ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 594
- ری ایکشن اسکور
- 188
- پوائنٹ
- 77
قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات
تالیف: پروفیسر عمر بن عبد اللہ بن محمد المُقبِل،
القصیم یونیورسٹی، سعودی عرب
ترجمہ: محمد شاهد یار محمد سنابلی
☆☆ پہلا پارہ ☆☆
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
1- سورہ فاتحہ جس کے ذریعہ قرآن مجید کی ابتدا اور شروعات ہوتی ہے اور جو قرآن کی سب سے عظیم الشان سورت ہے اس کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
- اللہ تعالی کی تعریف و توصیف بلکہ سورت کا نصف اول اسی تعریف پر مشتمل ہے۔
- خالص اللہ کی عبادت اور اسی سے مدد طلب کرنے کا بیان۔
- ہدایت کیا ہے اور اس سے محروم لوگ كون کون ہیں اس کا بیان۔
2- جو شخص دن و رات 17 مرتبہ (یعنی فرض نمازوں کی رکعات میں) سورہ فاتحہ پڑھے یا سنے اسے کفار کی مشابہت سے سب سے زیادہ دور رہنا چاہیے۔ اس لئے کہ کسی بھی مومن مرد یا عورت کے لئے زیب نہیں دیتا کہ وہ ﴿ٱهۡدِنَا ٱلصِّرَٰطَ ٱلۡمُسۡتَقِيمَ٦ صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ غَيۡرِ ٱلۡمَغۡضُوبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ٧﴾کی دعا مانگے اور پھر انہیں لوگوں کی مشابہت اختیار کرے جن کے راستے سے بچنے کی اس نے پناہ مانگی ہے۔
3- سورہ بقرہ قرآن کریم کی سب سے لمبی سورت ہے۔ صحیح احادیث سے اس کی بہت ساری فضیلتیں ثابت ہیں(1)۔ اس سورت میں جن چند اہم مقاصد پر زور دیا گیا ہے ان میں ایک اہم مقصد یہ ہے کہ اہل ایمان کے دلوں کی تربیت اس انداز میں ہو کہ اللہ کے احکام وفرامین خواہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں ان کے سامنے سر تسلیم خم کریں اور ان یہودیوں کی مشابہت اختیار کرنے سے بچیں جو ایک گائے ذبح کرنے کے امتحان میں ناکام و نامراد ثابت ہوئے جبکہ صحابہ کرام کامیابی سے ہمکنار ہوئے جب یہ سورہ بقرہ بہت سے احکامات لے کر ایک امتحان کے طور پر ان پر نازل ہوئی۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اس سورت کے آخر میں ان کی مدح سرائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
﴿ءَامَنَ ٱلرَّسُولُ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيۡهِ مِن رَّبِّهِۦ وَٱلۡمُؤۡمِنُونَۚ كُلٌّ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَمَلَٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ لَا نُفَرِّقُ بَيۡنَ أَحَدٖ مِّن رُّسُلِهِۦۚ وَقَالُواْ سَمِعۡنَا وَأَطَعۡنَاۖ غُفۡرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيۡكَ ٱلۡمَصِيرُ٢٨٥ لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفۡسًا إِلَّا وُسۡعَهَاۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَعَلَيۡهَا مَا ٱكۡتَسَبَتۡۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَآ إِن نَّسِينَآ أَوۡ أَخۡطَأۡنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَيۡنَآ إِصۡرٗا كَمَا حَمَلۡتَهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِۦۖ وَٱعۡفُ عَنَّا وَٱغۡفِرۡ لَنَا وَٱرۡحَمۡنَآۚ أَنتَ مَوۡلَىٰنَا فَٱنصُرۡنَا عَلَى ٱلۡقَوۡمِ ٱلۡكَٰفِرِينَ٢٨٦﴾ (البقرة:285- 286)
ترجمہ: رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان لائے یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ، جو نیکی وہ کرے وہ اس کے لئے اور جو برائی وہ کرے وہ اس پر ہے ، اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا مالک ہے ، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔
4- سورہ بقرہ کی ابتدا میں تین قسم کے لوگوں کا ذکر ہے: مومن، کافر، منافق۔ نیز رسول اور ان کی بعثت و رسالت کے تئیں ان تینوں گروہوں کے موقف اور رویے کا بھی ذکر ہے۔ منافقین کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے اس لئے کہ وہ اپنے مخفی عزائم و ارادے نیز مسلمانوں اور کافروں کے درمیان چھپے رہنے کی وجہ سے اس امت کے لئے شدید خطرے کا سبب ہیں۔
5- اس پارے میں آدم اور حواء علیہما السلام کا قصہ اور آدم علیہ السلام کے اس روئے زمین پر خلیفہ بنائے جانے کا تذکرہ تفصیل سے ہوا ہے۔ ترتیب کے لحاظ سے قرآن کریم کا یہ پہلا قصہ ہے۔ گویا شروع ہی میں یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ مسلمان اپنے سب سے بڑے دشمن کو پہچانیں جس کی عداوت و دشمنی کا سلسلہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام تک دراز ہے۔
6- اس پارے کی ابتدا میں بنی اسرائیل اور بطور خاص یہودیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ نیز قرآن اور عام رسولوں کے بارے میں ان کے موقف اور بالخصوص ہمارے نبی محمد ﷺ کے بارے میں ان کے رویے کا ذکر کیا گیا ہے۔
7- اس پارے میں ہم گائے کا قصہ تفصیل سے پڑھتے ہیں۔ اس میں اس امت کے لیے ایک پیغام ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ احکام الٰہی کو ماننے اور تسلیم کرنے میں تردد کرنے سے خبردار کیا گیا ہے۔ یہ تردد دل کی سختی کا سبب بنتا ہے۔ اور ایک مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو فوراً تسلیم کرتا ہے۔ اسی لیے اس سورت کے آخر میں ایسے اہل ایمان کی اللہ نے مدح سرائی فرمائی ہے جیسا کہ ابھی گذشتہ سطور میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔
8- فرشتوں اور انبیاء کرام کے ساتھ یہودیوں کے ذلت بھرے سلوک اور شرمناک رویوں کا بھی تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے۔
9- مساجد میں ذکر الہی پر پابندی عائد کرنا اور مسجدوں کی ویرانی میں کوشاں رہنا نصاری کے شرمناک اعمال اور سیاہ کرتوتوں کا ایک حصہ ہے۔ ہلاکت و بربادی ہے ان کے لیے جو ان کے نقش قدم پر چلیں۔
10- اس پارے میں مسجد حرام کا تذکرہ ہے ، اسے کس نے تعمیر کیا اور کیسے تعمیر کی گئی۔
11- دین کی امامت و قیادت ظالموں کو نہیں ملتی۔ ارشاد باری تعالی: ﴿قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ﴾ فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں ۔(البقرة 124)
12- بچوں کی تربیت اور انہیں خیر و بھلائی کی نصیحت کرنے کا عمل کسی خاص عمر تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ عمل مرتے دم تک جاری و ساری رہتا ہے۔ چنانچہ یعقوب علیہ السلام نے موت کے وقت بھی اپنے بیٹوں کو نصیحت فرمائی:
﴿أَمْ كُنتُمْ شُهَدَآءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ ٱلْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِى قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ ءَابَآئِكَ إِبْرَٰهِيمَ وَإِسْمَٰعِيلَ وَإِسْحَٰقَ إِلَٰهًا وَٰحِدًا وَنَحْنُ لَهُۥ مُسْلِمُونَ﴾(البقرة 133)
ترجمہ: ( حضرت ) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم ( علیہ السلام ) اور اسماعیل ( علیہ السلام ) اور اسحاق علیہ السلام کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار رہیں گے۔
13 - ﴿تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ..﴾(البقرۃ141)اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کی (خوش فہمی کی) واضح تردید ہے جو اپنے نیک حسب و نسب (نیک آباء واجداد) کے سہارے جیتے ہیں۔کیونکہ اس سے انسان کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں اگرچہ وہ حسب و نسب ابراہیم علیہ السلام یا محمد ﷺ سے جا ملتا ہو بلکہ آپ کے اپنے عمل اور کردار کا ہی اصل اعتبار ہوگا۔
•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•
حاشیہ:
(1) عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى ، قَالَ : مَرَّ بيَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وأَنَا أُصَلِّي، فَدَعَانِي فَلَمْ آتِهِ حتَّى صَلَّيْتُ ثُمَّ أتَيْتُ، فَقالَ: ما مَنَعَكَ أنْ تَأْتِيَنِي؟ فَقُلتُ: كُنْتُ أُصَلِّي، فَقالَ: ألَمْ يَقُلِ اللَّهُ: {يَا أيُّها الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ ولِلرَّسُولِ إذَا دَعَاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ} ثُمَّ قالَ: ألَا أُعَلِّمُكَ أعْظَمَ سُورَةٍ في القُرْآنِ قَبْلَ أنْ أخْرُجَ مِنَ المَسْجِدِ فَذَهَبَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لِيَخْرُجَ مِنَ المَسْجِدِ فَذَكَّرْتُهُ، فَقالَ: الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ. هي السَّبْعُ المَثَانِي، والقُرْآنُ العَظِيمُ الذي أُوتِيتُهُ.
ترجمہ: أبو سعید بن المعلی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اس وقت میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے مجھے بلایا مگر میں نہیں آیا۔ پھر میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے دریافت کیا: پہلے کیوں نہیں آرہے تھے؟ میں نے کہا: میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا ہے: ﴿يَا أيُّها الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ ولِلرَّسُولِ إذَا دَعَاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ﴾ (اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں۔) پھر کہنے لگے: قبل اس کے کہ میں مسجد سے باہر نکلوں کیوں نہ میں تمہیں قرآن کی سب سے عظیم سورت بتلاؤں، پھر آپ مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا۔ آپ نے فرمایا: وہ سورت الحمد للہ رب العالمین ہے۔ یہی سبع مثانی ہے اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 4703)