کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
" أما أبوك فلو كان أقر بالتوحيد ، فصمت و تصدقت عنه نفعه ذلك " .
أخرجه الإمام أحمد (2/ 182) حدثنا هشيم أخبرنا حجاج حدثنا عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده .
" أن العاص بن وائل نذر في الجاهلية أن ينحر مائة بدنة ، و أن هشام ابن العاص نحر حصته خمسين بدنة ، و أن عمرا سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك ؟ فقال " فذكره .
قلت : و هذا إسناد صحيح رجاله كلهم ثقات على الخلاف المعروف في عمرو ابن شعيب عن أبيه عن جده . و هشيم و الحجاج كلاهما مدلس ، و لكنهما قد صرحا بالتحديث ، فزالت شبهة تدليسهما . و من هنا تعلم أن قول الهيثمي في " مجمع الزوائد "( 4 / 192 ) :" رواه أحمد ، و فيه الحجاج بن أرطأة و هو مدلس " .فليس دقيقا ، فإنه يوهم أنه قد عنعنه ، و ليس كذلك كما ترى .
و الحديث دليل واضح على أن الصدقة و الصوم تلحق الوالد و مثله الوالدة بعد موتهما إذا كانامسلمين و يصل إليهما ثوابها ، بدون وصية منهما . و لما كان الولد من سعي الوالدين ، فهو داخل في عموم قوله تعالى ( و أن ليس للإنسان إلاما سعى ) فلا داعي إلى تخصيص هذا العموم بالحديث و ما ورد في معناه في الباب ،مما أورده المجد ابن تيمية في " المنتقى " كما فعل البعض .و اعلم أن كل الأحاديث التي ساقها في الباب هي خاصة بالأب أو الأم من الولد ،فالاستدلال بها على وصول ثواب القرب إلى جميع الموتى كما ترجم لها المجد ابن تيمية بقوله " باب وصول ثواب القرب المهداة إلى الموتى " غير صحيح لأن الدعوى أعم من الدليل ، و لم يأت دليل يدل دلالة عامة على انتفاع عموم الموتى من عموم أعمال الخير التي تهدى إليهم من الأحياء ، اللهم إلا في أمور خاصة ذكرها الشوكاني في " نيل الأوطار " ( 4 / 78 - 80 ) ، ثم الكاتب في كتابه " أحكام الجنائز و بدعها " يسر الله إتمام طبعه ، من ذلك الدعاء للموتى فإنه ينفعهم إذا استجابه الله تبارك و تعالى .
فاحفظ هذا تنج من الإفراط و التفريط في هذه المسألة ، و خلاصة ذلك أن للولد أن يتصدق و يصوم و يحج و يعتمر و يقرأ القرآن عن والديه لأنه من سعيهما ، و ليس له ذلك عن غيرهما إلا ما خصه الدليل مما سبقت الإشارة إليه . و الله أعلم .
(السلسلة الصحيحة" 1 / 783 -784 برقم 484)
ہم نے علامہ البانی رحمہ اللہ کے کلام کو پورے سیاق کے ساتھ نقل کردیاہے، جس عبارت پراشکال ہے وہ یہ ہے:
و خلاصة ذلك أن للولد أن يتصدق و يصوم و يحج و يعتمر و يقرأ القرآن عن والديه لأنه من سعيهما .
یعنی مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اولاد کے لئے جائزہے کہ وہ صدقہ ،روزہ ، حج وعمرہ اورقران کی تلاوت ، اپنے والدین کی طرف سے کرسکتے ہیں کیونکہ اولاد والدین کی کوشش میں سے ہیں ۔
عرض ہے کہ جہاں تک والدین کی طرف سے صدقہ ، (نذر) کا روزہ ، اورحج کی بات ہے تواس کا ثبوت موجودہے لیکن’’و يقرأ القرآن عن والديه‘‘ یعنی اولاد اپنے والدین کی طرف سے قران کی تلاوت یعنی قران خوانی بھی کرسکتے ہیں تواس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اگرکہا جائے کہ اولاد ، والدین کی(سعی) کوشش میں داخل ہیں اور اللہ کا ارشادہے:
(وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَي) (النجم: 53/ 39)
اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔
تواگراس کو عام مان کراولادکے اعمال کو بھی والدین کی کوشش میں شامل مان لیا جائے تو اس سے صرف یہ ثابت ہوتاہے کہ اولاد اگراپنے لئے قران پڑھے یا جو بھی نیک عمل مثلا روزہ ،نماز قربانی وغیرہ کرے تواس پر اولاد کے ساتھ ساتھ والدین کوثواب ملے گا، ’’لأنه من سعيهما‘‘کیونکہ اولادان کی کوشش میں سے ہیں ۔
لیکن ’’عن والديه‘‘ یعنی والدین کی طرف سے نیابت کرتے ہوئے قران پڑھے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہاہے، تواس سے نہ تواولاد کو ثواب ملے گا اورنہ ہی والدین کو، کیونکہ اس نیابت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اوراگرزبردستی اسے والدین کی ’’سعی‘‘ کوشش میں داخل مانا جارہا ہے تو پھرصرف صدقہ ، روزہ ، حج اورقران خوانی ہی کی بات کیوں ؟ ایسی صورت میں تویہ کہنا چاہئے کہ اولاد اپنے فوت شدہ والدین کی طرف سے ہرعبادت انجام دے سکتے ہیں مثلا، نماز بھی پڑھیں ، قربانی بھی کریں ، غیرنذر کا روزہ بھی رکھیں وغیرہ وغیرہ۔
نیز یہ بھی کہنا چاہئے کہ اگرکوئی بیٹا اپنے باپ کا دشمن بن گیا ہوتو اپنے والد کی ’’سعی ‘‘ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پراپنے گناہوں کا بوجھ بھی لاد سکتا ہے کیونکہ دریں صورت والدین کی ’’سعی‘‘ کوشش میں اولاد کا ہرعمل شامل ہوگا خواہ نیک عمل ہو یا بدعمل۔
اوریہ بھی واضح رہے کہ جس طرح بہت ساری روایات میں اس بات کی دلیل ہے زندوں کی بعض نیکیوں کا ثواب مردوں کو پہنچتاہے تو ٹھیک اسی طرح بہت سی روایات ایسی بھی ہیں جن میں اس بات کی دلیل ہے کہ زندوں کی بعض برائیوں کا گناہ مردوں کو پہنچتاہے۔
مثلا ملاحظہ ہو یہ حدیث:
لا تقتل نفس ظلما إلا کان علي ابن آدم الأول کفل من دمها، لأنه أول من سن القتل [أخرجه البخاري: (11/ 493) رقم 3335]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جب بھی دنیا میں) کوئی ناحق قتل ہوتا ہے تو اس کے گناہ کا ایک حصہ آدم کے بیٹے (یعنی قابیل) پر ضرور ہوتا ہے کیونکہ اسی نے قتل کا طریقہ ایجاد کیا۔
بلکہ ایک وہی حدیث ملاحظہ ہو جس سے ایصال ثواب کی دلیل لی جاتی ہے ، اگرواقعی اس حدیث کے ابتدائی ٹکڑے میں ایصال ثواب کی دلیل ہے ، تو بے شک اس کے آخری ٹکڑے میں ایصال گناہ کی بھی دلیل ہے، حدیث یہ ہے:
... من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة کان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء [أخرجه مسلم (2/ 704) رقم1017]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس آدمی نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر اس عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔
لہٰذا حق بات ان شاء اللہ یہی ہے کہ فوت شدہ والدین کو اولاد کی صرف انہیں معصیات وطاعات کا گناہ وثواب پہنچتا ہے جن کاثبوت موجودہو ۔
جیساکہ درج ذیل دلائل سے معلوم ہوتاہے، اللہ تعالی کا ارشادہے:
(يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ) (الشعراء: 26/ 88)
جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔
نیزیہ بھی ارشادہے:
(الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا) (الکهف: 18/ 46)
مال و اولاد تو دنیا کی زینت ہے اور (ہاں) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک از روئے ثواب اور (آئندہ کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں۔
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں:
فلم يکن من عادة السلف إذا صلوا تطوعا وصاموا وحجوا أو قرء وا القرآن يهدون ثواب ذلک لموتاهم المسلمين ولا لخصوصهم بل کان عادتهم کما تقدم فلا ينبغي للناس أن يعدلوا عن طريق السلف فإنه أفضل وأکمل والله أعلم.
[مجموع الفتاوي (24/ 323)]
سلف صالحین کی یہ عادت نہ تھی کہ وہ نفلی نماز پڑھنے روزہ رکھنے ،حج کرنے اورقران کی تلاوت کرنے کے بعد اس کا ثواب مسلمان مردوں کو پہنچاتے ہوں۔
لہٰذاعلامہ البانی رحمہ اللہ کی بات محل نظرہے اورراجح وہی ہے جو شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے فرمایاہے۔
واضح رہے کہ اولادکے ہر اعمال صالحہ کووالدین کی ’’سعی‘‘ کوشش میں ماننا بھی محل نظرہے ، کیونکہ ایسی صورت میں جیسا کہ ہم نے اوپرکہا یہ لازم آئے گا کہ جس طرح اولادکے نیک اعمال سے والدین کو ثواب پہنچتاہے اسی طرح اولادکے برے اعمال سے والدین کو گناہ بھی ملے گا، اوراس کا کوئی قائل نہیں ، اس لئے درست بات یہ ہے کہ اولادکے صرف وہ اعمال والدین کی ’’سعی‘‘ (کوشش)میں داخل ہیں جس کا ثبوت موجود ہو ، مثلا دعاء کرنا وغیرہ۔
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں:
فإنه ليس کل ما يفعله الولد يکون للوالد مثل أجره وإنما ينتفع الوالد بدعاء الولد ونحوه مما يعود نفعه إلي الأب کما قال في الحديث الصحيح: (إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية وعلم ينتفع به وولد صالح يدعو له) '' [مجموع الفتاوي: (1/ 191)]
بیٹے کے ہرعمل کا ثواب والدکونہیں پہنچتاہے بلکہ باپ کو صرف بیٹے کی دعاء وغیرہ ہی سے فائدہ پہنچتاہے جیساکہ صحیح حدیث میں ہے کہ جب آدمی مرجاتاہے تواس کے اعمال کاسلسلہ ٹوٹ جاتاہے سوائے تین چیزوں کے صدقہ جاریہ،نفع بخش علم اورنیک بیٹا جواس کے لئے دعاکرے۔
ہماری نظرمیں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی کی بات درست ہے، بنابریں میت کوصرف اسی عمل کا ثواب پہنچ سکتاہے جس کا واضح ثبوت موجودہے۔
" أما أبوك فلو كان أقر بالتوحيد ، فصمت و تصدقت عنه نفعه ذلك " .
أخرجه الإمام أحمد (2/ 182) حدثنا هشيم أخبرنا حجاج حدثنا عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده .
" أن العاص بن وائل نذر في الجاهلية أن ينحر مائة بدنة ، و أن هشام ابن العاص نحر حصته خمسين بدنة ، و أن عمرا سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك ؟ فقال " فذكره .
قلت : و هذا إسناد صحيح رجاله كلهم ثقات على الخلاف المعروف في عمرو ابن شعيب عن أبيه عن جده . و هشيم و الحجاج كلاهما مدلس ، و لكنهما قد صرحا بالتحديث ، فزالت شبهة تدليسهما . و من هنا تعلم أن قول الهيثمي في " مجمع الزوائد "( 4 / 192 ) :" رواه أحمد ، و فيه الحجاج بن أرطأة و هو مدلس " .فليس دقيقا ، فإنه يوهم أنه قد عنعنه ، و ليس كذلك كما ترى .
و الحديث دليل واضح على أن الصدقة و الصوم تلحق الوالد و مثله الوالدة بعد موتهما إذا كانامسلمين و يصل إليهما ثوابها ، بدون وصية منهما . و لما كان الولد من سعي الوالدين ، فهو داخل في عموم قوله تعالى ( و أن ليس للإنسان إلاما سعى ) فلا داعي إلى تخصيص هذا العموم بالحديث و ما ورد في معناه في الباب ،مما أورده المجد ابن تيمية في " المنتقى " كما فعل البعض .و اعلم أن كل الأحاديث التي ساقها في الباب هي خاصة بالأب أو الأم من الولد ،فالاستدلال بها على وصول ثواب القرب إلى جميع الموتى كما ترجم لها المجد ابن تيمية بقوله " باب وصول ثواب القرب المهداة إلى الموتى " غير صحيح لأن الدعوى أعم من الدليل ، و لم يأت دليل يدل دلالة عامة على انتفاع عموم الموتى من عموم أعمال الخير التي تهدى إليهم من الأحياء ، اللهم إلا في أمور خاصة ذكرها الشوكاني في " نيل الأوطار " ( 4 / 78 - 80 ) ، ثم الكاتب في كتابه " أحكام الجنائز و بدعها " يسر الله إتمام طبعه ، من ذلك الدعاء للموتى فإنه ينفعهم إذا استجابه الله تبارك و تعالى .
فاحفظ هذا تنج من الإفراط و التفريط في هذه المسألة ، و خلاصة ذلك أن للولد أن يتصدق و يصوم و يحج و يعتمر و يقرأ القرآن عن والديه لأنه من سعيهما ، و ليس له ذلك عن غيرهما إلا ما خصه الدليل مما سبقت الإشارة إليه . و الله أعلم .
(السلسلة الصحيحة" 1 / 783 -784 برقم 484)
ہم نے علامہ البانی رحمہ اللہ کے کلام کو پورے سیاق کے ساتھ نقل کردیاہے، جس عبارت پراشکال ہے وہ یہ ہے:
و خلاصة ذلك أن للولد أن يتصدق و يصوم و يحج و يعتمر و يقرأ القرآن عن والديه لأنه من سعيهما .
یعنی مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اولاد کے لئے جائزہے کہ وہ صدقہ ،روزہ ، حج وعمرہ اورقران کی تلاوت ، اپنے والدین کی طرف سے کرسکتے ہیں کیونکہ اولاد والدین کی کوشش میں سے ہیں ۔
عرض ہے کہ جہاں تک والدین کی طرف سے صدقہ ، (نذر) کا روزہ ، اورحج کی بات ہے تواس کا ثبوت موجودہے لیکن’’و يقرأ القرآن عن والديه‘‘ یعنی اولاد اپنے والدین کی طرف سے قران کی تلاوت یعنی قران خوانی بھی کرسکتے ہیں تواس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اگرکہا جائے کہ اولاد ، والدین کی(سعی) کوشش میں داخل ہیں اور اللہ کا ارشادہے:
(وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَي) (النجم: 53/ 39)
اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔
تواگراس کو عام مان کراولادکے اعمال کو بھی والدین کی کوشش میں شامل مان لیا جائے تو اس سے صرف یہ ثابت ہوتاہے کہ اولاد اگراپنے لئے قران پڑھے یا جو بھی نیک عمل مثلا روزہ ،نماز قربانی وغیرہ کرے تواس پر اولاد کے ساتھ ساتھ والدین کوثواب ملے گا، ’’لأنه من سعيهما‘‘کیونکہ اولادان کی کوشش میں سے ہیں ۔
لیکن ’’عن والديه‘‘ یعنی والدین کی طرف سے نیابت کرتے ہوئے قران پڑھے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہاہے، تواس سے نہ تواولاد کو ثواب ملے گا اورنہ ہی والدین کو، کیونکہ اس نیابت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اوراگرزبردستی اسے والدین کی ’’سعی‘‘ کوشش میں داخل مانا جارہا ہے تو پھرصرف صدقہ ، روزہ ، حج اورقران خوانی ہی کی بات کیوں ؟ ایسی صورت میں تویہ کہنا چاہئے کہ اولاد اپنے فوت شدہ والدین کی طرف سے ہرعبادت انجام دے سکتے ہیں مثلا، نماز بھی پڑھیں ، قربانی بھی کریں ، غیرنذر کا روزہ بھی رکھیں وغیرہ وغیرہ۔
نیز یہ بھی کہنا چاہئے کہ اگرکوئی بیٹا اپنے باپ کا دشمن بن گیا ہوتو اپنے والد کی ’’سعی ‘‘ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پراپنے گناہوں کا بوجھ بھی لاد سکتا ہے کیونکہ دریں صورت والدین کی ’’سعی‘‘ کوشش میں اولاد کا ہرعمل شامل ہوگا خواہ نیک عمل ہو یا بدعمل۔
اوریہ بھی واضح رہے کہ جس طرح بہت ساری روایات میں اس بات کی دلیل ہے زندوں کی بعض نیکیوں کا ثواب مردوں کو پہنچتاہے تو ٹھیک اسی طرح بہت سی روایات ایسی بھی ہیں جن میں اس بات کی دلیل ہے کہ زندوں کی بعض برائیوں کا گناہ مردوں کو پہنچتاہے۔
مثلا ملاحظہ ہو یہ حدیث:
لا تقتل نفس ظلما إلا کان علي ابن آدم الأول کفل من دمها، لأنه أول من سن القتل [أخرجه البخاري: (11/ 493) رقم 3335]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جب بھی دنیا میں) کوئی ناحق قتل ہوتا ہے تو اس کے گناہ کا ایک حصہ آدم کے بیٹے (یعنی قابیل) پر ضرور ہوتا ہے کیونکہ اسی نے قتل کا طریقہ ایجاد کیا۔
بلکہ ایک وہی حدیث ملاحظہ ہو جس سے ایصال ثواب کی دلیل لی جاتی ہے ، اگرواقعی اس حدیث کے ابتدائی ٹکڑے میں ایصال ثواب کی دلیل ہے ، تو بے شک اس کے آخری ٹکڑے میں ایصال گناہ کی بھی دلیل ہے، حدیث یہ ہے:
... من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة کان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء [أخرجه مسلم (2/ 704) رقم1017]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس آدمی نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر اس عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔
لہٰذا حق بات ان شاء اللہ یہی ہے کہ فوت شدہ والدین کو اولاد کی صرف انہیں معصیات وطاعات کا گناہ وثواب پہنچتا ہے جن کاثبوت موجودہو ۔
جیساکہ درج ذیل دلائل سے معلوم ہوتاہے، اللہ تعالی کا ارشادہے:
(يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ) (الشعراء: 26/ 88)
جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔
نیزیہ بھی ارشادہے:
(الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا) (الکهف: 18/ 46)
مال و اولاد تو دنیا کی زینت ہے اور (ہاں) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک از روئے ثواب اور (آئندہ کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں۔
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں:
فلم يکن من عادة السلف إذا صلوا تطوعا وصاموا وحجوا أو قرء وا القرآن يهدون ثواب ذلک لموتاهم المسلمين ولا لخصوصهم بل کان عادتهم کما تقدم فلا ينبغي للناس أن يعدلوا عن طريق السلف فإنه أفضل وأکمل والله أعلم.
[مجموع الفتاوي (24/ 323)]
سلف صالحین کی یہ عادت نہ تھی کہ وہ نفلی نماز پڑھنے روزہ رکھنے ،حج کرنے اورقران کی تلاوت کرنے کے بعد اس کا ثواب مسلمان مردوں کو پہنچاتے ہوں۔
لہٰذاعلامہ البانی رحمہ اللہ کی بات محل نظرہے اورراجح وہی ہے جو شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے فرمایاہے۔
واضح رہے کہ اولادکے ہر اعمال صالحہ کووالدین کی ’’سعی‘‘ کوشش میں ماننا بھی محل نظرہے ، کیونکہ ایسی صورت میں جیسا کہ ہم نے اوپرکہا یہ لازم آئے گا کہ جس طرح اولادکے نیک اعمال سے والدین کو ثواب پہنچتاہے اسی طرح اولادکے برے اعمال سے والدین کو گناہ بھی ملے گا، اوراس کا کوئی قائل نہیں ، اس لئے درست بات یہ ہے کہ اولادکے صرف وہ اعمال والدین کی ’’سعی‘‘ (کوشش)میں داخل ہیں جس کا ثبوت موجود ہو ، مثلا دعاء کرنا وغیرہ۔
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں:
فإنه ليس کل ما يفعله الولد يکون للوالد مثل أجره وإنما ينتفع الوالد بدعاء الولد ونحوه مما يعود نفعه إلي الأب کما قال في الحديث الصحيح: (إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية وعلم ينتفع به وولد صالح يدعو له) '' [مجموع الفتاوي: (1/ 191)]
بیٹے کے ہرعمل کا ثواب والدکونہیں پہنچتاہے بلکہ باپ کو صرف بیٹے کی دعاء وغیرہ ہی سے فائدہ پہنچتاہے جیساکہ صحیح حدیث میں ہے کہ جب آدمی مرجاتاہے تواس کے اعمال کاسلسلہ ٹوٹ جاتاہے سوائے تین چیزوں کے صدقہ جاریہ،نفع بخش علم اورنیک بیٹا جواس کے لئے دعاکرے۔
ہماری نظرمیں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی کی بات درست ہے، بنابریں میت کوصرف اسی عمل کا ثواب پہنچ سکتاہے جس کا واضح ثبوت موجودہے۔