کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
2۔ فوجداری جرائم میں قیافۃ الاثر کی شرعی حیثیت :
قیافہ شناسی کی دوسری قسم قیافۃ الاثر ہے اور اس کی تعریف میں یہ وضاحت ہوچکی ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے جس میں جائے حادثہ پر پاؤں وغیرہ کے نشانات اور دیگر آثار و قرائن کی مدد سے مطلوب و مقصود تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ اس لئے اسے قیافۃ الاثر کہا جاتا ہے۔
کسی معاملہ کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے آثار وقرائن کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن یاد رہے کہ محض آثار و قرائن کی بنیاد پر ہر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قرائن، آثار، علامات، امارات و نشانات وغیرہ مجرم یا امر واقعہ کی معرفت و شناخت میں معاون ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں حادثات و واقعات میں بنیادی طور پر ''معاون'' ہی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی قرینہ قطعی و یقینی ہو یا آثار و قرائن کے بعدمجرم خود اعتراف جرم کرلے تو پھر ان آثار و قرائن کی بنیاد پر اسی طرح شرعی فیصلے کئے جائیں گے جس طرح ''عینی گواہوں'' کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔
شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ماہر اور ذہین و فطین کھوجیوں، قیافہ دانوں، عمر رسیدہ تجربہ کاروں حتیٰ کہ کھوجی کتوں اور دیگر جدید آلات سے مختلف حوادث میں استفادہ کیا جائے۔ درج ذیل دلائل و امثلہ سے اس کی توضیح کی جاتی ہے۔
پہلی دلیل:
قرآن مجید میں حضرت یوسف کے واقعہ میں مذکور ہے کہ ان کے بھائی انہیں کنوئیں میں پھینک آئے اور ان کی خون آلود قمیص لاکر اپنے باپ سے کہتے ہیں کہ :
اس سے معلوم ہوا کہ آثار وقرائن کی مدد سے حقائق کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ امام قرطبی رقم طراز ہیں کہ ''فقہاء نے ''قسامہ'' وغیرہ جیسے فقہی مسائل میں اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے علامات و امارات کو معتبر قرار دیا ہے او راہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت یعقوب نے قمیص کے صحیح سالم ہونے کی بنیاد پر اپنے دوسرے بیٹوں کے جھوٹا ہونے پر استدلال کیا۔'' [43]
اسی طرح جب یوسف پر عزیز مصر کی بیوی نے بدکاری کی تہمت لگائی تو آثار کی بنیاد پر یوسف کا صدق ثابت کیا گیا۔[44]
دوسری دلیل :
صحیح بخاری میں انسؓ سے مروی ہے کہ عکل اور عرینہ (قبائل) کے کچھ لوگ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں مدینہ منورہ آئے اور اسلام میں داخل ہوگئے، پھر انہوں نے کہا اے اللہ کے نبیؐ! ہم لوگ مویشی رکھتے تھے، کھیت وغیرہ ہمارے پاس نہیں تھے (اس لئے ہم صرف دودھ پرگزارا کیا کرتے تھے) او رانہیں مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو آنحضرتﷺ نے کچھ اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کردیا اور فرمایا کہ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیو (تو تم صحت یاب ہوجاؤ گے) وہ لوگ (چرا گاہ کی طرف)نکلے حتیٰ کہ جب مقام حرہ کے قریب پہنچے تو اسلام سے پھر گئے اور نبی اکرم ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے۔ نبی اکرمﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپؐ نے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو دوڑایا (اور بالآخر یہ پکڑے گئے) آنحضرتﷺ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں (کیونکہ انہوں نے بھی چرواہے کو اسی طرح قتل کیا تھا) او رانہیں حرہ کے کنارے پھینک دیا گیا حتیٰ کہ وہ اسی حالت میں مرگئے۔[45]
مذکورہ روایت میں یہ بات قابل غور ہے کہ آپؐ نے ان مجرموں کو پکڑنے کے لئے کچھ لوگوں کو روانہ کیا جبکہ دیگر روایا ت میں ہے کہ
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مجرموں کی سراغ رسانی کے لئے قیافہ دانوں او رکھوجیوں کی خدمات حاصل کرنا مشروع ہے۔ حافظ ابن قیم اس واقعہ کے بعد فرماتے ہیں کہ :
''فدل علي اعتبار القافة والاعتماد عليھا في الجملة فاستدل باثر الاقدام علي المطلوبين''
حاصل کلام یہ ہے کہ اس واقعہ سے قیافہ دانوں کے معتبر و حجت ہونے او ران پر اعتماد کرنےکی دلیل حاصل ہوتی ہے جیسا کہ قدموں کےنشانات سے مطلوبہ افراد پر استدلال کیا گیا ہے۔ [48]
قیافہ شناسی کی دوسری قسم قیافۃ الاثر ہے اور اس کی تعریف میں یہ وضاحت ہوچکی ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے جس میں جائے حادثہ پر پاؤں وغیرہ کے نشانات اور دیگر آثار و قرائن کی مدد سے مطلوب و مقصود تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ اس لئے اسے قیافۃ الاثر کہا جاتا ہے۔
کسی معاملہ کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے آثار وقرائن کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن یاد رہے کہ محض آثار و قرائن کی بنیاد پر ہر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قرائن، آثار، علامات، امارات و نشانات وغیرہ مجرم یا امر واقعہ کی معرفت و شناخت میں معاون ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں حادثات و واقعات میں بنیادی طور پر ''معاون'' ہی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی قرینہ قطعی و یقینی ہو یا آثار و قرائن کے بعدمجرم خود اعتراف جرم کرلے تو پھر ان آثار و قرائن کی بنیاد پر اسی طرح شرعی فیصلے کئے جائیں گے جس طرح ''عینی گواہوں'' کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔
شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ماہر اور ذہین و فطین کھوجیوں، قیافہ دانوں، عمر رسیدہ تجربہ کاروں حتیٰ کہ کھوجی کتوں اور دیگر جدید آلات سے مختلف حوادث میں استفادہ کیا جائے۔ درج ذیل دلائل و امثلہ سے اس کی توضیح کی جاتی ہے۔
پہلی دلیل:
قرآن مجید میں حضرت یوسف کے واقعہ میں مذکور ہے کہ ان کے بھائی انہیں کنوئیں میں پھینک آئے اور ان کی خون آلود قمیص لاکر اپنے باپ سے کہتے ہیں کہ :
مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت یعقوب نے اس خون آلود قمیص کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ اس میں کوئی چیر پھاڑ کے نشان نہیں بلکہ سارا کُرتا صحیح سالم ہے۔ حالانکہ یہ ایک بدیہی امر تھا کہ اگر بھیڑیئے نے یوسف کوکھایا ہوتا تو قمیص بھی پھٹی ہوتی جبکہ قمیص کا سالم ہونا اس بات کا ثبوت بن گیا کہ یوسف کو بھیڑیئے نے نہیں کھایا بلکہ اس کے بھائی جھوٹ بولتے ہیں۔ گویا اسی علامت کی بنیاد پر حضرت یعقوب نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔[42]''قالوا يا ابانا انا ذھبنا نستبق و تركنا يوسف عند متاعنا فاكله الذئب وما انت بمؤمن لنا ولو كنا صادقين و جاؤا علي قميصه بدم كذب قال بل سولت لكم انفسكم امرا فصبر جميل والله المستعان علي ما تصفون'' [41]
(اور کہنےلگے کہ ابا جان ہم تو آپس میں دوڑ میں لگ گئے اور یوسف کو ہم نے سامان کے پاس چھوڑ دیا اسے بھیڑیا کھا گیا، آپ تو ہماری بات نہیں مانیں گے گو ہم بالکل سچے ہی ہیں۔ اور وہ یوسفؑ کے قمیص کو جھوٹ موٹ کے خون سے رنگ لائے تھے۔ باپ نے کہا یوں نہیں ہوا بلکہ تم نے اپنے جی سے بات بنا لی ہے ۔ لہٰذا صبر ہی بہتر ہے او رتمہاری بنائی باتوں پر اللہ ہی سے مدد طلب کی جاتی ہے)۔
اس سے معلوم ہوا کہ آثار وقرائن کی مدد سے حقائق کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ امام قرطبی رقم طراز ہیں کہ ''فقہاء نے ''قسامہ'' وغیرہ جیسے فقہی مسائل میں اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے علامات و امارات کو معتبر قرار دیا ہے او راہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت یعقوب نے قمیص کے صحیح سالم ہونے کی بنیاد پر اپنے دوسرے بیٹوں کے جھوٹا ہونے پر استدلال کیا۔'' [43]
اسی طرح جب یوسف پر عزیز مصر کی بیوی نے بدکاری کی تہمت لگائی تو آثار کی بنیاد پر یوسف کا صدق ثابت کیا گیا۔[44]
دوسری دلیل :
صحیح بخاری میں انسؓ سے مروی ہے کہ عکل اور عرینہ (قبائل) کے کچھ لوگ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں مدینہ منورہ آئے اور اسلام میں داخل ہوگئے، پھر انہوں نے کہا اے اللہ کے نبیؐ! ہم لوگ مویشی رکھتے تھے، کھیت وغیرہ ہمارے پاس نہیں تھے (اس لئے ہم صرف دودھ پرگزارا کیا کرتے تھے) او رانہیں مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو آنحضرتﷺ نے کچھ اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کردیا اور فرمایا کہ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیو (تو تم صحت یاب ہوجاؤ گے) وہ لوگ (چرا گاہ کی طرف)نکلے حتیٰ کہ جب مقام حرہ کے قریب پہنچے تو اسلام سے پھر گئے اور نبی اکرم ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے۔ نبی اکرمﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپؐ نے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو دوڑایا (اور بالآخر یہ پکڑے گئے) آنحضرتﷺ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں (کیونکہ انہوں نے بھی چرواہے کو اسی طرح قتل کیا تھا) او رانہیں حرہ کے کنارے پھینک دیا گیا حتیٰ کہ وہ اسی حالت میں مرگئے۔[45]
مذکورہ روایت میں یہ بات قابل غور ہے کہ آپؐ نے ان مجرموں کو پکڑنے کے لئے کچھ لوگوں کو روانہ کیا جبکہ دیگر روایا ت میں ہے کہ
''وعنده شباب من الانصار قريب من عشرين فارسلھم اليھم و بعث معھم قائفا يقتص اثرھم'' [46]
( جب آپ ؐ کے پاس چرواہے کے قتل کی خبر پہنچی تو اس وقت) آپ کے پاس تقریباً بیس (20)انصاری نوجوان تھے۔ آپؐ نے انہیں ان (مجرموں) کے تعاقب میں روانہ کیا او ران کے ساتھ ایک قیافہ شناس بھی روانہ کیا جو ان (مجرموں) کے قدموں کے نشان تلاش کرتا تھا۔ سنن ابوداؤد میں ہے کہ :
''فبعث رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم في طلبھم قافة فاتي بھم'' [47]
(اللہ کے رسولؐ نے ان مجرموں کے تعاقب میں چند قیافہ شناس بھی روانہ کئے اور بالآخر ان مجرموں کو گرفتار کرلیا گیا)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مجرموں کی سراغ رسانی کے لئے قیافہ دانوں او رکھوجیوں کی خدمات حاصل کرنا مشروع ہے۔ حافظ ابن قیم اس واقعہ کے بعد فرماتے ہیں کہ :
''فدل علي اعتبار القافة والاعتماد عليھا في الجملة فاستدل باثر الاقدام علي المطلوبين''
حاصل کلام یہ ہے کہ اس واقعہ سے قیافہ دانوں کے معتبر و حجت ہونے او ران پر اعتماد کرنےکی دلیل حاصل ہوتی ہے جیسا کہ قدموں کےنشانات سے مطلوبہ افراد پر استدلال کیا گیا ہے۔ [48]