• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء میں تحقیق کا فقدان … لمحہ فکریہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١١) کتاب الارتضاء فی الفرق بین الضاد والظاء لابی حیان النحوی الاندلسی﷫ (ت۷۴۵ھ)
اس کے علاوہ بھی ہماری فہرست میں کا فی کتب موجود ہیں، لیکن طوالت کا اَندیشہ سدقلم ہے۔
متقدمین علماء کی یہ جمیع کتب بھی اس بات پر دال ہیں کہ ’ضاد‘ مشابہ ’بالظاء‘ ہے۔
متقدمین اور متاخرین قراء اور علماء جو تشابہ بالظاء کے قائل ہیں
ضاد کامسئلہ ایسا ہے کہ قرون اُولی سے علماء اور قراء اس کی وضاحت فرماتے رہے ہیں کہ اس حرف کا صحیح تلفظ کیا ہے اور اس کو کس کے مشابہ اَدا کرنا چاہئے؟ ہم نے ستر کے قریب متقدمین اور متاخرین قراء کے اَقوال جمع کئے ہیں جوضاد کے مشابہ بالظاء ہونے کے قائل ہیں۔ جو طوالت کے خوف سے ترک کر رہے ہیں۔ہم ان میں سے معروف اہل علم کے نام ذکر دیتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابن الاعرابی﷫ (ت ۲۳۱ھ)
٭مکی بن ابی طالب القیسی﷫ (ت ۴۳۷ھ) ٭امام دانی ﷫(ت۴۴۴ھ)
٭امام رازی﷫ (ت۶۰۶ھ) ٭امام سخاوی﷫ (ت ۶۴۳ھ)
٭امام بیضاوی﷫(ت۶۸۵ھ) ٭شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫(ت۷۲۸ھ)
٭حافظ ابن کثیر ﷫(ت ۷۷۴ھ) ٭اِمام جلال الدین السیوطی ﷫(ت۹۱۱ھ)
٭علامہ محمد مرعشی﷫ (ت۱۱۵۰ھ) ٭علامہ متولی ﷫(ت۱۲۱۳ھ)
٭العلامۃ محمد مکی نصر﷫(ت ۱۳۰۵ھ) ٭ شمس الدین عظیم آبادی ﷫(ت۱۳۱۹ھ)
٭مولانا اشرف علی تھانوی﷫ ٭مولانا عبدالحئ لکھنوی﷫
٭ شیخ عبید اللہ افغانی﷫ ٭الشیخ مصطفی المراغی شیخ الازھرسابقا ﷫
٭علامہ علی محمد الضباع﷫ ٭ شیخ عامر السید عثمان﷫
٭ الشیخ ابراھیم علی شحاتہ السمنووی﷫ ٭شیخ عبدالعزیز بن باز﷫
٭العلامہ ناصر الدین البانی﷫ ٭شیخ عطیۃ قابل ناصر﷫
٭الشیخ عبدالفتاح القاضی﷫ ٭الشیخ عبدالفتاح العجمی المرصفی﷫
٭ الشیخ عبداللہ الجوھری﷫ ٭ الشیخ عبدالحلیم عطاء بدر﷫
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ بالا جمیع دلائل دیکھ کر بھی اگر کوئی صاحب ضاد کو مشابہ بالدال پڑھے اور دلیل یہ دے کہ میرے استاد یا فرقہ کا یہ مذہب ہے تو اس کی کج فہمی اور ہٹ دھرمی پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شے کو بالدلیل سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال ثانی:تفخیم غنّہ
حرف نون مجہورہ متوسطہ مستفلہ منفتحہ اور مذلقہ ہے صفات غیر متضادہ میں سے صفت غنہ بھی اس میں پائی جاتی ہے ۔نون بذاتہ ایک مرقق حرف ہے، کیونکہ اس میں صفت استفال موجود ہے جو ترقیقِ نون کی اِجماعی دلیل ہے۔ نون میں پائی جانے والی جملہ صفاتِ لازمہ میں سے ایک صفت غنہ بھی ہے جس کامفہوم ہے ’’صوت أغن مرکب فی جسم النون‘‘ (ہدایۃ القاری:۱ ؍۱۷۷)
’’نون میں موجود ایک گنگاہٹ والی آواز۔ ‘‘
اس بارے میں علماء کا اجماع ہے کہ غنہ نون اور میم کی صفت لازمہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اِمام جزری ﷫ فرماتے ہیں:
’’حرفا الغنۃ وھما النون والمیم‘‘ (التمھید: ۱۰۶)
’’حروف غنہ نون اور میم ہیں۔‘‘
٭ امام دانی ﷫فرماتے ہیں:
’’حرفا الغنہ المیم والنون لأنھما غنۃ من الخیشوم‘‘
’’حروف غنہ نون اور میم ہیں اور غنہ خیشوم سے اَدا ہوتاہے۔‘‘
٭ امام مکی بن ابی طالب القیسی﷫ فرماتے ہیں:
’’النون مواخیۃ اللام لقرب المخرجین ولانحراف اللام إلی مخرج النون ولأنھما مجھورتان رخوتان ولکن في النون غنۃ لیست في اللام۔ (الرعایۃ: ۸۴)
’’نون اور لام کے مابین اخوت کا تعلق ہے،کیونکہ ان کے مخرج قریب ہیں اور ویسے بھی لام نون کے مخرج کی طرف مائل ہوجاتی ہے دوسری بات یہ ہے کہ دونوں مجھورہ اور رخوۃ ہیں فرق یہ ہے کہ نون میں غنہ ہے جبکہ لام میں نہیں ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ شیخ عبدالفتاح المرصفی﷫ فرماتے ہیں:
’’أن صوت الغنۃ صفت لازمۃ للنون والمیم کانتا متحرکتین أو ساکنتین أو مظہرتین أو مدغمتین أو مخفاتین۔‘‘ (ھدایۃ القاری:۱ ؍۱۷۷)
’’بلا شبہ غنہ نون اور میم کی صفت لازمہ ہے۔ برابرہے کہ یہ متحرک، ساکن،مظہر مدغم یا مخفی ہوں۔‘‘
مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ غنہ نون اور میم کی صفت لازمہ ہے اور یہ دونوں حروف مستفلہ ہونے کے سبب باریک بھی ہیں۔اب بعض قراء کا یہ کہنا ہے کہ حالت اخفاء میں نون ساکن کے بعد جب حروف مستعلیہ آئیں تو غنہ موٹا ہوگا ان کا یہ کہنا دلائل کی رو سے درست نہیں ہے، کیونکہ غنہ نون کی صفت ہے اور نون اِجماعی طور پر مرقق لفظ ہے جب غنہ موٹا کیاجائے گا توضروری ہے کہ نون بھی مفخم پڑھا جائے، جو اِجماع اہل لغت اورقراء کے مخالف ہے۔ شیخ عبدالفتاح مرصفی﷫ جو تفخیم غنہ کے مؤید ہیں، نے غنہ نون کو الف کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ جس طرح الف اپنی تفخیم و ترقیق میں ماقبل کا تابع ہے اسی طرح غنہ نون بھی تفخیم و ترقیق میں ما بعد کا تابع ہے یعنی جس طرح حروف مستعلیہ کے بعد الف مفخم پڑھا جاتا ہے اسی طرح حرف مستعلیہ سے پہلے غنہ بھی مفخم پڑھا جائے گا۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ قراء نے الف کو ان حروف میں شامل کیاہے کبھی مفخم اور کبھی مرقق پڑھے جاتے ہیں اور نون کو متقدمین اور متاخرین میں سے کسی نے بھی ان حروف میں شامل نہیں کیا بلکہ خود شیخ مرصفی﷫ نے ھدایۃ القاری میں جب یہ بحث کی ہے تو فرماتے ہیں:
’’الفصل الثالث في الکلام علی الحروف المرققہ تارۃ والمفخمۃ أخری وہذہ الأحرف الثلاثۃ الالف، واللام من لفظ الجلالۃ خاصۃ، والرائ۔‘‘(ھدایۃ القاري: ۱؍۱۰۱)
’’تیسری فصل میں ان حروف پر کلام ہوگی جوکبھی مرقق ہوتے ہیں اور کبھی مفخم اور وہ تین حروف الف، لام اسم جلالہ اور راء ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام جزری﷫ نشر میں نون مخفی کی تعریف یوں کرتے ہیں:
’’حرف خفی یخرج من الخیشوم ولاعمل للسان فیہ ولاشائبۃ حرف آخر فیہ۔‘‘
’’وہ ایک حرف خفی ہے جو خیشوم سے نکلتا ہے اوراس میں زبان کاکوئی دخل نہیں ور مابعد کے حرف کااس میںشائبہ تک نہیں ہے۔‘‘ (بحوالہ تعلیقات مالکیہ :۱۲)
لہٰذا غنہ نون کو الف سے تشبیہ دینا اور مابعد حروف کا اس میں دخل ثابت کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے اور ویسے بھی کسی حرف کو اس کی صفات لازمہ کے خلاف پڑھنا لحن جلی ہے اور لحن جلی حرام ہے اس کے علاوہ مرجع کی تمام کتب الرعایۃ، تمہید، النشر، التحدید، جہد المقلوغیرہ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لہٰذا تمسک بالدلائل لائق افتخار اور راہِ صواب ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال ثالث: تاء اور کاف کی غلط اَدائیگی
تاء اور کاف یہ مھموسۃ، شدیدۃ مستفلۃ منفتحۃ اورمصمتۃ حروف ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ان کی اَدائیگی صفات کی صحیح تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے کی جائے۔ اور ادائیگی صفات کا نام لے کر ایک غلط تلفظ کو رواج دینا کسی طرح بھی درست نہیں ہے تاء اور کاف میں بعض قراء صفت ھمس کی اَدائیگی کے نام پر ’کھ‘، ’تھ‘، کی آواز پیدا کردیتے ہیں، مثلاً ’تا‘کو ’اَت‘ کی بجائے ’اتھ‘ اور کاف کو ’اک‘ کی بجائے ’اَکھ‘ پڑھتے ہیں اور جواباً کہتے ہیں کہ یہ آواز صفت ھمس کی ادائیگی سے پیدا ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ اس کی تعریف ہی کے خلاف ہے علامہ محمد نصر مکی صفت ھمس کی تعریف یوں کرتے ہیں۔
’’جریان النفس عند النطق بالحرف لضعفہ وذلک من ضعف الاعتماد علی مخرجہ۔‘‘(نھایۃ القول المفید: ۵۶)
’’اَدائیگی حرف کے وقت سانس کاجاری ہوجانایہ حرف کے مخرج پراعتماد ضعیف ہونے کے سبب ہوتاہے۔‘‘
مذکورہ تعریف سے یہ معلوم ہوا کہ حروفِ مہموسۃ کو ادا کرتے وقت سانس جاری ہوجاتا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ سانس کی کوئی آواز نہیں ہوتی لہٰذا تاء اور کاف میں آواز کے ساتھ پڑھنا درست نہیں ہے اگر کوئی اس کی یہ دلیل پیش کرے کہ فلاں قاری صاحب یوں پڑھتے ہیں لہٰذا مجھے انہوں نے یہ سکھایا ہے اور قرآن کو تلقی کے خلاف پڑھنا درست نہیں ہے تو عرض ہے کہ تلقی جو خلاف قواعد ہو اس پرعمل کرنا درست نہیں ہے یہ تو ایک غلطی ہے جسے درست کرناچاہیے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال رابع: حرکات ثلاثہ کو غلط اَدا کرنا
ہر حرف کا ایک مستقل مخرج ہے اگر اس کو مخرج سے اَدا نہ کیا جائے تو یہ حرف کسی طرح بھی درست اور صحیح اَدا نہیں ہوسکتا۔بعینہٖ حرکات ثلاثہ فتحہ، ضمہ اور کسرہ کے بھی مخارج ہیں اگر ان کو کسی دوسرے مخرج سے اَدا کیاجائے تو یقیناً یہ حرکات بھی درست اَدا نہیں ہوں گی ۔
٭ فتحہ کا مخرج انفتاح فم وصوت ہے یعنی فتحہ کو ادا کرتے وقت منہ کھولنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے حرف کی آواز بہت کھل کر اور واضح نکلتی ہے۔
٭ کسرہ کا مخرج انخفاض فم وصوت ہے یعنی کسرہ کی ادائیگی میں ہونٹوں کو نیچے کی طرف مائل کرکے یائے معروف کی سی بو دے کر ادا کرنا۔
٭ انضمام شفتین یعنی کسرہ کی ادائیگی میں ہونٹوں کو گول کرکے واؤ معروف کی سی آواز نکالنا ۔(المرشد:۳۱۵)
قراء کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ حروف کو مخارج سے اَدا کریں اسی قدر یہ بھی ضروری ہے کہ حرکات کو ان مخارج سے اَدا کیا جائے، لیکن آج کل ایک گروہ پاکستان میں ایسا پایا جاتا ہے کہ وہ فتحہ اور ضمہ کو بھی انخفاص فم سے ادا کرتے ہیں اور پھر اس کو ایک لہجہ قرار دے کر باقاعدہ طلباء کو اس کے اختیار کرنے کا التزام کرتاہے۔ ایسا کرنا فن تجوید کے خلاف ہے اور اساتذہ کو ایسی غلطی کی اِصلاح کروانی چاہیے۔
اس کے علاوہ اَدائیگی حرکات میں جو بہت بڑی غلطی رواج پارہی ہے وہ حرکات کو مجہول پڑھنا ہے۔پاکستانی جامعات میں یہ غلطی خصوصاً موجودہ مصری قراء اوربعض حجازی قراء کے لہجوں کو اختیار کرنے سے عام ہورہی ہے۔ ایسی غلطیاں مجودین کے شایانِ شان نہیں ہیں، لہٰذا اس طرف خصوصی توجہ ضروری ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چندعمومی غلطیاں اور قراء کے بے جا تکلّفات
قرآن کریم کو خوبصورت پڑھنا شرعاً مطلوب ہے۔نبی کریمﷺکا ارشاد گرامی ہے:
’’لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ‘‘۔ (صحیح البخاري:۷۵۲۷)
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کو خوبصورت کرکے نہ پڑھے۔‘‘
اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ خوبصورت پڑھنے کی صلاحیت کے باوجود اگر خوبصورت نہ پڑھے تو اُمت سے خروج کی وعید کا مستحق ٹھہرے گا،لیکن یہ بھی قطعاً لائق ستائش نہیں کہ قرآن کو خوبصورت پڑھنے کے شوق میں فن تجوید اور شریعت کی مقرر کردہ حدود کو پامال کر دیاجائے۔ اس سلسلہ میں قراء نے کتب تجوید و قراء ات میں ایسی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے جو قراء حضرات خوبصورت پڑھنے کے شوق میں کرتے ہیں۔تکمیل فائدہ کی خاطر ہم ان کوذکر کرتے ہیں۔
 
Top