• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرائن میں قیافہ شناسی کی شرعی حیثیت

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
2۔ فوجداری جرائم میں قیافۃ الاثر کی شرعی حیثیت :

قیافہ شناسی کی دوسری قسم قیافۃ الاثر ہے اور اس کی تعریف میں یہ وضاحت ہوچکی ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے جس میں جائے حادثہ پر پاؤں وغیرہ کے نشانات اور دیگر آثار و قرائن کی مدد سے مطلوب و مقصود تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ اس لئے اسے قیافۃ الاثر کہا جاتا ہے۔

کسی معاملہ کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے آثار وقرائن کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن یاد رہے کہ محض آثار و قرائن کی بنیاد پر ہر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قرائن، آثار، علامات، امارات و نشانات وغیرہ مجرم یا امر واقعہ کی معرفت و شناخت میں معاون ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں حادثات و واقعات میں بنیادی طور پر ''معاون'' ہی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی قرینہ قطعی و یقینی ہو یا آثار و قرائن کے بعدمجرم خود اعتراف جرم کرلے تو پھر ان آثار و قرائن کی بنیاد پر اسی طرح شرعی فیصلے کئے جائیں گے جس طرح ''عینی گواہوں'' کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔

شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ماہر اور ذہین و فطین کھوجیوں، قیافہ دانوں، عمر رسیدہ تجربہ کاروں حتیٰ کہ کھوجی کتوں اور دیگر جدید آلات سے مختلف حوادث میں استفادہ کیا جائے۔ درج ذیل دلائل و امثلہ سے اس کی توضیح کی جاتی ہے۔

پہلی دلیل:
قرآن مجید میں حضرت یوسف ﷤ کے واقعہ میں مذکور ہے کہ ان کے بھائی انہیں کنوئیں میں پھینک آئے اور ان کی خون آلود قمیص لاکر اپنے باپ سے کہتے ہیں کہ :

''قالوا يا ابانا انا ذھبنا نستبق و تركنا يوسف عند متاعنا فاكله الذئب وما انت بمؤمن لنا ولو كنا صادقين و جاؤا علي قميصه بدم كذب قال بل سولت لكم انفسكم امرا فصبر جميل والله المستعان علي ما تصفون'' [41]
(اور کہنےلگے کہ ابا جان ہم تو آپس میں دوڑ میں لگ گئے اور یوسف کو ہم نے سامان کے پاس چھوڑ دیا اسے بھیڑیا کھا گیا، آپ تو ہماری بات نہیں مانیں گے گو ہم بالکل سچے ہی ہیں۔ اور وہ یوسفؑ کے قمیص کو جھوٹ موٹ کے خون سے رنگ لائے تھے۔ باپ نے کہا یوں نہیں ہوا بلکہ تم نے اپنے جی سے بات بنا لی ہے ۔ لہٰذا صبر ہی بہتر ہے او رتمہاری بنائی باتوں پر اللہ ہی سے مدد طلب کی جاتی ہے)۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت یعقوب﷤ نے اس خون آلود قمیص کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ اس میں کوئی چیر پھاڑ کے نشان نہیں بلکہ سارا کُرتا صحیح سالم ہے۔ حالانکہ یہ ایک بدیہی امر تھا کہ اگر بھیڑیئے نے یوسف﷤ کوکھایا ہوتا تو قمیص بھی پھٹی ہوتی جبکہ قمیص کا سالم ہونا اس بات کا ثبوت بن گیا کہ یوسف﷤ کو بھیڑیئے نے نہیں کھایا بلکہ اس کے بھائی جھوٹ بولتے ہیں۔ گویا اسی علامت کی بنیاد پر حضرت یعقوب﷤ نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔[42]

اس سے معلوم ہوا کہ آثار وقرائن کی مدد سے حقائق کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ امام قرطبی  رقم طراز ہیں کہ ''فقہاء نے ''قسامہ'' وغیرہ جیسے فقہی مسائل میں اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے علامات و امارات کو معتبر قرار دیا ہے او راہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت یعقوب﷤ نے قمیص کے صحیح سالم ہونے کی بنیاد پر اپنے دوسرے بیٹوں کے جھوٹا ہونے پر استدلال کیا۔'' [43]

اسی طرح جب یوسف﷤ پر عزیز مصر کی بیوی نے بدکاری کی تہمت لگائی تو آثار کی بنیاد پر یوسف ﷤ کا صدق ثابت کیا گیا۔[44]

دوسری دلیل :
صحیح بخاری میں انسؓ سے مروی ہے کہ عکل اور عرینہ (قبائل) کے کچھ لوگ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں مدینہ منورہ آئے اور اسلام میں داخل ہوگئے، پھر انہوں نے کہا اے اللہ کے نبیؐ! ہم لوگ مویشی رکھتے تھے، کھیت وغیرہ ہمارے پاس نہیں تھے (اس لئے ہم صرف دودھ پرگزارا کیا کرتے تھے) او رانہیں مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو آنحضرتﷺ نے کچھ اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کردیا اور فرمایا کہ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیو (تو تم صحت یاب ہوجاؤ گے) وہ لوگ (چرا گاہ کی طرف)نکلے حتیٰ کہ جب مقام حرہ کے قریب پہنچے تو اسلام سے پھر گئے اور نبی اکرم ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے۔ نبی اکرمﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپؐ نے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو دوڑایا (اور بالآخر یہ پکڑے گئے) آنحضرتﷺ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں (کیونکہ انہوں نے بھی چرواہے کو اسی طرح قتل کیا تھا) او رانہیں حرہ کے کنارے پھینک دیا گیا حتیٰ کہ وہ اسی حالت میں مرگئے۔[45]

مذکورہ روایت میں یہ بات قابل غور ہے کہ آپؐ نے ان مجرموں کو پکڑنے کے لئے کچھ لوگوں کو روانہ کیا جبکہ دیگر روایا ت میں ہے کہ

''وعنده شباب من الانصار قريب من عشرين فارسلھم اليھم و بعث معھم قائفا يقتص اثرھم'' [46]
( جب آپ ؐ کے پاس چرواہے کے قتل کی خبر پہنچی تو اس وقت) آپ کے پاس تقریباً بیس (20)انصاری نوجوان تھے۔ آپؐ نے انہیں ان (مجرموں) کے تعاقب میں روانہ کیا او ران کے ساتھ ایک قیافہ شناس بھی روانہ کیا جو ان (مجرموں) کے قدموں کے نشان تلاش کرتا تھا۔ سنن ابوداؤد میں ہے کہ :
''فبعث رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم في طلبھم قافة فاتي بھم'' [47]
(اللہ کے رسولؐ نے ان مجرموں کے تعاقب میں چند قیافہ شناس بھی روانہ کئے اور بالآخر ان مجرموں کو گرفتار کرلیا گیا)

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مجرموں کی سراغ رسانی کے لئے قیافہ دانوں او رکھوجیوں کی خدمات حاصل کرنا مشروع ہے۔ حافظ ابن قیم اس واقعہ کے بعد فرماتے ہیں کہ :
''فدل علي اعتبار القافة والاعتماد عليھا في الجملة فاستدل باثر الاقدام علي المطلوبين''
حاصل کلام یہ ہے کہ اس واقعہ سے قیافہ دانوں کے معتبر و حجت ہونے او ران پر اعتماد کرنےکی دلیل حاصل ہوتی ہے جیسا کہ قدموں کےنشانات سے مطلوبہ افراد پر استدلال کیا گیا ہے۔ [48]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
دیوانی مقدمات میں قیافۃ الاثر کی شرعی حیثیت :

جس طرح فوجداری جرائم میں قیافہ دانوں اور کھوجیوں کی خدمات حاصل کرنا جائز و مشروع ہے اسی طرح دیوانی مقدمات میں بھی ان کی مدد سے فیصلہ کرنا مشروع ہے ، اس سلسلہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رقم طراز ہیں کہ جس طرح کسی گمشدہ چیز پر دو آدمی مدعی ہوں تو اس چیز کے صحیح اوصاف بتانےوالے کےحق میں ہم فیصلہ دیں گے اور یہ قیافہ سے ملتی جلتی صورت ہے۔ اسی طرح اگر دو آدمی کسی پودے یا کھجور کے بارے میں جھگڑا کریں جبکہ وہ ان دونوں کے ہاتھ (قبضہ) میں ہو تو اس جھگڑے کا فیصلہ اہل خبرہ (یعنی کھوجی یا قیافہ شناس یا صاحب فہم و فراست) لوگ کریں گے۔ اسیس طرح جیسے نسب کے جھگڑے میں قیافہ شناسوں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ ویسے ہی دیگر مقدمات و معاملات میں ان کی طرف رجوع کیا جائے گا اور یہ اسی وقت ہوگا جب مدعی برابر درجہ کے ہوں۔ [49]
اس سلسلہ میں جن شرعی دلائل کوپیش کیا جاتا ہے ۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:


پہلی دلیل :
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ جنگ بدر میں، میں صف میں کھڑا تھا کہ میرے دائیں او ربائیں قبیلہ انصار کے دو نوعمر لڑکے کھڑے تھے۔ میں نے آرزو کی کہ کاش! میں ان سے زبردست (اور زیادہ) عمر والوں کے درمیان ہوتا۔ایک لڑکے نے میری طرف اشارہ کیا اور پوچھا: چچا جان! آپ لوگ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نےکہا ہاں! لیکن بیٹا! تم لوگوں کو اس سے کیا سروکار؟لڑکے نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اللہ کے رسولؐ کو گالیاں دیتا ہے۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ مجھے مل جائے تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہیں ہوں گا جب تک کہ ہم میں سے کوئی ایک جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہوگا، مر نہ جائے۔ (عبدالرحمٰن بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ) مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر دوسرے لڑکے نے مجھے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں (کفار کے لشکر) میں گھومتا پھر رہا تھا، میں نے ان لڑکوں سےکہا جس کے متعلق تم مجھ سے پوچھ رہے تھے وہ سامنے نظر آرہا ہے۔ دونوں نے اپنی تلواریں سونتیں اور اس پر جھپٹ پڑے او رحملہ کرکےاسے قتل کرڈالا۔ اس کے بعد رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپؐ کو خبر دی گئی۔ آپؐ نےپوچھا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے؟ دونوں لڑکوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ میں نے اسے مارا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کہ تم نے اپنی تلواریں صاف کرلی ہیں؟ انہوں نے عرض کی نہیں۔ پھر آپؐ نے دونوں کی تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اسے مارا ہے۔ پھر آپؐ نے اس مقتول کا سارا سامان معاذ بن عمرو بن جموع کو دے دیا۔ یہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء او رمعاذ بن عمرو بن جموع تھے۔[50]

یہ ایک شرعی اصول ہے کہ مقتول کافر کا مال غنیمت اسے دیا جاتا ہے جس نے اسے قتل کیا ہو۔ اس لحاظ سے ابوجہل کا مال غنیمت ان دونوں نوجوانوں میں سے کسی ایک یا پھر دونوں کا حق قرار پاتا تھا۔ اب اس فیصلے کے لئے نبی کریم ﷺ نے آثار و علامات کو بنیاد بناتے ہوئے ان دونوں کی تلواروں کا جائزہ لیا اور آپؐ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان دونوں ہی نے ابوجہل کو قتل کیا ہے اس لئے آپؐ نے فرمایا کہ ''کلاکما قتلہ'' یعنی تم دونوں نے اس بدبخت کو قتل کیا ہے۔[51]

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت معوذ و معاذؓ دونوں کی تلواروں پرلگے خون کے آثار سے آنحضرتﷺ نے یہ فیصلہ کیا کہ دونوں نے اسے برابر قتل کیا ہے تو پھر مال غنیمت صرف ایک کو کیوں دیا بلکہ دونوں میں برابر تقسیم کرنا چاہئے تھا۔

شارحین نے اس سوال کاایک جواب تو یہ دیا ہے کہ معاذ بن عمروؓ نے چونکہ ابوجہل کو قتل کرنے میں زیادہ کام دکھایا تھا اس لئے اسے ہی آپؐ نے مال غنیمت عنایت فرمایا جبکہ اس سے زیادہ بہتر جواب یہ ہے کہ مال غنیمت میں واقعی معوذؓ و معاذؓ کاحصہ بنتا تھا مگر آپؐ نے صرف حضرت معاذؓ ہی کو مال غنیمت اس لئے دیا تھا کہ ''حضرت معوذؓ اس معرکہ میں شہید ہوگئے تھے۔[52]


دوسری دلیل :
ابراہیم بن فرزوق بصری بیان کرتے ہیں کہ ''دو آدمی حضرت ایاس بن معاویہ کے پاس آئے او ران دونوں کا دو چادروں کےبارے میں جھگڑا تھا جن میں سے ایک چادر سرخ اور دوسری سبز تھی۔ ایک نے کہا کہ میں غسل کے لئے حوض میں داخل ہوا تو میں نے اپنی چادر (ایک طرف) رکھ دی۔ پھر یہ شخص آیا او راس نے اپنی چادر میری چادر کے نیچے رکھ دی اور غسل کرنے لگا۔ پھر یہ مجھ سے پہلے فارغ ہوکر نکلا او رمیری چادر اٹھا کر چلتا بنا جبکہ میں نے حوض سے نکل کر اس کا تعاقب کیا تو یہ کہنے لگا کہ یہ چادر میری ہے۔ ایاس نے اس سے پوچھا کہ تیرے پاس کوئی دلیل ہے؟ اس نے کہا نہیں! تو ایاس نے کہا کہ ایک کنگھی لاؤ۔ کنگھی لائی گئی اور یکے بعد دیگرے دونوں کے سروں پر کنگھی کی گئی تو ایک کے سر سے سرخ اور دوسرے کے سر سے سبز اُون نکلی تو حضرت ایاس نے اس شخص کو سرخ چادر دی جس کے سر سے سرخ اُون نکلی تھی جبکہ دوسرے کو سبز چادر دی جس کے سر سے سبز اُون نکلی تھی۔ [53]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حوالہ جات


[1] ۔ الجرجانی ، علی بن محمد بن علی الفد المحسن الجرجانی الحنفی: التعریفات، ص652، دارالکتب العلمیہ ، بیروت
[2] ۔ الزرقاء، مصطفیٰ بن احمد الزرقاء: المدخل الفقہی العام، ج2، ص918، دارالفکر
[3] ۔ ابن قیم، محمد بن ابی بکر الزرعی الدمشقی: الطرق الحکمیۃ، ص 114، 115، دارالفکر ،بیروت
[4] ۔القرائن لصالح بن غانم ص17، دار بلنسیۃ مکہ، ریاض
[5] ۔ دائرۃالمعارف اُردو، ج16 ص518، پنجاب یونیورسٹی، نیز ملاحظہ ہو لسان العرب ج9 ص261، دارالکتب العلمیہ بیروت، النہایۃ وغیرہ۔
[6] ۔فیروز الدین الحجاج مولوی، فیروز اللغات ، اُردو، ص519
[7] ۔ بطاش کبریٰ زادہ، احمد بن مصطفیٰ ، مفتاح السعادۃ، ج1 ص328، دارالکتب العلمیہ، بیروت، کشف الظنون، ج2، ص 1181 منشورات مکبہ المتنی بغداد
[8] ۔ القنوجی، صدیق بن حسن علامہ، ابجد العلوم ص436، ج2، مکتبہ قدوسیہ لاہور
[9] ۔ حاجی خلیفہ، مصطفیٰ ابن عبداللہ القسطنطنی الرومی الحنفی : کشف الظنون، ج2، ص1367
[10] ۔ مفتاح السعادۃ، ج1 ص329
[11] ۔ ایضاً
[12] ۔ ابجد العلوم ج2 ص385
[13] ۔ لسان العرب ج9 ص261
[14] ۔ابوداؤد امام، ابوداؤد سلیمان بن اشعث: الازدی السجستانی: ابوداؤد، کتاب الطب: باب فی الخط و زجر الطیر، رقم (3905)
[15] ۔النھایۃ : ج4، ص131، مکتبۃ الاسلامیہ
[16] ۔ التعریفات للجرجانی، ص171
[17] ۔ ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی حجر: فتح الباری ابن حجر ج12 ص57، دارالنشر الکتب الاسلامیہ، لاہور
[18] ۔ ابن رشد، محمد بن احمد بن رشد القرطبی: بدایۃ المجتہد ج2 ص240 مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکۃ المکرمہ، نیز دیکھئے المبسوط للسرخسی ج17، ص70، بدائع الصنائع ج6 ص246۔
[19] ۔ ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد بن محمد بن قدامہ الحنبلی: المغنی لابن قدامہ، ج8 ص672 تا 674 دارعالم الکتب مکہ، نیز دیکھئے الفروق للقرافی ج4 ص99 دارالمعرفۃ بیروت، الاشباہ والنظائر للسیوطی ص419، الفتاویٰ الکبریٰ لابن تیمیہ ج4 ص587، فتح الباری ج12 ص57، نیل الاوطار ج4 ص382، سبل السلام ج4 ص137۔
[20] ۔بخاری، امام محمد بن اسمعٰیل البخاری: کتاب الفرائض: باب القائف ، رقم (6771) نیز مسلم (1459)، ابوداؤد (2297)، ترمذی (1219)، ابن ماجہ (2349) احمد ج6 ص226۔
[21] ۔بخاری: کتاب فضائل اصحاب النبیؐ: باب مناقب زید بن حارثہ، رقم (3731)
[22] ۔ فتح الباری، ج12 ص57
[23] ۔ ایضاً
[24] ۔ معالم السنن ج3 ص245، مطبع انصار السنۃ المحمدیۃ
[25] ۔ مفتاح السعادۃ ج1 ص330
[26] ۔ بخاری: کتاب التفسیر : باب قولہ و یدراعنہا العذاب.......... رقم (4747)
[27] ۔ابوداؤد: کتاب الطلاق: باب فی اللعان(2256) مسنداحمد ج1 ص238
[28] ۔ المغنی لابن قدامہ ج8 ص373 ، دارعالم الکتب مکہ المکرمۃ
[29] ۔ الشوکانی، محمد بن علی بن محمد الشوکانی: نیل الاوطار ج4 ص372 تا 373 ، دارالحدیث قاہرہ
[30] ۔السرخسی، شمس الدین: المبسوط للسرخی، ج17 ص70
[31] ۔ احمد بن حنبل، امام: مسند احمد ج3 ص142
[32] ۔المغنی لابن قدامہ، ج8 ص371 تا 374، نیل الاوطار ج4 ص382
[33] ۔ بخاری، کتاب البیوع: باب تفسیر المشبہات، رقم (2053)
[34] ۔ بخاری: ترجمہ و تشریح از داؤد راز دہلوی، ج3 ص274، مکتبہ قدوسیہ لاہور
[35] ۔ المغنی لابن قدامہ ج8 ص373
[36] ۔فتح الباری، ج12 ص57
[37] ۔ الطرق الحکمیۃ، ص254
[38] ۔ ایضاً، نیز دیکھئے، المؤطا: کتاب لاقضیۃ: باب قضأ بالحاق الولد بابیہ، رقم 22 تا25
[39] ۔ المغنی لابن قدامہ ج8 ص372
[40] ۔ الطرق الحکمیہ ص252
[41] ۔سورۃ یوسف : 17۔ 18
[42] ۔ قرطبی، محمد بن احمد الانصاری القرطبی: تفسیر قرطبی، ج9 ص150 مکتبہ الغزالی دمشق
[43] ۔ احکام القرآن لابن العربی ج3 ص1065، مطبعہ عیسیٰ البابی الحلبی، مصر
[44] ۔ سورۃ یوسف: 25 تا 28
[45] ۔ بخاری: کتاب المغازی: باب قصۃ عکل و عرینۃ (4192) مسلم کتاب القسامۃ والمحاربین (1671) نسائی (4036)
[46] ۔ مسلم، امام مسلم بن الحجاج القشیری:مسلم: ایضاً
[47] ۔ ابوداؤد، کتاب الحدود: باب ماجاء فی المحاربۃ (4366)
[48] ۔ الطرق الحکمیہ ،ص 254
[49] ۔ ابن تیمیہ، تقی الدین احمد بن عبدالحلیم الشہیر بابن تیمیہ : الفتاویٰ ا لکبریٰ، ج5 ص502، دارالکتب العلمیہ ، بیروت
[50] ۔ بخاری: کتاب فرض الخمس : باب من لم یخمس الاسلاب(3141) نیز مسم (1751) ابوداؤد (277) ترمذی (1562)
[51] ۔ فتح الباری، ج6 ص248
[52] ۔ ایضاً، ج7 ص296
[53] ۔ الطرق الحکمیۃ، ص38
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ جنگ بدر میں، میں صف میں کھڑا تھا کہ میرے دائیں او ربائیں قبیلہ انصار کے دو نوعمر لڑکے کھڑے تھے۔ میں نے آرزو کی کہ کاش! میں ان سے زبردست (اور زیادہ) عمر والوں کے درمیان ہوتا۔ایک لڑکے نے میری طرف اشارہ کیا اور پوچھا: چچا جان! آپ لوگ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نےکہا ہاں! لیکن بیٹا! تم لوگوں کو اس سے کیا سروکار؟لڑکے نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اللہ کے رسولؐ کو گالیاں دیتا ہے۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ مجھے مل جائے تو اس وقت تک میں اس سے جدا نہیں ہوں گا جب تک کہ ہم میں سے کوئی ایک جس کی قسمت میں پہلے مرنا ہوگا، مر نہ جائے۔ (عبدالرحمٰن بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ) مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر دوسرے لڑکے نے مجھے اشارہ کیا اور وہی باتیں اس نے بھی کہیں۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ مجھے ابوجہل دکھائی دیا جو لوگوں (کفار کے لشکر) میں گھومتا پھر رہا تھا، میں نے ان لڑکوں سےکہا جس کے متعلق تم مجھ سے پوچھ رہے تھے وہ سامنے نظر آرہا ہے۔ دونوں نے اپنی تلواریں سونتیں اور اس پر جھپٹ پڑے او رحملہ کرکےاسے قتل کرڈالا۔ اس کے بعد رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپؐ کو خبر دی گئی۔ آپؐ نےپوچھا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے؟ دونوں لڑکوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ میں نے اسے مارا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کہ تم نے اپنی تلواریں صاف کرلی ہیں؟ انہوں نے عرض کی نہیں۔ پھر آپؐ نے دونوں کی تلواروں کو دیکھا اور فرمایا کہ تم دونوں ہی نے اسے مارا ہے۔ پھر آپؐ نے اس مقتول کا سارا سامان معاذ بن عمرو بن جموع کو دے دیا۔ یہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء او رمعاذ بن عمرو بن جموع تھے۔[50]
یہ ایک شرعی اصول ہے کہ مقتول کافر کا مال غنیمت اسے دیا جاتا ہے جس نے اسے قتل کیا ہو۔ اس لحاظ سے ابوجہل کا مال غنیمت ان دونوں نوجوانوں میں سے کسی ایک یا پھر دونوں کا حق قرار پاتا تھا۔ اب اس فیصلے کے لئے نبی کریم ﷺ نے آثار و علامات کو بنیاد بناتے ہوئے ان دونوں کی تلواروں کا جائزہ لیا اور آپؐ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان دونوں ہی نے ابوجہل کو قتل کیا ہے اس لئے آپؐ نے فرمایا کہ ''کلاکما قتلہ'' یعنی تم دونوں نے اس بدبخت کو قتل کیا ہے۔[51]
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت معوذ و معاذؓ دونوں کی تلواروں پرلگے خون کے آثار سے آنحضرتﷺ نے یہ فیصلہ کیا کہ دونوں نے اسے برابر قتل کیا ہے تو پھر مال غنیمت صرف ایک کو کیوں دیا بلکہ دونوں میں برابر تقسیم کرنا چاہئے تھا۔
شارحین نے اس سوال کاایک جواب تو یہ دیا ہے کہ معاذ بن عمروؓ نے چونکہ ابوجہل کو قتل کرنے میں زیادہ کام دکھایا تھا اس لئے اسے ہی آپؐ نے مال غنیمت عنایت فرمایا جبکہ اس سے زیادہ بہتر جواب یہ ہے کہ مال غنیمت میں واقعی معوذؓ و معاذؓ کاحصہ بنتا تھا مگر آپؐ نے صرف حضرت معاذؓ ہی کو مال غنیمت اس لئے دیا تھا کہ ''حضرت معوذؓ اس معرکہ میں شہید ہوگئے تھے۔[52]
دو نوعمر جوان کا ہم نے ذکر سنا تھا ۔ ایک معاذ اور معوذ رضی اللہ عنھم ۔جبکہ آپ نے جو لکھا ہے اس میں دونوں معاذ ہیں صرف ولدیت کا فرق ہیں ۔
دوسری اشکال یہ ہے کہ جب دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان دیا کہ ہم نے اس کو قتل کیا ہے ۔
تو شارحین نے کیسے اخذکیا کہ معوذ رض اس معرکے میں شہید ہوگئے تھے ۔
 
Top