- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,588
- پوائنٹ
- 791
ذاتی پیغام میں محترم بھائی @محمد عامر یونس نے درج ذیل سوال کیا ہے :
معروف، آسان سا فطری طریقہ ہے کہ کسی بھی کتاب کو پڑھنے ، سمجھنے کیلئے دو چیزیں بنیادی ضرورت ہوتی ہیں :
(۱) اس کتاب کی زبان اور (۲) اس کتاب یا کلام میں موجود اصطلاحات کو سمجھنا، جاننا ضروری ہوتا ہے ؛
قرآن مجید چونکہ اللہ کی کلام ہے اس لئے اسے سمجھنے کیلئے سب سے پہلی شرط صحیح ایمان و عقیدہ ہے ،
پھر چونکہ قرآن حکیم عربی زبان میں ہے ، اور اس میں استعمال کی گئی اصطلاحات اسلامی دینی اصطلاحات ہیں جو اہل اسلام عام طور سنت اور تعامل صحابہ کرام کے ذریعے جانتے ہیں ،
مثلاً قرآن میں بار بار (صلوۃ ) نماز کا تذکرہ کیا گیا ہے ، جسے عام اہل اسلام بھی مختلف ذرائع سے جانتے ہیں کہ (صلوۃ ) سے مراد کیا ہے ،
اس لئے قرآن فہمی کیلئے بنیادی طور پر تو یہی صلاحیت مطلوب ہے ،
یعنی اچھی عربی دانی ، اورقرآن سے متعلقہ احادیث و سنن کی معرفت ، اگر ہو تو قرآن فہمی کی راہیں روشن ہوجائیں گی ،
اور اس سوال کے تفصیلی جواب کیلئے آپ محترم ڈاکٹرحاٖفظ حسن مدنی مدیر محدث میگزین کا مرتب رسالہ
’’ قرآن فہمی کے بنیادی اصول ‘‘ ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھیں ،
اس کتاب میں حافظ مدنی صاحب نے اس موضوع پر مختلف علماء کی نگارشات کو جمع کیا ہے ، بہت مفید معلومات جمع کی گئی ہیں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور رہی بات اس شوشہ کی کہ قرآن پاک سمجھنے کیلئے پہلے سترہ علوم پر دسترس حاصل کرو ،پھر جا کر یہ سمجھ آئے گا
اس پروپیگنڈہ کے غلط ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ شوشہ چھوڑنے والوں کے علماء نے قرآن مجید کے کئی تراجم کیئے ہیں،
اور تراجم عوام الناس کیلئے کئے جاتے ہیں ، تو اگر ان تراجم سے عوام ہی فائدہ نہیں اٹھا سکتے تو ان تراجم کا وجود عبث یعنی لا یعنی ہے ،
تو گویا ان کے علماء علم کے عنوان پر ایک ’’ لا یعنی ‘‘ کام کرتے رہے ، یعنی بے فائدہ سالہا سال ترجمہ کی محنت اٹھاتے رہے ،
سترہ علوم کی شرط کا شوشہ دراصل اپنے اپنے خود ساختہ مذاہب ، اور اپنی پھیلائی ہوئی بدعات کو بچانے کیلئے ایک حربہ ہے
بلکہ پاک و ہند کے مسلمانوں میں موجود شرکیہ عقائد ، کا دفاع مقصود ہے ،
ظاہر ہے جو آدمی ایمانی شوق و ذوق سے ترجمہ پڑھے گا ، وہ شرکیہ عقائد سے اپنا پلو چھڑالے گا ،
اور کئی بدعات کا خون کرے گا ،
اور یہ بات موجودہ مقلدین کو کسی صورت گوارا نہیں ، اسلئے عام مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے نور سے دور رکھنے کیلئے
ایسی خود ساختہ شرطیں لگاتے پھرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہقرآن کو ترجمعہ کے ساتھ پڑھو گے تو گمراہ ھو جاؤ گے اس کے لیے 17 علوم سیکھنے پڑھتے ھیں
کیا اس بات کا کوئی ثبوت ھے کہ یہ کسی سنی عالم نے کہی ھے یا کسی کتب میں اس کا حوالہ ھے؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
معروف، آسان سا فطری طریقہ ہے کہ کسی بھی کتاب کو پڑھنے ، سمجھنے کیلئے دو چیزیں بنیادی ضرورت ہوتی ہیں :
(۱) اس کتاب کی زبان اور (۲) اس کتاب یا کلام میں موجود اصطلاحات کو سمجھنا، جاننا ضروری ہوتا ہے ؛
قرآن مجید چونکہ اللہ کی کلام ہے اس لئے اسے سمجھنے کیلئے سب سے پہلی شرط صحیح ایمان و عقیدہ ہے ،
پھر چونکہ قرآن حکیم عربی زبان میں ہے ، اور اس میں استعمال کی گئی اصطلاحات اسلامی دینی اصطلاحات ہیں جو اہل اسلام عام طور سنت اور تعامل صحابہ کرام کے ذریعے جانتے ہیں ،
مثلاً قرآن میں بار بار (صلوۃ ) نماز کا تذکرہ کیا گیا ہے ، جسے عام اہل اسلام بھی مختلف ذرائع سے جانتے ہیں کہ (صلوۃ ) سے مراد کیا ہے ،
اس لئے قرآن فہمی کیلئے بنیادی طور پر تو یہی صلاحیت مطلوب ہے ،
یعنی اچھی عربی دانی ، اورقرآن سے متعلقہ احادیث و سنن کی معرفت ، اگر ہو تو قرآن فہمی کی راہیں روشن ہوجائیں گی ،
اور اس سوال کے تفصیلی جواب کیلئے آپ محترم ڈاکٹرحاٖفظ حسن مدنی مدیر محدث میگزین کا مرتب رسالہ
’’ قرآن فہمی کے بنیادی اصول ‘‘ ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھیں ،
اس کتاب میں حافظ مدنی صاحب نے اس موضوع پر مختلف علماء کی نگارشات کو جمع کیا ہے ، بہت مفید معلومات جمع کی گئی ہیں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور رہی بات اس شوشہ کی کہ قرآن پاک سمجھنے کیلئے پہلے سترہ علوم پر دسترس حاصل کرو ،پھر جا کر یہ سمجھ آئے گا
اس پروپیگنڈہ کے غلط ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ شوشہ چھوڑنے والوں کے علماء نے قرآن مجید کے کئی تراجم کیئے ہیں،
اور تراجم عوام الناس کیلئے کئے جاتے ہیں ، تو اگر ان تراجم سے عوام ہی فائدہ نہیں اٹھا سکتے تو ان تراجم کا وجود عبث یعنی لا یعنی ہے ،
تو گویا ان کے علماء علم کے عنوان پر ایک ’’ لا یعنی ‘‘ کام کرتے رہے ، یعنی بے فائدہ سالہا سال ترجمہ کی محنت اٹھاتے رہے ،
سترہ علوم کی شرط کا شوشہ دراصل اپنے اپنے خود ساختہ مذاہب ، اور اپنی پھیلائی ہوئی بدعات کو بچانے کیلئے ایک حربہ ہے
بلکہ پاک و ہند کے مسلمانوں میں موجود شرکیہ عقائد ، کا دفاع مقصود ہے ،
ظاہر ہے جو آدمی ایمانی شوق و ذوق سے ترجمہ پڑھے گا ، وہ شرکیہ عقائد سے اپنا پلو چھڑالے گا ،
اور کئی بدعات کا خون کرے گا ،
اور یہ بات موجودہ مقلدین کو کسی صورت گوارا نہیں ، اسلئے عام مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے نور سے دور رکھنے کیلئے
ایسی خود ساختہ شرطیں لگاتے پھرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Last edited: