• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبر کے عذاب سے پناہ مانگنا

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : قبر کے عذاب سے پناہ مانگنا

حدیث نمبر : 1375
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، حدثنا شعبة، قال حدثني عون بن أبي جحيفة، عن أبيه، عن البراء بن عازب، عن أبي أيوب ـ رضى الله عنهم ـ قال خرج النبي صلى الله عليه وسلم وقد وجبت الشمس، فسمع صوتا فقال ‏"‏ يهود تعذب في قبورها‏"‏‏. ‏وقال النضر: أخبرنا شعبة: حدثنا عون: سمعت أبي: سمعت البراء، عن أبي أيوب رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے‘ کہا ہم سے شعبہ نے‘ کہا کہ مجھ سے عون بن ابی حجیفہ نے بیان کیا‘ ان سے ان کے والد ابو حجیفہ نے‘ ان سے براءبن عازب نے اور ان سے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر تشریف لے گئے‘ سورج غروب ہوچکا تھا‘ اس وقت آپ کو ایک آواز سنائی دی۔ ( یہودیوں پر عذاب قبر کی ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودی پر اس کی قبر میں عذاب ہورہا ہے۔ اور نضربن شمیل نے بیان کیاکہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ ان سے عون نے بیان کیا‘ انہوں نے اپنے باپ ابوحجیفہ سے سنا‘ انہوں نے براءسے سنا‘ انہوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

حدیث نمبر : 1376
حدثنا معلى، حدثنا وهيب، عن موسى بن عقبة، قال حدثتني ابنة خالد بن سعيد بن العاص، أنها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يتعوذ من عذاب القبر‏.‏
ہم سے معلٰی بن اسد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا‘ ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے خالد بن سعید بن عاص کی صاحبزادی ( ام خالد ) نے بیان کیا‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے سنا۔

حدیث نمبر : 1377
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو ‏"‏ اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر، ومن عذاب النار، ومن فتنة المحيا والممات، ومن فتنة المسيح الدجال‏"‏‏. ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے بیان کیا‘ ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا کرتے تھے “ اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دوزخ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے اور کانے دجال کی بلا سے تیری پناہ چاہتاہوں۔ ”

تشریح : عذاب قبر کے بارے میں علامہ شیخ سفارینی الاثری اپنی مشہور کتاب لوامع انوار البہیۃ میں فرماتے ہیں۔ ومنہاای الامور التی یجب الایمان بہا وانہا حق لا ترد عذاب القبر قال الحافظ جلال الدین السیوطی فی کتابہ “شرح الصدور فی احوال الموتی والقبور” قد ذکراللہ عذاب القبر فی القرآن فی عدۃ اماکن کما بینتہ فی الاکلیل فی اسرار التنزیل انتہی قال الحافظ ابن رجب فی کتابہ “اموال القبور” فی قولہ تعالیٰ ( فلولا اذا بلغت الحلقوم الی قولہ ان ہذا لہو الحق المبین ) عن عبدالرحمن بن ابی لیلی قال تلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہذہ الایات قال اذا کان عند الموت قیل لہ ہذا فان کان من اصحاب الیمین احب لقاءاللہ واحب اللہ لقاءوان کان من اصحاب الشمال کرہ لقاءاللہ وکرہ اللہ لقاءہ۔

وقال الامام المحقق ابن القیم فی کتاب الروح قول السائل ما الحکمۃ فی ان عذاب القبر لم یذکر فی القران صریحا مع شدۃ الحاجۃ الی معرفتہ والایمان بہ لیحذرہ الناس ویتقی فاجاب عن ذلک بوجہین مجمل ومفصل اماالمجل فان اللہ تعالیٰ نزل علی رسولہ وحیین فاوجب علی عبادہ الایمان بہما والعمل بما فیہما وہما الکتاب والحکمۃ قال تعالیٰ وانزل علیک الکتاب والحکمۃ وقال تعالیٰ ہوالذی بعث فی الامیین رسولا منہم الی قولہ ویعلمہم الکتاب والحکمۃ وقال تعالیٰ واذکرن مایتلیٰ فی بیوتکن الایۃ۔ والحکمۃ ہی السنۃ باتفاق السلف وما اخبر بہ الرسول عن اللہ فہو فی وجوب تصدیقہ والایمان بہ کما اخبربہ الرب علے لسان رسولہ فہذا اصل متفق علیہ بین اہل الاسلام لا ینکرہ الامن لیس منہم وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انی اوتیت الکتاب ومثلہ معہ قال المحقق واما الجواب المفصل فہوان نعیم البرزخ وعذابہ مذکور فی القران مواضع منہا قولہ تعالیٰ ولو تری اذ الظلمون فی غمرات الموت الایۃ وہذا خطاب لہم عند الموت قطعا وقد اخبرت الملائکۃ وہم الصادقون انہم حینئذ یجزون عذاب الہون بماکنتم تقولون علی اللہ غیرالحق وکنتم عن آیاتہ تستکبرون ولوتاخر عنہم ذلک الی انقضاءالدنیا لما صح ان یقال لہم الیوم تجزون عذاب الہون وقولہ تعالیٰ فوقاہ اللہ سیئات مامکروا الی قولہ یعرضون علیہا غدوا وعشیا الایۃ فذکر عذاب الدارین صریحا لا یحتمل غیرہ ومنہا قولہ تعالیٰ فذرہم حتی یلاقوا یومہم الذی فیہ یصعقون۔ یوم لا یغنی عنہم کیدہم شیئا ولاہم ینصرون انتہیٰ کلامہ۔
واخرج البخاری من حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدعوا اللہم انی اعوذبک من عذاب القبرو اخرج الترمذی عن علی رضی اللہ عنہ انہ قال مازلنا فی شک من عذاب القبر حتی نزلت الہکم التکاثر حتی زرتم المقابر وقال ابن مسعود اذا مات الکافر اجلس فی قبرہ فیقال لہ من ربک وما دینک فیقول لا ادری فیضیق علیہ قبرہ ثم قرا ابن مسعود فان لہ معیشۃ ضنکا قال المعیشۃ الضنک ہی عذاب القبر وقال البراءبن عازب رضی اللہ عنہ فی قولہ تعالیٰ ولنذیقنہم من العذاب الادنیٰ دون العذاب الاکبر قال عذاب القبر وکذا قال قتادۃ والربیع بن انس فی قولہ تعالیٰ سنعذبہم مرتین احدھما فی الدنیا والاخریٰ عذاب القبر۔
اس طویل عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ عذاب قبر حق ہے جس پر ایمان لانا واجب ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ تفصیلی ذکر حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب “شرح الصدور” اور “اکلیل فی اسرار التنزیل” میں موجود ہے۔ حافظ ابن رجب نے اپنی کتاب “احوال القبور” میں آیت شریفہ فَلَولاَ اِذَا بَلَغَتِ الحُلقُومَ ( الواقعہ: 83 ) کی تفسیر میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کو تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ جب موت کا وقت آتا ہے تو مرنے والے سے یہ کہا جاتا ہے۔ پس اگر وہ مرنے والا دائیں طرف والوں میں سے ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور اگر وہ مرنے والا بائیں طرف والوں میں سے ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے اور اللہ پاک اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے۔

اور علامہ محقق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں لکھا ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ اس امر میں کیا حکمت ہے کہ صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں عذاب قبر کا ذکر نہیں ہے حالانکہ یہ ضروری تھا کہ اس پر ایمان لانا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو اس سے ڈر پیدا ہو۔ حضرت علامہ نے اس کا جواب مجمل اور مفصل ہردو طور پر دیا۔ مجمل تو یہ دیا کہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دو قسم کی وحی نازل کی ہے اور ان دونوں پر ایمان لانا اور ان دونوں پر عمل کرنا واجب قرار دیا ہے اور وہ کتاب اور حکمت ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی کئی آیات میں موجود ہے اور سلف صالحین سے متفقہ طور پر حکمت سے سنت ( حدیث نبوی ) مراد ہے اب عذاب قبر کی خبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح احادیث میں دی ہے۔ پس وہ خبر یقینا اللہ ہی کی طرف سے ہے جس کی تصدیق واجب ہے اور جس پر ایمان رکھنا فرض ہے۔ ( جیسا کہ رب تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان حقیقت ترجمان سے صحیح احادیث میں عذاب قبر کے متعلق بیان کرایا ہے ) پس یہ اصول اہل اسلام میں متفقہ ہے اس کا وہی شخص انکار کرسکتا ہے جو اہل اسلام سے باہر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار رہو کہ میں قرآن مجید دیا گیا ہوں اور اس کی مثال ایک اور کتاب ( حدیث ) بھی دیا گیا ہوں۔
پھر محقق علامہ ابن قیم نے تفصیلی جواب میں فرمایا کہ برزخ کا عذاب قرآن مجید کی بہت سی آیات سے ثابت ہے اور برزخ کی بہت سی نعمتوں کا بھی قرآن مجید میں ذکر موجود ہے۔ ( یہی عذاب وثواب قبر ہے ) ان آیات میں سے ایک آیت وَلَوتَرٰی اِذِالظّٰلِمُونَ فِی غَمَرَاتِ المَوتِ الخ ( الانعام: 93 ) بھی ہے ( جس میں ذکر ہے کہ اگر تو ظالموں کو موت کی بے ہوشی کے عالم میں دیکھے ) ان کے لیے موت کے وقت یہ خطاب قطعی ہے اور اس موقع پر فرشتوں نے خبردی ہے جو بالکل سچے ہیں کہ ان کافروں کو اس دن رسوائی کا عذاب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ عذاب تمہارے لیے اس وجہ سے ہے کہ تم اللہ پر ناحق جھوٹی باتیں باندھا کرتے تھے اور تم اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔ یہاں اگر عذاب کو دنیا کے خاتمہ پر مؤخر مانا جائے تو یہ صحیح نہیں ہوگا یہاں تو “آج کا دن” استعمال کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم کو آج کے دن رسوائی کا عذاب ہوگا۔ اس آج کے دن سے یقینا قبر کے عذاب کا دن مراد ہے۔

اور دوسری آیت میں یوں مذکور ہے کہ وَحَاقَ بِاٰلِ فِرعَونَ سُوئُ العَذَابِ o اَلنَّارُ یُعرَضُونَ عَلَیہَا غُدُوًّا وَّعَشِیّاً ( المومن: 45,46 ) یعنی فرعونیوں کو سخت ترین عذاب نے گھیرلیا جس پر وہ ہر صبح وشام پیش کئے جاتے ہیں۔ اس آیت میں عذاب دارین کا صریح ذکر ہے اس کے سوا اور کسی کا احتمال ہی نہیں ( دارین سے قبر کا عذاب اور پھر قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے )

تیسری آیت شریفہ فَذَرہُم حَتیّٰ یُلٰقُوا یَومَہُم الَّذِی فِیہِ یُصعَقُونَ ( الطور: 45 ) ہے۔ یعنی اے رسول! ان کافروں کو چھوڑ دیجئے۔ یہاں تک کہ وہ اس دن سے ملاقات کریں جس میں وہ بے ہوش کردئیے جائیں گے‘ جس دن ان کا کوئی مکر ان کے کام نہیں آسکے گا اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے۔ ( اس آیت میں بھی اس دن سے موت اور قبر کا دن مراد ہے )

بخاری شریف میں حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ میں ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اللہم انی اعوذبک من عذاب القبر اے اللہ! میں تجھ سے عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور ترمذی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عذاب قبر کے بارے میں ہم مشکوک رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آیات اَلہٰکُمُ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرتُمُ المَقِابِرَ ( التکاثر: 2‘ 1 ) نازل ہوئی ( گویا ان آیات میں بھی مراد قبر کا عذاب ہی ہے ) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب کافر مرتا ہے تو اسے قبر میں بٹھایا جاتا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے تیرا رب کون ہے؟ اور تیرا دین کیا ہے۔ وہ جواب دیتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ پس اس کی قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے۔ پس حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت وَمَن اَعرَضَ عَن ذِکرِی فَاِنَّ لَہُ مَعِیشَۃً ضَنکاً ( طہ: 124 ) کو پڑھا ( کہ جو کوئی ہماری یاد سے منہ موڑے گا اس کو نہایت تنگ زندگی ملے گی ) یہاں تنگ زندگی سے قبر کا عذاب مراد ہے۔ حضرت براءبن عازب نے آیت شریفہ وَلَنُذِیقَنَّہُم مِنَ العَذَابِ الاَدنیٰ دُونَ العَذَابِ الاَکبَرِ ( السجدۃ:21 ) کی تفسیر میں فرمایا کہ یہاں بھی عذاب قبر ہی کا ذکر ہے۔ یعنی کافروں کو بڑے سخت ترین عذاب سے پہلے ایک ادنیٰ عذاب میں داخل کیا جائے گا ( اور وہ عذاب قبر ہے ) ایسا ہی قتادہ اور ربیع بن انس نے آیت شریفہ سَنُعَذِّبُہُم مَّرَّتَینِ ( التوبہ: 101 ) ( ہم ان کو دو دفعہ عذاب میں مبتلا کریں گے ) کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ کہ ایک عذاب سے مراد دنیا کا عذاب اور دوسرے سے مراد قبر کا عذاب ہے۔

قال الحافظ ابن رجب وقد تواترت الاحادیث عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی عذاب القبر یعنی حافظ ابن رجب فرماتے ہیں کہ عذاب قبر کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث مروی ہیں جن سے عذاب قبر کا حق ہونا ثابت ہے۔ پھر علامہ نے ان احادیث کا ذکر فرمایا ہے۔
جیسا کہ یہاں بھی چند احادیث مذکور ہوئی ہیں۔ باب اثبات عذاب القبر پر حضرت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لم یتعرض المصنف فی الترجمۃ لکون عذاب القبر یقع علی الروح فقط اوعلیہا وعلیٰ الجسد وفیہ خلاف شہیر عند المتکلمین وکانہ ترکہ لان الادلۃ التی یرضاہا لیست قاطعۃ فی احد الا مرین فلم یتقلد الحکم فی ذلک واکتفٰی باثبات وجودہ خلافا لمن نفاہ مطلقا من الخوارج وبعض المعتزلۃ کضرار بن عمرو وبشر المریسی ومن وافقہما وخالفہم فی ذلک اکثر المعتزلۃ وجمیع اہل السنۃ وغیرہم، اکثروا من الاحتجاج لہ وذہب بعض المعتزلۃ کالجیانی الی انہ یقع علی الکفار دون المومنین وبعض الاحادیث الاتیہ تردعلیہم ایضا ( فتح الباری ) خلاصہ یہ کہ مصنف ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے اس بارے میں کچھ تعرض نہیں فرمایا کہ عذاب قبر فقط روح کو ہوتا ہے یا روح اور جسم ہر دو پر ہوتا ہے۔ اس بارے میں متکلمین کا بہت اختلاف ہے۔ حضرت امام نے قصداً اس بحث کو چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ ان کے حسب منشاءکچھ دلائل قطعی اس بارے میں نہیں ہیں۔ پس آپ نے ان مباحث کو چھوڑ دیا اور صرف عذاب قبر کے وجود کو ثابت کردیا۔ جب کہ خوارج اور کچھ معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں جیسے ضرار بن عمرو‘ بشر مریسی وغیرہ اور ان لوگوں کی جملہ اہلسنت بلکہ کچھ معتزلہ نے بھی مخالفت کی ہے اور بعض معتزلہ جیانی وغیرہ ادھر گئے ہیں کہ عذاب قبر صرف کافروں کو ہوتا ہے ایمان والوں کو نہیں ہوتا۔ مذکور بعض احادیث ان کے اس غلط عقیدہ کی تردید کررہی ہیں۔

بہرحال عذاب قبر برحق ہے جو لوگ اس بارے میں شکوک وشبہات پیدا کریں ان کی صحبت سے ہر مسلمان کو دور رہنا واجب ہے اور ان کھلے ہوئے دلائل کے بعد بھی جن کی تشفی نہ ہو ان کی ہدایت کے لیے کوشاں ہونا بیکار محض ہے۔ وباللہ التوفیق۔
تفصیل مزید کے لیے حضرت مولانا الشیخ عبیداللہ صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ کا بیان ذیل قابل مطالعہ ہے حضرت موصوف لکھتے ہیں: باب اثبات عذاب القبر قال فی اللمعات المراد بالقبر ہہنا عالم البرزخ قال تعالیٰ ومن وراءہم برزخ الی یوم یبعثون وہو عالم بین الدنیا والاخرۃ لہ تعلق بکل منہما ولیس المراد بہ الحفرۃ التی یدفن فیہ المیت فرب میت لا یدفن کالغریق والحریق والماکول فی بطن الحیوانات یعذب وینعم ویسال وانما خص العذاب بالذکر للاہتمام ولان العذاب اکثر لکثرۃ الکفار والعصاۃ انتہی قلت حاصل ماقیل فی بیان المراد من البرزخ انہ اسم لا نقطاع الحیاۃ فی ہذا العالم المشہود ای دار الدنیا وابتداءحیاۃ اخریٰ فیبدا الشئی من العذاب او النعیم بعد انقطاع الحیاۃ الدنیویۃ فہو اول دار الجزاءثم توفی کل نفس ماکسبت یوم القیامۃ عند دخولہا فی جہنم اوالجنۃ وانما اضیف عذاب البرزخ ونعیمہ الی القبر لکون معظمہ یقع فیہ ولکون الغالب علی الموتیٰ ان یقبروا والا فالکافر ومن شاءاللہ عذابہ من العصاۃ یعذب بعد موتہ ولولم یدفن ولکن ذلک محجوب عن الخلق الامن شاءاللہ وقیل لا حاجۃ الی التاویل فان القبراسم للمکان الذی یکون فیہ المیت من الارض ولاشک ان محل الانسان ومسکنۃ بعد انقطاع الحیاۃ الدنیویۃ ہی الارض کما انہا کانت مسکنالہ فی حیاتہ قبل موتہ قال تعالیٰ الم نجعل الارض کفاتا احیاءوامواتا ای ضامۃ للاحیاءوالاموات تجمعہم وتضمہم وتحوزہم فلا محل المیت الا الارض سواءکان غریقا اوحریقا او ماکولا فی بطن الحیوانات من السباع علی الارض والطیور فی الہواءوالحیتان فی البحر فان الغریق یرسب فی الماءفیسقط الی اسفلہ من الارض اوالجبل ان کان تحتہ جبل وکذا الحریق بعدما یصیرر مادالا یستقر الاعلی الارض سواءاذریٰ فی البراو البحرو کذا الماکول فان الحیوانات التی تاکلہ لا تذہب بعد موتہا الا الی الارض فتصیر ترابا والحاصل ان الارض محل جمیع الاجسام السفلیۃ ومقرہا لا ملجا لہاالا الیہا فہی کفات لہا واعلم انہ قد تظاہرت الدلائل من الکتاب والسنۃ علی ثبوت عذاب القبرواجمع علیہ اہل السنۃ وقد کثرت الاحادیث فی عذاب القبر حتی قال غیر واحد انہا متواترۃ لا یصح علیہا التواطق وان لم یصح مثلہا لم یصح شئی من امرالدین الی اخرہ ( مرعاۃ‘ جلد: اول/ ص:130 ) مختصر مطلب یہ کہ لمعات میں ہے کہ یہاں قبر سے مراد عالم برزخ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ مرنے والوں کے لیے قیامت سے پہلے ایک عالم اور ہے جس کا نام برزخ ہے اور یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک عالم ہے جس کا تعلق دونوں سے ہے اور قبر سے وہ گڑھا مراد نہیں جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے کیونکہ بہت سی میت دفن نہیں کی جاتی ہیں جیسے ڈوبنے والا اور جلنے والا اور جانوروں کے پیٹوں میں جانے والا۔ حالانکہ ان سب کو عذاب وثواب ہوتا ہے اور ان سب سے سوال جواب ہوتے ہیں اور یہاں عذاب کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ اس کاخاص اہتمام ہے اور اس لیے کہ اکثر طور پر گنہگاروں اور جملہ کافروں کے لیے عذاب ہی مقدر ہے۔

میں کہتا ہوں کہ حاصل یہ ہے کہ برزخ اس عالم کا نام ہے جس میں دار دنیا سے انسان زندگی منقطع کرکے ابتدائے دار آخرت میں پہنچ جاتا ہے۔ پس دنیاوی زندگی کے انقطاع کے بعد وہ پہلا جزا اور سزا کا گھر ہے پھر قیامت کے دن ہر نفس کو اس کا پورا پورا بدلہ جنت یا دوزخ کی شکل میں دیا جائے گا اور عذاب اور ثواب برزخ کو قبر کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ انسان اسی کے اندر داخل ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ غالب موتی قبر ہی میں داخل کئے جاتے ہیں ورنہ کافر اور گنہگار جن کو اللہ عذاب کرنا چاہے اس صورت میں بھی وہ ان کو عذاب کرسکتا ہے کہ وہ دفن نہ کئے جائیں۔ یہ عذاب مخلوق سے پردہ میں ہوتا ہے الامن شاءاللہ
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تاویل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قبر اسی جگہ کا نام ہے جہاں میت کا زمین میں مکان بنے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مرنے کے بعد انسان کا آخری مکان زمین ہی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ ہم نے تمہارے لیے زمین کو زندگی اور موت ہر حال میں ٹھکانا بنایا ہے۔ وہ زندہ اور مردہ سب کو جمع کرتی ہے اور سب کو شامل ہے پس میت ڈوبنے والے کی ہو یا جلنے والے کی یا بطن حیوانات میں جانے والے کی خواہ زمین کے بھیڑیوں کے پیٹ میں جائے یا ہوا میں پرندوں کے شکم میں یا دریا میں مچھلیوں کے پیٹ میں‘ سب کا نتیجہ مٹی ہونا اور زمین ہی میں ملنا ہے اور جان لوکہ کتاب وسنت کے ظاہر دلائل کی بناپر عذاب قبر برحق ہے جس پر جملہ اہل اسلام کا اجماع ہے اور اس بارے میں اس قدر تواتر کے ساتھ احادیث مروی ہیں کہ اگر ان کو بھی صحیح نہ تسلیم کیا جائے تو دین کا پھر کوئی بھی امر صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا۔ مزید تفصیل کے لیے کتاب الروح علامہ ابن قیم کا مطالعہ کیا جائے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ہر رات کو سورۃ الملک کی قراءت سے انسان قبر کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔

اسی طرح جمعہ کے روز فوت ہونے والا خوش قسمت عذابِ قبر سے محفوظ رہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قبر کے عذاب سے محفوظ رکھیں، آمین!
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
ہر رات کو سورۃ الملک کی قراءت سے انسان قبر کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔ اسی طرح جمعہ کے روز فوت ہونے والا خوش قسمت عذابِ قبر سے محفوظ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قبر کے عذاب سے محفوظ رکھیں، آمین!
ثم آمین
 
Top