- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
قتال فی سبیل اللہ کے دن میدانِ جنگ سے فرار ہونے پر اللہ کا غضب
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتے ہیں:
{یٰٓا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَo وَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَآئَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَاْوٰیہُ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُo} [الانفال:۱۵]
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا، ایک لشکر کی صورت میں ملو تو ان سے پیٹھیں نہ پھیرو۔ اور جو کوئی اس دن ان سے اپنی پیٹھ پھیرے، ماسوائے اس کے جو لڑائی کے لیے پینترا بدلنے والا ہو، یا کسی جماعت کی طرف جگہ لینے والا ہو تو یقینا وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔''
یہاں اس آیت کریمہ میں مذکور لفظ ''زَحْفًا'' کا معنی ہے: کافروں سے جنگ اور دشمن کی طرف پیش قدمی کرنا اور ''اَلتّوَلِّي'' کا مطلب ہے: کسی چیز سے پھر جانا۔ یعنی پیٹھ موڑ کر مڑنا اور یہاں اس کا معنی ہے: جہاد و قتال فی سبیل اللہ سے فرار اختیار کرنا۔
ابن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ادبار، دُبر کی جمع ہے اور اس آیت کریمہ میں ''دبر'' سے مراد اس فعل شنیع کی فصاحت کو بیان کرنا ہے۔ اس لیے کہ یہ کام ایک بڑے جرم کی مذمت کو بیان کر رہا ہے۔
دشمن کی طرف پیش قدمی کے دن راہِ فرار اختیار کرنا کیا ہے؟1
دشمن کی طرف پیش قدمی اور حملے والے دن پیٹھ دکھا کر راہِ فرار اختیار کرنے والا وہ شخص ہوتا ہے جو کافر سپاہ کا سامنا کرنے سے گھبرا کر میدان قتال سے بھاگ اٹھے۔ اس معاملے میں سب سے بڑا جرم اس شخص کا ہوگا جو کافروں کو مسلمانوں کے اموال و اسلحہ اور ان کی عورتوں اور بچوں کے بارے میں خبر دے اور اسے معلوم ہو کہ وہ عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں گے یا انہیں قیدی بنالیں گے۔
اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو دشمن سے آمنا سامنا کے دن اور معرکہ والے دن میدانِ قتال سے کافروں کے سامنے سے فرار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب جہاد فی سبیل اللہ اور کافروں سے قتال کو فرض کیا تو اہل ایمان مجاہدین اور مسلم سپاہ پر اس جرم شنیع کو حرام قرار دیا۔ یعنی جب تم کافر دشمنوں کے قریب ہوجاؤ تو پھر انہیں اپنی پشتیں نہ دکھاؤ اور نہ ہی اپنے مسلمان ساتھیوں کو چھوڑ کر ان سے فرار ہوجاؤ۔ جو کوئی شخص ایسا کرے گا وہ اللہ کا غضب لے کر پلٹے گا اور قیامت والے دن اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، جو کہ سب سے برا ٹھکانا ہے۔ الا یہ کہ بندہ خلوص دل سے معافی مانگ لے اور اللہ عزوجل اپنی عفو و درگزر کے ساتھ اس پر اپنا فضل کردے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
((مَنْ قَالَ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوْبُ إِلَیْہِ، غُفِرَ لَہُ وَإِنْ کَانَ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ۔))2
''جس شخص نے (اپنے گناہوں سے معافی مانگتے ہوئے خلوص دل سے) یہ کہا: میں اُس اللہ کریم سے مغفرت طلب کرتا ہوں کہ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ازل سے تاابد زندہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم ہے اور میں اُسی رب کریم کی طرف رجوع کرتا ہوں۔'' تو اسے معاف کردیا جائے گا، اگرچہ اُس نے دشمن پر حملہ والے دن راہِ فرار کیوں نہ اختیار کی ہو۔''
اللہ عزوجل نے اس ضمن میں ایک حالت کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اور وہ اس طرح کہ دشمن کو دھوکہ دینے کی خاطر یا جنگی چال اختیار کرنے کے لیے مسلمان سپاہی پیچھے کی جانب دوڑنے والی کیفیت پیدا کرے۔ تاکہ وہ دشمن پر بھرپور طریقے سے حملہ کرسکے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ... مگر جو کوئی کترا کر ایک طرف چلے لڑنے کے لیے یا مسلمانوں کی دوسری جماعت (یونٹ،کمپنی یا بریگیڈ، کور وغیرہ) میں شامل ہونے کے لیے۔'' (تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے)
یا مسلمانوں کی دوسری فوج، جماعت یا گروہ سے مدد طلب کرنے کے لیے پیچھے ہٹتا ہے تاکہ وہ اس کے ساتھی مجاہدین کی آکر مدد کریں تو یہ بھی درست ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تفصیل کے لیے: (۱) ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر القرآن العظیم جلد نمبر ۲، ص ۳۲۹، (۲) تفسیر قرطبی جلد نمبر ۷ ص ۲۴۱، جلد نمبر ۸، ص ۱۷
2 صحیح سنن أبي داود، رقم ۱۳۴۳۔