گو کہ اس موضوع پر بات کرنا بعض نواحی سے خطیر ہے لیکن اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اہل کلام اور اہل فلسفہ اور اہل منطق کے پھیلائے ہوئے اسی طرح کے شکوک و شبہات نے بہت سے سادہ اور عام مسلمانوں کو گمراہ کیا ہے لہذا سب سے پہلے تو بنیادی عقیدہ ذہن میں دہرا لیا جائے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے
البتہ اسی سے کچھ اور مسائل بھی نکلتے ہیں جنہیں سمجھ لیا جائے تو بہتر ہے جیسا کہ لازمی ہے کہ ہم تین کیفیات میں فرق کریں
تلاوت، مقروءو مکتوب
ان تینوں کیفیات میں جو کلمات استعمال ہو رہے ہیں وہ اللہ کا کلام ہیں البتہ ان کلمات کو ضبط کرنے کے لیے جو بھی ممکنہ وسائل ہیں وہ سب مخلوق ہیں جیسا کہ شروع میں خود آپ نے بتایا سیاہی، کاغذ، اور آج کل موبائل، کمیپوٹر ریکارڈنگ وغیرہ
ایک چھوٹی سی مثال سے بات واضح ہو جائے گی آواز بذاتہ خود مخلوق ہے، لیکن صاحب آواز جب انہی کلمات کو ادا کرے گا تو وہ کلمات جو ایک آواز کی صورت میں ہم تک پہنچ رہے ہیں وہ کلمات اللہ کا کلام ہیں اور جو آواز ہے وہ مخلوق ہے
اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [الرعد:16]
یہ آیت ایسے بہت سے مسائل میں اصل اصیل کی حیثیت رکھتی ہے لفظ شئ نکرہ ہے اور اس کے باوجود کل کے ساتھ مزید تاکید بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے علاوہ کائنات میں ہر چیز مخلوق ہے یعنی اس عموم میں اللہ تعالی شامل نہیں ہیں اسی طرح اس کی صفات بھی اس عموم میں شامل نہیں ہیں
أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ [الأعراف: 54]
اور تخلیق کا تعلق اللہ تعالی کے امر سے ہے
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ [يـس:82]
پس اللہ تعالی حکم دیتا ہے تو تمام اشیاء اسی کن کے زمرے میں آجاتی ہیں کیونکہ تخلیق وتدبیر اسی کو زیب دیتی ہیں
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام جو العقیدہ الواسطیہ میں نقل کیا گیا ہے کہ منہ بدا والیہ یعود تو اس سے مراد پوری کائنات میں قرآن مجید کے کلمات جہاں جہاں بھی ہوں گے خواہ وہ کسی مصحف میں ہوں یا کسی کتاب میں وہ سب اٹھا لیے جائیں گے کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ ان کلمات کے ساتھ وہ سیاہی یا اوراق ، موبائل، سی ڈیز وغیرہ کو بھی اٹھایا جائے گا اس سے ظاہر ہوتا ہے ان وسائل کی حیثیت صرف وسائل کی ہی ہے اور مخلوق ہونے کے ناطے فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے
اللہ تعالی اور اس کا کلام سب کی حیثیت اس آیت سے واضح ہو جاتی ہے
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورۃ الحدید ۳)
اور حرف اخیر کے طور پر یہ ذہن میں بٹھا لیا جائے کہ اس طرح کے معاملات میں اگر صرف نصوص پر ہی اعتماد کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ تاریخ مسلمان میں ایسے جتنے بھی شکوک و شبہات کا اظہار ہوا ہے ان کے پیچھے مخصوص ذہانتیں ہیں جن کا تعلق یہود اور ابناء الیہود سے ہے اور ان کا موقع واردات منطق، کلام، فلسفہ جیسے امور ہیں بلکہ عقل مطلق کو مطمئن کرنا اس میں ضروری ہے جبکہ مومن کے لیے عقل کو مطمئن کرنا ضروری نہیں کہ اس کے لیے ممکن ہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو کما حقہ سمجھ سکے غالبا یومنون بالغیب کا ایک مطلب یہ بھی ہے