حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو تلف کیا، وہ کیاتھا؟
اب سوال پیداہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو کچھ ختم کیا، وہ کیاتھا؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے اکٹھے کئے ہوئے صحائف جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھے، کو لے کر انہیں مصاحف میں نقل کیا، کیونکہ یہ عرضۂ اخیرہ یعنی حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ رسول اللہﷺ کا جو آخری دور ہواتھا، اس کے مطابق تھے۔ حضرت جبریل علیہ السلام نبیﷺ کو ہر سال قرآن کا دور کرواتے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’کان یعرض علی النبی ! القرآن کل عام مرۃ فعرض علیہ مرتین في العام الذيقبض فیہ‘‘
’’نبیﷺ پر قرآن ہرسال پیش کیا جاتا۔ آپﷺ کی وفات والے سال دو دفعہ آپ پرقرآن پیش کیا گیا۔‘‘ (صحیح البخاری:۸؍۴۹۹)
ابن سعدرحمہ اللہ نے مشہور تابعی علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے:
’’فأنا أرجو أن تکون قراء تنا العرضۃ الآخیرۃ‘‘ (الطبقات الکبریٰ :۲؍۱۹۵)
’’پس مجھے اُمید ہے کہ ہماری موجودہ قراء ت اسی عرضہ اخیرہ کے مطابق ہے۔‘‘
اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرضۂ اخیرہ والے قرآن کو ہی نقل کیاتھا جبکہ عرضہ اخیرہ والا قرآن وہ قرآن تھا جس میں آخری احکام اور جو جو تبدیلی مقصود تھی، کردی گئی۔ اب یہ قرآن جوتبدیلیوں سے مبرا تھا، اسی کوسامنے رکھتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف نقل کئے اور تبدیل شدہ چیزیں جن میں منسوخ آیات، شاذ قراء ات اور سبعہ احرف میں سے جزوی چیزیں بدل جاچکی تھیں اور لوگوں میں شائع ہوچکی تھیں اور وہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے پاس جمع شدہ قرآن کی اطلاع نہ پاسکے، نتیجتاً جس کسی کے پاس جو کچھ تھا وہ تلاوت کرتا رہا، جس سے اختلافات کاہونالازم امر تھا۔ اب جو مصاحف حضرت عثمان t نے تلف کئے تھے، ان میں یہ چیزیں شامل تھیں مثلاً ایسی منسوخ آیات جن کی تلاوت منسوخ ہوچکی تھی مگر لوگ پڑھ رہے تھے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فأنزلت ھذاالآیۃ ’’حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْعَصْرِ‘‘ فقرأنا ھا ماشاء اﷲ ثم نزلت ’’حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی‘‘
’’پہلے یہ آیت نازل ہوئی:
’’حافظوا علی الصلوات والصلوۃ العصر‘‘ تو جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا، ہم اسے پڑھتے رہے پھریہ آیت نازل ہوئی۔
’’حافظوا علی الصلوات الصلوۃ الوسطیٰ‘‘ (فتح الباری:۸؍۱۹۸)
اوریہ منسوخ شدہ آیت عرضہ اخیرہ میں موجود نہیں تھی۔اسی طرح کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن لکھتے ہوئے تفسیری کلمات بھی ساتھ لکھ دیتے تھے جیسا کہ حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وکان لا یعتقد تحریم ذلک وکان یراہ کصحیفۃ یثبت فیھا ما یشاء وکان رأي عثمان والجماعۃ منع ذلک لئلا یتطاول الزّمان ویظنّ ذلک قرآنا (شرح النووی:۶؍۳۴۹)
’’وہ قرآن کے متن کے ساتھ اس کی تفسیر کو لکھنا حرام نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اسے مصحف کی بجائے ایک صحیفہ سمجھتے تھے اور اس میں جو چاہتے لکھ لیتے ، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اس کو ممنوع سمجھتے تھے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ ایک مدت گزرنے کے بعد لوگ اسے بھی قرآن سمجھ لیں۔‘‘
جمع صدیقی اورجمع عثمانی میں یہ تمام چیزیں نکالی گئی تھیں اورانہوں نے سات حروف میں سے چھ کو قطعاً ختم نہیں کیاتھابلکہ انہوں نے وہی کچھ نکالاتھا جوعرضہ اَخیرہ کے وقت اللہ کی طرف سے نکال دیاگیاتھا۔
٭_____٭_____٭
خوش خبری
قارئین کرام کی دلچسپی اور قراء ات قرآنیہ کے دیگر تشنہ پہلوؤں کی سیرابی کے پیش نظر انتظامیہ رشد نے قراء ات نمبرم حصہ اوّل ودوم کی شاندار اشاعت کے بعد اسی ضخامت اور اسی علمی معیار پر مبنی قراء ات نمبر کا تیسرا اور آخری حصہ بھی نکالنے کا ارادہ کیا ہے۔ یہ تحقیقی شمارہ ماہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۹ء کی اشاعت پر مشتمل ہوگا۔ان شاء اللہ قارئین کرام نوٹ فرمالیں۔ (ادارہ)