• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء توں کا اِختلاف اور منکرینِ حدیث

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٣) حضرت موسیٰ ﷤ کے عصا کا سانپ یا اَژدھا بننے کا اختلاف؛
وہ اَژدھا تھا۔ ’’ ثُعْبَانٌ ‘‘ ’’اژدھا‘‘ (الاعراف:۱۰۷)
وہ سانپ تھا ۔ ’’ حَــیَّــــــۃٌ ‘‘ ’’سانپ‘‘ (طہٰ :۲۰)
(١٤) ایک ہی ’شخص‘ کو دو الگ الگ نام دینے کا اختلاف:
پہلے اُسے ’’إِبْلِیْسَ ‘‘ (طہٰ:۱۱۶) کہا گیا، پھر اُسی کو ’’ الشَّیْطٰنُ ‘‘ (طہٰ:۱۲۰) کہہ دیا۔
اسی طرح حضرت الیاس﷤ کو ایک جگہ ’’ إِلْیَاسَ ‘‘ (الصافات:۱۲۳) کہا گیا، پھر دوسری جگہ اُنہی کو ’’إِلْیَاسِیْنَ‘‘ (الصافات:۱۳۰)کہا گیا ہے۔
(١٥) سجدۂ تلاوت کے مقامات میں اختلاف :
کیا سورۃ الحج میں دو سجدے ہیں یا ایک ہی سجدۂ تلاوت ہے۔
(١٦) اسماء حسنیٰ میں اختلاف:
الأَوَّلُ … (الحدید:۳)۔۔۔الأٰخِرُ …(الحدید:۳)۔۔۔الظّٰھِرُ … (الحدید:۳)۔۔۔الْبَاطِنُ … (الحدید:۳)
(١٧) قرآن کے صفاتی ناموں میں اختلاف:
الْفُرْقَان … (الفرقان:۱)۔۔۔الذِّکْر … (الحجر:۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٨) قیامت کے ناموں میں اختلاف:
الْوَاقِعَۃُ … (الواقعہ:۱)۔۔۔الْقَارِعَۃُ … (القارعہ :۱)
(١٩) رموز اَوقاف کا اختلاف:
کہیں گول تا ’ ۃ ‘ ہے، کہیں وقف لازم ’م‘ ہے کہیں و قف جائز ’ج‘ اور کہیں وقف مطلق ’ط‘ ہے۔
مگر ایسے تمام اختلافات جو کہ حقیقت میں تنوعات (Varieties) ہیں، کے باوجود قرآن مجید کی حقانیت، صحت اور عصمت پر کوئی حرف نہیں آتا وہ ہر لحاظ سے برحق، صحیح اور محفوظ ہے۔
پھر جب مذکورہ ’اختلافات‘ کے ہوتے ہوئے قرآن کی صداقت متاثر نہیں ہوتی تو کیا ایک قراء توں کے اختلاف سے اُس کی صداقت متاثر ہوجائے گی اور وہ مشکوک ٹھہرے گا؟ حالانکہ قراء توں کا اختلاف بھی تنوع ہے نہ کہ تضاد۔
اوپر طارق صاحب نے اختلاف قراء ت کے خلاف جو یہ حدیث پیش کی ہے کہ نبیﷺنے یہ حکم دیا تھا :
’’ أَعْرِبُوا الْقُرْآنَ‘‘۔ (شعب الإیمان للبیہقي: ۳/۵۴۸)
تو اَوّل تو یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی عبداللہ بن مقبری ہے جو کہ ضعیف راوی ہے جیسا کہ مرعات شرح مشکوٰۃ جلد ۴ کے ص۳۵۲ پر تصریح کی گئی ہے۔ دوسرے لفظ ’أعربوا‘ کا ترجمہ ’اعراب لگاؤ‘ بالکل غلط اور عربیت کے خلاف ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ صرف و نحو کی اصطلاحات عہد نبویﷺمیں ہرگز موجود نہ تھیں۔ یہ اعراب رفع نصب جر اور تنوین وغیرہ کی اصطلاحیں بعد کی پیداوار ہیں جو نحویوں نے ایجاد کی تھیں۔ قرآن و حدیث کو نحویوں کی اصطلاحات سے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش گمراہی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سورۃ النور میں آیا ہے:
’’ فِیْ بُیُوتٍ أَذِنَ اﷲُ أَنْ تُرْفَعَ ‘‘ (النور:۳۶)
اس کو اگر نحویوں کی زبان سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے في بیوت کو في بیوت (مرفوع) پڑھنے کی اجازت دے رکھی ہے اور یہ مفہوم صرف منکرین حدیث کی کھوپڑی میں آسکے گا، کسی صاحب ِ علم کے دماغ میں ہرگز نہیں آسکتا کیونکہ فی (حرف ِجار) کے بعد کا اسم مجرور ہی ہونا چاہئے او في بیوت کو فی بیوت پڑھنا بالبداہت عربیت کے خلاف ہے اس طرح آیت کا اصل مطلب غارت ہوکر رہ جائے گا۔
زیر بحث ضعیف حدیث میں أعربوا القرآن کا درست ترجمہ یہ ہے:
’’قرآن پاک کے معانی واضح کرو۔‘‘
کیونکہ عربی زبان میں أعرب یعرب إعراباً کے معنی بات کو واضح کرنے اور اچھی طرح بیان کرنے کے ہیں نہ کہ الفاظ پر اعراب لگانے کے۔
مشہور و مستند عربی لغت ’لسان العرب‘ میں ہے :
’’الإعراب والتعریب معناھما واحد، وھو: الإبانۃ۔ یقال: إعراب عنہ لسانہ وعرب أي أبان وأفصح۔ أعرب الکلام وأعرب بہٖ: بینہ رجل عربي اللسان إذا کان فصیحا۔‘‘(لسان العرب، ابن منظور)
عقل کے اَندھے منکرین حدیث اگر کبھی اپنے ہاں کا کوئی لکھا ہوا قرآن ہی کھول کر دیکھ لیتے تو ان کو اس کے اندر بھی قراء توں کا اختلاف نظر آجاتا جہاں کئی قرآنی الفاظ کی دو دو قراء تیں لکھی ہوئی موجود ہیں۔ (مگر یہ لوگ تو قرآن کا متن نہیں پڑھتے محض اس کے انگلش تراجم پڑھتے ہیں۔)
مثال کے طور پر سورۃ البقرہ آیت ۲۴۵ میں ہے :
’’ وَاﷲُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُطُ ‘‘ میں یَبْصُطُ کو یَبْسُطُ بھی پڑھا جاتا ہے اور اس کے لیے حرف صاد کے اوپر چھوٹا سین (س) ڈال دیا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طر ح سورۃ الغاشیہ آیت ۲۲ میں ہے : ’’ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ ‘‘
اس میں بِمُصَیْطِرٍ کو بِمُسَیْطِرٍ بھی پڑھا جاتا ہے اور اس لفظ کے حرف صاد پر بھی چھوٹا سین لکھا ہوا ہے۔
لیکن منکرین حدیث بڑے ڈھیٹ اور بے شرم واقع ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ صحیحین کی معتبر اَحادیث کو نہیں مانتے مگر دوسری طرف ہوائے نفس کی خاطر ضعیف بلکہ موضوع حدیثوں کو دلیل بناتے ہیں۔ صحیح اَحادیث کے مقابل میں تاریخ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی من مانی تفسیر اور دور از کار تاویلیں کرتے ہیں۔ علمائے اِسلام پر اعتماد کرنے کی بجائے مستشرقین کو اپنا مرشد مانتے ہیں۔ حکومت وقت کی خوشامد ان کا پیشہ ہے اور اپنا مؤقف بار بار بدلنا ان کا شیوہ ہے۔ آپ ان کے کسی ایک اعتراض کا جواب دے دیں وہ جھٹ سے دوسرا اعتراض گھڑ کر پیش کردیں گے۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِھِمُ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ
٭_____٭_____٭
 
Top