• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرا ء اتِ متواترہ کے بارے میں مولانا اصلاحی اور غامدی صاحب کے موقف کا علمی جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرا ء اتِ متواترہ کے بارے میں مولانا اصلاحی اور
غامدی صاحب کے موقف کا علمی جائزہ

پروفیسر محمد رفیق چودھری​
اہل ِعلم کا اس امرپر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کی ایک سے زیادہ (سبعہ یا عشرہ) قراء تیں ہیں، لیکن مولانا امین احسن اصلاحی اور جاویداحمد غامدی صاحب دونوں (استاد وشاگرد) ہی قرآنِ مجید کی ان سبعہ (یاعشرہ) متواتر قر اء توں کے منکر ہیں۔وہ صرف ایک ہی قراء ت کو متواتر اور صحیح مانتے ہیں اور باقی تمام متواتر قراء توں کو شاذ اورغیر معروف عجم کا فتنہ قرار دیتے ہیں۔اس سلسلے میں ہم پہلے مولانا امین احسن اصلاحی اور پھر غامدی صاحب کے موقف کا علمی جائزہ لیں گے۔
مولانا اصلاحی اپنی تفسیر’ تدبرقرآن‘ میں لکھتے ہیں:
’’قراء توں کا اختلاف بھی اس تفسیر(تدبرقرآن) میں دور کر دیا گیا ہے ۔معروف اورمتواتر قراء ت وہی ہے جس پر یہ مصحف ضبط ہوا ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے۔اس قراء ت پرقرآن کی ہر آیت اور ہر لفظ کی تاویل لغت عرب، نظم کلام اورشواہد قرآن کی روشنی میں اس طرح ہوجاتی ہے کہ اس میں کسی شک کا احتمال نہیں رہ جاتا ۔چنانچہ میں نے ہر آیت کی تاویل اسی قراء ت کوبنیاد بنا کر کی ہے اور میںپورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ اس کے سوا کسی دوسری قراء ت پر قرآن کی تفسیر کرنا اس کی بلاغت ،معنویت اورحکمت کومجروح کیے بغیر ممکن نہیں۔‘‘ (تدبر قرآن،مقدمہ:۸؍۸،مطبوعہ نومبر۱۹۸۲ء،لاہور)
وہ مزید لکھتے ہیں:
’’اس نوعیت کا ایک اورفتنہ بعض مسلمان ملکوں میں اٹھ رہا ہے کہ وہاں ایسے قرآن مجید چھاپے جارہے ہیں جن میں مصحف عثمانی کی معروف ومتواتر قراء ت (روایت ِحفص) کو نظر انداز کرکے دوسری غیر معروف اورشاذ قراء تیں اختیار کر لی گئی ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن،مقدمہ:۸؍۷،مطبوعہ نومبر۱۹۸۲ء،لاہور)
اس سے معلوم ہوا کہ مولانا اصلاحی کے نزدیک:
(١) قراء توں کا اختلاف تفسیر تدبر قرآن کے ذریعے دور کردیا گیا ہے۔
(٢) معروف اور متواتر قراء ت صرف وہی ہے جس پر مصحف (قرآن) ضبط ہوا ہے۔
(٣) قراء ت حفص کے سوا کسی اور قراء ت کے ذریعے قرآن کے کسی لفظ یا آیت کی صحیح تفسیر نہیں کی جاسکتی۔
(٤) قراء ت حفص کے سوا باقی تمام قراء ات غیر معروف اور شاذ ہیں اوران کے مطابق قرآنِ مجید لکھنا اورچھاپنا ایک فتنہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب ہم ان چاروں نکات کا علمی تجزیہ کریں گے:
(١)کیا قراء توں کے اختلاف کو دور کرنے کا دعویٰ درست ہے؟
مولانا اصلاحی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی تفسیر کے ذریعے قراء توں کا اختلاف دور کردیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ متواتر قراء توں کا اختلاف ایک ایسا معاملہ ہے جس پر پوری اُمت کا اتفاق اور اجماع ہے۔ اسے نہ تو ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح کوئی شخص دنیا سے قرآن مجید کا وجود ختم نہیں کرسکتا اسی طرح ان تمام متواتر قراء توں کو دُنیا سے مٹادینا کسی کے بس کی بات نہیں۔یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ کبھی دنیا مصاحف سے خالی ہو جائے مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ اس دنیا سے متواتر قراء توں کاوجود مٹ جائے ۔جب تک دنیا میں قرآن موجود ہے یہ تمام متواتر قراء تیں بھی موجود رہیں گی، کیونکہ اب ان دونوں کی حیثیت لازم وملزوم کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) کیا مصحف صرف ایک ہی قراء ت پر منضبط ہوا ہے؟
مولانااِصلاحی کا دعویٰ ہے کہ مصحف صرف ایک ہی قراء ت پر منضبط ہوا ہے۔دوسرے الفاظ میں یہ کہ قرآن مجید کو صرف ایک ہی روایت کے مطابق لکھا گیا ہے۔
مولانا صاحب کو خبر ہی نہیں کہ رسم الخط اور قراء ت میں کیا فرق ہوتا ہے ورنہ وہ ایسا احمقانہ دعویٰ نہ کرتے کہ مصحف صرف ایک ہی قراء ت پر منضبط ہوا ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ رسم الخط قرآن مجید کے متن(Text)کے حروف والفاظ کی مختلف اشکال کا نام ہے۔ گویا قرآنی الفاظ کی شکل وصورت کا نام رسم الخط ہے اور اسے آواز کے ساتھ پڑھنے کو قراء ت کہتے ہیں۔مولانا صاحب قراء ت کو رسم الخط اوررسم الخط کو قراء ت سمجھ بیٹھے ہیں۔دوسرے الفاظ میں وہ پڑھنے کو تحریر اورتحریر کو پڑھنا قرار دیتے ہیں اوریہی ان کاسوء فہم ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ مصحف عثمانی بغیر اعراب ،حرکات اورنقاط کے لکھا گیا تھا، کیونکہ ان چیزوں کا اس وقت رواج نہ تھا ۔مثال کے طور پر تسمیہ کومصحف عثمانی میں اس طرح لکھا گیا:
ـــــــــــــــــسم اللہ الرحمں الرحـــــــــــــــــــــم
یہ تسمیہ کا ابتدائی رسم الخط ہے جو الفاظ اورحروف کی مخصوص شکلوں سے عبارت ہے اورجواعراب ،نقطوں اور رموز اَوقاف سے بالکل خالی ہے۔مولانا صاحب اسے قراء ت کا نام دے رہے ہیں جب کہ یہ قراء ت نہیں ہے بلکہ رسم الخط ہے اور اسے رسمِ عثمانی کہا جاتا ہے۔جب اس رسم الخط کے الفاظ کو کوئی شخص اپنی آواز کے ساتھ ادا کرے گا تو اسے قراء ت کہاجائے گا۔اس لیے یہ دعویٰ کرنا کہ مصحف قراء ت حفص پر ضبط(لکھا)ہوا ہے علمیت کی نہیں جہالت کی دلیل ہے۔
(٣) کیا قراء ت حفص کے سوا کسی اور قراء ت کے مطابق قرآن کا صحیح ترجمہ وتفسیر ممکن نہیں؟
مولانا اِصلاحی کا یہ دعویٰ بھی بے بنیاداور غلط ہے کہ قراء ت حفص کے سوا کسی اورقراء ت کے مطابق قرآن مجید کا صحیح ترجمہ وتفسیر ممکن نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جس طرح قراء ت حفص کے مطابق قرآن کاترجمہ وتفسیر درست ہے اسی طرح دوسری متواتر قر اء توں کے مطابق بھی قرآن کا صحیح ترجمہ وتفسیر بالکل ممکن ہے اور اس سے قرآن کی بلاغت، معنویت اور حکمت پر کوئی حر ف نہیں آتا ۔مثال کے طور پر سورۃ الفاتحہ میں ہے کہ
ملک یوم الدین (مٰلِکِ یَوْمِ الدِّین یا مَلِکِ یَوْمِ الدِّین )
اس مقام پر مٰلِکِ کو مَلِکِ بھی پڑھاگیاہے اوریہ بھی اس کی ایک متواتر قراء ت ہے۔
اب مٰلِکِ یَوْمِ الدِّین جوکہ قراء ت حفص ہے اس کے مطابق اس کا ترجمہ یہ ہے کہ’’بدلے کے دن کا مالک‘‘ اور اس کی تفسیر خود قرآن مجید کے نظائر کی روشنی میں یہ ہے کہ جزا وسزا کے دن تمام اختیارات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہوگا اورسب اس کے آگے عاجز اور بے بس ہوں گے۔جیساکہ دوسرے مقام پر ارشاد ہوا:
’’یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا وَالأمْرُ یَوْمَئِذٍ ﷲِ‘‘ (الانفطار:۱۹)
’’جس دن کسی جان کو دوسری جان پر اختیار نہ ہوگا اورسارا معاملہ اس دن اللہ ہی کے اختیار میں ہوگا۔‘‘
اب دوسری متواتر قراء ت میں مَلِکِ یَوْمِ الدِّین ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ
’’بدلے کے دن کا بادشاہ۔‘‘
اور اس کی تفسیر قرآن مجید کے دوسرے نظائر میں یہ ہو گی کہ جزا اورسزا کے دن اللہ تعالیٰ ہی بادشاہ ہوگا اورسب اس کے محکوم ہوں گے۔بادشاہی صرف اسی کی ہوگی اور حکم صرف اسی کا چلے گا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
’’ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط ﷲِ الْوَاحِدِ الْقَہَّار ِ‘‘ (المؤمن:۱۶)
’’آج بادشاہی کس کی ہے؟صرف اللہ واحدقہار کی۔‘‘
اس طرح دونوں متواتر قراء توں کے مطابق قرآن کی تفسیر درست ہوجاتی ہے۔بلکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ مولانا اصلاحی نے خود اس آیت کی جو تفسیر لکھی ہے وہ ان کے اپنے دعویٰ کے برعکس قراء ت حفص کے بجائے دوسری متواتر قراء ت کے نظائر کے مطابق لکھی گئی ہے۔چنانچہ انہوں نے اس کی یہ تفسیر بیان کی ہے:
’’جزا اورسزا کے دن کا تنہا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس روز سارا زور اوراختیار اسی کو حاصل ہوگا ۔اس کے آگے سب عاجز وسرفگندہ ہوں گے۔کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس کی اجازت کے بغیر زبان کھول سکے ،سارے معاملات کا فیصلہ تنہا وہی کرے گا جس کو چاہے گا سزا دے گا ،جس کوچاہے گا انعام دے گا۔جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے
’’اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ ﷲ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ‘‘ ( الحج:۵۶)
’’اس دن اختیار اللہ ہی کوہوگا ،وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا‘‘
’’لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط ﷲِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ‘‘(المؤمن:۱۶)
’’آج کے دن بادشاہی کس کی ہے؟صرف خدائے واحد وقہار کے۔‘‘(تدبر قرآن :۱؍۵۷،طبع مئی ۱۹۸۳ء لاہور)
اس طرح مذکورہ آیت کا ترجمہ وتفسیر خود قرآن حکیم ہی کے نظائر کی روشنی میں دونوں طرح ممکن ہے اور درست ہے اور اس سے نہ تو قرآن کی بلاغت ومعنویت مجروح ہوتی ہے اورنہ اس کی حکمت میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) کیاقر اء ت حفص کے سوا باقی تمام قراء تیں شاذ اورغیر معروف ہیں؟
مولانا اِصلاحی کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ قراء ت حفص کے سوا باقی تمام قراء تیں شاذ اورغیر معروف ہیں۔
یہ محض علم ونظر کاافلاس ہے کہ قراء ت حفص کے سوا باقی تمام قراء توں کوشاذ اورغیر معروف سمجھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ فن قراء ت کا ایک معمولی سا طالب بھی جانتا ہے کہ سبعہ اور عشرہ قراء توں کے معروف اورمتواتر ہونے اوران کے شاذ اورغیر معروف نہ ہونے پر اُمت مسلمہ کا اتفاق اوراجماع ہے اور جس طرح قراء ت حفص ان میں سے ایک متواتر اورمعروف ہے اسی طرح تمام معروف اورمتواتر قرا ء توں کے مطابق قرآن کوپڑھنا اور ان کے اعراب ،نقطے اور رموز اوقاف ثبت کرنابھی ایسا معاملہ ہے جس پر امت کے تمام اہل علم متفق ہیں اور یہ کام صدیوں سے کئی اسلامی ممالک میں ہو رہا ہے۔
میرے ذاتی کتب خانے میں تفسیر الکشاف کا نسخہ جو چار جلدوں پر مشتمل ہے ،ایک متواتر اورمعروف قراء ت دوری کے مطابق لکھا ہوا موجود ہے اور یہ قراء ت امام ابو عمرو بصری کی روایت ہے۔یہ نسخہ مصر سے ۱۳۹۲ھ (۱۹۷۲ء) کا طبع شدہ ہے۔
اب کئی برسوں سے مدینہ منورہ کے شاہ فہدقرآن کمپلکس میں ایک سے زیادہ متواتر اورمعروف قراء توں کے مطابق مصاحف طبع کرکے افریقہ اوردیگر ممالک میں بھیجے جار ہے ہیں اور اس مبارک کام کو، افسوس ہے کہ مولانا صاحب فتنے سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ رسم عثمانی (عثمانی رسم الخط) کی خوبی یہی ہے کہ اس میں تمام معروف اورمتواتر(سبعہ ،عشرہ) قراء توں کی گنجائش موجودہے ۔یاد رہے کہ مصحف عثمانی کی نقل کی ایک فوٹوکاپی مسجد نبوی کے کتب خانے میں بھی موجود ہے جوراقم الحروف نے بھی خود دیکھی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غامدی صاحب کا تصورقراء ت
قراء ات کے مسئلے میں جاوید غامدی صاحب اپنے استاد مولانا اصلاحی سے بھی دو قدم آگے ہیں۔ایسا کیوں نہ ہو، پنجابی زبان کی مثل ہے ’’گروجناں دے ٹپنے،چیلے شا شڑپ‘‘
’’جن کے استاد اچھل کود کریں ان کے شاگرد لمبی چھلانگیں لگاتے ہیں۔‘‘
چنانچہ غامدی صاحب بھی اپنے استاد کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے صرف ایک ہی قراء ت کومتواتر اورصحیح مانتے ہیں اورقرآن مجید کی سبعہ (یاعشرہ) قراء توں کے منکر ہیں۔وہ صرف ایک ہی قراء ت کو درست مانتے ہیں اور وہ ہے قراء ت عامہ ،جسے بقول ان کے ،علمائے اسلام اورخود ان کے استاد مولانا اصلاحی غلطی سے قر اء ت حفص،کا نام دیتے ہیں۔ اس ایک قراء ت(قراء ت عامہ)کے سوا باقی تمام قراء توں کو وہ قطعیت کے ساتھ عجم کا فتنہ قرار دیتے ہیں۔
چنانچہ وہ اپنی دو کتابوں میں قراء ت کے مسئلے پر لکھتے ہیں کہ
’’یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قراء ت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔ اس کے علاوہ اسکی جو قراء تیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اورپڑھائی جاتی ہیں، یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں، وہ سب اسی فتنۂ عجم کی باقیات ہیں جن کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ،افسوس ہے کہ محفوظ نہ رہ سکا۔‘‘ (میزان:ص۳۲،طبع سوم،مئی۲۰۰۸ء لاہور،اصول ومبادی :ص۳۲،طبع دوم ،فروری ۲۰۰۵ء لاہور)
وہ مزید لکھتے ہیں کہ
’’قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اورجسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں امت مسلمہ کی عظیم اکثریت اس وقت تلاوت کررہی ہے ۔یہ تلاوت جس قراء ت کے مطابق کی جاتی ہے، اس کے سوا کوئی دوسری قراء ت نہ قرآن ہے اور نہ اسے قرآن کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔‘‘ (میزان:ص۲۷،طبع سوم،مئی۲۰۰۸ء ،لاہور،اصول ومبادی:ص۲۶،طبع دوم،فروری ۲۰۰۵ء لاہور)
اور آخرمیں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ
’’قرآن کا متن اس (ایک قراء ت) کے علاوہ کسی دوسری قراء ت کو قبول نہیں کرتا۔‘‘ (میزان:۲۹،طبع سوم،مئی۲۰۰۸ء لاہور،اصول ومبادی:۲۹،طبع دوم فروری۲۰۰۵ء لاہو)
اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کی رائے میں:
(١) قرآن مجید کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے۔
(٢) قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے۔
(٣) اُمت مسلمہ کی عظیم اَکثریت جس قراء ت کے مطابق قرآن کی تلاوت کر رہی ہے صرف وہی قرآن ہے۔
(٤) قرآن کا متن صرف ایک ہی قراء ت کوقبول کرتا ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب ہم ان تمام اُمور کا علمی جائزہ لیں گے:
(١)کیا قرآن مجید کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے؟
غامدی صاحب کا یہ دعویٰ ہر گز صحیح نہیں کہ قرآن مجید کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے اوریہ کہ باقی سب قراء تیں عجم کا فتنہ ہیں، کیونکہ اس پر پوری اُمت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن کی ایک سے زیادہ (سبعہ ،عشرہ)قراء تیں متواتر اور صحیح ہیں۔اور اس کے حسب ذیل دلائل ہیں:
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام قرآن مجید کو ایک سے زیادہ طریقوں اورلہجوں میں پڑھا کرتے تھے اور ایسی سب قراء تیں درست اورجائز ہیں۔ اس سلسلے میں چند اَحادیث ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
(١)عن عمر بن الخطاب یقول:سمعت ہشام بن حکیم بن حزام یقرأ سورۃ الفرقان علی غیرما أقرأ ہا،وکان رسول اﷲ ﷺ أقرأ نیہا ،فکدت أن أعجل علیہ، ثم أمہلتہ حتی انصرف،ثم لببتہ بردائہ،فجئت بہ رسول اﷲ ﷺ،فقلت: یارسول اﷲﷺ! إنّی سمعت ہذا یقرأ سورۃ الفرقان علی غیرما أقرأتنیہا ،فقال رسول اﷲﷺ: ارسلہ ’’إقرأ ‘‘فقرأ القراء ۃ التی سمعتہ یقرأ،فقال رسول اﷲ ﷺ: ہکذا أنزلت،ثم قال لی ’’إقرأ‘‘ فقرأت،فقال :ہکذا أنزلت،إن ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف، فاقرء وا ما تیسر منہ‘‘ (صحیح البخاري:۲۴۱۹،صحیح مسلم:۱۸۹۹)
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ)میں نے حضرت ہشام بن حکیم بن حزام کو سورۂ فرقان اس سے مختلف طریقے پر پڑھتے سنا جس پرمیں پڑھتاتھا ،حالانکہ سورئہ فرقان مجھے خود رسول اللہﷺ نے پڑھائی تھی۔قریب تھا کہ میں نے غصے سے ان پر جھپٹ پڑتا،مگر میں نے (صبر کیا)اور انہیں مہلت دی، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی قراء ت مکمل کر لی۔پھر میں نے ان کی چادر پکڑی اورانہیں کھینچتا ہوا رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے گیا۔میں نے عرض کیایارسول اللہﷺ!میں نے اسے سورئہ فرقان اس سے مختلف طریقے پر پڑھتے سنا ہے، جس پر آپ ﷺنے پڑھائی تھی۔اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا:انہیں چھوڑ دو، پھر حضرت ہشام سے فرمایا کہ تم پڑھو۔چنانچہ انہوں نے سورئہ فرقان اس طرح پڑھی جس طرح میں نے ان کو پہلے پڑھتے سنا تھا۔ان کی قراء ت سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسی طرح اتر ی ہے۔پھرآپﷺ نے مجھے فرمایاکہ تم پڑھو۔چنانچہ میں نے(اپنے طریقے پر) پڑھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اسی طرح اتری ہے۔‘‘
پھر مزید فرمایا کہ یہ قرآن سات حرفوں(سبعہ احرف)پرنازل ہوا ہے، لہٰذا جس طرح سہولت ہو، اس طر ح پڑھو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢)عن أبی بن کعب قال: لقی رسول اﷲﷺ جبریل،فقال: یا جبریل،إنی بعثت إلی أمۃ أمیین منہم العجوز،والشیخ الکبیر،والغلام والجاریۃ،والرجل الذی لم یقرأ کتابا قط، قال: یا محمد! إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف۔(سنن ترمذی:۲۹۴۴)
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل سے رسو ل اللہﷺ ملے تو آپﷺ نے ان سے فرمایا:اے جبرائیل ! مجھے ایسی اُمت کی طرف بھیجا گیا ہے جو اَن پڑھ ہے ۔پھر ان میں سے کوئی بوڑھا ہے ،کوئی بہت بوڑھا ،کوئی لڑکاہے کوئی لڑکی اورکوئی ایسا آدمی ہے جس نے کبھی کوئی تحریر (کتاب)نہیں پڑھی۔رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نے مجھے جواب دیا کہ اے محمدﷺ!قرآن سات حرفوں (سبعہ احرف)پر اتراہے۔‘‘
(٣)عن ابن عباس أن رسول اﷲﷺ قال: (أقرأنی جبریل علیہ السلام علی حرف، فراجعتہ،فلم أزل أستزیدہ فیزیدنی،حتی انتہی إلی سبعۃ أحرف،قال ابن شہاب: بلغنی أن تلک السبعۃ الأحرف إنما ہي فی الأمر الذی یکون واحدا،لایختلف في حلال ولا حرام) (صحیح البخاري:۳۲۱۹، صحیح مسلم:۱۹۰۲)
’’حضرت عبد اللہ بن عباس علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: جبرئیل نے پہلے مجھے قرآن مجید ایک حرف کے مطابق پڑھایا۔پھر میں نے کئی بار اصرار کیا اور مطالبہ کیا کہ قرآن مجید کودوسرے حروف(Versions)کے مطابق بھی پڑھنے کی اجازت دی جائے۔چنانچہ وہ مجھے یہ اجازت دیتے گئے یہاں تک کہ سات حرفوں(سبعہ احرف)تک پہنچ گئے۔‘‘
اس روایت کے راوی امام ابن شہاب زہریؒ کہتے ہیں کہ وہ سات حروف، جن کے مطابق بھی پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی،ایسے تھے کہ وہ تعداد میں سات ہونے کے باوجود گویا ایک ہی حرف تھے۔ان کے مطابق پڑھنے سے حلال وحرام کا فرق واقع نہیں ہوجاتاتھا۔
(٤)عن ابن مسعود قال: سمعت رجلا قرأ آیۃ وسمعت النبیﷺ یقرأ خلافہا، فجئت بہ النبیﷺ فأخبرتہ فعرفت في وجہہ الکراہیۃ وقال: ( کلاکما محسن فلا تختلفوا فإن من کا ن قبلکم اختلفوا فہلکوا) (صحیح البخاري:۳۴۷۶)
’’حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو قرآن پڑھتے سنا جب کہ اس سے پہلے میں نے نبیﷺکو اس سے مختلف طریقے پر پڑھتے سنا تھا۔ میں اس آدمی کونبیﷺکی خدمت میں لے گیااور آپﷺکو اس صورت حال سے آگاہ کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ رسول اللہﷺکو میری بات ناگوار گزری ہے۔ پھر آپﷺنے فرمایا:تم دونوں ٹھیک پڑھتے ہو۔آپس میں اختلاف نہ کرو، کیونکہ تم سے پہلے جو قومیں ہلاک ہوئیں وہ اختلاف ہی کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥)عن شہر بن حوشب قال:سألت أم سلمۃ کیف کان رسول اﷲﷺ یقرأ ہذہ الآیۃ : {إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ}فقالت قرأہا:إِنَّہُ عَمِلَ غَیْرَ صَالِح‘‘(سنن أبوداؤد:۳۹۸۳)
’’شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے اُم المؤمنین سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہﷺدرج ذیل آیت ’’ إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِح ‘‘(ھود:۴۶)(قرآنی الفاظ)کوکیسے پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپﷺنے اس طرح پڑھا ہے کہ:إِنَّہُ عَمِلَ غَیْرَصَالِحٍ
(٦)عن عائشۃ قالت:سمعت رسول اﷲﷺ یقرأ ہا:فَرُوْحٌوَّرَیْحَانٌ (الواقعۃ:۸۹) (سنن أبوداؤد :۳۹۹۱،سنن ترمذی:۲۹۳۸)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺکو اس طرح قراء ت کرتے سنا کہ
فَرُوْحٌوَّرَیْحَانٌ(الواقعۃ:۸۹) (یاد رہے کہ فَرُوْحٌ کو قراء ت حفص میں فَرَوْحٌ پڑھا گیا ہے)
اختصار کے پیش نظر ہم نے صرف چند اَحادیث بیان کردی ہیں اوران سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ قرآن مجید کی ایک سے زیادہ قراء تیں ہیں۔
پھر معتبر کتب اَحادیث میں ایسے ابواب موجود ہیں جو ایک سے زیادہ قراء توں کو ثابت کرتے ہیں۔جیسے صحیح بخاری میں’ کتاب فضائل القرآن‘کے تحت ’باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘ صحیح مسلم میں ’کتاب فضائل القرآن ‘ کا ’باب القراء ات‘ سنن ابی داؤد میں’’کتاب الحروف والقراء ات‘ اور جامع ترمذی میں’’أبواب القراء ات‘۔
ان اَحادیث صحیحہ اور قراء توں کے ابواب سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید کومختلف لہجات کے مطابق پڑھنے کی اجازت تھی جو در اصل ایک ہی عربی زبان کے الفاظ کے مختلف تلفظ(Pronunciations)تھے جو دنیا کی ہر زبان میں پائے جاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کتب تفاسیر
ہر زمانے میں تفسیر کی کوئی معتبر کتاب ایسی نہیں جس میں ایک سے زیادہ قراء توں (سبعہ وعشرہ) کو صحیح نہ مانا گیا ہو۔اس سلسلے میں چند مشہور تفاسیر کے حوالے ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں:
(١)تفسیرالکشاف ازعلامہ محمود زمخشری(م۵۳۸ھ)
مشہور ماہر لغت علامہ زمخشری بھی قرآن کی ایک سے زیادہ قراء توں کے قائل تھے۔چنانچہ ایک مقام پر وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’قریء ’’ملک یوم الدین ‘‘ مٰلِکِ،ومَلِکِ‘‘ ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ میں مٰلک کو مٰلِکِ بھی پڑھا گیاہے اور مَلِکِ بھی۔(تفسیر الکشاف،تفسیر سورۃ فاتحہ :۱؍۵۶،طبع مصر)
یادر ہے کہ علامہ زمخشری کو غامدی صاحب اور ان کے استاد بھی لغت کا امام مانتے ہیں۔
(٢)تفسیر ابن کثیر ازحافظ ابن کثیر(م۷۷۴ھ)
حافظ ابن کثیرؒ اپنی مشہور اور مقبول ترین تفسیر میں متعدد قراء توں کو تسلیم کرتے ہیں۔چنانچہ سورئہ فاتحہ کی درج ذیل آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
’’مَلِک یوم الدین‘‘ قرأ بعض القراء (مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ) وقرأ آخرون (مٰلِکِ) وکلاہما صحیح متواتر فی السبع‘‘ (تفسیر القرآن العظیم ،تفسیر سورۃ الفاتحہ:۱؍۶۴،طبع بیروت۱۴۰۰ھ)
(٣)مجمع البیان فی تفسیر القرآن ازابوعلی طبرسی (چھٹی صدی ہجری کی معتبر شیعہ تفسیر ) میں مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’قرأ عاصم والکسائی وخلف ویعقوب الحضرمی مٰلِکِ بالألف والباقون مَلِکِ بغیر ألف‘‘ (مجمع البیان ،تفسیر الفاتحہ :۱؍۲۳،طبع قم، ایران)
’’عاصم ،کسائی ،خلف اوریعقوب حضرمی نے اسے مٰلِکِ اورباقی قراء نے اسے مَلِکِ پڑھاہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) فتح القدیر از امام شوکانی (م۱۲۵۰ھ)
(ملک یوم الدین ) قریء مَلِک،ومٰلِک…(فتح القدیر،تفسیر الفاتحۃ :۲۰،طبع الریاض۱۴۲۲ھ)
’’(مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن) میں ملک کو مَلِکِ اورمٰلِکِ دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔‘‘
(٥)تفسیر مراغی ازاحمد مصطفی مراغی مصری
’’(ملک یوم الدین) قرأ بعض القراء مٰلِک،وبعض آخر مَلِک‘‘ (تفسیر مراغی یا تفسیر الفاتحۃ:۱؍۸۳۱طبع بیروت)
(مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ) میں مٰلِکِ کو بعض قراء نے مٰلِکِ اوربعض دوسروں نے مَلِکِ پڑھا ہے۔‘‘
 
Top