• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن مجید اور سائنس ایران کے بلند پایہ شیعہ عالم اور مفکر کی طرف سے چند تجاویز

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
قرآن مجید اور سائنس ایران کے بلند پایہ شیعہ عالم اور مفکر کی طرف سے چند تجاویز

ڈاکٹر صادق تقوی (فارسی)
تلخیص اردو: جناب منظور احسن عباسی​
شیعہ سنی نزاع جتنا گہرا ہے، حقائق کے اعتبار سے اتنا ہی سطحی ہے، کیونکہ شیعہ دوستوں نے اپنے مزعومات کی بنیاد جن امور پر رکھی ہے وہ علمی کم، جذباتی زیادہ ہیں، اس لئے اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو نزاع کی سطحی بھول بھلیوں سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔
اس موضوع پر ایران کے ایک اہل علم شیعہ فاضل نے ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے جو قابلِ مطالعہ ہے، جناب منظور احسن عباسی مدظلہ کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے کہ انہوں نے اردو میں اس کی تلخیص پیش کر کے ملی وحدت کے متلاشیوں کے لئے چند تجاویز مہیا فرمائی ہیں۔ جس کے لئے ادارہ موصوف کا شکر گزار ہے۔ (ادارہ)
ملتِ اسلامیہ کے دو مشہور فرقوں ’سنی اور شیعہ‘ کے درمیان جو باہمی مناقشات ہیں ان کو دور کرنے کی ایک عام خواہش ہر فرد مسلم کے دل میں موجزن ہے۔ دونوں فرقوں کے زعماء نے اس کے لئے جو کوششیں کی ہیں ان میں تہران کے مشہور شیعہ عالم ڈاکٹر صادق تقوی کا ایک مختصر رسالہ موسومہ ’’موازین مذہب حقہ جعفری‘‘ جو چند سال پیشتر ایران سے شائع ہوا ہے راقم الحروف کے خیال میں نہایت قابلِ توجہ ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شیعہ سنی کا اختلاف:
انہوں نے اس رسالے میں دونوں فرقوں کے درمیان اختلاف کا ذمہ دار صرف سنیوں کو نہیں بلکہ دونوں فرقوں کے علماء کو ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ ان کی تحریر کا اگر بغور مطالعہ کہا جائے تو ظاہر ہو گا کہ انہوں نے شیعہ علماء پر زیادہ الزام عائد کیا ہے اور باہمی اتحاد و اتفاق کے لئے جو تجاویز پیش فرمائی ہیں ان کا روئے سخن بیشتر علمائے شیعہ کی جانب سے ہے۔
مذہب جعفری:
آغازِ کتاب میں انہوں نے اتباع کتاب و سنت کو مذہب اسلام کی اساس قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ مذہب جعفری مذہب حق ہے کیونکہ اس کی بنیاد بھی کتاب و سنت پر ہے۔ اس کے ثبوت میں انہوں نے آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ:
’’لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تم اسے اپنائے رہو گے گمراہ نہ ہو گے۔ ایک چیز کتاب اللہ اور دوسری سنت رسول اللہ۔‘‘ (ترجمہ)
اس کے بعد رسول اللہ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ:
’’میں دو بیش بہا جواہر تم میں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک کتاب اللہ اور دوسرا میری عترت۔‘‘
لیکن اس حدیث میں لفظ ’’عترت‘‘ کے جو معنی شیعہ اصحاب نے پیغمبر اسلام کے کنبہ اور ان کی نسل کے لئے کیے ہیں ڈاکٹر صاحب اس کو درست نہیں سمجھتے۔ بلکہ ان کے خیال میں یہ حدیث یا تو موضوع ہے اور یا پھر ’’عترت‘ کا مفہوم حضور کی سنت یا حقیقی معنوں میں قرآن کی تبلیغ کرنے والے ہیں۔ جس میں حضرت علیؓ، حضور اکرم ﷺ کی اولاد، ان کے اصحاب اور صالح اہل قبیلہ سب شامل ہیں۔ اس کی دلیل یہ دی ہے کہ پیغمبر اسلام کی اولاد نرینہ نہ تھی اور ان کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کی اور حضرت علیؓ کی اولاد پر منحصر نہیں ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ کتاب و سنت کے دو معیاروں کو اسلام کے جملہ مسلکوں نے تسلیم کیا ہے۔ لہٰذا یہی باہمی اتحاد کا وسیلۂ اولین ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
کتاب و سنت کے مطالب:
مطالبِ کتاب و سنت کی تعیین و تحقیق کے بارے میں ان کی رائے مختصراً یہ ہے کہ قرآن حکیم میں کچھ مطالب مفصل ہیں اور کچھ مجمل ہیں۔ جو باتیں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں وہ اعتقادی مسائل ہیں۔ تمام مسلمانوں کو اس پر قائم رہنا چاہئے۔ اور جن مسائل میں فکر و نظر کی ضرورت ہے ایسے فکری مسائل کو احادیث صحیحہ کی روشنی میں متعین کرنا چاہئے۔ نیز ایسے عقائد جن کا ثبوت قرآن حکیم کی قطعی دلیلوں سے نہ ہو ان کو نظر انداز کر دینا چاہئے (اس سے شاید ان کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کو ایسے مسائل سے تعرض نہ کرنا چاہئے) تاکہ مسلمانوں کا ذہنی بوجھ ہلکا ہو جائے۔
سنت کی تین قسمیں:
تحقیق و تعیین سنت کے باب میں انہوں نے بتایا ہے کہ اس کی تین قسمیں ہیں۔ ایک ’’عرفی‘‘ کہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے لیکن عام طور پر لوگ اس پر عمل پیرا تھے۔ مثلاً وہ نجاستیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں ہے چنانچہ خون اور نشہ آور شراب کے سوا تمام نجاستیں عرفی ہیں۔ اس باب میں اہل اسلام کے درمیان بہت کم اختلاف ہے۔
دوسری قسم وہ ہے جو مسلمانوں کا عام دستور العمل تھا مثلاً نماز کی رکعتیں اور اس کا مفہوم۔ آغازِ اسلام سے یہ طریق اب تک مسلمانوں کا دستورِ عمل ہے۔ ان میں جو اختلافات بعد میں ہوئے ہیں ان کو تاریخ کی رُو سے تحقیق کر کے دور کیا جا سکتا ہے۔
تیسری قسم میں ایسے مسائل ہیں جن کی ضرورت برسوں، مہینوں میں کبھی کبھی پڑتی ہے۔ مثلاً زکوٰۃ اور خوں بہا کی مقدار میں تعین، ان امور میں جو اختلافات ہیں وہ بے حقیقت ہیں اور بآسانی دور کیے جا سکتے ہیں۔
ان کے علاوہ تحقیق و تثبیت سنت کے لئے ڈاکٹر صاحب نے عقل و فراست سے کام لینے کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ لیکن چونکہ ہر شخص اپنے آپ کو عقل مند تصور کرتا ہے اور دینی معاملات میں خود رائی سے خرابی پیدا ہوتی ہے اس لئے انہوں نے قرآنی ارشادات کے مطابق ارباب عقل و فہم کو باہمی مشورہ سے تصفیہ معاملات کی تاکید کی ہے اور اس پر اظہارِ افسوس کیا ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے مختلف المسالک علماء نے اس طرف خاطر خواہ توجہ مبذول نہیں فرمائی۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شیعی سنی روایات:
اس سلسلہ میں خصوصیت کے ساتھ شیعی علماء کی توجہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خطبہ ۲۰۱ (نہج البلاغۃ) کی طرف مبذول کرائی گئی ہے جس میں حضرت ممدوح نے غیر یقینی، محض خیال اور خود ساختہ (یا موضوع) روایات پر وثوق کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہی مضمون بعینہٖ اصول کافی میں امام جعفر صادق سے منقول ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر موصوف نے علماء شیعہ پر الزام لگایا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اتباع کا دعویٰ کرنے کے باوجود انہوں نے سنیوں کی طرح ظنی، غیر یقینی اور خود ساختہ روایات پر بھروسہ کیا جو صریحاً قرآن اور تصریحات ائمہ شیعہ کے خلاف ہے۔ انہوں نے تاریخی پس منظر میں محدثین اہل سنت والجماعت؛ زہری، مالک بن انس، ابو حنیفہ، محمد بن ادریس شافعی، دارمی، ابو داؤد فارسی، احمد بن حنبل، مسلم نیشا پوری، بخاری، ابن ماجہ، قزوینی، ترمذی اور نسائی خراسانی کے مجموعۂ احادیث پر تنقید کی ہے اور بتایا ہے کہ ان میں ہزاروں احادیث قرآن کے خلاف ہیں۔ لیکن ایسے امور کی نشاندہی نہیں فرمائی کہ سنیوں نے قرآن کے خلاف کس حدیث کو اپنے مسلک یا مذہب کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اس کے برخلاف علمائے شیعہ کے اِس طرزِ عمل پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے سنیوں کے مندرجہ بالا بارہ مجموعوں سے قرآن کے خلاف ناقابلِ یقین روایات کو اختیار کر کے ان کے راویوں کے نام بدل دیئے اور ایسے اشخاص کے نام شامل کر دیئے جن کا وجود ہی یا تو سرے سے معلوم نہیں ہے اور یا ان کی ثقاہت مجہول ہے تاکہ اگر کوئی سنی اس سے انکار کرے تو وہ کہہ سکیں کہ یہ روایت تمہاری کتابوں میں بھی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شیعہ کتب روایات پر تنقید:
ان کتابوں میں ایک مجموعہ اصول و فروع کافی ہے جو شیخ کلینی متوفی 328ھ کی تالیف اور موجودہ مذہب کا سب سے پہلا مجموعۂ روایات حدیث ہے۔ اس کے باب میں علامہ تقی کی رائے یہ ہے کہ اس کتاب میں واضح طور پر قرآن کے خلاف اور صریحاً غلط مسائل درج ہیں اور دونوں کتابیں (اصول و فروع) حضرت علی اور امام جعفر صادق کی رہنمائی سے متصادم اور اہل سنت کی کتب احادیث کی طرح مشکوک ہیں۔ اس کتاب کی بابت کہا جاتا ہے کہ اس کے مسائل امام جعفر صادق کے چار سو شاگردوں نے امام موصوف سے سن کر محفوظ کیے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ مسائل چار سو ائمہ شیعہ کے ارشادات کا مجموعہ ہیں۔ علامہ تقی نے دونوں خیالات کی تردید کی ہے۔
دوسری کتاب میں من لا یحضرہ الفقیہ ہے جو شیخ صدوق ابو جعفر محمد المتوفی ۲۸۱؁ھ کی کتاب ہے۔ جناب تقی نے اس کتاب کو بھی فروع کافی کی طرح متناقض روایات کا مجموعہ قرار دیا ہے کہ ان جھوٹی روایتوں کو ائمہ شیعہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ اس عہد میں ایک نیا فرقہ جو فرقۂ مفوضہ کے نام سے معروف تھا جنہوں نے اصول کافی کی ایک روایت کی بنا پر ائمہ شیعہ کے بارے میں حد سے زیادہ مبالغہ سے کام لیا ہے اور اذان اور اقامت کے الفاظ میں ولایت و امامتِ علیؓ کی شہادت کا اضافہ کر دیا تھا۔ شیخ صدوق نے جنہوں نے کلینی سے اسلام اور قرآن کا علم حاصل کیا فرقہ مفوضہ کو ان کے اس عمل پر لعنت کا حق دار قرار دیا ہے۔
ان دو کتابوں کے علاوہ علامہ تقی نے شیخ طوسی المتوفی ۴۶۰؁ھ کی دو کتابوں ’’تہذیب‘‘ و ’’ابصار‘‘ کے باہمی اختلاف کا ذکر بھی کیا ہے اور بتایا ہے کہ علمائے شیعہ کہتے ہیں کہ آنکھ بند کر کے ان کتابوں کی پیروی نہ کرنی چاہئے بلکہ لازم ہے کہ ہر عہد کے زندہ مجتہد مثلاً شیخ طوسی و صدوق و کلینی ی پیروی کی جائے۔
جن کتابوں پر مذہب شیعہ کی بنیاد ہے جناب تقی نے ان کی اور ان کے مصنفین کے خیالات کی تضعیف کے بعد موجودہ دنیائے شیعہ میں مختلف مسالک شیعی کی کیفیت بھی بتائی ہے اور لکھا ہے کہ پیروان مسالک مختلفہ کو لازم تھا کہ کتاب و سنت کے معیار کے مطابق باہمی مشورہ سے اختلافات کو دور کرتے لیکن وہ اس بات پر تیار ہی نہیں ہیں کہ علی اور آل علی کی پیروی کریں جن کی جھوٹ موٹ کو وہ اپنا امام کہتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ مذہب کے بہت سے فرقے نمودار ہو گئے۔ ان کی تفصیل یہ بتائی ہے کہ:
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مختلف مسالک شیعہ:
موجودہ شیعی مذاہب میں سے پہلا مسلک زیدی ہے جو زید بن علی بن حسین کے نام سے منسوب اور مسلک اہل سنت سے قریب تر ہے۔
دوسرا مذہب اسماعیلی ہے جن کا کہنا ہے کہ امام جعفر صادق کے بعد ان کا فرزند اسماعیل امام تھا (نہ کہ امام موسیٰ کاظم)
تیسرا مسلک شیعہ ہشت امامی ہے جو امام ہشتم امام رضا تک کے ائمہ کو مانتے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ امام موصوف کے بعد ان کے اقطاب، اصحابِ وحی ہیں اور اب شریعتِ پیغمبر کی پیروی لازمی نہیں ہے۔
چوتھا مسلک شیعہ یا زدہ امامی یا نصیریہ ہے اور امام حسن عسکری تک کے اماموں کو مانتے ہیں۔ ان کے مسلک کی بنیاد امام حسن عسکری کے وکیل ابن نصر کی رہنمائی پر ہے۔
پانچویں شیعہ اثنا عشری ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ ان کا آخری امام حسن عسکری کا فرزند ہے جن کی کوئی منکوحہ بیوی نہ تھی بلکہ ان کی کنیز ’’نرگس‘‘ یا ’’مریم‘‘ قیصر روم کی بیٹی تھی جس کے بطن سے بارھویں امام پیدا ہوئے اور اسی سال کے بعد غائب ہو گئے اور اخیر زمانہ میں پھر ظاہر ہوں گے۔ (ان سے مراد امام مہدی ہیں)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
فرقہ اثناء عشریہ کی شاخیں:
پھر یہ فرقہ اثناء عشریہ کی بھی مختلف شاخیں ہیں۔ منجملہ ان کے ایک اخبار یہ ہے جو کہتے ہیں کہ امام کے ہر قول کو تسلیم کرنا واجب ہے۔ خواہ وہ اقوال متضاد ہوں۔ علامہ تقی کا کہنا ہے کہ شیخ کلینی، شیخ صدوق اور شیخ طوسی کا یہی مسلک ہے۔
دوسرا فرقہ ’’اصولی‘‘ ہے جن کا عقیدہ یہ ہے کہ روایات کو قبول کرنے کے چند اصول ہیں۔ یہ اصول تقریباً دس ہیں جو اہل سنت کے نزدیک معتبر ہیں جن کو قواعد اصول کہا جاتا ہے۔
تیسرا فرقہ شیخی ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ہر عہد میں بارھویں امام کی طرف سے ایک سربراہ دینی متعین ہو جاتا ہے جو کچھ وہ کہے اس کے تسلیم کرنے میں چون و چرا کی گنجائش نہیں یہاں تک کہ اگر خلاف قرآن بھی کچھ کہے تو اس کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
موجودہ مذہب شیعہ:
عہد حاضر میں شیعہ اثنا عشریہ کے بیشتر علما بالخصوص ایران کے شیعہ خود کو اصولی کہتے ہیں۔ لیکن جناب تقی کے نزدیک کوئی شیعہ پورے طور پر اصول نہیں ہے بلکہ ایک حد تک یہ اخباری اور تصوف دونوں کا ملغوبہ ہے۔ چنانچہ اگر کسی مجلسِ وعظ میں مسلک اخباری یا صوفیانہ یا شیخی مسلک کے مطابق مبالغہ آمیز تقریر ہو رہی ہو تو ان کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
فرقہ مفوضہ:
اس سلسلہ میں جناب تقی نے ایک اور فرقہ کا ذکر کیا ہے جسے مفوضۂ یا غلات کہتے ہیں جس کا ظہور شیخ صدوق کے زمانے (یعنی چوتھی صدی ہجری) میں ہوا۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا نے اماموں کے بعد امور خلائق کو انہیں تفویض کر دیا ہے۔ انہوں نے اذان اور اقامت اشھد ان محمد رسول اللہ کے بعد اشھد ان علیاً ولی اللہ یا اشھد ان علی امیر المومنین حقًا وغیرہ الفاظ کا اضافہ کر دیا ہے۔ جس کے باعث شیخ صدوق نے ان اشخاص کو لعنت کا مستحق قرار دیا ہے (جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا)
اس تفصیل کے بعد ڈاکٹر صادق تقوی نے اس امر پر اظہار افسوس کیا ہے کہ اگرچہ اس وقت دنیائے شیعی میں فرقہ مفوضہ یا غلات کا وجود نہیں ہے لیکن اس وقت شیعوں کے تمام فرقے خواہ وہ اخباری ہوں یا اصولی۔ شیخی ہوں یا صوفی عقیدہ اور عمل میں کم و بیش سب کے سب مفوضہ ہیں اور مذہب جعفری یعنی اسلام سے کوسوں دور ہیں۔ اگر احیانًا علمائے شیعہ میں سے کوئی حق پسند ہو بھی تو اکثریت سے مرعوب ہو کر زبان کشائی کی جرأت نہیں کرتا اور تقیّہ سے کام لیتا ہے۔ البتہ گیارھویں صدی ہجری میں علامہ شیخ حُرعاملی نے اپنی کتاب وسائل الشیعہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ علماء کے سوا کسی کو اس کی خبر نہیں ہے۔ علمائے شیعہ نے اس حقیقت کو مخفی رکھا ہے۔ ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ ہم ان علماء کو قطعی طور پر اور بیشتر شیعہ کو بالعموم مفوضہ قرار دیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
فرقہ شیعہ کی بدعات:
تبصرہ:
ہر چند کہ علامہ صادق تقی کا یہ قولِ تلخ شیعہ اصحاب کو ناگوار ہو لیکن اس کی حقیقت و صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حال میں پاکستان کے شیعی علماء و زعما نے شیعہ بچوں کے لئے جو نصاب دینی پسند فرمایا ہے اس میں خصوصیت کے ساتھ مفوضین کی پیروی کی گئی ہے اور وہی الفاظ اذان و اقامت بلکہ کلمہ طیبہ میں اضافہ کیے گئے ہیں۔ جن کی مخالفت شیخ صدوق وغیرہ شیعی فقہاء محدثین نے کی ہے اور اس قسم کی بدعات کو مستوجب لعنت قرار دیا ہے۔
جناب صادق تقی نے اپنے اس رسالہ میں خصوصیت کے ساتھ ان بدعتوں کی نشاندہی فرمائی ہے جو شیعہ مذہب کے علماء نے کتاب و سنت کے خلاف دین اسلام میں داخل کرائے ہیں انہوں نے بجا طور پر تمام علمائے اسلام سے قطع نظر اس کے کہ وہ شیعہ ہوں یا سُنّی یا مطالبہ کیا ہے کہ بموجب ارشاد حضرت علیؓ و جملہ اصحاب پیغمبر علیہ السلام بالخصوص امام جعفر صادقؒ محض کتاب و سنت کی پیروی پر کار بند ہوں اور علمائے حق پسند کی باہمی مشورہ سے ایک دینی دستور العمل تیار کریں جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ تاکہ ہر قسم کے خطرات سیاسی و اجتماعی و علمی سے محفوظ رہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اصول استنباط مسائل:
کتاب و سنت سے استنباط مسائل کے لئے انہوں نے ایک درجن اصول پیش کیے ہیں۔ جن میں نہایت ضروری امر یہ ہے کہ اہل تحقیق قرآن حکیم کی زبان سے پورے طور پر واقف ہوں اور محض ایک آیت کے پیچھے پڑ کر اپنا مطلب نہ نکالیں بلکہ بحیثیت مجموعی قرآن پر نظر رکھیں۔ اور خود رائی سے ہرگز کام نہ لیں۔ مجموعہ احادیث میں سے ان کے نزدیک موطا امام مالک کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس کا سبب انہوں نے یہ بتایا ہے کہ امام جعفر صادق اور دوسرے تمام ائمہ شیعہ کوئی دینی کتاب چھوڑ کر نہیں گئے اور مبارزوں، مذہب تراشوں نے متفرق اجتہادوں کے سوا اور کوئی کام اپنے اپنے عہد میں نہیں کیا۔ البتہ خود کتاب و سنت کے حامی رہے ہیں۔
مؤلف نے اپنے اس رسالہ میں صرف ان بدعات سیئات کا ذکر کیا ہے جو کتاب و سنت کے منافی اور ارشادات علی و ائمہ کے قطعاً خلاف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے دو فرقوں شیعہ سنی کے درمیان اختلاف و شقاق کی بنیاد یہی بدعات ہیں۔
 
Top