابن عدی رحمه الله فرماتے ہیں :
اُتُّھِمَ بِوَضْعِ الْحَدِیثِ وَبِسَرِقَتِه ۔
’’محدثین کرام اس پر حدیث گھڑنے اور چوری کرنے جرح کرتے ہیں۔‘‘
[الکامل في ضعفاء الرجال : 292/6]
√ امام ابن حبان رحمه الله فرماتے ہیں :
وَکَانَ یَضَعُ عَلَی الثِّقَاتِ الْحَدِیثَ وَضْعًا، وَلَعَلّهٗ قَدْ وَضَعَ أَکْثَرَ مِنْ أَلْفِ حَدِیثٍ ۔
’’یہ شخص ثقة راویوں سے منسوب کر کے خود حدیث گھڑ لیتا تھا۔ شاید اس نے ایک ہزار سے زائد احادیث گھڑی ہیں۔‘‘[کتاب المجروحین لابن حبان : 313/2]
√ امام دارقطنی رحمه الله نے اسے ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔
[سؤالات الحاکم للدارقطني : 173]
√ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
کَانَ الْکُدَیْمِيُّ یُتَّھَمُ بِوَضْعِ الْحَدِیثِ ۔
’’کُدَیمی پر حدیث گھڑنے کا الزام تھا۔ ‘‘[سؤالات السھمي للدارقطني : 74]
√ امام ابوحاتم رازی رحمه الله کے سامنے اس کی ایک روایت پیش کی گئی، تو انہوں نے فرمایا:
لَیْسَ ھٰذَا حَدِیثٌ مِّنْ أَھْلِ الصِّدْقِ ۔
’’یہ سچے آدمی کی بیان کردہ حدیث نہیں۔ ‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 122/8]
√ امام ذهبی رحمه الله فرماتے ہیں :
أَحَدُ الْمَتْرُوکِینَ ۔
’’یہ ایک متروک راوی ہے۔ ‘‘
[میزان الاعتدال فی نقد الرجال للذهبي :74/4، ت :8353]
√ امام ابن حجر رحمه الله نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے".
[تقریب التھذیب : 6419]
(5)
سیدنا بلال رضی الله عنه اور قبر نبی سے تبرک :
قَالَ ابْنُ عَسَاکِرٍ : أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ الْـأَکْفَانِيِّ : نَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَحْمَدَ : أَنَا تَمَّامُ بْنُ مُحَمَّدٍ : نَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ : نَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَیْضِ : نَا أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالِ بْنِ أَبِي الدَّرْدَائِ : حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ أَبِیهِ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، قَالَ : إِنَّ بِلَالًا رَاٰی فِي مَنَامِهِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْه وَسَلَّمَ، وَهُوَ یَقُولُ لَه : مَا هذِہِ الْجَفْوَۃُ یَا بِلَالُ، أَمَا اٰنَ لَکَ أَنْ تَزُورَنِي یَا بِلَالُ ؟ فَانْتَبَه حَزِینًا وَّجِلًا خَائِفًا، فَرَکِبَ رَاحِلَتَه وَقَصَدَ الْمَدِینَةَ، فَاَتٰی قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ یَبْکِي عِنْدَہٗ، وَیُمَرِّغُ وَجْهه عَلَیْه، وَأَقْبَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ، فَجَعَلَ یَضُمُّهمَا وَیُقَبِّلُهمَا، فَقَالَا لَهٗ : یَا بِلَالُ، نَشْتَهي نَسْمَعُ أَذَانَکَ الَّذِي کُنْتَ تُؤَذِّنُهٗ لِرَسُولِ اللّٰه صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ فِي السَّحَرِ، فَفَعَلَ، فَعَلَا سَطْحَ الْمَسْجِدِ، فَوَقَفَ مَوْقِفَه الَّذِي کَانَ یَقِفُ فِیهِ، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : اللّٰهُ أَکْبَرُ، اللّٰه أَکْبَرُ، ارْتَجَّتِ الْمَدِینَة، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : أَشْهدُ أَنْ لَّا إِلٰه إِلَّا اللّٰه، زَادَ تَعَاجِیجُها، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : أَشْهدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰه، خَرَجَ الْعَوَاتِقُ مِنْ خُدُورِہِنَّ، فَقَالُوا : أَبُعِثَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا رُئِيَ یَوْمٌ أَکْثَرَ بَاکِیًا وَّلَا بَاکِیَة بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذٰلِکَ الْیَوْمِ ۔
’’سیّدنا ابو دردا رضی الله عنه سے منسوب ہے کہ سیّدنا بلال رضی الله عنه نے خواب میں الله کے رسول صلی الله عليه وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی الله علیه وسلم نے ان سے فرمایا: اے بلال! یہ کیا بے رُخی ہے؟ کیا تمہارے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری زیارت کرو؟ اس پر سیّدنا بلال رضی الله عنه گھبرائے ہوئے بیدار ہوئے۔ انہوں نے اپنی سواری کا رخ مدینہ منورہ کی طرف کرلیا۔ نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک پر پہنچے اور اس کے پاس رونا شروع کر دیا۔ اپنا چہرہ اس پر ملنے لگے۔ سیّدنا حسن و حسین رضی الله عنہما ادھر آئے، تو سیّدنا بلال رضی الله عنہ نے انہیں سینے سے لگایا اور ان کو بوسہ دیا۔ ان دونوں نے سیّدنا بلال رضی الله عنه سے کہا: ہم آپ کی وہ اذان سننا چاہتے ہیں، جو آپ مسجد میں رسول الله صلی الله علیه وسلم کے لیے کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ہاں کر دی۔ مسجد کی چھت پر چڑھے اور اپنی اس جگہ کھڑے ہو گئے جہاں دورِ نبوی میں کھڑے ہوتے تھے۔ جب انہوں نے اَللّٰه أَکْبَرُ، اللّٰه أَکْبَرُکہا، تو مدینہ (رونے کی آواز سے) گونج اٹھا۔پھر جب انہوں نے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰه إِلَّا اللّٰهُ کہا، تو آوازیں اور زیادہ ہو گئیں۔ جب وہ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰهِ پر پہنچے، تو دوشیزائیں اپنے پردوں سے نکل آئیں اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے: کیا رسول الله صلی الله علیه وسلم دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں؟ رسول الله صلی الله علیه وسلم کے بعد کسی نے مدینہ میں مَردوں اور عورتوں کے رونے والا اس سے بڑا دن کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
[تاریخ دمشق لابن عساکر : 137/7]
® تبصرہ :
یہ گھڑنتل ہے، جیسا کہ :
√ امام ابن حجر رحمه الله فرماتے ہیں:
وَھِيَ قِصة بَیِّنَة الْوَضْعِ ۔
’’یہ داستان واضح طور پر کسی کی گھڑنتل ہے۔‘‘[لسان المیزان : 108/1]
√ علامه ابن عبد الهادی رحمه الله فرماتے ہیں:
ھٰذَا الْـأَثَرُ الْمَذْکُورُ عَنْ بِلَالٍ؛ لَیْسَ بِصَحِیحٍ ۔
’’سیّدنا بلال رضی الله عنه سے منسوب مذکورہ روایت ثابت نہیں۔‘‘
[الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314]
√ امام ذهبی رحمه الله فرماتے ہیں:
إِسْنَادُہ لَیِّنٌ، وَھُوَ مُنْکَرٌ ۔
’’اس کی سند کمزور ہے اور یہ روایت منکر ہے۔‘‘[سیر أعلام النبلاء : 358/1]
√ امام ابن عراق کنانی رحمه الله کہتے ہیں :
وَھِيَ قِصَّة بَیِّنةُ الْوَضْعِ ۔
’’یہ قصہ مبینہ طور پر گھڑا ہواہے۔‘‘[تنزیه الشریعة : 59]
اس روایت کی سند میں کئی خرابیاں هیں۔تفصیل یہ ہے :
(1) ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال کے بارے میں حافظ ذهبی رحمه الله لکھتے ہیں کہ یہ ’’مجہول‘‘(نامعلوم) ہے۔[تاریخ الإسلام : 67/17]
√ اور فرماتے ہیں :
فِیه جَھَالَة۔
’’یہ نامعلوم راوی ہے۔‘‘[میزان الاعتدال : 64/1، ت : 205]
√ حافظ ابن عبد الهادی رحمه الله کہتے ہیں:
ھٰذَا شَیْخٌ لَّمْ یُعْرَفْ بِثِقَةٍ وَّأَمَانَةٍ، وَلَا ضَبْطٍ وَّعَدَالَة، بَلْ ھُوَ مَجْھُولٌ غَیْرُ مَعْرُوفٍ بِالنَّقْلِ، وَلَا مَشْھُورٍ بِالرِّوَایَةِ، وَلَمْ یَرْوِ عَنْه غَیْرُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَیْضِ، رَوٰی عَنْهُ ھٰذَا الْـأَثَرَ الْمُنْکَرَ ۔
’’یہ ایسا راوی ہے، جس کی امانت و دیانت اور ضبط و عدالت معلوم نہیں۔ یہ مجہول ہے اور نقل روایت میں غیرمعروف ہے۔ یہ روایت میں بھی مشہور نہیں۔ اس (نامعلوم مجہول راوی) سے محمدبن فیض کے علاوہ کسی نے (کوئی) روایت (بیان) نہیں کی اور اس نے بھی یہ منکر قصہ اسی (نامعلوم) سے (ہی) روایت کیا ہے۔‘‘[الصارم المنکي، ص : 314]
(2) اس روایت کے دوسرے راوی سلیمان بن بلال بن ابو دردا کے بارے میں حافظ ابن عبد الهادی رحمه الله فرماتے ہیں:
بَلْ ھُوَ مَجْھُولُ الْحَالِ، وَلَمْ یُوَثِّقْه أَحَدٌ مِّنَ الْعُلَمَائِ، فِیمَا عَلِمْنَاہُ ۔
’’یہ مجہول الحال شخص ہے۔ہمارے علم کے مطابق اسے کسی ایک بھی عالم نے معتبر قرار نہیں دیا۔‘‘[لصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314]
(3) سلیمان بن بلال کا سیّدہ ام دردا رضی الله عنہا سے سماع بھی ثابت نہیں، یوں یہ روایت ’’منقطع‘‘ بھی ہے، جیسا کہ :
√ علامه ابن عبد الهادی رحمه الله فرماتے ہیں:
وَلَا یُعْرَفُ لَه سَمَاعٌ مِّنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ ۔
’’اس کا سیّدہ ام دردا رضی الله عنہا سے سماع بھی معلوم نہیں ہو سکا۔‘‘
[الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314]
√ علامه ابن عبد الہادی رحمه الله اس روایت کے بارے میں آخری فیصلہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَھُوَ أَثَرٌ غَرِیبٌ مُّنْکَرٌ، وَإِسْنَادُہٗ مَجْھُولٌ، وَفِيهِ انْقِطَاعٌ ۔
’’یہ روایت غریب اور منکر ہے۔اس کی سند مجہول ہے اور اس میں انقطاع بھی ہے۔‘‘[الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 314]
تنبیہ :
√ حافظ ذهبی رحمه الله لکھتے ہیں :
إِسْنَادُہٗ جَیِّدٌ، مَا فِیهِ ضَعِیفٌ، لٰکِنْ إِبْرَاھِیمُ ھٰذَا مَجْھُولٌ ۔
’’اس کی سند جید ہے۔اس میں کوئی ضعیف راوی نہیں، البتہ یہ ابراہیم نامی راوی مجہول ہے۔‘‘[تاریخ الإسلام : 373/5، بتحقیق بشّار، وفي نسخة : 67/17]
یہ علامہ ذهبی رحمه الله کا علمی تسامح ہے۔ جس روایت کی سند میں دو راوی ’’مجہول‘‘ هوں اور اس کے ساتھ ساتھ ’’انقطاع‘‘ بھی ہو، وہ جید کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر خود انہوں نے اپنی دوسری کتاب [سیر أعلام النبلاء : 358/1] میں اسى روایت کی سند کو کمزور اور اس روایت کو ’’منکر‘‘ بھی قرار دے رکھا ہے، جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔
اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمه الله وغیرہ کی بات درست ہے کہ یہ قصہ جھوٹا اور من گھڑت ہے۔ یہ ان ’’مجہول‘‘ راویوں میں سے کسی کی کارروائی ہے۔
(6)
سیدنا ابو ایوب رضی الله عنه اور قبر نبی سے تبرک :
دائود بن ابي صالح الحجازی (مجهول العين) کا بیان ہے :
أَقْبَلَ مَرْوَانُ یَوْمًا، فَوَجَدَ رَجُلًا وَّاضِعًا وَجْهه عَلَی الْقَبْرِ، فَقَالَ : أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَیْهِ، فَإِذَا هوَ أَبُو اَیُّوبَ، فَقَالَ : نَعَمْ، جِئْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰه صَلَّی اللّٰه عَلَیهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : لَا تَبْکُوا عَلَی الدِّینِ إِذَا وَلِیهٗ أَهلُهٗ، وَلٰکِنِ ابْکُوا عَلَیْه إِذَا وَلِیَه غَیْرُ أَهلِه ۔
’’ایک دن مروان آیا، تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے تھا۔ مروان نے کہا:تمہیں معلوم ہے کہ کیا کر رہے ہو؟ اس شخص نے مروان کی طرف اپنا چہرہ موڑا،تو وہ سیّدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ تھے۔انہوں نے فرمایا:ہاں!مجھے خوب معلوم ہے۔میں رسولِ اکرم صلی الله علیه وسلم کے پاس آیا ہوں، پتھر پر نہیں۔میں نے آپ صلی الله علیه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جب دین کا والی کوئی دین دار شخص بن جائے، تو اس پر نہ رونا۔ اس پر اس وقت رونا جب اس کے والی نا اہل لوگ بن جائیں۔‘‘
[مسند الإمام أحمد : 422/5، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 515/4]
© تبصرہ :
اس روایت کی سند ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ اس کے راوی داؤد بن ابی صالح حجازی کے بارے میں:
√ علامه ذهبی رحمه الله لکھتے ہیں :
لَا یُعْرَفُ ۔
’’میں اسے نہیں جانتا۔‘‘[میزان الاعتدال : 9/2]
√ امام ابن حجر رحمه الله اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
مَقْبُولٌ ۔
’’یہ مجهول الحال شخص ہے۔‘‘[تقریب التہذیب : 1792]
تنبیہ: "مقبول کا ترجمعہ مجھول اسی لیئے کیا ھے کیونکہ امام ابن حجر مجھول راویوں کے بارے میں اكثر "مقبول" کے ریمارکس دیتے ہیں۔ اور امام ابن حجر کی نزدیک ایسے (نامعلوم عدالت) راوی کی روایت کچھ شرائط کے ساتھ مقبول ھوتی ھے".
آئیے ہم آپ کو "مقبول" کی اصطلاح امام ابن حجر ہی سے سمجھا دیتے ہیں۔
مقبول یہ حافظ ابن حجررحمه الله کی اپنی اصلاح ہے اور اس سے کیا مراد ہے یہ خود حافظ ابن حجر رحمه الله نے بیان کردیاہے چنانچہ:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
السادسة: من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الإشارة بلفظ: مقبول، حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم ص 1]۔
یعنی حافظ موصوف اُس راوی کو مقبول کہتے ہیں جس کی حدیث بہت کم ہو اور اس کی جرح ثابت نہ ہو ، اورمقبول سے مراد ایک مشروط مقبولیت ہے اوروہ یہ کہ اس طرح کے راوی کی اگر متابعت مل گئی تو یہ راوی مقبول ہے ورنہ لین الحدیث شمار ہوگا۔
معلوم ہواکہ ’’مقبول‘‘ یہ حافظ ابن حجر رحمه الله کی نظر میں توثیق کا صیغہ نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله کی اپنی اصلاح سے متعلق خود اپنی وضاحت سامنے آنے کے بعد عصر حاضر کے ان مقالات کی کوئی حیثیت نہیں ہے جن میں مقبول کو ثقة کے معنی میں لیا گیا ہے ، اصولی طور پر کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کے قائل کی مراد کے خلاف اس کے قول کی تشریح کرے اہل علم میں یہ قاعدہ عام ہے لایجوز تفسیرالقول بما لایرضی به القائل.
√ اسی روایت کا دوسرا راوی "کثیر بن زید" ھے جو قولِ راجح میں ضعیف ہے۔ اگر اسے ضعیف تسلیم نہ بھی کیا جائے۔ تب بھی یہ صرف صدوق اور کثیر الخطاء رہے گا۔ اور اس کی منفرد روایت رد کی جائے گی۔
√ امام نسائی فرماتے ہیں:
٥٠٥ - كثير بن زيد ضعيف
یہ ضعیف ہے".
[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص89]
√ امام ذھبی فرماتے ہیں:
٣٤٧١ - كثير بن زيد الأسلمي المدني: ضعفه النسائي وغيره. -ق-
کثیر بن زید کو امام نسائی اور دیگر ائمہ نے ضعیف قرار دیا ہے".
[ديوان الضعفاء للذهبي: ص330]
√ امام ابن حجر فرماتے ہیں:
٥٦١١- كثير ابن زيد الأسلمي صدوق يخطىء
یہ صدوق ہے اور خطاء کرتا ہے".
[تقريب التهذيب: ص459]
√ امام ابو زرعة الرازی فرماتے ہیں:
٥٨٩- (زدت ق) كثير بن زيد الأسلمي : "صدوق فيه لين"
یہ صدوق ہے لیکن اس میں کمزوری ہے".
[الضعفاء لأبي زرعة الرازي: ج3، ص925]
√ امام ابن حبان فرماتے ہیں:
٨٩٤ - كثير بن زيد____كان كثير الخطأ على قلة روايته لا يعجبني الاحتجاج به إذا انفرد".
کثیر بن زید اپنی تھوڑی روایات کے باوجود بہت زیادہ خطائیں کرنے والا تھا اور جب یہ راوی کسی روایت کو بیان کرنے میں اکیلا ہو تو اسے حجت بنانا درست نہیں".
[المجروحين لابن حبان: 2، ص222]
√ امام ابن حبان نے مزید فرمایا:
سمعت الحنبلي يقول سمعت أحمد بن زهير يقول سئل يحيى بن معين عن كثير بن زيد فقال ليس بذاك القوي وكان قال لا شيء ثم ضرب عليه
امام یحیی ابن معین سے کثیر بن زید کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
یہ قوی نہیں، اور کہا کہ یہ کوئی چیز نہیں (حدیث میں) پھر اس کی مثال دی".
[المجروحين لابن حبان: 2، ص222]
√ امام ابن أبي حاتم فرماتے ہیں:
نا عبد الرحمن قال سئل ابى عن كثير بن زيد فقال صالح (ليس بالقوى - ١) يكتب حديثه،
یہ کثیر بن زید صالح ہے لیکن قوی راوی نہیں ہے۔ اس کی حدیث (صرف) لکھی جائے گی".
[الجرح وتعديل لابن أبي حاتم: ج7، ص151]
کچھ لوگوں کا کہنا ھے کہ۔ امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے
عرض یہ ھے کہ امام حاکم کا کسی روایت کو صحیح کہنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ علم الحدیث کو بچوں کو بھی اس بات کا علم ہے کہ امام حاکم متساہل ہیں۔
اس کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
(1) سب سے پہلی مثال تو یہ ہے کہ، امام حاکم کی اسی کتاب "المستدرك" پر امام الذھبی نے "تلخیص المستدرك" لکھی، تا کہ امام حاکم کی اس کتاب سے صحیح و موضوع (من گھڑت) روایات کو الگ کردیا جائے۔ جن کو امام حاکم نے اپنے تساہل کی وجہ سے صحیح کہہ رکھا تھا۔
(2) امام حاکم نے ایک اپنی کتاب المستدرك میں ایک روایت نقل کرنے کے بعد کہا: ھذا حدیث صحیح الأسناد۔ یعنی یہ حدیث صحیح الاسناد ہے".
لیکن تعجب کی بات یہ ھے کہ، اسی روایت میں موجود، ایک راوی "عبدالرحمن بن زید بن اسلم” کے متعلق خود امام حاکم نے اپنی دوسری کتاب میں لکھا:
عبد الرَّحْمَن بن زيد بن أسلم روى عَن أَبِيه أَحَادِيث مَوْضُوعَة__
کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا".
[المدخل للحاکم: 1/154]
اور جس روایت کو امام حاکم نے صحیح کہا تھا۔ وہ روایت بھی "عبد الرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے باپ سے روایت کی تھی۔
اب ایک طرف تو اس کی “عن ابیه” سے مروی روایات کو خود امام حاکم موضوع قرار دیں۔ اور پھر خود ہی اس روایت کو صحیح السند کہہ دیں۔ یہ صریح تساہل نہیں تو اور کیا ہے؟
(3) امام حاکم کے اسی تساہل کی نشاندہی امام ذھبی نے ان الفاظ میں کی ہے:
ان في المستدرك أحاديث كثيرة ليست على شرط الصحة بل فيه أحاديث موضوعة شان المستدرك بإخراجها فيه__
[تذکرۃ الحفاظ : 3/1042]
”بلاشبہ المستدرک میں بکثرت ایسی احادیث موجود ہیں جو صحیح حدیث کی شرط کے مطابق نہیں بلکہ اس میں موضوع احادیث بھی ہیں جن کا تذکرہ مستدرک پر ایک دھبہ ہے۔”
(4) امام ابن حجر نے، امام حاکم کی تصیح پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:
ومن العجيب ما وقع للحاكم أنه أخرج لعبد الرحمن بن زيد بن أسلم. وقال بعد روايته:
“هذا صحيح الإسناد، وهو أول حديث ذكرته لعبد الرحمن”. مع أنه قال في كتابه الذي جمعه في الضعفاء:
“عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه”. فكان هذا من عجائب ما وقع له من التساهل والغفلة.
“اور یہ عجیب بات ہے کہ امام حاکم نے عبد الرحمٰن بن زید کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا :
کہ"یہ روایت صحیح الاسناد ہے اور یہ عبد الرحمٰن کی ذکر کردہ پہلی روایت ہے۔ باوجود اس کے، کہ اپنی کتاب، جس میں حاکم نے الضعفاء کو جمع کیا ، میں کہا: کہ"یہ راوی اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ لہذا غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے".
پھر امام ابن حجر کہتے ہیں : یہ امام حاکم کے ان عجائب میں سے ہے جو اُن سے تساہل اور غفلت کی بنا پر ہوا “۔
[النکت 1/318-319]
√ امام ذھبی نے فرمایا:
امام صدوق لکنه يصحح في المستدركة أحاديث ساقطه__
امام حاکم صدوق امام تھے لیکن وہ اپنی کتاب "المستدرك" میں ساقط روایات کو صحیح کہہ دیتے تھے".
[میزان الاعتدال: ج3، ص207]
√ سیوطی فرماتے ہیں:
امام حاکم کی غفلت کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے کتاب کا مسود تیار کیا اور نظر ثانی سے پہلے انکا انتقال ہو گیا ۔ یعنی اسے دوبارہ پڑھ کر اغلاط کا سد باب نہ کر سکے۔ایک اور وجہ امام حاکم کا تاہل بھی ہے ۔ یونی وہ روایات پر حکم صحت نافذ کرنے میں تساہل سے کام لیا کرتے تھے یعنی جو روایت صحیح نہ ہوتی اس کو بھی صحیح قرار دے دیتے تھے.
[تدريب الراوي: ص26]
ثابت ھوا کہ امام حاکم حدیث پر حکم لگانے کے سلسلے میں متساہل تھے۔
© بعض لوگ ایک اعتراض اور کرتے ہیں۔ کہ ابو ایوب انصاری رضی الله عنه والی، المستدرک کی اِسی روایت کو امام ذھبی نے تلخیص المستدرک میں صحیح کہا ہے۔
√ الجواب: عرض ھے کہ یہ امام ذھبی کا وھم ھے۔ یا پھر خطاء ہے۔ جس کی دلیلیں پیشِ خدمت ہیں۔
(1) امام ذھبی نے میزان الاعتدال میں اسی روایت کے (مجھول العین) روای "داود بن ابی صالح کے ترجمے میں کہا:
٢٦١٧ - داود بن أبي صالح، حجازى. لا يعرف، له عن أبي أيوب الأنصاري، روى عنه الوليد بن كثير فقط
داؤد بن ابی صالح حجازی، میں نہیں جانتا (کہ یہ کون ہے؟) ابو ایوب انصاری سے روایت کی ہے، اور اِس داؤد سے صرف "الولید بن کثیر" نے روایت کی ہے"
[ميزان الاعتدال: ج2، ص9]
★ ثابت ھوا کہ امام ذھبی نے اس روایت کے راوی کو خود ہی مجھول (یعنی نامعلوم) کہہ رکھا ھے۔
امام ذھبی کے وھم کی دلیل
★ امام ذھبی نے کہا: کہ داؤد بن ابی صالح (مجھول العین) سے صرف "الولید بن کثیر" ہی نے روایت کی ھے۔
جبکہ داؤد بن ابی صالح سے کسی بھی "الولید بن کثیر" نے کبھی کوئی روایت کی ہی نہیں ہے۔
اور حقیقی بات یہ ھے کہ، داؤد بن ابی صالح، سے صرف اور صرف "کثیر بن زید" نے یہی ایک اکلوتی روایت کر رکھی ہے۔
یعنی یہ امام ذھبی کا وھم تھا، کہ کثیر بن زید کو ولید بن کثیر سمجھ لیا". اور غالباً اسی وھم کی بناء پر روایت کی تصحیح کردی۔
پھر مزے کی بات یہ ہے۔ کہ داؤد بن ابی صالح بلکل ہی مجھول العین راوی ہے۔ اسکے بارے میں اسماء الرجال کی کتابوں میں نہ کوئی جرح ملتی ہے نہ تعدیل ملتی ہے۔
اور سوائے "کثیر بن زید" کے کسی بھی راوی نے داؤد بن ابی صالح سے کوئی روایت بیان نہیں کی،
اور خود، کثیر بن زید نے بھی صرف اور صرف یہی ایک ہی روایت بیان کی ہے اسی داؤد بن ابی صالح سے۔
اور یہ بات اوپر وضاحت کے ساتھ ثابت کی جاچکی ہے۔ کہ کثیر بن زید خود بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔
تنبیہ: خود امام ذھبی رحمه الله نے بھی "کثیر بن زید" کو اپنی کتاب الضعفاء میں درج کرکے محدثین سے تضعیف نقل کی ہے۔ اور کوئی دفاع نہیں کیا اس کا۔ ملاحظہ ہو۔
٣٤٧١ - كثير بن زيد الأسلمي المدني: ضعفه النسائي وغيره. -ق-
کثیر بن زید، امام نسائی اور دیگر ائمہ نے اسے ضعیف قرار دیا ھے".
[ديوان الضعفاء للذهبي: ص330]
لہذا ثابت ھوا کہ اسی روایت کے دونوں راویوں پر ، دیگر ائمہ کے ساتھ ساتھ ، خود امام ذھبی کی بھی جرح موجود ھے۔ تو امام ذھبی کا اس روایت کو صحیح کہہ دینا اُنکا وھم ھے۔ یا پھر خطا ہے۔
ایک اہم بات:
√ داود بن ابی صالح (نامعلوم عدالت) کی مروان بن الحکم اور سیدنا ابو ایوب انصاری رضی الله عنه سے لقاء وسماع کی بھی کوئی دلیل نہیں۔
یوں یہ روایت کثیر بن زید، کثیر الخطاء کی خطاء اور داؤد بن ابی صالح (نامعلوم مجھول) کی جہالت کے ساتھ ساتھ منقطع بھی ہے
جاری ھے