محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 890
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 69
قرآن مجید رسول رحمت پر اللہ تعالی کی طرف سے آخری حجت بن کر اترا ہے اور احکام الہیہ کو اخذ کرنےاولین حیثیت کا حامل ہے ۔ قرآن مجید کی تفسیر میں ہزاروں کتب لکھی جا چکی ہیں ۔ ہر دور میں علماء اسلام نے قرآن مجید کی تفسیر کو اپنا اولین مقصد بنایا ہے۔
اگرتفسیر کی سادہ الفاظ میں تعریف کی جائے تو اس سے مراد "اللہ تعالی کی کلام کی وضاحت ہے"۔
قرآن کی تفسیر درج ذیل ذرائع سے کی جائے گی:
1- قرآن کی تفسیر قرآن سے۔
2- قرآن کی تفسیر سنت سے۔
3- قرآن کی تفسیر سلف (صحابہ ، تابعین ) کے اقوال سے ۔
4- قرآن کی تفسیر لغت سے
5- تفسیر قواعد و ضوابط اور قرآن وسنت کی نصوص کوسامنے رکھتے ہوئے اپنے اجتہاد سے تفسیر کرنا۔
رہی بات قرآنی آیات کی سائنسی تفسیر
تو اس بارے میں ایک بات بالکل واضح ہے کہ قرآن مجید میں کچھ ایسی آیات ہیں جن میں ایسے موضوعات زیر بحث آئے ہیں جن کے متعلق سائنس کو کچھ عرصہ پہلے ہی آگاہی ہوئی ہے جیسا کہ جنین کے مراحل کا ذکر ہے جنہیں قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔
لیکن بعض ایسی تفاسیر منظر عام پر آئی ہیں جن میں قرآن مجید کی اکثر آیات کی تکلف کے ساتھ سائنسی تفسیر بیان کی گئی ہے اس لیے علماء نے قرآن کی سائنسی تفسیر کرنے کے کچھ قواعد و ضوابط بیان کیے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں
1- وہ تفسیر صحابہ وتابعین سے منقول تفسیر کے مخالف نہ ہو۔
2- کسی لفظ یا آیت کی سائنسی تفسیر کر کے صحابہ و تابعین سے منقول تفسیر کو باطل نہ کہا جائے۔
3- لغت عرب بھی اس معنی کی محتمل ہو جو سائنسی تفسیر کر کے بیا ن کیا گیا ہے۔
4- آیت کا سیاق وسباق بھی اس سائنسی تفسیر کا محتمل ہو۔
5- سائنسی مفروضے سے قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر نہیں کی جائے گی لیکن اگر وہ چیز سائنٹفکلی طور پر حقیقت بن چکی ہے تو پھر تفسیر کی جا سکتی ہےکیونکہ سائنس میں اکثر مفروضے ہیں جو کہ ایک عرصہ بعد غلط ثابت ہوجاتے ہیں۔ اگر مفروضے سے قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر کر دی جائے اورمستقبل میں وہ مفروضہ غلط ثابت ہو جائے تو قرآ ن مجید کی تکذیب لازم آئے گی۔
6- اس سائنسی تفسیر سے اہل باطل اور اہل بدعت کے موقف کو تائیید نہ ملتی ہو ۔
اگر مندرجہ بالا شروط پائی جائیں تو قرآن مجید کی سائنسی تفسیر قبول کی جائے گی بصورت دیگر رد کر دی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اگرتفسیر کی سادہ الفاظ میں تعریف کی جائے تو اس سے مراد "اللہ تعالی کی کلام کی وضاحت ہے"۔
قرآن کی تفسیر درج ذیل ذرائع سے کی جائے گی:
1- قرآن کی تفسیر قرآن سے۔
2- قرآن کی تفسیر سنت سے۔
3- قرآن کی تفسیر سلف (صحابہ ، تابعین ) کے اقوال سے ۔
4- قرآن کی تفسیر لغت سے
5- تفسیر قواعد و ضوابط اور قرآن وسنت کی نصوص کوسامنے رکھتے ہوئے اپنے اجتہاد سے تفسیر کرنا۔
رہی بات قرآنی آیات کی سائنسی تفسیر
تو اس بارے میں ایک بات بالکل واضح ہے کہ قرآن مجید میں کچھ ایسی آیات ہیں جن میں ایسے موضوعات زیر بحث آئے ہیں جن کے متعلق سائنس کو کچھ عرصہ پہلے ہی آگاہی ہوئی ہے جیسا کہ جنین کے مراحل کا ذکر ہے جنہیں قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔
لیکن بعض ایسی تفاسیر منظر عام پر آئی ہیں جن میں قرآن مجید کی اکثر آیات کی تکلف کے ساتھ سائنسی تفسیر بیان کی گئی ہے اس لیے علماء نے قرآن کی سائنسی تفسیر کرنے کے کچھ قواعد و ضوابط بیان کیے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں
1- وہ تفسیر صحابہ وتابعین سے منقول تفسیر کے مخالف نہ ہو۔
2- کسی لفظ یا آیت کی سائنسی تفسیر کر کے صحابہ و تابعین سے منقول تفسیر کو باطل نہ کہا جائے۔
3- لغت عرب بھی اس معنی کی محتمل ہو جو سائنسی تفسیر کر کے بیا ن کیا گیا ہے۔
4- آیت کا سیاق وسباق بھی اس سائنسی تفسیر کا محتمل ہو۔
5- سائنسی مفروضے سے قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر نہیں کی جائے گی لیکن اگر وہ چیز سائنٹفکلی طور پر حقیقت بن چکی ہے تو پھر تفسیر کی جا سکتی ہےکیونکہ سائنس میں اکثر مفروضے ہیں جو کہ ایک عرصہ بعد غلط ثابت ہوجاتے ہیں۔ اگر مفروضے سے قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر کر دی جائے اورمستقبل میں وہ مفروضہ غلط ثابت ہو جائے تو قرآ ن مجید کی تکذیب لازم آئے گی۔
6- اس سائنسی تفسیر سے اہل باطل اور اہل بدعت کے موقف کو تائیید نہ ملتی ہو ۔
اگر مندرجہ بالا شروط پائی جائیں تو قرآن مجید کی سائنسی تفسیر قبول کی جائے گی بصورت دیگر رد کر دی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔