(١) تورات موجودہ بائبل(کتاب مقدس) کا ایک حصہ ہے کتاب مقدس کے دو اہم حصے ہیں:
عہد قدیم(Old Testament) ، عہد جدید(New Testament) عہد قدیم بمقابلہ عہد جدید زیادہ ضخیم ہے کل بائیبل تمام عیسائیوں کی مذہبی کتاب ہے، لیکن یہودیوں کی بنیادی مذہبی کتاب عہدقدیم ہے یہود عہد جدید کو نہیں مانتے، کیونکہ یہ صحائف انجیل ودیگر صحائف، جو عیسائیوں کے نزدیک مقدس ہیں،پر مشتمل ہے۔
عہد قدیم یہودیوں کے مختلف مقدس صحیفوں کا مجموعہ ہے عیسائیوں نے ابتدا ہی سے اسے اپنی مقدس کتاب تسلیم کیاہے بلکہ پہلی دوسری صدی میلادی میں عام طور پر ان کی بھی مقدس کتاب عہد قدیم ہی رہی تاآنکہ ایپی فینیس (Epiphanius) اور ایتھا نیس(Athanasius) نے چوتھی صدی میلادی میںعہد جدید کو اس شکل میں جس میں کہ وہ اب موجود ہے تسلیم کیا۔ (اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، مادہ تورات، ص۷۰۳)
لیکن یہ ایک ایسی کتاب تھی جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود نہیں لیا بلکہ قوم موسیٰ کے سپرد کردیا کہ تم نے خود اس کی حفاظت کرنا ہے۔ توراۃ اصل میں أسفار خمسہ: سفر تکوین، سفر خروج، سفر لاویین، سفر اعداد اور سفر الثنیۃ کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب اپنی اصل پرقائم نہ رہ سکی۔ہر زمانہ کے لوگوں نے اس میں ردوبدل کیا۔ اس کی اندرونی شہادتیں بھی اس امر کی غماز ہیں کہ یہ محرف شدہ ہے ،کیونکہ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا وصف موجود ہے اور کوئی عاقل انسان یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی وفات کا حال خود ہی تحریر کردیا ہو یا آپ نے اپنی موت کا مشاہدہ ہی کیا ہو۔ اس کے علاوہ متعدد دلائل اس کے محرف ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
(٢) انجیل : یہ کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی، لیکن کسی مؤرخ نے آج تک یہ نہیں لکھا کہ یہ کتاب کس شکل میں تھی؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کی دعوت زبانی کلامی دیتے تھے۔ قرآن میں ہے:
’’وَلِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ‘‘ (آل عمران:۵۰)
’’اور میں اس لیے آیا ہوں کہ تمہارے لیے بعض ان چیزوں کو حلال کردوں جوتم پر حرام کردی گئیں ہیں۔‘‘
انجیل کا تورات سے معمولی فرق تھا۔اس کے بعد اس میں تحریف کا سلسلہ شروع ہوا اور اس حدتک بڑھا کہ ہرقبیلہ کی الگ الگ انجیل بنا لی گئی۔ ۳۲۵ء میں قسطنطین نامی بت پرست عیسائیت میں داخل ہوا اور اس نے انیقہ میں عیسائیت کا بین الاقوامی اجتماع منعقد کیاجس میں یہ طے پایا کہ چار انجیلیں رکھی جائیں اور باقی انجیلوں کو تلف کردیا جائے اور یہ اس لیے کیا گیا کہ اختلاف کو ممکن حد تک کم کیا جائے، لہٰذا ایسا ہی کیا گیا اور چار انجیلوں کو باقی رکھا گیا جو کہ متیٰ، مرقس، لوقا اور یوحنا کے ناموں سے مشہور ہیں۔
ان کامطالعہ کرنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ان چار انجیلوں کی باہم شکل وصورت اور موضوع بہت زیادہ مختلف ہیں، حتیٰ کہ ابتداء، انتہا، آیات اور فصول کے اعتبار سے ان کااس قدر اختلاف ہے کہ ان کے اتحاد کی کوئی صورت نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جمہور علما اس میں لفظی و معنوی دونوں طرح کی تحریف موجود ہونے کے قائل ہیں اور قرآن مجید نے خود اس کی شہادت دی ہے۔’’یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِہِ‘‘ (المائدۃ:۱۳)
’’ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا الٹ پھیر کرکے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔‘‘
پادری ہارن(Horne) بائیبل کی تحریف کے اقرار کے ساتھ اپنی کتاب دیباچہ علوم بائیبل ۲:۳۱۷ میں اس کی چار عالمانہ وجوہ قائم کی ہیں: