• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کریم کی تعلیم حق مہر کے عوض میں اور مصنف کے اٹکل ۔

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

اعتراض نمبر 10:۔

مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ 31پر قرآن کریم میں اضافہ کرنے کی ناپاک جرم کی جسارت کی۔ وہ لکھتا ہے :
قرآن مقدس میں نکاح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ عورت کا حق مہر مال ہونا ضروری ہے عورت کے بضع سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ ایسامال دیا جائے جس کی مالیت ہو ۔۔۔۔اور مال بھی ایسا ہو جس کو عرف عام میں مال کہا جاتا ہو ۔۔۔۔ردی کاغذ کا ٹکڑا ۔۔۔درخت کا گرا ہوا یا توڑا ہوا کوئی پتہ ۔۔۔یا پھٹا پرانا کپڑا ۔۔۔۔یا لوہے تانبے کاچھلہ انگوٹھی اس کو مال نہیں کہا جاتا مال بھی وہ جو بضع کے بدلے عورت کے لئے نفع مند ہو اور اس کی مالیت ہو۔ لوہے تانبے کی انگوٹھی تو ویسے ہی حرام ہے اس کی اسلام میں مالیت بھی نہیں ہے ۔۔۔۔
جواب:۔
مصنف نے جھوٹ اور الزام تراشی میں ہندوپنڈت کی لکھی ہوئی کتاب رنگیلا ۔۔۔۔کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔
مصنف نے جو کچھ لکھا ہے وہ صرف اورصرف جھوٹ ہے جس کا تعلق قرآن سے نہیں بلکہ قرآن کریم نے نکاح اور مہر کے مسئلہ کے لئے نبی کریم ﷺ (یعنی احادیث)کی طرف رجوع کا حکم صادر فرمایا ہے اب دیکھئے وہ حدیث جس پر مصنف نے بلاوجہ اعتراض کیاہے جس میں انسانی مشکلات کا حل موجودہے ۔
'' أن امرأۃ عرضت نفسھا علی النبی ﷺ فقال لہ رجل یا رسول اللہ ﷺ زوجنیھا فقال ماعندک ۔۔۔۔''
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب عرض المرأۃ نفسھا علی الرجل الصالح رقم الحدیث5121)
''ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا اتنے میں ایک شخص بولا یا رسول اللہ ﷺ (اگر آپ کو اس کی خواہش نہ ہو تو) مجھ سے اس کا نکاح کردیجئے آپ ﷺ نے پوچھا تیرے پاس کچھ ہے کہنے لگا میرے پاس تو کچھ نہیں ہے آپ ﷺ نے فرمایا جا کچھ تو لے آ کچھ نہ ہو تو لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی وہ گیا پھر لوٹ کر آیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم مجھ کو تو کچھ نہیں ملا لوہے کی انگوٹھی بھی نہ ملی البتہ یہ تہہ بند(ازار) میرے پاس ہے اس میں سے آدھا ٹکڑا میں اس کو دے دیتا ہوں ۔۔۔۔آخر وہ شخص (مایوس ہوکر) بیٹھ گیا بڑی دیر تک بیٹھا رہا (پھر چلنے کے لئے تیا رہوا )رسول اللہ ﷺ نے (اس کو جاتا ہوا) دیکھ کربلایا یا کسی اور سے بلوایا اور پوچھا ،بھلا تجھ کو قرآن میں سے کیا کیا یاد ہے وہ کہنے لگا فلاں فلاںسورت اسے یاد ہے آپ ﷺ نے فرمایا جا ہم نے ان سورتوں کے بدلے یہ عورت تیری ملکیت (نکاح) میں دے دی''۔
نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث ان غریبوں اور مسکینوںکے لئے سہولت بہم پہنچارہی ہے جو ایک انگوٹھی دینے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ان کو ایسی سہولت فراہم کردی گئی کہ آتی قیامت تک ایسے لوگ نکاح سے محروم نہیں رہیں گے ۔جہاں تک مصنف کے جھوٹ اور لغو کا تعلق ہے ،لوہے کی انگوٹھی اسلام میں مالیت کا مقام نہیں رکھتی ،تومیں مصنف کو چیلنج کرتا ہوں کہ یہ الفاظ قرآن کریم کی کس آیت کا ترجمہ ہے ؟کیا یہ قرآن کریم میں تحریف نہیں ؟قرآن کریم نے ایک اصول ذکرکیاہے :
''لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا''(البقرۃ 286/2)
''اللہ تعالیٰ کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا جو اس کی بساط سے باہر ہو ''۔
اس شخص کے پاس مہر دینے کی طاقت ہی نہ تھی حتی کے لوہے کی ایک انگوٹھی دینے کی بھی استطاعت نہ تھی ایسے لوگوں کے لئے نبی کریم ﷺ کی صحیح حدیث نے سہولت بہم پہنچائی اور یہ حدیث ہرگز قرآن کریم کے خلاف نہیں بلکہ قرآن کریم کے عین مطابق ہے ۔مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ 32پر اسی حدیث پر نئے انداز سے اعتراض اٹھایااور وہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ حدیث میں ذکر ہے کہ اس صحابی کو نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اگر آپ کو کچھ قرآن یاد ہے تو اس کے عوض ہم نے آپ کا نکا ح اس عورت سے کردیا ۔
مصنف کہتا ہے کہ یہ بات قرآن کے خلاف ہے کہ قرآن کی سورت کے عوض نکاح کردیاجائے اور قرآن کی تبلیغ کا معاوضہ حرام ہے ؟میں پوچھتا ہوں کہ اس بات کی ممانعت قرآن کی کس آیت میں ہے کہ قرآن کے عوض نکاح نہ کرو؟؟یہ تو مصنف سیدھے سادھے مسلمانوں کو محض دھوکا دینا چاہتا ہے قرآن دکھا کر قرآن سے لوگوں کو پھیرنا یہ بھی عجیب طریقہ ہے ۔
جہاں تک معاملہ اس حدیث کاہے تو حدیث خرید وفروخت اور سودابازی کا مسئلہ نہیں سمجھا رہی بلکہ یہاں تو ایک سہولت مہیا کرنا مقصود ہے نہ کہ قرآن کو بیچنا جہاںتک مصنف کے فہم کاتعلق ہے تو مصنف کی عبارت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی اشاعت کے جوادارے ہیں ان سب کو تالا لگانا پڑے گا کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی اشاعت کے اخراجات ادا کرتے ہیںاور وصول بھی کرتے ہیںجیسے کہ مصنف بھی اپنی کتاب( حالانکہ حدیث دشمنی کوئی دینی کام نہیں ) کے لئے اشتہار بازی کرتا ہے دیکھئے اس کی کتاب کے صفحہ123''ہر قسم کے معیاری پرنٹنگ ۔۔۔۔۔۔کیلئے تشریف لائیں جماعت کے احباب کے لئے خصوصی رعایت اور ریٹ کم '' اسے تو چاہیے تھاکہ وہ کہہ دیتا کہ میرے گناہ کی سزا اللہ کے ذمے (کیونکہ مصنف ثواب کا کام توکر ہی نہیں رہا ) ہے ۔
لہٰذا حدیث پر اعتراض فضول ہے ۔
 
Top