• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن و سنت ۔۔۔لیکن بذریعہ علما۔!

معاذ

مبتدی
شمولیت
فروری 16، 2015
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18
قرآنو سنّت لیکن بذریعہ علماء
علماء اکرام سے علم کے حصول کی ضروت اور اہمیت

یہ ایک بہت ہی اہم مگر طویل موضوع ہےاور میں اس موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کرسکونگا۔ لیکن میں اپنی طرف سےاس موضوع کو مختصر رکھتے ہوئے اسکے نچوڑ
کوآپ تک پہنچانے کی کوشش کرونگا ۔
مترجم: سید فرقان مشوانی –
مورخہ: ٢٠١٤/١٠/١٢ –

فہرست :-

1)- گمراہ علماء دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔
2) - نقصان، جو جاہل اورعام لوگ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچاتے ہیں۔
3)- علم کی برتری، فضائل اور ضرورت (مختصراً بیان کی گئ ہیں)۔
4)- وہ بڑا مسلہ جو قرانی آیات ، احادیث اور اسلامی احکامات کی اپنی رائے اور منطق کے مطابق تشریح کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
4.1) - منظر نامے کا پہلا تصور: دنیوی مثالیں-
4.2) - منظر نامے کا دوسرا تصور: مذہبی مثالیں-
.-پہلی مثال-
-دوسری مثال-
-تیسری مثال-
-چوتھی مثال-
-پانچویں مثال-
-چھٹویں مثال-
-ساتویں مثال-
-آٹھویں مثال-
-نویں مثال-
4.3) - بطور مثال حضرت عمر ررضی الله عنہ کے دور کےایک شخض کا واقعہ جسنےا پنے سمجھ و فہم سے دینی معاملات و احکامات کی تشریح کرنے کی کوشش کی-
4.4) - اس انتشاری ذہنیت اور بیماری کا حل۔
5) -مستند ذرائع اور حقیقی علماء سے (علم) لینا لازم ہے۔
6) - حجت،اہمیت و فضائل علماء (مختصراً) ۔
6.1) - علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کے قول کی روشنی میں علماء کی اہمیت اور ذمہ داری -
6.2) - علماء کا خود یہ کہنا کہ "میں نہیں جانتا"۔
6.3) - علما کرام کی فضیلت اور عام آدمی (جاہل) پر برتری ۔
6.4) - باطل کی تردید اور حق کے قیام میں علماء کرام کا کردار۔
6.5) - علماء کرام کے اختیارات۔
6.6) - علما کرام میں خدا کا خوف (ہزاوں مثالوں میں سے صرف چند ذیل میں بیان کی گئی ہیں) ۔
7) - مذہب ؤ مذہبی احکامات کی اپنے منطق و فہم کے مطابق تشریح کے رد میں سلف صالحین کے فتوے۔
7.1 ) - کچھ ایسی مثالیں جب علماء نے اپنے علماء سے فتوے کے لئے رجوع کیا اور نص کے خلاف اپنے منطق کو استعمال کرنے کا رد کیا-
8) - خلاصہ/ اختتام-
9) - علماء کرام کا مزاق اڑانا اور انکی توہین کرنا ۔
10) - علماء سے برتاؤ کے حوالے سےچند نصیحتیں ۔
10.1) - اپنے شیخ (جس سے آپ علم حاصل کرتے ہو) سے حسن سلوک ۔
 

معاذ

مبتدی
شمولیت
فروری 16، 2015
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18

1) -گمراہ علماء دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔


، قَالَ: كُنْتُأَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي " قَالَهَا ثَلَاثًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ: "أَئِمَّةً مُضِلِّينَ"


"ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
میں ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ تھا اور میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
"مجھے میری امت کے لئے دجال سے بھی زیادہ خدشہ (ایک اور چیز کا) ہے"آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا ۔ میں نے کہا ! اے اللہ کے رسول ﷺ ، وہ کیا چیز ہے جس کا آپ دجال کے علاوہ اپنی امت پر خوف کر تے ہیں ؟ تو فرمایا"گمراہ ائمہ"


]مسند امام احمد20335،21334اور21335]۔ شیخ شعيب ارناوط اسے صحیح لغیرہ کہا(مستند شواہد کی وجہ سے) اپنےتحقیق مسند (1999ء35:21, 296-97 ) میں[-


کیا آپنے کبھی سوچا ہے کہ وہ رسول ﷺ جو دن رات اپنی امّت کو دجال کے فتنے سے خبردار کرتا رہے ، وہ گمراہ علماء کے فتنے کے بارے میں زیادہ فکر مند کیوں تھے؟


تووضاحت کے لیے ایک مثال ملاحظہ ہوں:

تصور کریں کہ آپ اپنے بیٹے کو پہلی منزل سے نہ کودنے کو مسلسل خبردار کر رہیں ہیں ، لیکن ایک دن آپ اسکو بتاتے ہو کہ بیٹا مجھے پہلی منزل سے زیادہ تمہارے دوسرے منزل سے کودنے کا ڈر ہے- اصل میں اس بات اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسری منزل سے کودنے کا خطرہ پہلی منزل سے بھی زیادہ ہے ۔ اس طرح گمراہ علماء دجال کے برابر خطرناک یا اس سے بھی بڑھکر ہیں۔


ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

"كيف أنتم إذا لبستكم فتنة يهرم فيها الكبير, ويربو فيها الصغير, ويتخذها الناس سنة, إذا ترك منها شيء" قيل: تركت السنة؟ قالوا: ومتى ذاك؟ قال: "إذا ذهبت علماؤكم, وكثرت قُراؤكم, وقَلَّت فقهاؤكم, وكَثُرت أمراؤكم, وقلَّتْ أمناؤكم, والتُمِسَتِ الدنيا بعمل الآخرة, وتُفُقهَ لغير الدين


" کیا حال ہوگا تمہارا جب تم کو فتنہ (آفت یعنی بدعت) اسطرح گھیر لے گی کہ ایک جوان اسکے ساتھ (یعنی اس کو کرتے کرتے) بوڑھا ہوجائےگا، اور بچوں کی تربیت اسی پر ہوگی، اور لوگ اس بطور سنّت لیں گے- توجب کبھی بھی اس (بدعت) کا کچھ حصہ لوگ چھوڑ دینگے، تو کہا جائے گا: " کیا تم نے سنّت کو چھوڑ دیا؟ انہوں (صحابہ) نے پوچھا: " ایسا کب ہوگا؟" آپﷺ نے فرمایا: جب تمہارے علماء فوت ہو گئے ہونگے ، قرآت کرنے والے کثرت میں ہونگے ، تمہارے فقہاء چند ایک ہونگے، تمہارے سردار کثرت میں ہونگے، ایسے لوگ کم ہونگے جن پر اعتبار کیا جا سکے، آخرت کے کامصرفلوگ دنیوی زندگی کے حصول کے لئے کرینگے، اور حصول علم کی وجہ دین کی بجاۓ کچھ اور ہوگا-"

[ دارمی (٦٤/١) نے اسے دو اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے ، پہلی سند صحیح جبکہ دوسری حسن ہے- اسے حاکم ( ٥١٤/4) اور دوسروں نی بھی روایت کیا ہے]


اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی رحم الله کہتے ہیں:

قلت:وهذا الحديث من أعلام نبوته صلى الله عليه وسلم وصدق رسالته, فإن كلفقرةمن فقراته, قد تحقق في العصر الحاضر, ومن ذلك كثرة البدع وافتتانالناس بهاحتى اتخذوها سنة, وجعلوها ديناً
?يُتَّبع, فإذا أعرض عنها أهل السنة حقيقة, إلى السنة الثابتة عنه صلى الله عليه وسلم قيل: تُركت السنة




" میں کہتا ہوں : یہ حدیث رسول اللهﷺکی نبوت و رسالت کی ایک نشانی ہے، کیوں کہ اسکا ایک ایک جز موجودہ دور میں وقوع پذیر ہو چکا ہے- اہل بدعت سے بدعات کے پھیلاؤ جاری ہیں ، اور لوگوں کے لئے یہ ایک امتحان ہے جس سے انکوں آزمایا جا رہا ہے- ان بدعات کو لوگوں نے بطور سنّت اپنا لیا اور دین کا حصہ بنا دیا ہے- پس جب اہل سنہ ان بدعات سے اس سنّت جو رسول اللهﷺسے ثابت ہے ، کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، تو کہا جائے گا: کیا سنّت کو رد کر دیا گیا ہے؟

[ قیام الرمضان :ص5-4، شیخ البانی رحم الله ]


رسول الله ﷺکے ہر قول میں لازماً کچھ سیکھنے کےلئے اور غور و فکر کرنے کے لئے ہو گا- اسکی مزید وضاحت اگے اس مکالے میں ہوگی-


2) - نقصان، جو جاہل اورعام لوگ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچاتے ہیں۔

اس حدیث سے اور ایک فائدہ، حصول علم کی اہمیت معلوم ہوتا ہے، کہ کوئی شخص بُرائی کے چنگل سے نہیں بچ سکتا جب تک وہ اچھے بُرے کے درمیان فرق نہ جان لے ۔ اگر آپ نہیں جانتے تاریکی کیا ہے تو آپکو ہر طرف روشنی ہی روشنی لگے گی – یہ تا ہم آپکوایک بےقوف یا دوسرے الفظ میں جاہل بنا دیگا۔ اس طرح ہم (مسلمانوں) کو علم حاصل کرنا چاہیے اور عمررضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پہلے سے ہم کو خبردار کردیا۔


أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حَفْصٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ شَبِيبٍ، عَنْ غَرْقَدَةَ، عَنِ الْمُسْتَظِلِّ بْنِ الْحُصَيْنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:"قَدْ عَلِمْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ مَتَى تَهْلِكُ الْعَرَبُ: إِذَا وَلِي أَمْرَهُمْ مَنْ لَمْ يَصْحَبِ الرَّسُولَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُعَالِجْ أَمْرَ الْجَاهِلِيَّةِ۔


المُصتضل بن حُسین سے روائیت ہے میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا :


میں جانتا ہوں اور کعبہ کی رب کی قسم، کہ کبعرب (مطلب کے اسلام) ناش ہو جائے گا : جب صحابہ کرام اُنکےامورکے والی نہیں ہونگے وہ لوگ جنہیں علم نہیں کہ جہالت کیا چیز ہے "۔

]مصنف ابن أبي شيبا6/410،طبقات ابن سعد6/129، مستدرك الحاكم،4/475، الشعب-الإيمان6/69، أبو نعيم ھلیه7/243، الحارس بن مسكين بدايہو نہایا[11/650



قال ابن تيمية قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إنَّمَا تُنْقَضُ عُرَى الْإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً إذَا نَشَأَ فِي الْإِسْلَامِ مَنْ لَمْ يَعْرِفْ الْجَاهِلِيَّةَ

ابن تیمیہ سے روایت ہے : عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : بے شک اسلام کی منیادیں ایک کے بعد ایک تباہ و برباد ہو جائےگیں۔ اگر اس میں ایسے لوگ پیدا ہو جائےجو نا واقف ہوں گے کہ جہالت کیا ہے ۔

]مجمو'الالفتاوى10/301، القیم اپنی فوائد میں بھی اسے لائے ہیں[


زبیر بن عدی رحم الله سے روایت ہے:
ہمانس بن ملک رضی الله عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور حجاج کے مظالم کی شکایت کی- پس انس رضی الله عنہ نے فرمایا:
" ہر آنے والا سال پچھلے سال سے بعد تر ہوگا یہاں تک تم آپنے رب سے جا ملو – یہ میں نے تمہارے رسولصلى الله عليه وسلم سے سنا ہے-


ابن مسعود رضی الله عنہ اسکی تشریح کچھ کرتے ہیں :

" قیامت کے دن تک ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بد تر ہوگا – اس سے میری مراد دولت میں اضافہ یا بے کر معاملات نہیں ہیں- بلکہ میرا مطلب علم کی کمی ہے- جب علماء فوت ہو جاینگے اور لوگ برابر ہوجاینگے ، وہ نا برائی سے روکینگے اور نہ نیکی کی طرف بلائینگے اور یہی انکو تباہی کی طرف لے جاییگی –

[ سنن دارمی (١٩٤)؛ یعقوب بن سفیان نے المعرفه میں اسے روایت کیا ہے ؛ نسائی (٣٩٣/3)، الخطیب اسے فقیه ولمتفقیہ (٤٥٦/١) میںلایے ہیں؛ دیکھئے ؛ فتح الباری (٢٦/١٣)]


عمر بن الخطاب نے زیاد رضی اللہ عنہ سے کہا :

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، أَنبَأَنَا عَلِيٌّ هُوَ ابْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِي عُمَرُ: «هَلْ تَعْرِفُ مَا يَهْدِمُ الْإِسْلَامَ؟» قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «يَهْدِمُهُ زَلَّةُ الْعَالِمِ، وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْكِتَابِ وَحُكْمُ الْأَئِمَّةِ الْمُضِلِّينَ»

کیا آپ جانتے ہے اسلام کن چیزوں سے تباہ ہوگا؟ میں (زیاد) نے کہا نہیں- انہوں (عمر) نے کہا: اسلام تباہ ہوگا ،علماء کے غلطیوں سے ، الله کی کتاب کے بارے میں منافقین کے بحث و دلائل سے، اور گمراہ ائمہ کے رائے سے ۔

]مشكوةألمصابیح89/1حدیث:269، محض الثواب2/717، الدارمی1/295، مسند الفاروق2/536، تلبيس الجاهمييا[4/191


الفضیل بن عیاض ؒ نے فرمایا :

کیا ہو گا جب آپ پر ایسا زمانہ آئے کہ جب لوگ حق اور باطل ، مومن اور کافر، امین اور غدار ، جاہل اور عالم اور نہ ہی صیح اور غلط میں تمیز کر سکینگے؟

]ابنبطاحالإبانة الکبرہ 1:188[


اس روایت کے بعدابنبطاحنے کہا :

بہ شک ہم اللہ کی طرف لوٹاۓجائینگے ! آج ہم اس وقت میں پہنچ چکے ہیں، جو ہم نے اسکے بارے میں سنا اور جانا ہے، اسکا بیشتر وقوع پذیر ہو چکا ہے-۔ ایک فرد واحد جسے الله نے سمجھ بوجھ عطا کی ہے، اور اگر جو اسلامی احکامات پر غور و فکر کرتا ہو اور جو صحیح راستے پر مستحکم ہو- تو اس پر یہ بات بلکل واضخ ہو جاییگی کے اکثر لوگوں نے صراط مستقیم اور محکم دلائل سے منه موڑ لیا ہے- اکثر لوگوں نے ان چیزوں کو پسند کرنا شروع کر دیا ہے جن سے وہ کبھی نفرت کرتے تھے، ان امور کو جائز قرار دے دیا جنہیں وہ کبھی حرام کہتے تھے، اور ام امور کو اپنانا شروع کر دیا جنہیں وہ کبھی رد کرتے تھے۔ اللہ تم پر رحم کرے- یہ مسلمانوں کا صیح منشاء نہیں ہے اور نہ اُن لوگوں کا رویہ ہے جو دین جو دین کے سمجھ رکھتے ہیں-

طلق ابن حبيب :

علم اور اہل علم کے لئے ان لوگوں سے زیادہ کوئی خطرناک نہیں جو ان کہ گروہ میں تو شامل ہو جاتے ہیں پر ان سے نہیں ہوتے- یہ جاہل ہوتے ہیں لیکن آپنے آپ کو اہل علم میں سے سمجھتے ہیں- یہ لوگ صرف خرابی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اصلاح کر رہے ہیں-

]ابن ابی الدنیا، التوبہ مضمون 62[


شیخ صالح الفوذان نے کہا :

موجودہ وقت میں اس اُمت کو درپیش سب سے زیادہ خطرناک معاملاان جاہل مبلغین کا ہے جو آپنے آپ کو اہل علم میں سے سمجھتے ہیں، اور لوگوں کو ( اپنےدین کی طرف) جہالت اور گمراہی کے ساتھ بلاتے ہیں-۔

]إيعناتول-المستفيد، 887/1[


یہاں ایک مثال پیشخدمت ہے کہ کسطرح کم علم لوگ دین کو نقصان اور اسکے ستونوں کو ہلا کہ رکھ دیتے ہیں-:

آگے بڑنے سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ عالم کون ہوتا ہے؟: اسکے لئے مندرجہ زیل لنک پر جایئں:

http://islamqa.info/en/ref/145071

جسطرح مختلف لوگ مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں اسی طرح مختلف علماء بھی علوم دین کے مختلف شعبوں میں میں مہارت رکھتے ہیں-۔ تا ہم ان میں سے بعض نے آپنے محنت اور علم کی بدولت ایک الگ، انھوکہ اور اونچا مقاپ حاصل کیا، اور شیخ السلام اور محدث العصر جیسے القاب سے نوازے گیے ۔ اپردیے گیے لنک میں عالم کی تعریف ہو سکتا ہے کہ ان تمام امور جیسے کہ، علماء کے فضائل و برتری، یا ایک عالم بننے کے شرائط یا قوائد و ضوابط، لیکن پھر بھی یہ لنک آپکو ان شرائط کے بارے میں ایک سرسری جائزہ دیتا ہے جس پر ایک عالم کا پورا اترنا لازمی ہے-اور یہ خود ہی ایک عالم کی فوقیت ایک ام آدمی پر ظاہر کرتا ہے-

3) - علم کی برتری، فضائل اور ضرورت (مختصراً بیان کی گئ ہیں)۔:


علم اور اللہ تعالیٰ کا خوف ،اُسکی نشانیاں اور تخلیق سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ علم والے وہ لوگ ہے جو جانتے ہے ، اس لیے اللہ نے انکی تعریف قرآن میں کچھ یوں کی :

"خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحبعلمہیں"]سورة فاطر : 35:28[

اسلام میں علماء ایک ام آدمی کے مقابلے میں ایک بہت بڑا مقام ہے ، اس دنیا میں بھیاور اخرت میں بھی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :

"جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کوعلمعطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا"]سورة المجادلة : 58:11[

علم کی اہمیت کی وجہ سے اللہ نے رسول ﷺ کو اس سے زیادہعلمحاصل کر نے کا حکم دیا۔

اللہ کا فرمان ہے:

اور دعا کرو کہ" میرے پروردگار مجھے اور زیادہعلمدے"]سورة طه : 20:114[



علماء کی تعریف میں اللہ نے فرمایا:

"کہو بھلا جو لوگعلمرکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں"

]سورة الزمر: 39:9[


علم راکھنے والے لوگ جلد سچ سمجھتے ہیں اور اس میں یقین کرتے ہیں۔

"اور یہ بھی غرض ہے کہ جن لوگوں کوعلمعطا ہوا ہے وہ جان لیں کہ وہ (یعنی وحی) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو وہ اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل خدا کے آگے عاجزی کریں"]سورة الحج :22:54[

"خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اورعلموالے لوگ جو انصاف پر قائم ہیں وہ بھی (گواہی دیتے ہیں کہ) اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں"]سورة آل عمران: 3:18[

"کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ خدا تو اسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ خدا کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤ بلکہ (اس کو یہ کہنا سزاوار ہے کہ اے اہلِ کتاب) تم (علمائے) ربانی ہو جاؤ کیونکہ تم کتابِ (خدا) پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو"]سورة آل عمران: 3:79[

"اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم (خدا کے) رسول نہیں ہو۔ کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا اور وہ شخص جس کے پاس کتاب (آسمانی) کاعلمہے گواہ کافی ہیں"]سورة الرعد: 13:43[

"وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔ اور جس کو دانائی ملی بےشک اس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں"]سورة البقرة : 2:269[

"جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کوعلمعطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا"]سورة المجادلة: 58:11[

رسول ﷺنے فرمایا علم کا حصول جنت کےلیے ایک راستہ ہے ۔

مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ

"رسول ﷺ نے فرمایا :جس نے علم سیکھنے کے لیے کوئی راستہ اختیارکیا،اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا ایک راستہ آسان کر دیتے ہے"-]ترمذی : جلد:2 حدیث 541[

رسول ﷺ نے فرمایا :

إذا مات الأنسان انقطع عمله إلا من ثلاث‏:‏ صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له

"جب مرجاتا ہے آدمی تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ ،دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیںاور تیسرے نیک جنت بچے کا جو دعا کرے اس کے لیے"

]صحیح مسلم : 4223[


رسول ﷺ نے فرمایا:

نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ

"اللہ تعالیٰ اُس شکص کو خوش رکھے جس نےہم سے کوئی حدیث سنی پھراسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچایا اس لیے کہ بہت سے فقیہ اسے اپنے سے زیادہ فقیہ شخص کے پاس لے جاتے ہیں اور بہت سے حاملین فقہ خود فقیہ نہیں ہوتے"

]ترمزی : جلد 2 : حدیث 551،امام ابو داؤد، سنن، کتاب علم، نمبر3660، ابن ماجہ، سنن، کتاب زہد، نمبر4105، امام احمد بن حنبل، مسند، ج5، ص183۔ اور امام دآرامی، سنن، تعارف، نمبر229۔[


رسول ﷺ نے فرمایا :

من يرد الله به خيرًا يفقه في الدين‏

"اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کاارادہ کر تا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے"

]متفق علیہ -ترمزی: جلد 2 حدیث 540[

مزید مطالعے کے لیے ےیہاں کلک کرے :http://the-finalrevelation.blogspot.in/2013/03/the-children-who-sought-knowledge-of.html

یہاں کلک کرے :http://the-finalrevelation.blogspot.in/2013/01/muhaddithaat-women-scholars-of-hadith.html





آپ یقین کیجئے کہ علم کی اہمیت پر احادیث و اثار سلف پر ہزار صفحوں سے بھی زیادہ لکھا جا سکتا ہے- تقریبا ہر حدیث کی کتاب میں ایک باب ،علم کے فضائل پر ماخوذ کیا گیا ہے- امام نسائی اور بہت سے دوسرے اسلاف نے اس موضوع پر کافی بڑی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ حصول علم اور تدریس علم کی اہمیت کا ایک انسان صرف تصور ہی کر سکتا ہے-


4) وہ بڑا مسلہ جو قرانی آیات ، احادیث اور اسلامی احکامات کی اپنی رائے اور منطق کے مطابق تشریح کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔:


خود ساختہ تشریح اور بغیر سیاق و سباق کے (عبارت) کی سمجھ دور جدید کی پیداوار نہیں بلکہ تب سے ہے جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ نبی ﷺ کے دور میں بھی صحابہ بعض آیات کی اپنے فہم سے تشریح کرتے تھے،اور خود رسول ﷺ انکو درست فرماتے اور انکی رہنمائی کرتے تھے ۔ صحابہ کرام کے دور میں بھی لوگ اپنے طور پر علم اور فہم کی کمی کی وجہ سے غلط تشریح کرتے تھے۔ اسکی ایک بہت بڑی مثال خوارج کی ہے جنہوں نے قرآن کی خود ساختہ تشریح کی۔ جو کچھ خوارج نے کیا، اور جو انجام انکا ہوا وہ سب ہمارے سامنے ہے اور نبی ﷺ نے ان لوگوں کے بارے میں پیشن گوئی کی کہ "قران ان لوگوں کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا" مطلب یہ کے قران کی صحیح سمجھ نہیں آیئگی ۔

ایک مثال مندرجہ ذیل ہے :



عمر رضی الله عنہ نے لوگوں کو خطبہ دینا چاہا لیکنحضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

"یا امیرالمؤمنین ایسا نہ کیجئے ۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لئے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے ،لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے ۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے ، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اورعلم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا۔ ان شا اللہ "

]بخاری6830[


 

معاذ

مبتدی
شمولیت
فروری 16، 2015
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
18

4.1) دنیاوی مثالیں:
اگراندازة کہا جائے کہ زمین پر 5 ارب سےبھی زیادہ لوگ ہیں اور اس سوال کا ہر ایک کے پاس الگ جواب ہو گا کہ 1+1 سے کیا بنتا ہے ؟ کچھ کہیں گے ،3 کچھ 33 ، کچھ لوگ ریاضیات کے ساتھ آئے اور کچھ لوگ مختلف فارمولوں کے ساتھ۔ اب اس کو کیا کہا جاییگا؟



جواب: افرا تفری و انتشار .
اسی طرح اس بارے میں کیا خیال ہے کہ ہر ایک بندہ اپنے نقطہ نظر اور اپنی من پسند اصولوں کے مطابق گاڑی چلائے ؟ کچھ توکہیں گے کہ ہم دوسروں سے نہ صرف علمی بلکہ ہر لحاظ سے بہتر ہیں اور اس لئے ہمیں فٹ پاتھ پر بھی گاڑی چلانے کا حق ہے ۔ اسی طرح اور لوگ بھی اپنے اپنے نقطہ نظرکے ساتھ آینگے- اب اس صورت حال کو کیا کہا جائیگا ؟
جواب : افراتفری اور انتشار

اس مثال کا اطلاق سائنس، علم نجوم، میکینکس، کارپینٹری، وغیرہ پر بھی ہوتا ہے اورجسکا نتیجہ انتشار و افرا تفری کی سواء کچھ نہیں-اسکا جواب اور حل اس مثال کے بعد بیان کیا جایگا –

4.2) مذہبی مثالیں:
«مَهْلًا يَا قَوْمِ، بِهَذَا أُهْلِكَتِ الْأُمَمُ مِنْ قَبْلِكُمْ، بِاخْتِلَافِهِمْ عَلى أَنْبِيَائِهِمْ، وَضَرْبِهِمِ الْكُتُبَ بَعْضَهَا بِبَعْضٍ، إِنَّ الْقُرْآنَ لَمْ يَنْزِلْ يُكَذِّبُ بَعْضُهُ بَعْضًا، إِنَّمَا يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْهُ فَاعْمَلُوا بِهِ، وَمَا جَهِلْتُمْ مِنْهُ فَرُدُّوهُ إِلى عَالِمِه»
پہلی مثال :

قران کے ایک سورہ میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور دوسرے سورہ میں بتایا گیا ہے کے انسان کو پانی سے پیدا کیا گیا ہے ۔ تو اب ایک ایسا انسان جو کہ بنیادی اصول سے با لکل بے خبر ہے یا قرآن کو سمجھنے اور لاگو کرنے کے حوالے سے اس نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی وہ یہی دعوی کرے گا کہ قرآن میں تضاد ہے۔ تاہم، جب ہم اصولوں کی روشنی میں انکی مصالحت کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قرآن میں تضاد نہیں ہے بلکہ انسان مٹی اور پانی کا مرکب ہے۔ سائنس بھی اسی بات کو ثابت کرتی ہے۔ مندرجہ ذیل حدیث اس مثال کو مزید واضخ کرتی ہے :
امام احمد نے راوایت کیا ہے کہ :امر بن شعیب نے کہا ، کہ میرے والد نے کہا کہ، میرے دادا نے کہا کہ میں اور میرا بھائی ایسی مجلس میں بیٹھے تھے کہ جو مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ عزیز ہے- ایک دفعہ میں اپنے بھائی کے ساتھ آیا تو کچھ بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کے کسی دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، ہم نے ان سے دور بھیٹنا گوارا نہ کیا اور انکے ساتھ ہی بیٹھ گئے ، اس دوران صحابہ اکرام نے قرآن کی ایک آیت کا تذکرہ چھیڑا اور اس کی تفسیر میں ان کے درمیان اختلاف رائے ہو گیا ، یہاں تک کہ ان کی آوایں بلند ہونے لگیں ، نبی ﷺ ، غضب ناک ہوکر باہر نکلے ، آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ تھا اور آپ ﷺ نے ان پر ریت پھینکی اورفرما یا لوگوں رک جاؤ ، تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء سے اختلاف کیا اور اپنی کتابوں کے متصادم حصّوں کی وجہ سے ، قران اس طرح نازل نہیں ہوا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تکذیب کرتا ہو ، بلکہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے ، اس لئے تمہیں جتنی بات کا علم ہو ، اس پر عمل کرلو اور جو معلوم نہ ہوتو اس کے عالم سے معلوم کرلو۔
] مسند احمد (6702) ،احمد شاكر (10/174) کی طرف سے صحیح قرار دیا ہے، سنن بيہقى (635) ، مشکوۃ (237)[]


جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ صحابہ جو اس امت کے بہترین لوگ ہیں ، انہوں نے بھی ایک دوسرے سے اپنی فہم کی بنیاد پر اختلاف کیا جس پر نبی ﷺ کی ڈانٹ پڑھی ا ور انہیں درست کیا اور انہیں نصیحت کی کہ آپ ان سے پوچھو جو آپ سے زیادہ علم رکھتے ہیں (یعنی اہل علم)۔ یہاں پر نبی ﷺ خود استاد تھے پس خود ہی انکے غلطیوں کو ٹھیک کیا، تا ہم جیسا کہ ہمیں پتہ ہے کہ علماء رسول ﷺ کے علم کے وارث ہیں ،ہمیں انکے ذریعے سے قران اور سنت کی روشنی میں رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔


دوسری مثال:
فرض کریں ہمعربی زبان کے ماہرین سے سوال کریں کہ " دیوالیہ کا کیا مطلب ہوتا ہے"؟وہ اسکا جواب ایک واضح انداز میں دیں گا ، اگر ہم اسکو سادہ الفاظ میں سمجھے تو اسکا مطلب ہو گا کہ ایک ایسا شخص جو پیسوں سے کنگال ہوا ہو۔ اب چلیں دھیکتے ہیں کیا یہی منطق اسلام میں استعمال ہو سکتا ہے؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أتدرون من المفلس‏؟‏‏"‏ قالوا ‏:‏ المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع فقال‏:‏ ‏"‏إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضي ما عليه، أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار
"تم جانتے ہو مفلس/دیوالیہ کون ہے ؟" لوگوں نے عرض کیا : مفلس/دیوالیہ ہم میں وہ ہے جس کے پاس روپیہ اور اسباب نہ ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : " مفلس دیوالیہ میری امت میں قیامت کے دن وہ ہوگا جو نماز لائے گا ، روزہ اور زکوٰۃ لیکن اس نے دنیا میں ایک کوگالی دی ہوگی ، دوسرے کوبدکاری کی تہمت لگائی ہوگی ، تیسرے کا مال کھالیا ہوگا ، چوتھے کا خون کیا ہوگا، پانچویں کو مارا ہوگا پھر ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیاں مل جائیں گی اور جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہو نے سے پہلے ختم ہوجائیں گی تو ان لوگوں کی برائیاں اس پر ڈالی جائیں گی اور وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا"۔
]صحیح مسلم 6579[


ایک اور مشہور حدیث ہے : ایک دن رسولﷺ نے ایک اعرابی کو دیکھا کہ اسنے اپنےا ونٹ کو باندھے بغیر چھوڑ دیا-آپ ﷺ نے اعرابی سے پوچھا:
"کیوں تم اپنے اونٹ کو نہیں باندھتے ؟:
عرابی نے جواب دیا:
" میں اللہ پے اعتماد رکھتا ہوں ، اسکے بعد رسول ﷺ نے کہا،
”اعقلها وتوكّل"
تم پہلے اونٹ کو باندھو ، پھر اللہ پر عتماد رکھو۔
]ترمذی، صحیح الجامع 1068میں بھی دیکھے [

اب ذرا تصور کریں ، کہ اگر کوئی بندہ اب اس پر بحث کرے کہ یہ حدیث یا ہر حدیث پر عمل لفظی اعتبار سے کرنا ہو گا ، تو پھر تو سب لوگ پہلے اونٹ خریدنے جاینگے اور پھر اسکو باندھینگے اور پھر الله پر توکل کرینگے – اب کیا اس بات کا کوئی منطق بنتا ہے ؟
لیکن ظاہر ہے اس روایت کےمطلب ہے کہ انسان کے بس میں جتنا ہو اتنا کرے اور باقی الله پر چھوڑ دے۔




صحابہ کا اپنے فہم سے تشریحات کرنے بعدمیں رسول اللہﷺ کا انکو درست کرنے کی ایک اورمثال:
ابن عبدالرحمن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص کو غسل کرنے کی ضرورت پیش آگئ وہ شخص حضرت عمر کی خدمت میں آیا اور ان سے کہا کہ میں جنبی ہوں اور غسل کر نے کے واسطے مجھ کو پانی نہیں مل سکا تو میں کیا کروں؟ حضرت عمر نے کہا کہ تم ایسی صورت میں نماز نہ پڑھو ۔ حضرت عمار بن یاسر نے فرمایا کیا تم کو یہ یاد نہیں ہے کہ جس وقت ہم لوگ ایک لشکر میں تھے پھر ہم لوگوں کو غسل کرنے کی ضرورت پیش آگئ۔ تم نے تو نماز ہی نہ پڑھی تھی لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھی تھی۔ پھر میں خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے واقعہ عرض کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم کویہ کر نا بالکل کافی تھا اور حضرت شعبہ نے اپنی ہتھیلی زمین پر ماری پھر اس پر پھونک ماری اس کے بعد دونوں ہاتھوں کی ہتھیلی کو ملا پھر چہرہ پر مسح فرمایا۔
] بخاری، امام جامع صحیح، جلد1، ص51 اورنمبر347 ۔ فتح الباری 1/455اور سنن نسائی، باب 1، کتاب کی طہارت، حدیث نمبر 320[

تیسری مثال:
"جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم سے مخلوط نہیں کیا" (6:82)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ پریشان ہو گئے اور ہم میں سے کون ہے جس نےاپنے ایمان کو ظلم سے مخلوط نہیں کیا؟ (یہاں پر صحابہ نے اسکا لغوی معنی لیا) ، رسول ﷺ نے کہا اسکا مطلب وہ نہیں ہے، کیا تم نے نہیں سنا لقمان علیہ سلام نے کیا کہا : " اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو بے شک اللہ کے ساتھ عبادت میں دوسروں کو شریک کرناایک عظیم ظلم (گناہ،غلطی ) ہے ۔ یہ حدیث مسلم نے روایت کی ہے۔


شیخ ماہر قہطانی نے ایک ٹیپ میں اس حدیث کے بارے میں کہا ہے :
قران مجید اور قول رسول ﷺ کی تشریح سنت کے بغیر کوئی نہیں کر سکتا ، جہاں تک قرآن کی عربی میں تشریح کی بات ہے تو یہ صحابہ کے لئے بھی ممکن نہیں تھا-ایک دفعہ صحابہ نے قرآن کی عربی میں تشریح کی کوشش کی لیکن رسول ﷺ نے انکی تردید کی - ] دیکھئے تفسیر سورہٴ ٣١: ١٣ ، کتاب الیمان من الصیح ، امام مسلم[

اس آیت:
"الَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يَلْبِسُواْ إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ"کی تشریح صحابہ نے صرف عربی زبان میں کی تھی - ،بِظُلْمٍکی تشریح صحابہ نے "نا انصافی "کی تھی ۔ تورسول ﷺ نے انکی اصلاح کی اور انہیں بتایا کہ اسکا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب شرک ہے ۔ پس جو کچھ نازل کیا گیا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک انسان عربی زبان پر کتنا عبور رکھتا ہے اور وہ کتنا ہی علم والا ہو لیکن قرآن کو سمجھنے کے لئے صحیح سنت کی طرف لوٹاجائے گا۔
(قران کی تشریح کر تے وقت سُنت کے بغیر عربی زبان بے کار ہے)۔ اور سُنت ، حدیث اور شواحد سے معلوم ہوتی ہے ۔۔۔

چوتھی مثال:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ‘رسول ﷺسے سنا :
الرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ مِنَ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يُحِبُّ فَلاَ يُحَدِّثْ بِهِ إِلاَّ مَنْ يُحِبُّ، وَإِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَلْيَتْفِلْ ثَلاَثًا وَلاَ يُحَدِّثْ بِهَا أَحَدًا فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ ‏
جب تم میں سے کوئی شخص خواب دیکھے جسے وہ پسند کرتا ہو تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اس پر اسے اللہ کی تعریف کرنی چاہئیے اور اسے بیان بھی کرنا چاہئیے اور جب کوئی خواب ایسا دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہو تو وہ شیطان کی طرف سے ہے اور اسے چاہئیے کہ اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور اس کا ذکر کسی سے نہ کرے ‘ کیونکہ وہ اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔
] صیح بخاری: 7045[

اس دنیا میں ایسے بہت سارے جاہل لوگ ہیں سمجھتے ہیں کہ انکا فہم اور منطق علماء سے برتر ہے، وہ علماء جنہوں نے اپنی پوری زندگی دین کے مطالعے میں صرف کردی اور پھر بھی بستر مرگ پر انکے منہ سے یہ الفاظ نکلتے رہے " کاش کہ میں اس سے زیادہ جانتا اور اس سے زیادہ مطالعہ کرتا کیوں کہ میں کچھ نہیں جانتا "- اگرمندرجہ بالا حدیث کو ایک عام آدمی کے فہم کے مطابق سمجھا جائے تو اسکا مطلب ہوگا کہ کہ اگر کوئی شخص خواب میں عورت اور دولت دیکھے جو اسے بہت پسند ہو تو وہ سمجھے گا کہ بھائی یہ خواب تو اللہ کی طرف سے ہے چلو سب کو بتاؤ ، اور اسی طرح اگر ایک شخص خواب میں دیکھے کہ وہ غریب ہے اور دنیا کے عیش و آرام سے دور ہے ، تو وہ کہے گا کہ بھائی مجھے تو یہ خواب بالکل پسند نہیں اور یہ شیطان کی طرف سے ہے-۔ اعوذ بِااللہ! لیکن ہاں اگر لوگ اس طرح اپنا دماغ اور اپنا فہم حدیث کو سمجھنے میں استعمال کرتے رہے تو پھر اس طرح کے ہی تشریحات سامنے آ ینگے - ۔ اور اسلئے ہم کہتے ہیں کہ علماء سے رجوع کرو کیوں کہ ایک درست ؤ مناسب اور صحیح علم ہی ہمیں بتاتا ہے کہ نا جائز رشتے اور حرام دولت کہ خواب اچھے نہیں ہیں ۔
ایک اور مثال آج کے زمانے کی یہ ہے کہ آج جتنے بھی فرقے ہیں ہر ایک کا دعوی ہے کہ وہ قرآن و سنت پر قائم ہیں لیکن ان میں سے بہت قرانی آیات اور احادیث کی تشریح اپنے ہی فہم اور خواہشات کے مطابق کرتے ہیں جو ایک بہت بڑے فتنے کا با عث بنی ہے-

اس کے ساتھ ساتھ ہم پانچویں مثال پرآ تے ہیں :
قادیانی
( ایک حالیہ فرقہ یا اسلام کی ایک شاخ) کہتے ہیں نبوت کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ، انکا دعوی ہے کہ محمدﷺ کے بعد بھی نبی آئینگے، اور ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان نبیوں میں سے ایک ہندوستان کے ایک شہر قادیان میں آیا، اور جو کوئی بھی انکے نبی میں ایمان نہ لائے وہ کافر ہے۔ وہ یہ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں جب کے واضح آیت ہے ، "بلکہ (محمد)الله کے رسول اور آخری نبی ہیں۔۔۔۔]سورة الأحزاب : 33:40[ وہیہ کیسے کہہ سکتے ہیں جب کہ متواتر احادیث میں آیا ہے کہ ،
"میرے بعد کوئی نبی نہیں" ]بخاری اور مسلم[

پس ان لوگوں نے قرآن کی غلط اور من پسند تشریح کی اور اسکی وضاحت سے قاصر رہے جسطرح وضاحت سلف صالحین نے کی ، وہ وضاحت جس پر مسلمان نسل د ر نسل عمل پیرا تھے، حتی کہ اس کذاب دجال غلاماحمد پرویز قادیانی نے نبوت کا دعوی کر دیا،- اسکی ایک لمبی کہانی ہے جسکی وضاحت یہاں ضروری نہیں ۔ بہت سے لوگ( جنہیں اس اصول کا پتہ نہیں تھا کہ قرآن و سنت کو سلف صالحین کے فہم پر سمجھنا فرض ہے، اور جو ایک مسلمان کے لئے فتنوں اور گمراہی سے بچنے کا واحد راستہ ہے ) اس دجال کے دعوی کو سچ مان بھیٹے اور یہ بیوقوف اس دجال کے نبوت کے فریبی دعوے میں سلف صالحین کا راستہ چھوڑ گئے-

تو پھر کیا کیا غلام پرویز قادیانی نے اس آیت کے ساتھ کہ "بلکہ (محمد ﷺ )خدا کے پیغمبر ہیں اور نبیوں کے مہر ہیں"؟ اسنے کہا کہ مہر کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انکے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا بلکہ مہر کا مطلب ہے کہ محمد ﷺ انبیاءکی زینت ہیں ۔ تو پس انہوں نے اس آیت سے انکار نہیں کیا اور نا یہ کہا کہ الله نی یہ آیت رسول پر نازل نہیں کی بلکہ انھیں اسکے اصل اور صحیح معنی اور تشریح سے انکار کیا- تو بتایئے کیا فائدہ ایسے الفاظ میں یقین رکھنے کا جسکا حقیقی معنی سے کوئی تعلق نہ ہو-
] شیخ شدی نعمان کی موسوعات علامہ ،مجدد العصر محمد ناصر الدین البانی، ، جلد1، صفحہ 212-230 سے لیا گیا اقتباس[
چھٹی مثال
شیخ البانی کا کہنا ہے :

چلیں اسکو سمجھنے کے لئے ایک مثال دیتے ہیں جس سے یہ حقیقت اور عیاں ہو جایئگی جس میں کوئی شک نہیں اور نہ ہیں کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے ۔ اللہ (سبحانه و تعالى)فرماتے ہے :
"اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو……" (سورة المائدة : 5:38)
اب ذرا غور کریں کہ کسطرح قرآن کو سمجھنے کے لئے ہم صرف عربی لغت کا استعمال نہیں کر سکتے- لغت کی اعتبار سے سے "چور" ہر وو شخص ہوتا ہے جو ایک محفوظ جگہ سے کوئی چیز چرائے، اسکی مالیت چاہے جتنی بھی ہو یا ایسا بھی ہو سکتا ہے اسکی مالیت کچھ بھی نہ ہو، ہو سکتا ہے اسنے ایک انڈا چرایا ہو،یا ایک روپیہ یا پانچ روپے چرائے ہوں، تو لسانی یا لغت کے اعتبار سے ایسا شخص چور کہلائیگا –
۔ اللہ فرماتا ہے : "اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو……" تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ہر چور کے ہاتھ کاٹ دیے جاینگے ؟
جواب ہے نہیں۔کیوں ؟
کیونکہ جو شخصیت وضاحت کر رہی ہے اور جسے وضاحت کی ذمداری سونپی گئی ہے وہ ہےمحمد ﷺ اور جس چیز کی وضاحت کی جا رہی ہے وہ ہے الله کا کلام (یعنی یہ آیت)، محمد ﷺ ہمیں وضاحت دے رہے ہیں کہ چور ( مرد یا عورت ) میں سے کس کے ہاتھ کاٹے جاینگے-
" لاَ تُقْطَعُ الْيَدُ إِلاَّ فِي رُبُعِ دِينَارٍ"
"چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ پر ہاتھ کاٹ لیا جائے گا "
]بخاری اور مسلم (نمبر:6789) ،ابو بکر بن محمد بن عمر بن حزم کی سند سے عائشہ بنت ابی بکر سے روائیت ہے[
پس یہاں سے ایک اہم بات پتہ چلی جسکی طرف طالب علم کوئی دیہان نہیں دیتے: کہ ایک طرف ہے روایتی عربی زبان دوسری طرف ہے شرعی زبان جسکی بنیاد الله نے خود رکھی۔ اہل عرب جو قران کی زبان بولتے تھے، قران جن کی زبان میں نازل ہوا، انکو اس سے پہلے عربی زبان کی ایسی شرعی استعمال کا علم نہیں تھا ۔ تو پس جب لسانی یا لغت کے اعتبار چور کا لفظ استعمال ہو تو اسکے زمرے میں سا رے چور آیینگے ، لیکن جب شریعت کے معنوں میں اسکا ذکر کیا جاتا ہے تو ہر چور شامل نہیں ہو گا ، لیکن صرف وہ جو ایک چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ چوری کرے۔
پس یہ ایک بہترین مثال ہے جو ہمیں اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ قرآن و سنّت کو سمجھنے کے لئے عربی زبان بمع اپنے فہم اور منطق کا استمعال غلط ہے ۔ اور یہی وہ چیز ہے جس میں آج کے مصنفین پڑھ گئے ہیں۔ وہ روایتی عربی زبان کا اطلاق قرانی آیات اور حدیث نبوی پر کرتے ہیں اور نتیجتہ ایسے تشریحات اور وضاحتیں سامنے آتی ہیں جنہیں امّت مسلمہ نے کبھی نہیں سنا - یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا واجب ہے کہ اسلام کی بنیاد تین اصولوں پر قایم ہے-
1.کتاب (قران)
2.سُنت
3.سلف صالحین کا منہج و فہم





ساتویں مثال :
ان لوگوں کی تردید میں جو علماء کے فہم کی بجائے اپنے منطق و فہم کو ترجیح دیتے ہیں ۔
اس آیت کے آخر میں اللہ (سبحانه و تعالى)نے فرمایا:
"…انکے ہاتھ کاٹ ڈالو "-
اب ہاتھ کا مطلب کیا ہے ؟ ایک پورا ہاتھ ، اُنگلی تک …………؟ تو پھر کلائی سے ، یا کوہنی سے ، یا مونڈھے سے کاٹنا چاہئے ؟ نبی ﷺ اپنے اعمال کے ذریعے سے اس کی وضاحت کی- ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے اسکے بارے میں ہمارے پاس کوئی بھی مستند قول ﷺ نہیں ہے –بلکہ ہمارے پاس رسول ﷺ کا عمل(غیر زبانی) موجود ہے – تو ہمارے پاس یہ عمل کس طرح پہنچا ؟ ہمیں کس طرح پتہ چلا؟ ہمارے سلف و صالحین سے ، رسول الله ﷺ کے صحابہ سے جنہوں نے اس عمل کو اگلے نسل تک پہنچایا، اور اسی طرح انہوں نے اگے نسل تک، اور اسی طرح یہ بزریعہ علماء ہمیں آج پہنچا۔
]شیخ شدی نعمان کیموسوعات علامہ ،مجدد العصر محمد ناصر الدین البانی، ، جلد1، صفحہ 212-230 سے لیا گیا اقتباس[



آٹھویں مثال ہمارے آج کے جدید دور سے :
سائل : اللہ (سبحانه و تعالى) آپکو سلامت رکھے ۔
سائل کہتا ہے ، "ائے ہمارے شیخ ، کچھ لوگوں کا حدیث قدسی کے بارے میں کہنا ہے کہ :
'ائے میرے بندے ،میں بیمار تھا اور تم نے میری عیادت نہیں کی …… " یہ مبہم معاملات میں سے ہے اور اسے چھوڑ دینا واجب ہے ۔ تو اس بارے میں آپکی کیا نصیحت ہے ؟"
شیخ صالح الفوذان (اللہ اُن ہے محفوظ رکھے ) کا جواب :
اسے چھوڑو ؟؟؟؟؟ میں اللہ (سبحانه و تعالى)پناہ مانگتا ہوں ! اس شخص کا مطلب یہ ہے ہمیں مبہم آیات اور حدیث کو چھوڈ دینا چاہیے ؟ نہیں ۔ ہم اُنکو نہیں چھوڑتے، تاہم ہم اسے دوسرے حدیث اور آیات کے ساتھ انکی وضاحت کرتے ہیں۔ ہم اسے چوڑ نہیں سکتے ۔ ہم انکو صحیح و مستند حوالہ دیتے ہے اور ہم اسکی وضاحت کرتے ہیں تاکہ انکے صحیح وضاحت ہوجائے ۔ تاہم ، یہ پچیدہ جہالت ہے ، اس شخص کو نہیں معلوم ! اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی وضاحت کرتا ہے۔ یہ روایت اگے کہتی ہے ، میں آپ(اللہ) کی عیادت کیسے کرسکتا ہوں جبکہ آپ سارے جہاں کے رب ہیں ؟ اللہ (سبحانه و تعالى)فرماۓ گا ، " بشک میر فلاں فلاں بندہ بیمار تھا اور تم اس کی عیادت نہیں کی، اور اگر تم اس کی عیادت کرتے تو تم اُس کے پاس مجھے پاتے۔"
تو یہ حدیث کا ایک حصہ دوسرے حصے کی وضاحت کرتا ہے۔ تاہم، اس شخص ( جسنے اس طرح اسکا جواب دیا) کو وہ نہیں جانتا ۔ وہ مسکین (علم میں غریب) ہے ۔ اور میرے بھایئوں یہ ایک فتنہ کہ آج ایسے لوگ ہیں جو علم کا دعوی تو کرتے ہیں مگر انکو علم کہ بنیادی کا سرے سے پتا نہیں ۔ وہ لوگوں کے سامنے اہل علم کی روپ میں آتے ہیں مگر ان کا علم ضعیف و ناقص ہوتا ہے ۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اے میرے بھایئوں، علم کو علماء اور اسکے مستند اصولوں کے بغیر نہیں سیکھنا چاہیے ۔ اور یقنا علماء نے انتھک محنت کی ہے، ہر ایک چیز کو بڑے باریک بینی سے دیکھا اور جانچا ہے تب جا کہ علم کے اصول جامع اور مستحکم ہوئے ہیں ۔ اور درست صرف یہی ہے کہ علم علماء سے لیا جائے نہ کہ خود اکیلے کتابوں سے ۔ علم کو علماء سے سم کے لو، (یعنی علماء کی صحبت اختیا کرو) اور کتابیں صرف اوذار ہیں ، اور جو لوگ لوگوں کو تربیت دیتے ہیں کتابوں کے ذریعے وہی علماء ہیں ۔تو پس اگر آپ کتابیں لو اور آپکو انکے طریقہ استمعال کا پتا نہیں تو آپ آپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ہلاک کر دوگے ۔ پس اصول ہونا ضروری ہے ، جیساکہ کہا جاتا ہے ، " تو جس کسی کے پاس اصول نہیں ہے، وہ جواب تک نہیں پہنچ سکتا -http://www.youtube.com/watch?v=C9vaIjdKJM4[
پس محظ عربی زبان یا اسکے ترجمے، اپنے منطق، تہذیب و روایات ، خواہشات یا سمجھ وغیرہ کی بنیاد پر دین اسلام کو سمجھنا باطل ہے اور ہمیں دین کو اسکے اصلی معنوں میں سمجھنے کے لئے علماء سے رجوع کرنا ہوگا جیسا کہ قرآن و سنّت کا حکم ہے۔
4.3) بطور مثال حضرت عمر ررضی الله عنہ کے دور کےایک شخض کا واقعہ جسنےا پنے سمجھ و فہم سے دینی معاملات و احکامات کی تشریح کرنے کی کوشش کی:
سُلیمان بن یاسر سے روایت ہے کہ :
قبلہ غنیم کا صبیغ ابن اصل نامی ایک شخص مدینہ آیا اور اسکے پاس کتابیں تھیں- اور اس نے لوگوں سےمتشابحات ( وہ معاملات جن کی قرآن نے وضاحت نہیں کی ہے) کے بارے میں سوالات شروع کر دیے – یہ خبر عمر رضی الله عنہ تک پہنچی- تو عمر رضی الله نے کجھور کی کچھ شاخیں اکھٹا کیں – پس جب عمر رضی الله اس شخص کے پاس پہنچے اور اسکے ساتھ بیٹھ گئے تو اس سے سوال کیا " کون ہو تم؟ اس نے کہا : " میں عبداللہ صبیغ ہوں ، عمر رضی الله نے کہا : " میں عبداللہ (الله کا بندہ) عمر ہوں- اور پھر عمر رضی الله نے اسے ان کجھور کی شاخوں سے مارنا شروع کر دیا ، اور عمر رضی الله نے اس شخص کو تب تک مارا جب تک اسکا سر پھٹ گیا اور اسکا چہرہ خون سے سرخ ہو گیا- اس نے (صبیغ) نے کہا: یا امیر المومنین بس کیجئے ، الله کی قسم جو (گند) میرے کھوپڑی میں تھا وہ نکل گیا
]شرح اصول الاعتقاد لالکائی(3/٦٣٥-٦٣٦) اور اور شیخ خالد دھوئ از ضفیری کے مقالات، نیز دیکھئے سنن دارمی (عبداللہ ہاشم یمنی، ١/١٥،# ١٤٦[

4.4). اس انتشاری ذہنیت اور بیماری کا حل:
جس طرح ڈرائیونگ کے اصول کے بارے میں اسکے ماہرین سے رجوع کرنا چاہیئے اور جس طرح ایک جمع ایک کا جواب ایک ریاض دان سے پوچھنا چاہیئے اسی طرح، دین کے معاملات میں بھی ان لوگوں سے رجوع کرنا چاہیئے جو کہ اس میں ماہر ہوں- جس طرح ہم نے اوپر عرض کیا کہ کس طرح اس امّت کے بہترین لوگ (صحابہ) نے بھی قرآن کی لفظی تشریح میں غلطی کی جسے رسول الله ﷺ نے خود صحیح کیا- اور پھر ہم نے پڑھا کہ کسطرح آج کے مختلف فرقوں نے دین کو اپنے منطق سے سمجھنے کی کوشش کی اور تباہی اور گمراہی کی طرف گامزن ہوئے- پس ہمیں اس بات کی اہمیت کا پتہ چل گیا کہ دین ہمیں ان سے سیکھنا چاہیئے جو اسمیں ماہر ہیں ہ جو اسکا علم رکھتے ہیں جو اہل علم ہیں اور اپنی منطق اور دماغ اور خواہشات کی بنیاد پر نہیں- ہم چاہیں جتنے بھی سمجھدار ہو جایئں صحابہ سے زیادہ سمجھدار نہیں ہو سکتے- اگر ان سے غلطی ہو سکتی ہے تو ہم سے بھی لازمی ہوگی - اگر انھیں رسول ا للہﷺ نے اہل علم سے رجوع کا حکم دیا تھا تو ہمیں بھی اہل علم سے رجوع کرنا چایئے قطع نظر اس بات سے کہ ہم کتنے پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں-پس جب تک ہم دین کو الله ، اسکے رسول ﷺ اور سلف صالحین کے فہم پر بذریعہ علماء نہیں سیکھیں گے ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی-ا ور اسی لیے عبدااللہ ابن المبارک(رحم الله عنه)نے کہا :
یہ بات صحیح ہے کہ ایک عقل مند شخص تین لوگوں کی بے قدری نہیں کرتا:
علماء کی، حکمرانوں کی، اور اپنے مسلمان بھائی کی ۔اور جو کوئی علماء کی بے قدری کرتا ہے ( یعنی اُنکا احترام نہیں کرتا ، اُنکے علم کی قدر نہیں کرتا ، اُن سے علم حاصل نہیں کرتا ، وغیرہ) اسکی آخرت کی زندگی تباہ ہو گی-جو بھی حکمرانوں کی بے قدری کرےگا وہ دنیوی زندگی کھودیگا ، اور جو بھی اپنے بھائی (مسلمان) کی بے قدری کرےگا وہ اپنے اچھے اخلاق اور کردار کھودیگا ۔
]الذهبي، سير أعلام النبلاء' 17:251[

یہی وجہ ہے اللہ (سبحانه و تعالى)اور اُسکے رسول نے ہمیں ہر وقت علماء کا دامن پکڑنے کا حکم دیا ہے - جیساکے الله فرماتا ہے :
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مانجامبھی اچھا ہے۔]سورة النساء : 59[
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو کارہوجاتے۔]سورة النساء : 83[
اور ہم نے تم سے پہلے مردوں، ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل کتابسے پوچھ لو ۔ ]سورة النحل : 43[
عن علي قال : قلت : يا رسول الله ، إن نزل بنا أمر ليس فيه بيان : أمر ولا نهي ، فما تأمرنا ؟ قال : تشاورون الفقهاء والعابدين ، ولا تمضوا فيه رأي خاصة

علی (رضي الله عنه)فرماتے ہیں :اے نبی ﷺ :اگر ہم پر کوئی ایسا معاملا آ جائے جسکے بارے میں ہمیہ نہیں جانتے کہ آیا اسے کیا جائے یا اس سے بچا جائے؟ تو ایسے معاملے کے بارے میں اپکا کا کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : " آپنے فقہاء اور صالحین سے رجوع کرو، اورکسی ایک شخص کے رائے پر نتیجہ اخذ نہ کرو-
]معجمالاوسط ۔ حدیث 1641، ابو یحییٰ نورپوری نے اسے حسن کہا [
 
Top