(( وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (48) العنکبوت
اور (اے نبی!) اس سے پہلے آپ نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے [٨٠] تھے۔ اگر ایسی بات ہوتی تو باطل پرست شبہ میں پڑ سکتے تھے۔
تفسیر :
آپ کی رسالت کو جھٹلانے یا اسے کم از کم مشکوک بنانے کے لئے قریش نے جو باتیں اختراع کی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہاس شخص نے سابقہ آسمانی کتابوں سے فیض حاصل کیا ہے اور اس کی بنیاد یہ تھی کہ آپ کی پیش کردہ کتاب یعنی قرآن کے بہت سے مضامین تورات سے ملتے جلتے تھے اور بعض منصف اہل کتاب اسی بات کی تصدیق بھی کردیتے ہیں ۔ اس آیت میں ان کے اسی اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ آپ نبوت سے پیشتر نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے کہ اس کے مطالعہ سے آپ کو ایسی معلومات حاصل ہوں اور نہ ہی لکھ سکتے تھے کہ علمائے اہل کتاب سے سن کر اسے نوٹ کرتے جائیں اور بعد میں اپنی طرف سے پیش کردیں ۔ ہاں ان میں سے کوئی بھی صورت ہوتی تو ان کافروں کے شک و شبہ کی کچھ نہ کچھ بنیاد بن سکتی تھیں ۔ لیکن جب یہ دونوں صورتیں موجود نہیں تو پھر ان لوگوں کا آپ کی رسالت سے انکار، تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔
اگر ایک شخص لکھ ،پڑھ نہیں سکتا ،اور سارے جہان کا معلم بنے تو یہ زیادہ حیران کن بات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے یا ایک شخص بہت عالم فاضل اور پڑھا لکھا ہوکر معلم بنے؟ ظاہر ہے کہ پہلی صورت کو ہی معجزہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ پھر اس سے وہ تمام شکوک و شبہات بھی دور ہوجاتے ہیں جو اس دور کے مخالفین اسلام نے پیغمبر اسلام پر وارد کئے تھے یا اس دور کے مخالفین اسلام کر رہے تھے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن نے دو آیات میں کی مدح کے طور پر امی کے لقب سے نوازا ہے (٧: ١٥٧ ، ١٥٨)
((بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ (49)العنکبوت
بلکہ وہ (قرآن) تو واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے۔ اور ہماری آیات سے بےانصاف لوگوں کے سوا کوئی انکار نہیں کرتا۔
تفسیر تیسیرالقرآن
مطلب یہ کہ قرآن کی آیات بڑے واضح دلائل پر مشتمل ہیں ۔ اور یہ آیات اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں ۔ یعنی ان اہل علم ان آیات کو حفظ یا ازبر کرلیا ہے۔ اور یہ قرآن اسی طرح سینہ بہ سینہ اہل علم میں منتقل ہوتا جائے گا۔ اور یہ قرآن کی ایسی ناقابل تردید صفت ہے جو ابتدائے اسلام سے آج تک اور آئندہ بھی تاقیامت ہر شخص مشاہدہ کرسکتا ہے اور کرتا رہے گا۔ ہر دور میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد حافظ قرآن رہی ہے۔ اور یہی قرآن کی اعجازی حیثیت اور اس کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ قرآن کی حفاظت کا دوسرا ذریعہ کتابت قرآن ہے۔ لیکن رسول اللہ حفاظت قرآن کے پہلے ذریعہ حفظ پر ہی نسبتاً زیادہ توجہ مبذول فرمائی تھی۔ (اکثر مفسرین نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے)
اب قرآن کے مقابلہ میں دوسری الٰہامی کتابوں کو دیکھوے ان کا شاذ و نادر ہی آپ کو کوئی حافظ نظر آئے گا جیسے حضرت عزیر کے متعلق منقول ہے کہ وہ تورات کے حافظ تھے۔(( منقول از تفسیر تیسیرالقرآن )