• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن فہمی کیلئے مطلوبہ صلاحیت

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ذاتی پیغام میں محترم بھائی @محمد عامر یونس نے درج ذیل سوال کیا ہے :

قرآن کو ترجمعہ کے ساتھ پڑھو گے تو گمراہ ھو جاؤ گے اس کے لیے 17 علوم سیکھنے پڑھتے ھیں
کیا اس بات کا کوئی ثبوت ھے کہ یہ کسی سنی عالم نے کہی ھے یا کسی کتب میں اس کا حوالہ ھے؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
معروف، آسان سا فطری طریقہ ہے کہ کسی بھی کتاب کو پڑھنے ، سمجھنے کیلئے دو چیزیں بنیادی ضرورت ہوتی ہیں :
(۱) اس کتاب کی زبان اور (۲) اس کتاب یا کلام میں موجود اصطلاحات کو سمجھنا، جاننا ضروری ہوتا ہے ؛
قرآن مجید چونکہ اللہ کی کلام ہے اس لئے اسے سمجھنے کیلئے سب سے پہلی شرط صحیح ایمان و عقیدہ ہے ،
پھر چونکہ قرآن حکیم عربی زبان میں ہے ، اور اس میں استعمال کی گئی اصطلاحات اسلامی دینی اصطلاحات ہیں جو اہل اسلام عام طور سنت اور تعامل صحابہ کرام کے ذریعے جانتے ہیں ،
مثلاً قرآن میں بار بار (صلوۃ ) نماز کا تذکرہ کیا گیا ہے ، جسے عام اہل اسلام بھی مختلف ذرائع سے جانتے ہیں کہ (صلوۃ ) سے مراد کیا ہے ،
اس لئے قرآن فہمی کیلئے بنیادی طور پر تو یہی صلاحیت مطلوب ہے ،
یعنی اچھی عربی دانی ، اورقرآن سے متعلقہ احادیث و سنن کی معرفت ، اگر ہو تو قرآن فہمی کی راہیں روشن ہوجائیں گی ،

اور اس سوال کے تفصیلی جواب کیلئے آپ محترم ڈاکٹرحاٖفظ حسن مدنی مدیر محدث میگزین کا مرتب رسالہ
’’ قرآن فہمی کے بنیادی اصول ‘‘ ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھیں ،
اس کتاب میں حافظ مدنی صاحب نے اس موضوع پر مختلف علماء کی نگارشات کو جمع کیا ہے ، بہت مفید معلومات جمع کی گئی ہیں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور رہی بات اس شوشہ کی کہ قرآن پاک سمجھنے کیلئے پہلے سترہ علوم پر دسترس حاصل کرو ،پھر جا کر یہ سمجھ آئے گا
اس پروپیگنڈہ کے غلط ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ شوشہ چھوڑنے والوں کے علماء نے قرآن مجید کے کئی تراجم کیئے ہیں،
اور تراجم عوام الناس کیلئے کئے جاتے ہیں ، تو اگر ان تراجم سے عوام ہی فائدہ نہیں اٹھا سکتے تو ان تراجم کا وجود عبث یعنی لا یعنی ہے ،
تو گویا ان کے علماء علم کے عنوان پر ایک ’’ لا یعنی ‘‘ کام کرتے رہے ، یعنی بے فائدہ سالہا سال ترجمہ کی محنت اٹھاتے رہے ،

سترہ علوم کی شرط کا شوشہ دراصل اپنے اپنے خود ساختہ مذاہب ، اور اپنی پھیلائی ہوئی بدعات کو بچانے کیلئے ایک حربہ ہے
بلکہ پاک و ہند کے مسلمانوں میں موجود شرکیہ عقائد ، کا دفاع مقصود ہے ،
ظاہر ہے جو آدمی ایمانی شوق و ذوق سے ترجمہ پڑھے گا ، وہ شرکیہ عقائد سے اپنا پلو چھڑالے گا ،
اور کئی بدعات کا خون کرے گا ،
اور یہ بات موجودہ مقلدین کو کسی صورت گوارا نہیں ، اسلئے عام مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے نور سے دور رکھنے کیلئے
ایسی خود ساختہ شرطیں لگاتے پھرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
یہ شرائط 17 علوم والی کن کی عائد کردہ ہیں ؟
ہمارے ہاں پاکستان میں ایک ٹولہ ہے ، جو سادہ لوح مسلمانوں کو ہر بات میں ’’ بزرگ فرماتے ہیں ‘‘ کا خوش نما ’’ کیپسول ‘‘ نگلواتے پھرتے ہیں ،
جن کی عیاری کا شکار اچھے اچھے ہوچکے ہیں ،
براہ راست قرآن وسنت کے مطالعہ سے انہیں سب سے زیادہ چڑ ہے ،
انہیں جیسے ہی کوئی سادہ دل مخلص کسی مسئلہ میں وحی کا حوالہ دیتا ہے وہ فوراً یہ ’’ سترہ شرطوں والا راگ ‘‘ الاپنے لگتے ہیں ،
اور اہل نظر جانتے ہیں اس راگ کی تان کس ’’بے دلیل مرض ‘‘ پر جاکر ٹوٹتی ہے ،
کیونکہ :: نہ نو من تیل ہوگا نہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49

محترم اسحاق بھائی۔
ہر بات کو مسلک پرستی میں ڈالنے سے فائدہ کوئی نہیں ۔
جب ہر مسلک ، حتی کے منکر حدیث ، قادیانیوں نے بھی قرآن و سنت کے تراجم و تفسیر کئے ہوئے ہیں تو پھر آپ اس نامعلوم سوال کا ٹھنڈے دل سے جواب کیوں نہیں دے دیتے ۔
غصہ اور نفرت کا اگر اظہار کرنا ہی ہے تو اس کے لئے فورم کے دوسرے تھریڈ بھرے ہوئے موجود ہیں ۔
میرے بھائی اگر ٹھنڈے انداز میں غور کریں تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس کا مخاطب کون ہے ۔
کیا آپ کے ارد گرد ’’درس قرآن‘‘ کے نام پہ مختلف مفسر نہیں پیدا ہورہے ۔۔۔؟ کیا ان کو کسی تنبیہ کی ضرورت نہیں ہے ۔؟
اور کیا آپ کا سابقہ ’’ہاروت ماروت‘‘ کی تفسیر کرنے والوں سے نہیں پڑا۔۔۔؟
ان کے لئے یہ جملے بولے جاتے ہیں ۔
آپ نے اس میں کوئی فرق نہیں کیا کہ آپ عوام کے لئے کہہ رہے ہیں یا مفسر کے لئے۔
کیا آپ جو مختصر ترین لفظ اصطلاحات میں بات سمیٹ رہے ہیں ۔ اس میں کیا کیا شامل ہے ۔صرف
قرآن سے متعلقہ احادیث و سنن کی معرفت۔۔۔کے الفاظ ہیں۔
اور یہ کس کو کہہ رہے ہیں ۔اس کا مخاطب کو ن ہے ۔؟

یہ جو علوم سیکھنا ہے ۔ یہ قرآن مجید کی تفسیر کے لئے ہیں ۔
اور عوام کے لئے تو عربی بھی ضروری نہیں ۔ بس مستند عالم کا ترجمہ تفسیر کافی ہوتی ہے ۔ البتہ عربی سمجھیں تو بڑی اچھی بات ہے ۔
میرے بھائی ۔۔۔اس جملے کا رخ اپنی جانب کیوں سمجھتے ہیں ۔
اور اس کو بھی مسلکی اختلافات میں ایک اضافہ کیوں بنا رہے ہیں ۔
اور شوشہ، پروپیگنڈا۔۔۔الفاظ لکھنے سے پہلے آپ اگر ان پر غور کر لیتے تو بہتر ہوتا ۔ کہ علوم القرآن کی کتب میں یہ شرطیں موجود ہوتی ہیں ۔۔
دیکھنا یہ ہے کہ مخاطب کون ہے ۔ جو عالم تفسیر کا خواہش مند ہے ۔ یا عوام۔
اور جس کتاب کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے ۔ اس میں بھی ملخص نکالیں تو بہت سی شرطیں ہیں ۔
اور یہ عدد کوئی پکا نہیں ۔۔۔
آپ کے مختصر ترین لفظ ’’اصطلاحات‘‘ میں بھی بڑی گنجائش ہے کیا ناسخ منسوخ ، اسرائیلیات ،اسباب نزول کا ذکر نہیں کرنا چاہیے ۔
جس نے عدد کو ۱۵ تک پہنچایا بھی ہے تو وہ اس طرح کے
لغت یا عربی زبان کے علوم کو الگ الگ بیان کر دیا ہے ۔
مثلاََ صرف ، نحو ، بلاغت ،وغیرہ
اس نامعلوم عامی سوال پہ غصہ ہونے کی بجائے براہ راست اس کے قائلین میں سے ایک کی بات کو دیکھ لیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مفتی محمداسمٰعیل طورو ۔ راولپنڈی کے مضمون کا کچھ حصہ۔۔۔
’’ کلام پاک کے معنی کے لئے جو شرائط و آداب ہیں ان کی رعایت ضروری ہے یہ نہیں کہ ہمارے زمانہ کی طرح سے جو شخص عربی کے چند الفاظ کے معنی جان لے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بغیر کسی لفظ کے معنی جانے اردو ترجمہ دیکھ کر اپنی رائے کو اس میں داخل کردے۔ حضور اکرم صلى الله علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے کہ جو شخص قرآن پاک کی تفسیر میں اپنی رائے سے کچھ کہے اگر وہ صحیح ہو تب بھی اس نے خطا کی مگر آج کل کے ”روشن خیال“ لوگ قرآن پاک کی ہر آیت میں سلف کے اقوال کو چھوڑ کر نئی بات پیداکرتے ہیں ہمارے زمانہ میں ہر روشن خیال اس قدر جامع الاوصاف اورکامل ومکمل بننا چاہتا ہے کہ وہ معمولی سی عربی عبارت لکھنے لگے بلکہ صرف اردو عبارت دلچسپ لکھنے لگے یا تقریر برجستہ کرنے لگے تو پھر وہ ۔۔۔۔۔ مجتہد ہے۔ قرآن پاک کی تفسیرمیں جو نئی سے نئی بات دل چاہے گھڑے نہ اس کا پابند کہ سلف میں سے کسی کا یہ قول ہے یا نہیں، نہ اس کی پروا کی نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کے ارشادات اس کی نفی تو نہیں کرتے، وہ دین میں مذہب میں جو چاہے کہے جو منہ میں آئے بکے کیا مجال ہے کہ کوئی شخص اس پر نکیرکرسکے یا اس کی گمراہی کو واضح کرسکے، جو یہ ہے کہ یہ بات اسلاف کے خلاف ہے وہ لکیر کا فقیر ہے، تنگ نظر ہے، پست خیال ہے ، تحقیقات عجیبہ سے عاری ہے۔ لیکن جو یہ کہے کہ آج تک جتنے اکابر نے اسلاف نے جو کچھ کہا وہ سب غلط ہے اور دین کے بارے میں نئی بات نکالے وہ دین کا محقق Researcher ہے۔حالانکہ اہل فن experts نے تفسیر کے لئے پندرہ علوم پر مہارت ضروری بتلائی ہے مختصراً عرض کرتا ہوں جس سے معلوم ہوجائے کہ بطن کلام پاک تک رسائی ہر شخص کو نہیں ہوسکتی۔
* اول لغت، جس سے کلام کے مفرد الفاظ کے معنی معلوم ہوجاویں، مجاہد رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ پراور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کوجائز نہیں کہ بدون معرفت لغات عرب کے کلام پاک میں کچھ لب کشائی کرے اور چند لغات کا معلوم ہوجانا کافی نہیں، اس لئے کہ بسااوقات لفظ چند معانی میں مشترک ہوتا ہے اور وہ ان میں سے ایک دو معنی جانتا ہے اور فی الواقع اس جگہ کوئی اور معنی مراد ہوتے ہیں۔
* دوسرے نحو جاننا ضروری ہے اس لئے کہ اعراب زیر زبر پیش کی تبدیلی سے معنی بالکل بدل جاتے ہیں اور اعراب کی معرفت نحو پر موقوف ہے۔
* تیسرے صرف کا جاننا ضروری ہے، اس لئے کہ بناء اور صیغوں کے اختلاف سے معانی بالکل مختلف ہوجاتے ہیں۔ ابن فارس کہتے ہیں کہ جس شخص سے علم الصرف فوت ہوگیا اس سے بہت کچھ فوت ہوتا ہے۔ علامہ زمخشری اعجوبات تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے قرآن پاک کی آیت یوم ندعو کل اناس بامامہم (جس دن کہ پکاریں گے ہم ہر شخص کو اس کے مقتدی اور پیش رو کے ساتھ) اس کی تفسیر صرف کی ناواقفیت کی وجہ سے یہ کی جس دن پکاریں گے ہر شخص کو ان کی ماؤں کے ساتھ۔ امام کالفظ جو مفرد تھااس کو ام کی جمع سمجھ لیا۔ اگر وہ صرف سے واقف ہوتا تو معلوم ہوجاتا کہ ام کی جمع امام نہیں آ تی۔
* چوتھے اشتقاق (کسی لفظ کا کسی لفظ سے نکلنا) کا جاننا ضروری ہے اس لیے کہ لفظ جبکہ دو مادوں سے مشتق ہوتو اس کے معنی مختلف ہوں گے جیساکہ مسیح کا لفظ ہے کہ اس کا اشتقاق مسح سے بھی ہے جس کے معنی چھونے اور تر ہاتھ کسی چیز پر پھیرنے کے ہیں اور مساحت سے بھی ہے جس کے معنی پیمائش کے ہیں۔
* علم معانی کا جاننا ضروری ہے جس سے کلام کی ترکیب معنی کے اعتبار سے معلوم ہوتی ہے۔
* چھٹے علم بیان کا جاننا ضروری ہے جس سے کلام کا ظہور و خفا، تشبیہ و کنایہ معلوم ہوتا ہے۔
* ساتویں علم بدیع کا جاننا ضروری ہے جس سے کلام کی خوبیاں تعبیر کے اعتبار سے معلوم ہوتی ہیں۔ یہ تینوں فن علم بلاغت کہلاتے ہیں مفسر کے اہم علوم میں سے ہیں اس لئے کہ کلام پاک جو سراسر اعجاز ہے اس سے اس کا اعجاز معلوم ہوتا ہے۔
* آٹھویں علم قرأت کا جاننا بھی ضروری ہے اس لئے کہ مختلف قراء توں کی وجہ سے مختلف معنی معلوم ہوتے ہیں اور بعض معنی ترجیح preference معلوم ہوجاتی ہے۔
* نویں علم عقائد کا جاننا بھی ضروری ہے۔
*دسویں اصول فقہ کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ جس سے وجوہ استدلال و استنباط معلوم ہوسکیں۔
* گیارہویں، اسباب نزول کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ شان نزول سے آیت کے معنی زیادہ واضح ہوں گے اور بسا اوقات معنی کا معلوم ہونا بھی شان نزول پر موقوف ہوتا ہے۔
* بارہویں، ناسخ ومنسوخ کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ منسوخ شدہ احکام معمول بہا سے ممتاز ہوسکتے ہیں۔
* تیرہواں علم فقہ کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے کہ جزئیات کے احاطہ سے کلیات پہچانے جاتے ہیں۔
* چودہواں علم ان احادیث کا جاننا ضروری ہے جو قرآن پاک کی مجمل آیات کی تفسیر میں واقع ہوئی ہیں۔
* ان سب کے بعد پندرہواں علم وہبی ہے جو حق سبحانہ و تقدس کا عطیہ خاص ہے اپنے مخصوص بندوں کو عطا فرماتا ہے جس کی طرف اس حدیث شریف میں اشارہ ہے۔ ”من عمل بما علم ورثة اللّٰہ علما مالم یعلم“ بندہ اس چیز پر عمل کرتا ہے جس کو جانتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ ایسی چیزوں کا علم عطا فرماتے ہیں جن کو وہ نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوداؤد شریف (بذل۱۹۱) میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ تمہارے بعد فتنوں کا زمانہ آنے والا ہے کہ مال کی کثرت ہوجائے گی اور قرآن عام ہوجائے گا حتی کہ اس کو موٴمن اور منافق، مرد، عورت، بڑا، چھوٹا، غلام، آزاد سب پڑھنے لگیں گے تو ایک کہنے والا کہے گا کہ لوگ میرا اتباع کیوں نہ کرتے۔ حالانکہ میں نے قرآن پڑھا ہے۔ یہ اس وقت تک میری اتباع نہیں کریں گے کہ جب تک میں کوئی نئی بات نہ گھڑوں، حضرت معاذ رضى الله تعالى عنہ نے فرمایا کہ اپنے کو نئی نئی بدعتوں سے بچائے رکھو کیونکہ جو بدعت نکالی جائے گی وہ گمراہی ہوگی۔ فقط
جولوگ اس پر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے دنیا میں قرآن کو پھیلادیا وہ حدیث بالا کی روشنی میں موجب ہلاکت اور فساد ہے قرآن پاک کا ترجمہ برکت کے واسطے موجب برکت، لیکن مسائل کا استنباط علوم قرآن سے واقفیت کے بغیر ہرگز جائز نہیں تاوقتیکہ ان علوم سے واقفیت نہ ہو جن کا ذکر مفصل اوپر گزرچکا کہ احکام کو مستنبط کرنا ان علوم پر موقوف ہے جو اوپر گزرے، در منثور میں حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے نقل کیاگیا ہے
یوتی الحکمة من یشاء الآیة اس سے مراد ہے قرآن کی معرفت اس کے ناسخ ومنسوخ، محکم متشابہ، مقدم وموٴخر، حلال و حرام اوراس کے امثال وغیرہ کو جاننا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حافظ حسن مدنی صاحب کی کتاب میں کچھ اور ترتیب سے یہی اصول ہیں ۔بعض ۔۔بعض میں شامل ہیں ۔
اور اس کا مخاطب وہی ہیں جو سورۃ البقرۃ ۱۰۲ کی تفسیر اس فورم پہ سمجھاتے رہے ہیں ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.

محترم مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آئ کہ آخر یہ تخصیص جو آپ کر رہے ہیں کس بنا پر کر رہے ہیں؟؟؟
ہم نے تو جسکو سنا مطلق کہتے ہوۓ سنا کہ قرآن کو سمجھنے کے لۓ اتنے علوم کی ضرورت ہے. قرآن کو سمجھو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے. وغیرہ وغیرہ.
ہمارا ذاتی تجربہ غلط ہے. آپ صحیح ہیں جو تخصیص کر رہے ہیں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ہر بات کو مسلک پرستي ميں ڈالنے سے فائدہ کوئي نہيں ?
پتا نہيں آپ کس مسلک اور اس کي پرستش کي بات کر رہے ہيں ،
ليکن يہ حقيقت ہے کہ پاک و ہند کے ’’ بزرگ پرست ‘‘ اکثر قرآني حوالوں کا جو ان کے خلاف ہوں جواب يہي ديتے ہيں کہ:
چھوڑو مياں : قرآن کو سمجھنے پہلے سترہ علوم پڑھنا پڑھتے ہيں ، ہميں ،تمہيں قرآن کا مطلب سمجھ نہيں آسکتا?‘‘
ہم نے بصد ادب کئي مرتبہ بزرگ پرستوں سے گذارش کي کہ :اللہ کا ارشاد ہے کہ مومنين کا عقيدہ يہ ہونا چاہيئے :
(اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ) ہم صرف تيري ہي بندگي کرتے ہيں اور صرف تو ہي ہے جس سے (اپني ساري احتياجوں ميں) مدد مانگتے ہيں ‘‘
ليکن ان کا بڑي سختي سے جواب ہوتا ہے کہ ہم تو اپنے بزرگوں کي تفسير ہي مانيں گے ، جس ميں چھپن علوم کے فاضل بزرگ فرما گئے ہيں :
’’ اس آيت شريفہ سے معلوم ہوا کہ اس کي ذات پاک کے سوا کسي سے حقيقت ميں مدد مانگني بالکل ناجائز ہے، ہاں اگر کسي مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الہي اور غير مستقل سمجھ کر استعانت ظاہري اس سے کرے تو يہ جائز ہے کہ يہ استعانت درحقيقت حق تعالي ہي سے استعانت ہے۔
(مولوی شبیر احمد عثمانی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس نے عدد کو ۱۵ تک پہنچايا بھي ہے تو وہ اس طرح کے
لغت يا عربي زبان کے علوم کو الگ الگ بيان کر ديا ہے ?
مثلاََ صرف ، نحو ، بلاغت ،وغيرہ
پہلي بات تو يہ کہ غنيمت ہے آپ سترہ علوم سے پندرہ تک تو آئے، يہ بھي ہم فقيروں پر شفقت ہے اس مختصر سي دنياوي عمر ميں کہاں سترہ جامعات تک پہنچ پاتے ،
لیکن بات اتني سادہ ہوتي تو آپ کو اتنے اہتمام سے اتنا تفصيل سے نہ لکھنا پڑتا ،
لغت کے علوم کو عليحدہ ،عليحدہ بيان کرنا ، يا نہ کرنا کوئي اتنا معرکۃ الآراء معاملہ تو نہيں کہ اس پرآپ کو اتني طويل نصيحت کرنا پڑتي ،
اصل اور ’’ وچلي ‘‘ بات تو وہ ہے جو مفتي طورو صاحب نے فيصلہ کن انداز ميں ارشاد فرما کر مہر کردي ہے کہ
کہ مذکورہ پندرہ علوم ميں عمر دراز صرف کرنے کے بعد بھي قرآن فہمي کي منزل بہت دور ہے ، يہ کچھ مخصوص لوگوں کو ملتي ہے ، بھلے سترہ علوم پڑھو يا چونتيس علم ازبر کر لو ، قرآن سمجھ پھر بھي نہيں آنا ،کيونکہ :
ان سب کے بعد پندرہواں علم وہبي ہے جو حق سبحانہ و تقدس کا عطيہ خاص ہے اپنے مخصوص بندوں کو عطا فرماتا ہے
اسي لئے ہم نے پہلے عرض کي ہے کہ :
سادہ لوح مسلمانوں کو ہر بات ميں ’’ بزرگ فرماتے ہيں ‘‘ کا خوش نما ’’ کيپسول ‘‘ نگلواتے پھرتے ہيں
يعني مروجہ کسبي علوم پڑھنے کا کوئي فائدہ نہيں ،
کيونکہ تفکر ، تدبر ، استنباط و استخراج جو اس کلام رباني کے اصل حقوق ہيں ، ان پر کچھ بزرگوں کے بعد ’’ بين ‘‘ لگ چکا ہے ،
اور اگر بزرگ جوتي کي عبادت کا جواز مانتے ہيں ، تو ہميں بھي انکي يہ بات بلا تامل مان ليني چاہيئے ، کيونکہ انہيں قرآن سے استنباط و استخراج کا خصوصی ’’ وہبي ‘‘ طورپر ملکہ عطا ہوا ہے ، اور جوتي کي عبادت بھي انہوں نے اسي ’’ وہبي ‘‘ صلاحيت سے اخذ کي ہوگي ،

اور دیکھئے :

یہ بات تو آپ یقیناً تسلیم کرتے ہونگے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کو قرآن فہمی کی تمام وہبی صلاحتیں بدرجہ اتم حاصل ہونگی ،
اور رسمی اور مروجہ علوم تو خیر کیا چیز ہیں ، وہ تمام کسبی علوم کے فاضل ہون گے ، یعنی کم از کم آپ کے ہاں امام صاحب قرآن فہمی کے اعلےٰ مرتبہ پر فائز ہونگے ۔تو اس حقیقت کے پیش نظر درج ذیل معاملہ ملاحظہ فرمائیں :

قرآن میں دو مقام پر ارشاد ہے کہ ( وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۔۔۔البقرۃ ۲۳۳ )
ترجمہ :اور بچے والی عورتیں دودھ پلاویں اپنے بچوں کو دو برس پورے جو کوئی چاہیے کہ پوری کرے دودھ کی مدت ۔۔ ‘‘
اور دوسرے مقام پر فرمایا :( وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ (لقمان 14)
ترجمہ ؛۔اور ہم نے تاکید کردی انسان کو اس کے ماں باپ کے واسطے پیٹ میں رکھا اس کو اس کی ماں نے تھک تھک کر اور دودھ چھڑانا ہے اس کا دو برس میں کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے‘‘
جبکہ مولوی شبیراحمدعثمانی امام ابوحنیفہ کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : (تنبیہ) دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دوسال بیان ہوئی با اعتبار غالب اور اکثر عادت کے ہے۔ امام ابو حنیفہ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔ جمہور کے نزدیک دو ہی سال ہیں۔ واللہ اعلم۔
تو ملاحظہ فرمائیں :۔ امام صاحب کا موکد فتوی ہے کہ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو اڑھائی سال دودھ پلائیں ،
اور چھہتر علوم کے فاضل مولوی صاحب ببانگ دہل اعلان عام فرماتے ہیں کہ : ہمارے امام صاحب نے جوقرآن کے مقابل اڑھائی سال فرمایا
ہے ، تو ان کے پاس ’’ کوئی اور دلیل ‘‘ ہوگی ، انا للہ و انا الیہ راجعون

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ ٹھنڈے دل سے غور فرما کر یہ عقدہ وا فرمائیں کہ :
یہاں سترہ علوم پورے نہیں تھے ،یا وہبی صلاحیتوں کا عطیہ نہ ملا تھا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سوال یہ ہے:
قرآن کو ترجمعہ کے ساتھ پڑھو گے تو گمراہ ھو جاؤ گے اس کے لیے 17 علوم سیکھنے پڑھتے ھیں
یعنی ترجمہ پڑھنے سے متعلق !
نہ کے ترجمہ وتفسیر کرنے سے متعلق، اور نہ ہی اس سے مسائل اخذ کرنے کے متعلق!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
مفتی محمداسمٰعیل طورو ۔ راولپنڈی کے مضمون کا کچھ حصہ۔۔۔
’’ علامہ زمخشری اعجوبات تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے قرآن پاک کی آیت یوم ندعو کل اناس بامامہم (جس دن کہ پکاریں گے ہم ہر شخص کو اس کے مقتدی اور پیش رو کے ساتھ) اس کی تفسیر صرف کی ناواقفیت کی وجہ سے یہ کی جس دن پکاریں گے ہر شخص کو ان کی ماؤں کے ساتھ۔ امام کالفظ جو مفرد تھااس کو ام کی جمع سمجھ لیا۔ اگر وہ صرف سے واقف ہوتا تو معلوم ہوجاتا کہ ام کی جمع امام نہیں آ تی۔
یہاں ’’ بامامہم ‘‘ کی تفسیر (ان کی ماؤں کے ساتھ ) صحیح ہے یا غلط ۔۔۔۔ اس سے قطع نظر۔۔۔ اہم بات یہ کہ یہ تفسیر کس نے کی (یعنی ’’ امام ‘‘ کا مطلب ’’ مائیں ‘‘ ) کس نے لیا ۔ یعنی اس قول کا قائل کون ؟
علامہ قرطبیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :

’’ وقال محمد بن كعب:" بإمامهم" بأمهاتهم. وإمام جمع آم. قالت الحكماء: وفي ذلك ثلاثة أوجه من الحكمة، أحدها- لأجل عيسى. والثاني- إظهار لشرف الحسن والحسين. والثالث- لئلا يفتضح أولاد الزنى ۔۔۔‘‘
یعنی محمدؒ بن کعب فرماتے ہیں : (اس آیہ میں ’’ امام ‘‘ کا مطلب ’’ مائیں ‘‘ ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید مفتی طورو صاحب علم اسماء الرجال سے آشنا نہیں ،
کیونکہ یہمحمدؒ بن کعب قرظی ہیں ، جو مشہور اور بلند پایہ تابعی ہیں ،اور
آپ نے حضرت علی ، سیدنا ابن مسعودؓ، سیدنا ابن عباسؓ ، سیدنا ابو ہریرہؓ سیدنا امیر المومنین معاویہ ؓ اوردیگر صحابہ سے روایات نقل کی ہے اور ابی بن کعبؓ سے بالواسطہ روایت کیا ہے،آپ اپنی ثقاہت،عدالت،ورع وتقوی،کثرت حدیث اورتفسیر قرآن میں شہرت رکھتے تھے ،عون بن عبداللہ کہتے ہیں:میں نے تفسیر قرآن میں قرظی سے بڑا عالم نہیں دیکھا (التفسیروالمفسرون۸۳)
لیکن یہ ’’ مفتی ‘‘ طورو صاحب فرماتے ہیں :

اس کی تفسیر صرف کی ناواقفیت کی وجہ سے یہ کی جس دن پکاریں گے ہر شخص کو ان کی ماؤں کے ساتھ۔ امام کالفظ جو مفرد تھااس کو ام کی جمع سمجھ لیا۔ اگر وہ صرف سے واقف ہوتا تو معلوم ہوجاتا کہ ام کی جمع امام نہیں آ تی۔
یعنی عظیم صحابہ کرام ؓ کے شاگرد کو’’ صَرف ‘‘ کا علم نہیں تھا ، انا للہ وانا الیہ راجعون
شاید مفتی صاحب کہنا چاہتے ہیں : کہ انہیں پاکستانی مدارس میں پڑھائی جانے والی
’’ کتاب الصرف ‘‘ کا علم نہیں تھا ، یا ’’ ابواب الصرف ‘‘ کسی بزرگ سے نہیں پڑھی تھی ؟
کمال ہےایسے لوگ بھی ’’ مفتی ‘‘ ٹھہرے جو اتنے نامی گرامی عظیم تابعیؒ سے ناآشنا ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top