السلام علیکم !
قرآن کی مندرجہ ذیل آیات میں نماز کے اوقات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
١)۔
وأقم الصلاة طرفى النهار وزلفا من الليل ۔۔۔سورۃ ھود
اور نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں پر ( فجر اور مغرب ) اور کچھ رات گذرنے پر یعنی عشاء
٢۔)
اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق اللیل وقران الفجر ان قران الفجر کان مشهوداً " سورۃ الاسراء
نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک ( ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء ) اور قرآن پڑھنا فجر کا ( نماز فجر ) ۔
٣۔)
وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها ومن آناء الليل فسبح وأطراف النهار لعلك ترضى ۔ سورۃ طہ
اور پڑھتارہ خوبیاں اپنے رب کی ، سورج نکلنے سے پہلے ( فجر ) اور اسکے ڈوبنے سے پہلے ( عصر ) اور کچھ گھڑیوں میں رات کی ( عشاء ) اور دن کی حدوں پر ( صبح ، ظہر اور مغرب ) شاید کہ تو راضی ہو گا ۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر دن رات میں پانچ وقت نماز فرض کی ہے اور ہر نماز کو اس کے وقت پر پڑھنے کا حکم فرمایا ارشاد باری تعالی ہے :
إنَّ الصَّلـوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا (النساء:۱۰۳) بے شک مومنوں پر نماز مقرر ہ وقت میں فرض کی گئی ہے۔
صلاۃ الفجر
عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مسلمان عورتیں صبح کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مسجد میں پڑھا کرتی تھیں ۔پھر جب وہ واپس ہوتی تھیں تو اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں ۔
اُمّ المومنین حفصہ فرماتی ہیں کہ :’’کان إذا سکت المؤذن من الأذان لصلاۃ الصبح وبدأ الصبح رکع رکعتین خفیفتین قبل أن تقام الصلاۃ‘‘ (صحیح مسلم:۷۲۳)
’’جب مؤذن اذان کہہ لیتااور صبح صادق شرو ع ہوجاتی تو آپ جماعت کھڑی ہونے سے پہلے مختصر سی دو رکعتیں پڑھتے۔‘‘
ابو برزہ اسلمی سے روایت ہے کہ آپ صبح کی نماز پڑھاتے: وکان یقرأ فی الرکعتین أو أحدھما ما بین الستین إلی المائۃ۔
’’ اورآپ دو رکعتوں میں یا کسی ایک میں ساٹھ سے سو تک آیات تلاوت فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری:۷۷۱)
صلاۃ الظہر
ابوذرغفاری فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبی کے ساتھ سفر پر تھے مؤذن نے ظہر کی اذان کہنا چاہی:
فقال النبي! (أبرد)ثم أراد أن یوذن فقال لہ (أبرد) حتی رأینا فئ التلول فقال النبی! (إن شدۃ الحر من فیح جھنم فإذا اشتد الحرفأبردوا بالصلاۃ) (صحیح بخاری:۵۳۹)
’’آپ نے فرمایا ٹھنڈا کرو۔ پھر موذن نے ارادہ کیا کہ اذان کہے تو آپ نے اسے پھر فرمایا کہ ٹھنڈا کرو یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیا پھر آپ نے فرمایا: بے شک گرمی کی شدت جہنم کے سانس میں سے ہے، پس جب گرمی زیادہ ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔‘‘
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ :کان یصلي فی بیتي قبل الظہر أربعا ثم یخرج فیصلي بالناس ثم یدخل فیصلي رکعتین (صحیح مسلم:۷۳۰)
’’آپ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے بعد گھر واپس آکر دو رکعات پڑھتے تھے۔‘‘
ابوقتادہ سے روایت ہے کہ :’’أن النبي کان یقرأ في الظہر في الأولیین بأم الکتاب وسورتین وفي الرکعتین الأخریین بأم الکتاب… الخ‘‘ (صحیح بخاری:۷۷۶)
’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے اور آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھتے۔۔۔
صلاۃ العصر
حضرت علی(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ : کان النبي یصلی قبل العصر أربع رکعات( صحیح ترمذی:۳۵۳)
’’نبی عصر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے تھے۔
صلاۃ المغرب
حضرت عائشہ نبی کی فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کے نوافل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ: وکان یصلي بالناس المغرب ثم یدخل فیصلي رکعتین(صحیح مسلم:۷۳۰)
’’اور وہ لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے پھر میرے گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعت نماز نوافل ادا کرتے۔‘‘
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرنے (سفر میں) مغرب اور عشاء اکٹھی کیں:
فصلی المغرب ثلاثا ثم صلی العشاء رکعتین ثم قال ھکذا رسول اﷲیصنع فی ھذا المکان (صحیح نسائی :۴۷۰)
اور انہو ں نے مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعات پڑھائیں اور فرمایا کہ اس جگہ رسول اللہ نے اسی طرح کیا تھا۔
صلاۃ العشاء
عمر نے سعد سے اہل کوفہ کی شکایت کے بارے میں پوچھا کہ آپ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو آپ نے جواب دیا:
أما أنا واﷲ فإنی کنت أصلی بہم صلاۃ رسول اللہ ما أخرم عنہا أصلی صلاۃ العشاء فأرکد فی الأولیین،وأخف فی الأخریین قال:ذاک الظن بک یا أبا إسحٰق (صحیح بخاری:۷۵۵)
’’اللہ کی قسم میں انہیں نبی کی نماز کی طرح کی نماز پڑھاتا تھا اور اس سے بالکل روگردانی نہ کرتا تھا۔میں عشاء کی نماز جب پڑھاتا تو پہلی دورکعتوں کو لمبا کرتا اور آخری دو رکعتوں کو ہلکا۔ عمر فرمانے لگے: اے ابو اسحاق تمہارے بارے میرا یہی گمان تھا۔‘
عشاء کے فرضوں کے بعد نبی سے ۲ اور ۴ نوافل پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں : صلیت مع النبی… وسجدتین بعد العشائ… الخ (صحیح بخاری؛۱۱۷۲)
’’میں نے نبی کے ساتھ ۔ ۔ ۔ عشاء کے بعد دو رکعات نماز پڑھی۔‘
وتر کے بعد دو سنتیں پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسا کہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: أن النبی کان یصلي بعد الوتر رکعتین (صحیح ترمذی:۳۹۲)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو رکعت نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘
حضرت ایوب انصاری سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: الوتر حق علی کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل،ومن أحب أن یوتر بواحدۃ فلیفعل (صحیح ابوداود:۱۲۶۰)
’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے جو پانچ وتر ادا کرنا پسند کرے وہ پانچ پڑھ لے اور جو تین وتر پڑھنا پسند کرے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک رکعت وتر پڑھنا پسند کرے وہ ایک پڑھ لے۔‘‘