حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
قرآن کے ترجمہ کی تاریخ
(یہ مقالہ برائے ایم فل علوم اسلامیہ یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب، لاہور سے کیا ہے۔ ( مقالہ نگار بشریٰ نوشین)
عہدِ رسالتﷺ میں
قرآن کریم حضورﷺ پر عربی زبان میں نازل ہوا۔ حضور ﷺ کی اپنی زبان عربی تھی۔ آپ کی احادیث اور تعلیمات سب عربی میں ہوئی اور آپ کی دعوت کل عالم اور تمام اقوام کے لئے تھی۔ اس لیے ضروری تھا کہ غیر عرب کو ان کی زبانوں میں دین کی دعوت دی جاتی۔ اور نماز میں قرآن کا پڑھنا عربی زبان میں ہی ہو مگر دین سیکھنے کے مواقع اپنی اپنی زبانوں میں ہوں۔ اس غرض سے ترجموں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ علم سیکھانا اور ایک فطری طلب ہے ، علماء اس طلب سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے ترجمہ کیا۔ علم کی اپنی کوئی زبان نہیں وہ ہر زبان کا لباس پہن سکتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات ہر زبان اور ہر ماحول میں ڈھل سکتی ہیں۔ اور اسے ہر خطۂ ارض کی ضرورت کے مطابق کسی بھی زبان میں ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ اسلام میں اس کی پوری گنجائش موجود ہے۔
حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں:
أَمَرَنِى رَسُولُ الله -صلى الله عليه وسلم- فَتَعَلَّمْتُ لَهُ كِتَابَ يَهُودَ وَقَالَ « إِنِّى وَالله مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابِى ». فَتَعَلَّمْتُهُ فَلَمْ يَمُرَّ بِى إِلاَّ نِصْفُ شَهْرٍ حَتَّى حَذَقْتُهُ فَكُنْتُ أَكْتُبُ لَهُ إِذَا كَتَبَ وَأَقْرَأُ لَهُ إِذَا كُتِبَ إِلَيْهِ(ابو داؤد، كتاب العلم، رواية حديث أهل الكتاب: 319)
’’آنحضرتﷺ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں آپﷺ کے لئے یہود کی کتابت سیکھوں اور فرمایا مجھے اپنے خطوط کے سلسلوں میں یہودیوں کی کتابت پر اعتماد نہیں، پس میں نے سیکھنا شروع کیا۔ نصف مہینہ گزرنے نہ پایا تھا کہ میں نے اس میں مہارت پیدا کر لی، چنانچہ میں آپ کی طرف سے یہود کولکھا کرتا تھا اور جب آپ کی طرف خط آتے تو میں آپ کو پڑھ کر سنا دیتا تھا۔‘‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ دوسری زبانوں میں ترجموں کا آغاز خود عہد رسالت میں ہی ہو گیا تھا اور آپ نے خود اس کی تعلیم دی تھی مگر عہد نبوی میں کسی اور زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ کسی سورہ کے ترجمہ کے بارے میں بھی پتہ نہیں چلتا ۔ کیونکہ اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں
آنحضرتﷺ کے صحابی عبد اللہ بن عباس جب حدیث کا درس دیتے تو ابو حمزہ نصر بن عمران تابعی کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھاتے ۔ابو حمزہ مترجم کے فرائض ادا کرتے اور عربی سے فارسی میں ترجمہ کرتے۔(فضل الباری: ج1 ص 539)
حضرت عبد اللہ بن عباس بصرہ میں رہتے تھے اور بصرہ کی سرحد ایران سے ملتی تھی اس لیے انہیں ترجمہ کی ضرورت تھی۔
غیر عرب ملکوں میں ایران پہلا ملک ہے جہاں اسلام پہنچا۔ اور فارسی پہلی زبان ہے جس میں قرآن و حدیث کے پہلے ترجمے ہوئے۔ حضرت سلمان فارسی نے سورۃ فاتحہ کا پہلا فارسی ترجمہ کیا۔
علامہ سرخسی لکھتے ہیں:
"فكانوا يقرؤن ذلك في الصلاة حتى"ٓ(شمس الائمه السرخي، المبسوط: ج ص 37، مصر، 1324ھ)
’’سو وہ اس فارسی ترجمے کو نماز میں پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی زبانیں عربی سے ماخوذ ہو گئیں۔‘‘
نزول قرآن کے بعد صحابہ صاحب قرآن سے تفہیم کے محتاج رہے۔ اس کے بعد بھی کوئی دور ایسا نہیں جس میں تفہیم اور تفسیر کی ضرورت کو محسوس نہ کیا گیا ہو۔ صاحب قرآن کے بعد اس ضرورت کو صحابہ کرام اور پھر تابعین نے محسوس کرتے ہوئے کام جاری رکھا۔
امام جلال الدین سیوطی (1505ء ، 911ھ) نے اپنی مشہور کتاب ’ الاتقان‘ میں ذکر فرمایا ہے اور دس صحابہ کے نام رقم کیے ہیں:
٭ حضرت ابو بکر صدیق (634ء ؍ 13ھ)
٭ حضرت عمر فاروق (644ء؍ 23ھ)
٭ حضرت عثمان غنی (656ء؍35ھ)
٭ حضرت علی (661ء؍40ھ)
٭ حضرت عبد اللہ بن عباس (687ء؍ 68ھ)
٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود (653ء؍ 32ھ)
٭ حضرت ابی بن کعب (640ء؍ 32ھ)
٭ حضرت زید بن ثابت (665ء؍ 44ھ)
٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری (665ء؍ 44ھ)
٭ حضرت عبد اللہ بن زبیر (692ء؍ 73ھ)
امام سیوطی ( 1505ء؍ 911ھ) نے مذکورہ بالا صحابہ کرام کے علاوہ 43 صحابہ وصحابیات کی تفسیر روایات بھی نقل کی ہیں۔
عہد تابعین
مکہ کے تفسیری مکتب سے عہد تابعین میں جن لوگوں نے تفہیم وتفسیر کا کام جاری رکھا ان میں سے چند مشہور نام یہ ہیں:
٭ حضرت سعید بن جبیر (714ء؍ 95ھ)
٭ حضرت مجاہد بن جبیر مخزومی (721ء؍ 103ھ)
٭ حضرت عکرمہ مولیٰ ابن عباس (700ء؍ 181ھ)
٭ حضرت طاؤس بن کسان یمان (724ء؍ 106ھ)
٭ حضرت عطاء بن رباح (732ء؍ 114ھ)
اس مکتب کی بنیاد حضرت عبد اللہ بن عباس ( 687ء؍ 68ھ) نے رکھی۔
اسی طرح مدینہ کے تفسیری مکتب فکر کے کچھ نام خاص اہمیت رکھتے ہیں جنہوں نے مشن جاری رکھا۔ ان کے اسماے گرامی یہ ہیں:
٭ حضرت ابو العالیۃ (709ء؍ 90ھ)
٭ حضرت محمد بن لعب القرظی (726ء؍ 108ھ)
٭ حضرت زید بن اسلم (753ء؍ 136ھ)
اس مکتب کی بنیاد رکھنے میں جلیل القدر صحابی کا نام آتا ہے۔ وہ حضرت ابی بن کعب (240ء؍ 19ھ)ہیں۔
ان کے دو بڑے مکاتیب کے بعد جس تیسرے بڑے مکتب تفسیر کا نام آتا ہے اس کے بانی حضرت عبد اللہ بن مسعود (653ء؍ 32ھ) تھے یہ مکتب عراق سے تعلق رکھتا ہے۔
اس میں جن بڑے ناموں کا ذکر آتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
٭ حضرت علقمہ بن قیس (882ء؍ 62ھ)
٭ حضرت مسروق بن اجدع ہمدانی (683ء ؍ 62ھ)
٭ حضرت اسود بن یزید (714ء ؍ 95ھ)
٭ حضرت مرہ ہمدانی (695ء ؍ 76ھ)
٭ حضرت عامر شعبی (761ء؍ 103ھ)
٭ حضرت حسن بصری (748ء ؍ 110ھ)
٭ حضرت قتادہ بن دعامہ سدوسی (736ء؍ 118ھ) (پروفیسر غلام احمد حریری، تاریخ تفسیر ومفسرین: 103۔ 120، ملک سنز پبلیشرز کارخانہ بازار ، فیصل آباد بار دوم، 1987ء)
بنو اُمیہ کے دور میں بربر زبان میں مکمل ترجمہ کا ثبوت ملتاہے جسے قرآن مجید کا اولین ترجمہ شمار کیا جاتا ہے۔ (علوی، سعید الرحمٰن، قرآن مجید اور اس کے تراجم، ماہنامہ ‘الحق’ خٹک، اکتوبر 1996ء، ص: 44)
روح کی ضرورت اور غذا مذہب سے وابستگی اور اللہ کا خوف ہے۔ اللہ کا خوف مسلسل عمل ہے جو ساری زندگی رہنا چاہیے۔ قرآن فہمی اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ہمارے سلف صالحین نے اس ضرورت کو دیکھتے ہوئے اپنی جدوجہد جا ری رکھی ۔ جس کا آج بھی امت مسلمہ کھا رہی ہے۔ قرآن کا فہم کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ خاص کتاب کےلئے خاص فہم چاہیے، خاص معیار چاہیے، اس کے لئے بڑے ذرخیز ذہن کی ضرورت ہے اور ہنوز ذرخیز ذہن اللہ کی توفیق سے یہ کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔