عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
مسئلہ خلافت:
ڈاکٹر تقی نے اس خیال کی تردید کی ہے کہ سنی و شیعہ کے درمیان جو اختلاف ہے اس کی بنیاد خلافت کا معاملہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خلافت کے بارے میں یہ اختلاف آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوا جب کہ خود غرضوں نے ائمہ شیعہ کو دربار خلفائے عباسیہ میں بدنام کرنے کے لئے یہ فتنہ اُٹھایا۔ اس سے پہلے خلفاء کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے خود اپنے مکتوب (ششم نہج البلاغۃ) میں اعتراف فرمایا ہے کہ وہ چوتھے خلیفہ تھے اور ان کا انتخاب بھی دوسرے تین خلفائے راشدین کی طرح قرآنی احکام کے عین مطابق ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے نہج البلاغۃ کی اصل عبارت نقل فرما کر اس کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ یہ ہے:
’’ان ہی اصحاب نے مجھے بیعت کی ہے جنہوں نے ابو بکر، عمر اور عثمان سے بیعت کی اور ان ہی شرائط پر بیعت کی جن شرائط پر ان تینوں سے بیعت کی تھی۔ جو لوگ موجود تھے نہ ان کو یہ حق تھا کہ وہ کسی اور کو منتخب کرتے اور نہ ان اصحاب کو جو موجود نہ تھے یہ مناسب تھا کہ اس کو رد کر دیتے۔ کیونکہ منصبِ خلافت پر متمکن کرنے کا طریقہ ہی یہ تھا کہ مہاجرین اور انصار کے مشورہ سے فیصلہ ہو۔ ان کا کسی امر پر باہم متفق ہو جانا خدا کو پسند ہے۔ اگر کوئی شخص مجلسِ شوریٰ کے اس فیصلہ سے بد گوئی یا گمراہی کے باعث منہ موڑ لے تو چاہیے کہ اسے ایسا کرنے سے باز رکھا جائے اور انکار کرے تو اس کے خلاف لازم ہے کیونکہ اس نے اسلامی قانون سے سرتابی کی اور خدا بھی اس کے پاداشِ عمل میں اسے سزا دے گا پس اے معاویہ تم اپنی عقل سے کام لو اور حرص و ہوا کو ترک کر دو۔ میرا طرزِ عمل گواہ ہے کہ میں تمام انسانوں میں سب سے زیادہ خونِ عثمان سے بری الذمّہ ہوں اور یہ تمہیں خود بھی معلوم ہے کہ میں اس معاملہ میں الگ تھلگ رہا تھا یہ اور بات ہے کہ تم حقیقت پوشی کرو اور جو کچھ تمہیں علم ہے اس کے بر خلاف ظاہر کرتے رہو۔‘‘ اس مکتوب کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:
اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ علامہ رضی نے جو شیعوں کے عظیم المرتبت علماء میں سے ہیں اس امر کی وضاحت کی ہے اور یہ عبارت خود حضرت علی کے مراسلات کا ایک حصہ ہے اور بایں لحاظ قابلِ اعتبار ہے کہ یہ خط عوام کے لئے نہیں تھا بلکہ معاویہ کے نام بھیجا گیا تھا۔ لہٰذا یہ خط نہج البلاغۃ کے دوسرے مکتوبات کی طرح نہیں ہے جن میں بیشتر الحاقی ہیں۔ ایسی صورت میں شیعہ سنی کے درمیان امرِ خلافت کو موجب اختلاف قرار دینا کس طرح ممکن ہے؟
ڈاکٹر تقی نے اس خیال کی تردید کی ہے کہ سنی و شیعہ کے درمیان جو اختلاف ہے اس کی بنیاد خلافت کا معاملہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان خلافت کے بارے میں یہ اختلاف آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوا جب کہ خود غرضوں نے ائمہ شیعہ کو دربار خلفائے عباسیہ میں بدنام کرنے کے لئے یہ فتنہ اُٹھایا۔ اس سے پہلے خلفاء کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے خود اپنے مکتوب (ششم نہج البلاغۃ) میں اعتراف فرمایا ہے کہ وہ چوتھے خلیفہ تھے اور ان کا انتخاب بھی دوسرے تین خلفائے راشدین کی طرح قرآنی احکام کے عین مطابق ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے نہج البلاغۃ کی اصل عبارت نقل فرما کر اس کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ یہ ہے:
’’ان ہی اصحاب نے مجھے بیعت کی ہے جنہوں نے ابو بکر، عمر اور عثمان سے بیعت کی اور ان ہی شرائط پر بیعت کی جن شرائط پر ان تینوں سے بیعت کی تھی۔ جو لوگ موجود تھے نہ ان کو یہ حق تھا کہ وہ کسی اور کو منتخب کرتے اور نہ ان اصحاب کو جو موجود نہ تھے یہ مناسب تھا کہ اس کو رد کر دیتے۔ کیونکہ منصبِ خلافت پر متمکن کرنے کا طریقہ ہی یہ تھا کہ مہاجرین اور انصار کے مشورہ سے فیصلہ ہو۔ ان کا کسی امر پر باہم متفق ہو جانا خدا کو پسند ہے۔ اگر کوئی شخص مجلسِ شوریٰ کے اس فیصلہ سے بد گوئی یا گمراہی کے باعث منہ موڑ لے تو چاہیے کہ اسے ایسا کرنے سے باز رکھا جائے اور انکار کرے تو اس کے خلاف لازم ہے کیونکہ اس نے اسلامی قانون سے سرتابی کی اور خدا بھی اس کے پاداشِ عمل میں اسے سزا دے گا پس اے معاویہ تم اپنی عقل سے کام لو اور حرص و ہوا کو ترک کر دو۔ میرا طرزِ عمل گواہ ہے کہ میں تمام انسانوں میں سب سے زیادہ خونِ عثمان سے بری الذمّہ ہوں اور یہ تمہیں خود بھی معلوم ہے کہ میں اس معاملہ میں الگ تھلگ رہا تھا یہ اور بات ہے کہ تم حقیقت پوشی کرو اور جو کچھ تمہیں علم ہے اس کے بر خلاف ظاہر کرتے رہو۔‘‘ اس مکتوب کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:
اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ علامہ رضی نے جو شیعوں کے عظیم المرتبت علماء میں سے ہیں اس امر کی وضاحت کی ہے اور یہ عبارت خود حضرت علی کے مراسلات کا ایک حصہ ہے اور بایں لحاظ قابلِ اعتبار ہے کہ یہ خط عوام کے لئے نہیں تھا بلکہ معاویہ کے نام بھیجا گیا تھا۔ لہٰذا یہ خط نہج البلاغۃ کے دوسرے مکتوبات کی طرح نہیں ہے جن میں بیشتر الحاقی ہیں۔ ایسی صورت میں شیعہ سنی کے درمیان امرِ خلافت کو موجب اختلاف قرار دینا کس طرح ممکن ہے؟