4.1) دنیاوی مثالیں:
اگراندازة کہا جائے کہ زمین پر 5 ارب سےبھی زیادہ لوگ ہیں اور اس سوال کا ہر ایک کے پاس الگ جواب ہو گا کہ 1+1 سے کیا بنتا ہے ؟ کچھ کہیں گے ،3 کچھ 33 ، کچھ لوگ ریاضیات کے ساتھ آئے اور کچھ لوگ مختلف فارمولوں کے ساتھ۔ اب اس کو کیا کہا جاییگا؟
جواب: افرا تفری و انتشار .
اسی طرح اس بارے میں کیا خیال ہے کہ ہر ایک بندہ اپنے نقطہ نظر اور اپنی من پسند اصولوں کے مطابق گاڑی چلائے ؟ کچھ توکہیں گے کہ ہم دوسروں سے نہ صرف علمی بلکہ ہر لحاظ سے بہتر ہیں اور اس لئے ہمیں فٹ پاتھ پر بھی گاڑی چلانے کا حق ہے ۔ اسی طرح اور لوگ بھی اپنے اپنے نقطہ نظرکے ساتھ آینگے- اب اس صورت حال کو کیا کہا جائیگا ؟
جواب : افراتفری اور انتشار
اس مثال کا اطلاق سائنس، علم نجوم، میکینکس، کارپینٹری، وغیرہ پر بھی ہوتا ہے اورجسکا نتیجہ انتشار و افرا تفری کی سواء کچھ نہیں-اسکا جواب اور حل اس مثال کے بعد بیان کیا جایگا –
4.2) مذہبی مثالیں:
«مَهْلًا يَا قَوْمِ، بِهَذَا أُهْلِكَتِ الْأُمَمُ مِنْ قَبْلِكُمْ، بِاخْتِلَافِهِمْ عَلى أَنْبِيَائِهِمْ، وَضَرْبِهِمِ الْكُتُبَ بَعْضَهَا بِبَعْضٍ، إِنَّ الْقُرْآنَ لَمْ يَنْزِلْ يُكَذِّبُ بَعْضُهُ بَعْضًا، إِنَّمَا يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْهُ فَاعْمَلُوا بِهِ، وَمَا جَهِلْتُمْ مِنْهُ فَرُدُّوهُ إِلى عَالِمِه»
پہلی مثال :
قران کے ایک سورہ میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور دوسرے سورہ میں بتایا گیا ہے کے انسان کو پانی سے پیدا کیا گیا ہے ۔ تو اب ایک ایسا انسان جو کہ بنیادی اصول سے با لکل بے خبر ہے یا قرآن کو سمجھنے اور لاگو کرنے کے حوالے سے اس نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی وہ یہی دعوی کرے گا کہ قرآن میں تضاد ہے۔ تاہم، جب ہم اصولوں کی روشنی میں انکی مصالحت کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قرآن میں تضاد نہیں ہے بلکہ انسان مٹی اور پانی کا مرکب ہے۔ سائنس بھی اسی بات کو ثابت کرتی ہے۔ مندرجہ ذیل حدیث اس مثال کو مزید واضخ کرتی ہے :
امام احمد نے راوایت کیا ہے کہ :امر بن شعیب نے کہا ، کہ میرے والد نے کہا کہ، میرے دادا نے کہا کہ میں اور میرا بھائی ایسی مجلس میں بیٹھے تھے کہ جو مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ عزیز ہے- ایک دفعہ میں اپنے بھائی کے ساتھ آیا تو کچھ بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کے کسی دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، ہم نے ان سے دور بھیٹنا گوارا نہ کیا اور انکے ساتھ ہی بیٹھ گئے ، اس دوران صحابہ اکرام نے قرآن کی ایک آیت کا تذکرہ چھیڑا اور اس کی تفسیر میں ان کے درمیان اختلاف رائے ہو گیا ، یہاں تک کہ ان کی آوایں بلند ہونے لگیں ، نبی ﷺ ، غضب ناک ہوکر باہر نکلے ، آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ تھا اور آپ ﷺ نے ان پر ریت پھینکی اورفرما یا لوگوں رک جاؤ ، تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء سے اختلاف کیا اور اپنی کتابوں کے متصادم حصّوں کی وجہ سے ، قران اس طرح نازل نہیں ہوا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تکذیب کرتا ہو ، بلکہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے ، اس لئے تمہیں جتنی بات کا علم ہو ، اس پر عمل کرلو اور جو معلوم نہ ہوتو اس کے عالم سے معلوم کرلو۔
] مسند احمد (6702) ،احمد شاكر (10/174) کی طرف سے صحیح قرار دیا ہے، سنن بيہقى (635) ، مشکوۃ (237)[]
جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ صحابہ جو اس امت کے بہترین لوگ ہیں ، انہوں نے بھی ایک دوسرے سے اپنی فہم کی بنیاد پر اختلاف کیا جس پر نبی ﷺ کی ڈانٹ پڑھی ا ور انہیں درست کیا اور انہیں نصیحت کی کہ آپ ان سے پوچھو جو آپ سے زیادہ علم رکھتے ہیں (یعنی اہل علم)۔ یہاں پر نبی ﷺ خود استاد تھے پس خود ہی انکے غلطیوں کو ٹھیک کیا، تا ہم جیسا کہ ہمیں پتہ ہے کہ علماء رسول ﷺ کے علم کے وارث ہیں ،ہمیں انکے ذریعے سے قران اور سنت کی روشنی میں رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
دوسری مثال:
فرض کریں ہمعربی زبان کے ماہرین سے سوال کریں کہ " دیوالیہ کا کیا مطلب ہوتا ہے"؟وہ اسکا جواب ایک واضح انداز میں دیں گا ، اگر ہم اسکو سادہ الفاظ میں سمجھے تو اسکا مطلب ہو گا کہ ایک ایسا شخص جو پیسوں سے کنگال ہوا ہو۔ اب چلیں دھیکتے ہیں کیا یہی منطق اسلام میں استعمال ہو سکتا ہے؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أتدرون من المفلس؟" قالوا : المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع فقال: "إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضي ما عليه، أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار
"تم جانتے ہو مفلس/دیوالیہ کون ہے ؟" لوگوں نے عرض کیا : مفلس/دیوالیہ ہم میں وہ ہے جس کے پاس روپیہ اور اسباب نہ ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : " مفلس دیوالیہ میری امت میں قیامت کے دن وہ ہوگا جو نماز لائے گا ، روزہ اور زکوٰۃ لیکن اس نے دنیا میں ایک کوگالی دی ہوگی ، دوسرے کوبدکاری کی تہمت لگائی ہوگی ، تیسرے کا مال کھالیا ہوگا ، چوتھے کا خون کیا ہوگا، پانچویں کو مارا ہوگا پھر ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیاں مل جائیں گی اور جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہو نے سے پہلے ختم ہوجائیں گی تو ان لوگوں کی برائیاں اس پر ڈالی جائیں گی اور وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا"۔
]صحیح مسلم 6579[
ایک اور مشہور حدیث ہے : ایک دن رسولﷺ نے ایک اعرابی کو دیکھا کہ اسنے اپنےا ونٹ کو باندھے بغیر چھوڑ دیا-آپ ﷺ نے اعرابی سے پوچھا:
"کیوں تم اپنے اونٹ کو نہیں باندھتے ؟:
عرابی نے جواب دیا:
" میں اللہ پے اعتماد رکھتا ہوں ، اسکے بعد رسول ﷺ نے کہا،
”اعقلها وتوكّل"
تم پہلے اونٹ کو باندھو ، پھر اللہ پر عتماد رکھو۔
]ترمذی، صحیح الجامع 1068میں بھی دیکھے [
اب ذرا تصور کریں ، کہ اگر کوئی بندہ اب اس پر بحث کرے کہ یہ حدیث یا ہر حدیث پر عمل لفظی اعتبار سے کرنا ہو گا ، تو پھر تو سب لوگ پہلے اونٹ خریدنے جاینگے اور پھر اسکو باندھینگے اور پھر الله پر توکل کرینگے – اب کیا اس بات کا کوئی منطق بنتا ہے ؟
لیکن ظاہر ہے اس روایت کےمطلب ہے کہ انسان کے بس میں جتنا ہو اتنا کرے اور باقی الله پر چھوڑ دے۔
صحابہ کا اپنے فہم سے تشریحات کرنے بعدمیں رسول اللہﷺ کا انکو درست کرنے کی ایک اورمثال:
ابن عبدالرحمن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص کو غسل کرنے کی ضرورت پیش آگئ وہ شخص حضرت عمر کی خدمت میں آیا اور ان سے کہا کہ میں جنبی ہوں اور غسل کر نے کے واسطے مجھ کو پانی نہیں مل سکا تو میں کیا کروں؟ حضرت عمر نے کہا کہ تم ایسی صورت میں نماز نہ پڑھو ۔ حضرت عمار بن یاسر نے فرمایا کیا تم کو یہ یاد نہیں ہے کہ جس وقت ہم لوگ ایک لشکر میں تھے پھر ہم لوگوں کو غسل کرنے کی ضرورت پیش آگئ۔ تم نے تو نماز ہی نہ پڑھی تھی لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھی تھی۔ پھر میں خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے واقعہ عرض کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم کویہ کر نا بالکل کافی تھا اور حضرت شعبہ نے اپنی ہتھیلی زمین پر ماری پھر اس پر پھونک ماری اس کے بعد دونوں ہاتھوں کی ہتھیلی کو ملا پھر چہرہ پر مسح فرمایا۔
] بخاری، امام جامع صحیح، جلد1، ص51 اورنمبر347 ۔ فتح الباری 1/455اور سنن نسائی، باب 1، کتاب کی طہارت، حدیث نمبر 320[
تیسری مثال:
"جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم سے مخلوط نہیں کیا" (6:82)جب یہ آیت نازل ہوئی تو اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ پریشان ہو گئے اور ہم میں سے کون ہے جس نےاپنے ایمان کو ظلم سے مخلوط نہیں کیا؟ (یہاں پر صحابہ نے اسکا لغوی معنی لیا) ، رسول ﷺ نے کہا اسکا مطلب وہ نہیں ہے، کیا تم نے نہیں سنا لقمان علیہ سلام نے کیا کہا : " اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو بے شک اللہ کے ساتھ عبادت میں دوسروں کو شریک کرناایک عظیم ظلم (گناہ،غلطی ) ہے ۔ یہ حدیث مسلم نے روایت کی ہے۔
شیخ ماہر قہطانی نے ایک ٹیپ میں اس حدیث کے بارے میں کہا ہے :
قران مجید اور قول رسول ﷺ کی تشریح سنت کے بغیر کوئی نہیں کر سکتا ، جہاں تک قرآن کی عربی میں تشریح کی بات ہے تو یہ صحابہ کے لئے بھی ممکن نہیں تھا-ایک دفعہ صحابہ نے قرآن کی عربی میں تشریح کی کوشش کی لیکن رسول ﷺ نے انکی تردید کی - ] دیکھئے تفسیر سورہٴ ٣١: ١٣ ، کتاب الیمان من الصیح ، امام مسلم[
اس آیت:
"الَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يَلْبِسُواْ إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ"کی تشریح صحابہ نے صرف عربی زبان میں کی تھی - ،بِظُلْمٍکی تشریح صحابہ نے "نا انصافی "کی تھی ۔ تورسول ﷺ نے انکی اصلاح کی اور انہیں بتایا کہ اسکا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب شرک ہے ۔ پس جو کچھ نازل کیا گیا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک انسان عربی زبان پر کتنا عبور رکھتا ہے اور وہ کتنا ہی علم والا ہو لیکن قرآن کو سمجھنے کے لئے صحیح سنت کی طرف لوٹاجائے گا۔
(قران کی تشریح کر تے وقت سُنت کے بغیر عربی زبان بے کار ہے)۔ اور سُنت ، حدیث اور شواحد سے معلوم ہوتی ہے ۔۔۔
چوتھی مثال:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ‘رسول ﷺسے سنا :
الرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ مِنَ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يُحِبُّ فَلاَ يُحَدِّثْ بِهِ إِلاَّ مَنْ يُحِبُّ، وَإِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَلْيَتْفِلْ ثَلاَثًا وَلاَ يُحَدِّثْ بِهَا أَحَدًا فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ
جب تم میں سے کوئی شخص خواب دیکھے جسے وہ پسند کرتا ہو تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اس پر اسے اللہ کی تعریف کرنی چاہئیے اور اسے بیان بھی کرنا چاہئیے اور جب کوئی خواب ایسا دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہو تو وہ شیطان کی طرف سے ہے اور اسے چاہئیے کہ اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور اس کا ذکر کسی سے نہ کرے ‘ کیونکہ وہ اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔
] صیح بخاری: 7045[
اس دنیا میں ایسے بہت سارے جاہل لوگ ہیں سمجھتے ہیں کہ انکا فہم اور منطق علماء سے برتر ہے، وہ علماء جنہوں نے اپنی پوری زندگی دین کے مطالعے میں صرف کردی اور پھر بھی بستر مرگ پر انکے منہ سے یہ الفاظ نکلتے رہے " کاش کہ میں اس سے زیادہ جانتا اور اس سے زیادہ مطالعہ کرتا کیوں کہ میں کچھ نہیں جانتا "- اگرمندرجہ بالا حدیث کو ایک عام آدمی کے فہم کے مطابق سمجھا جائے تو اسکا مطلب ہوگا کہ کہ اگر کوئی شخص خواب میں عورت اور دولت دیکھے جو اسے بہت پسند ہو تو وہ سمجھے گا کہ بھائی یہ خواب تو اللہ کی طرف سے ہے چلو سب کو بتاؤ ، اور اسی طرح اگر ایک شخص خواب میں دیکھے کہ وہ غریب ہے اور دنیا کے عیش و آرام سے دور ہے ، تو وہ کہے گا کہ بھائی مجھے تو یہ خواب بالکل پسند نہیں اور یہ شیطان کی طرف سے ہے-۔ اعوذ بِااللہ! لیکن ہاں اگر لوگ اس طرح اپنا دماغ اور اپنا فہم حدیث کو سمجھنے میں استعمال کرتے رہے تو پھر اس طرح کے ہی تشریحات سامنے آ ینگے - ۔ اور اسلئے ہم کہتے ہیں کہ علماء سے رجوع کرو کیوں کہ ایک درست ؤ مناسب اور صحیح علم ہی ہمیں بتاتا ہے کہ نا جائز رشتے اور حرام دولت کہ خواب اچھے نہیں ہیں ۔
ایک اور مثال آج کے زمانے کی یہ ہے کہ آج جتنے بھی فرقے ہیں ہر ایک کا دعوی ہے کہ وہ قرآن و سنت پر قائم ہیں لیکن ان میں سے بہت قرانی آیات اور احادیث کی تشریح اپنے ہی فہم اور خواہشات کے مطابق کرتے ہیں جو ایک بہت بڑے فتنے کا با عث بنی ہے-
اس کے ساتھ ساتھ ہم پانچویں مثال پرآ تے ہیں :
قادیانی( ایک حالیہ فرقہ یا اسلام کی ایک شاخ) کہتے ہیں نبوت کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ، انکا دعوی ہے کہ محمدﷺ کے بعد بھی نبی آئینگے، اور ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان نبیوں میں سے ایک ہندوستان کے ایک شہر قادیان میں آیا، اور جو کوئی بھی انکے نبی میں ایمان نہ لائے وہ کافر ہے۔ وہ یہ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں جب کے واضح آیت ہے ، "بلکہ (محمد)الله کے رسول اور آخری نبی ہیں۔۔۔۔]سورة الأحزاب : 33:40[ وہیہ کیسے کہہ سکتے ہیں جب کہ متواتر احادیث میں آیا ہے کہ ،
"میرے بعد کوئی نبی نہیں" ]بخاری اور مسلم[
پس ان لوگوں نے قرآن کی غلط اور من پسند تشریح کی اور اسکی وضاحت سے قاصر رہے جسطرح وضاحت سلف صالحین نے کی ، وہ وضاحت جس پر مسلمان نسل د ر نسل عمل پیرا تھے، حتی کہ اس کذاب دجال غلاماحمد پرویز قادیانی نے نبوت کا دعوی کر دیا،- اسکی ایک لمبی کہانی ہے جسکی وضاحت یہاں ضروری نہیں ۔ بہت سے لوگ( جنہیں اس اصول کا پتہ نہیں تھا کہ قرآن و سنت کو سلف صالحین کے فہم پر سمجھنا فرض ہے، اور جو ایک مسلمان کے لئے فتنوں اور گمراہی سے بچنے کا واحد راستہ ہے ) اس دجال کے دعوی کو سچ مان بھیٹے اور یہ بیوقوف اس دجال کے نبوت کے فریبی دعوے میں سلف صالحین کا راستہ چھوڑ گئے-
تو پھر کیا کیا غلام پرویز قادیانی نے اس آیت کے ساتھ کہ "بلکہ (محمد ﷺ )خدا کے پیغمبر ہیں اور نبیوں کے مہر ہیں"؟ اسنے کہا کہ مہر کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انکے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا بلکہ مہر کا مطلب ہے کہ محمد ﷺ انبیاءکی زینت ہیں ۔ تو پس انہوں نے اس آیت سے انکار نہیں کیا اور نا یہ کہا کہ الله نی یہ آیت رسول پر نازل نہیں کی بلکہ انھیں اسکے اصل اور صحیح معنی اور تشریح سے انکار کیا- تو بتایئے کیا فائدہ ایسے الفاظ میں یقین رکھنے کا جسکا حقیقی معنی سے کوئی تعلق نہ ہو-
] شیخ شدی نعمان کی موسوعات علامہ ،مجدد العصر محمد ناصر الدین البانی، ، جلد1، صفحہ 212-230 سے لیا گیا اقتباس[
چھٹی مثال
شیخ البانی کا کہنا ہے :
چلیں اسکو سمجھنے کے لئے ایک مثال دیتے ہیں جس سے یہ حقیقت اور عیاں ہو جایئگی جس میں کوئی شک نہیں اور نہ ہیں کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے ۔ اللہ (سبحانه و تعالى)فرماتے ہے :
"اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو……" (سورة المائدة : 5:38)
اب ذرا غور کریں کہ کسطرح قرآن کو سمجھنے کے لئے ہم صرف عربی لغت کا استعمال نہیں کر سکتے- لغت کی اعتبار سے سے "چور" ہر وو شخص ہوتا ہے جو ایک محفوظ جگہ سے کوئی چیز چرائے، اسکی مالیت چاہے جتنی بھی ہو یا ایسا بھی ہو سکتا ہے اسکی مالیت کچھ بھی نہ ہو، ہو سکتا ہے اسنے ایک انڈا چرایا ہو،یا ایک روپیہ یا پانچ روپے چرائے ہوں، تو لسانی یا لغت کے اعتبار سے ایسا شخص چور کہلائیگا –
۔ اللہ فرماتا ہے : "اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو……" تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ہر چور کے ہاتھ کاٹ دیے جاینگے ؟
جواب ہے نہیں۔کیوں ؟
کیونکہ جو شخصیت وضاحت کر رہی ہے اور جسے وضاحت کی ذمداری سونپی گئی ہے وہ ہےمحمد ﷺ اور جس چیز کی وضاحت کی جا رہی ہے وہ ہے الله کا کلام (یعنی یہ آیت)، محمد ﷺ ہمیں وضاحت دے رہے ہیں کہ چور ( مرد یا عورت ) میں سے کس کے ہاتھ کاٹے جاینگے-
" لاَ تُقْطَعُ الْيَدُ إِلاَّ فِي رُبُعِ دِينَارٍ"
"چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ پر ہاتھ کاٹ لیا جائے گا "
]بخاری اور مسلم (نمبر:6789) ،ابو بکر بن محمد بن عمر بن حزم کی سند سے عائشہ بنت ابی بکر سے روائیت ہے[
پس یہاں سے ایک اہم بات پتہ چلی جسکی طرف طالب علم کوئی دیہان نہیں دیتے: کہ ایک طرف ہے روایتی عربی زبان دوسری طرف ہے شرعی زبان جسکی بنیاد الله نے خود رکھی۔ اہل عرب جو قران کی زبان بولتے تھے، قران جن کی زبان میں نازل ہوا، انکو اس سے پہلے عربی زبان کی ایسی شرعی استعمال کا علم نہیں تھا ۔ تو پس جب لسانی یا لغت کے اعتبار چور کا لفظ استعمال ہو تو اسکے زمرے میں سا رے چور آیینگے ، لیکن جب شریعت کے معنوں میں اسکا ذکر کیا جاتا ہے تو ہر چور شامل نہیں ہو گا ، لیکن صرف وہ جو ایک چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ چوری کرے۔
پس یہ ایک بہترین مثال ہے جو ہمیں اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ قرآن و سنّت کو سمجھنے کے لئے عربی زبان بمع اپنے فہم اور منطق کا استمعال غلط ہے ۔ اور یہی وہ چیز ہے جس میں آج کے مصنفین پڑھ گئے ہیں۔ وہ روایتی عربی زبان کا اطلاق قرانی آیات اور حدیث نبوی پر کرتے ہیں اور نتیجتہ ایسے تشریحات اور وضاحتیں سامنے آتی ہیں جنہیں امّت مسلمہ نے کبھی نہیں سنا - یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا واجب ہے کہ اسلام کی بنیاد تین اصولوں پر قایم ہے-
1.کتاب (قران)
2.سُنت
3.سلف صالحین کا منہج و فہم
ساتویں مثال :
ان لوگوں کی تردید میں جو علماء کے فہم کی بجائے اپنے منطق و فہم کو ترجیح دیتے ہیں ۔
اس آیت کے آخر میں اللہ (سبحانه و تعالى)نے فرمایا:
"…انکے ہاتھ کاٹ ڈالو "-
اب ہاتھ کا مطلب کیا ہے ؟ ایک پورا ہاتھ ، اُنگلی تک …………؟ تو پھر کلائی سے ، یا کوہنی سے ، یا مونڈھے سے کاٹنا چاہئے ؟ نبی ﷺ اپنے اعمال کے ذریعے سے اس کی وضاحت کی- ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے اسکے بارے میں ہمارے پاس کوئی بھی مستند قول ﷺ نہیں ہے –بلکہ ہمارے پاس رسول ﷺ کا عمل(غیر زبانی) موجود ہے – تو ہمارے پاس یہ عمل کس طرح پہنچا ؟ ہمیں کس طرح پتہ چلا؟ ہمارے سلف و صالحین سے ، رسول الله ﷺ کے صحابہ سے جنہوں نے اس عمل کو اگلے نسل تک پہنچایا، اور اسی طرح انہوں نے اگے نسل تک، اور اسی طرح یہ بزریعہ علماء ہمیں آج پہنچا۔
]شیخ شدی نعمان کیموسوعات علامہ ،مجدد العصر محمد ناصر الدین البانی، ، جلد1، صفحہ 212-230 سے لیا گیا اقتباس[
آٹھویں مثال ہمارے آج کے جدید دور سے :
سائل : اللہ (سبحانه و تعالى) آپکو سلامت رکھے ۔
سائل کہتا ہے ، "ائے ہمارے شیخ ، کچھ لوگوں کا حدیث قدسی کے بارے میں کہنا ہے کہ :
'ائے میرے بندے ،میں بیمار تھا اور تم نے میری عیادت نہیں کی …… " یہ مبہم معاملات میں سے ہے اور اسے چھوڑ دینا واجب ہے ۔ تو اس بارے میں آپکی کیا نصیحت ہے ؟"
شیخ صالح الفوذان (اللہ اُن ہے محفوظ رکھے ) کا جواب :
اسے چھوڑو ؟؟؟؟؟ میں اللہ (سبحانه و تعالى)پناہ مانگتا ہوں ! اس شخص کا مطلب یہ ہے ہمیں مبہم آیات اور حدیث کو چھوڈ دینا چاہیے ؟ نہیں ۔ ہم اُنکو نہیں چھوڑتے، تاہم ہم اسے دوسرے حدیث اور آیات کے ساتھ انکی وضاحت کرتے ہیں۔ ہم اسے چوڑ نہیں سکتے ۔ ہم انکو صحیح و مستند حوالہ دیتے ہے اور ہم اسکی وضاحت کرتے ہیں تاکہ انکے صحیح وضاحت ہوجائے ۔ تاہم ، یہ پچیدہ جہالت ہے ، اس شخص کو نہیں معلوم ! اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی وضاحت کرتا ہے۔ یہ روایت اگے کہتی ہے ، میں آپ(اللہ) کی عیادت کیسے کرسکتا ہوں جبکہ آپ سارے جہاں کے رب ہیں ؟ اللہ (سبحانه و تعالى)فرماۓ گا ، " بشک میر فلاں فلاں بندہ بیمار تھا اور تم اس کی عیادت نہیں کی، اور اگر تم اس کی عیادت کرتے تو تم اُس کے پاس مجھے پاتے۔"
تو یہ حدیث کا ایک حصہ دوسرے حصے کی وضاحت کرتا ہے۔ تاہم، اس شخص ( جسنے اس طرح اسکا جواب دیا) کو وہ نہیں جانتا ۔ وہ مسکین (علم میں غریب) ہے ۔ اور میرے بھایئوں یہ ایک فتنہ کہ آج ایسے لوگ ہیں جو علم کا دعوی تو کرتے ہیں مگر انکو علم کہ بنیادی کا سرے سے پتا نہیں ۔ وہ لوگوں کے سامنے اہل علم کی روپ میں آتے ہیں مگر ان کا علم ضعیف و ناقص ہوتا ہے ۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اے میرے بھایئوں، علم کو علماء اور اسکے مستند اصولوں کے بغیر نہیں سیکھنا چاہیے ۔ اور یقنا علماء نے انتھک محنت کی ہے، ہر ایک چیز کو بڑے باریک بینی سے دیکھا اور جانچا ہے تب جا کہ علم کے اصول جامع اور مستحکم ہوئے ہیں ۔ اور درست صرف یہی ہے کہ علم علماء سے لیا جائے نہ کہ خود اکیلے کتابوں سے ۔ علم کو علماء سے سم کے لو، (یعنی علماء کی صحبت اختیا کرو) اور کتابیں صرف اوذار ہیں ، اور جو لوگ لوگوں کو تربیت دیتے ہیں کتابوں کے ذریعے وہی علماء ہیں ۔تو پس اگر آپ کتابیں لو اور آپکو انکے طریقہ استمعال کا پتا نہیں تو آپ آپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ہلاک کر دوگے ۔ پس اصول ہونا ضروری ہے ، جیساکہ کہا جاتا ہے ، " تو جس کسی کے پاس اصول نہیں ہے، وہ جواب تک نہیں پہنچ سکتا -http://www.youtube.com/watch?v=C9vaIjdKJM4[
پس محظ عربی زبان یا اسکے ترجمے، اپنے منطق، تہذیب و روایات ، خواہشات یا سمجھ وغیرہ کی بنیاد پر دین اسلام کو سمجھنا باطل ہے اور ہمیں دین کو اسکے اصلی معنوں میں سمجھنے کے لئے علماء سے رجوع کرنا ہوگا جیسا کہ قرآن و سنّت کا حکم ہے۔
4.3) بطور مثال حضرت عمر ررضی الله عنہ کے دور کےایک شخض کا واقعہ جسنےا پنے سمجھ و فہم سے دینی معاملات و احکامات کی تشریح کرنے کی کوشش کی:
سُلیمان بن یاسر سے روایت ہے کہ :
قبلہ غنیم کا صبیغ ابن اصل نامی ایک شخص مدینہ آیا اور اسکے پاس کتابیں تھیں- اور اس نے لوگوں سےمتشابحات ( وہ معاملات جن کی قرآن نے وضاحت نہیں کی ہے) کے بارے میں سوالات شروع کر دیے – یہ خبر عمر رضی الله عنہ تک پہنچی- تو عمر رضی الله نے کجھور کی کچھ شاخیں اکھٹا کیں – پس جب عمر رضی الله اس شخص کے پاس پہنچے اور اسکے ساتھ بیٹھ گئے تو اس سے سوال کیا " کون ہو تم؟ اس نے کہا : " میں عبداللہ صبیغ ہوں ، عمر رضی الله نے کہا : " میں عبداللہ (الله کا بندہ) عمر ہوں- اور پھر عمر رضی الله نے اسے ان کجھور کی شاخوں سے مارنا شروع کر دیا ، اور عمر رضی الله نے اس شخص کو تب تک مارا جب تک اسکا سر پھٹ گیا اور اسکا چہرہ خون سے سرخ ہو گیا- اس نے (صبیغ) نے کہا: یا امیر المومنین بس کیجئے ، الله کی قسم جو (گند) میرے کھوپڑی میں تھا وہ نکل گیا
]شرح اصول الاعتقاد لالکائی(3/٦٣٥-٦٣٦) اور اور شیخ خالد دھوئ از ضفیری کے مقالات، نیز دیکھئے سنن دارمی (عبداللہ ہاشم یمنی، ١/١٥،# ١٤٦[
4.4). اس انتشاری ذہنیت اور بیماری کا حل:
جس طرح ڈرائیونگ کے اصول کے بارے میں اسکے ماہرین سے رجوع کرنا چاہیئے اور جس طرح ایک جمع ایک کا جواب ایک ریاض دان سے پوچھنا چاہیئے اسی طرح، دین کے معاملات میں بھی ان لوگوں سے رجوع کرنا چاہیئے جو کہ اس میں ماہر ہوں- جس طرح ہم نے اوپر عرض کیا کہ کس طرح اس امّت کے بہترین لوگ (صحابہ) نے بھی قرآن کی لفظی تشریح میں غلطی کی جسے رسول الله ﷺ نے خود صحیح کیا- اور پھر ہم نے پڑھا کہ کسطرح آج کے مختلف فرقوں نے دین کو اپنے منطق سے سمجھنے کی کوشش کی اور تباہی اور گمراہی کی طرف گامزن ہوئے- پس ہمیں اس بات کی اہمیت کا پتہ چل گیا کہ دین ہمیں ان سے سیکھنا چاہیئے جو اسمیں ماہر ہیں ہ جو اسکا علم رکھتے ہیں جو اہل علم ہیں اور اپنی منطق اور دماغ اور خواہشات کی بنیاد پر نہیں- ہم چاہیں جتنے بھی سمجھدار ہو جایئں صحابہ سے زیادہ سمجھدار نہیں ہو سکتے- اگر ان سے غلطی ہو سکتی ہے تو ہم سے بھی لازمی ہوگی - اگر انھیں رسول ا للہﷺ نے اہل علم سے رجوع کا حکم دیا تھا تو ہمیں بھی اہل علم سے رجوع کرنا چایئے قطع نظر اس بات سے کہ ہم کتنے پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں-پس جب تک ہم دین کو الله ، اسکے رسول ﷺ اور سلف صالحین کے فہم پر بذریعہ علماء نہیں سیکھیں گے ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی-ا ور اسی لیے عبدااللہ ابن المبارک(رحم الله عنه)نے کہا :
یہ بات صحیح ہے کہ ایک عقل مند شخص تین لوگوں کی بے قدری نہیں کرتا:
علماء کی، حکمرانوں کی، اور اپنے مسلمان بھائی کی ۔اور جو کوئی علماء کی بے قدری کرتا ہے ( یعنی اُنکا احترام نہیں کرتا ، اُنکے علم کی قدر نہیں کرتا ، اُن سے علم حاصل نہیں کرتا ، وغیرہ) اسکی آخرت کی زندگی تباہ ہو گی-جو بھی حکمرانوں کی بے قدری کرےگا وہ دنیوی زندگی کھودیگا ، اور جو بھی اپنے بھائی (مسلمان) کی بے قدری کرےگا وہ اپنے اچھے اخلاق اور کردار کھودیگا ۔
]الذهبي، سير أعلام النبلاء' 17:251[
یہی وجہ ہے اللہ (سبحانه و تعالى)اور اُسکے رسول نے ہمیں ہر وقت علماء کا دامن پکڑنے کا حکم دیا ہے - جیساکے الله فرماتا ہے :
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مانجامبھی اچھا ہے۔]سورة النساء : 59[
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو کارہوجاتے۔]سورة النساء : 83[
اور ہم نے تم سے پہلے مردوں، ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل کتابسے پوچھ لو ۔ ]سورة النحل : 43[
عن علي قال : قلت : يا رسول الله ، إن نزل بنا أمر ليس فيه بيان : أمر ولا نهي ، فما تأمرنا ؟ قال : تشاورون الفقهاء والعابدين ، ولا تمضوا فيه رأي خاصة
علی (رضي الله عنه)فرماتے ہیں :اے نبی ﷺ :اگر ہم پر کوئی ایسا معاملا آ جائے جسکے بارے میں ہمیہ نہیں جانتے کہ آیا اسے کیا جائے یا اس سے بچا جائے؟ تو ایسے معاملے کے بارے میں اپکا کا کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : " آپنے فقہاء اور صالحین سے رجوع کرو، اورکسی ایک شخص کے رائے پر نتیجہ اخذ نہ کرو-
]معجمالاوسط ۔ حدیث 1641، ابو یحییٰ نورپوری نے اسے حسن کہا [