• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرا ء اتِ متواترہ کے بارے میں مولانا اصلاحی اور غامدی صاحب کے موقف کا علمی جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کتب علوم القرآن
علوم القرآن سے متعلق کتب میں بھی قراء توں کے اختلاف کودرست تسلیم کیاگیا ہے۔اس موضوع پر سب سے ضخیم اورمستند کتاب ’البرہان فی علوم القرآن‘ ہے جسے امام بدر الدین زرکشی رحمہ اللہ نے مرتب کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے قرآن کی مختلف متواتر قراء توں پر بحث کرتے ہوئے درج ذیل عنوان قائم کیا ہے:
النوع الثالث والعشرون:’’معرفۃ توجیہ القراء ات وتبیین وجہ ما ذہب إلیہ کل قاریئ‘‘ (البرہان:۱؍۳۳۹،طبع ۱۳۹۱ھ بیروت)
اسی طرح المفردات از امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ ،جوکہ بنیادی طورپر قرآنی لغت کی مستند کتاب ہے تاہم اس میں علوم القرآن کی بعض بحثیں بھی موجودہیں، میں بھی ایک سے زیادہ قراء توں (سبعہ وعشرہ) کوصحیح مانا گیا ہے اور ان کے مطابق لغوی تشریحات کی گئی ہیں۔مثال کے طور پر قر آن مجیدکے ایک مقام کے بارے میں امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَائَ‘‘ ( المؤمنون:۲۰) قریٔ بالفتح والکسر‘‘ (مفردات از امام راغب اصفہانی،تحت مادہ ’سین‘ :۴۳۹،طبع ۱۴۱۶ھ دمشق)
’’یعنی اس میں سَیْنَائَ کو سِیْنَائَ بھی پڑھا گیا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معتبر عربی لغات
عربی زبان کے انتہائی معتبر اورمستند لغت’لسان العرب‘ میں بھی ایک سے زیادہ قراء توں (سبعہ ،عشرہ)کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اس کا ایک مقام ملاحظہ ہو:
’’وفی التنزیل: مٰلِک یوم الدین: قرأ ابن کثیر ونافع وأبوعمرو وابن عامر وحمزۃ :مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ بغیر الف،وقرأ عاصم والکسائی ویعقوب مٰلِکِ بألف‘‘ (لسان العرب:ابن منظور،تحت مادہ،’ملک‘)
’’تنزیل یعنی قرآن مجید میں ہے : مٰلک یوم الدین اسے ابن کثیر ،نافع، ابوعمرو،ابن عامر اورحمزہ نے مَلِکِ یَوْمِ الدِّین الف کے بغیر پڑھا ہے جب کہ عاصم، کسائی اوریعقوب نے اسے مٰلِکِ الف کے ساتھ پڑھا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مدارس وجامعات میں تدریس
صدیوں سے اسلامی دنیا کے بڑے بڑے مدارس اورجامعات میں قرآن مجیدکی ایک سے زیادہ قراء تیں (سبعہ وعشرہ) پڑھائی جار ہی ہیں جہاں اہل علم اور مقری حضرات ان کی تدریس میں مشغول رہتے ہیں توکیا یہ سب علمائے اسلام دین سے ناواقف ہیں؟ ہاں البتہ وہ غامدی صاحب جیسے متجدد اورمنکر حدیث کی طرح’میں نہ مانوں‘کی گردان کرنے سے اور ’ایک ہی قراء ت کی رٹ لگانے‘سے ضرور قاصر ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاری اورمقری میں فرق
اہل علم جانتے ہیں کہ کسی ایک قراء ت کے ماہر کو قاری اورکئی قراء توں (سبعہ وعشرہ)کے ماہر کو مقری کہا جاتا ہے۔آج بھی امت مسلمہ میں سینکڑوں ہزاروں مقری ہیں خود ہمارے وطن پاکستان میں بھی درجن بھر مستند مقری موجود ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کی ایک سے زیادہ قرا ء تیں ثابت ہیں ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ملک فہد کمپلیکس
عالم اسلام کے مرکز سعودی عرب کے مجمع الملک فہد(مدینہ منورہ) کی طرف سے علمائے دین کی زیر نگرانی مختلف قراء توں (ورش، دوری، قالون وغیرہ ) کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں مصاحف طبع کرکے متعلقہ مسلمان ممالک کی طرف بھیجے جاتے ہیں جواس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اُمت مسلمہ میں مختلف قراء توں کے مطابق قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عجم کے فتنے کی باقیات کون؟
غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ’’ ایک قراء ت کے سوا باقی تمام قراء تیں عجم کے فتنے کی باقیات ہیں۔‘‘
غالباً یہ حربہ انہوں نے جناب پرویز صاحب سے سیکھا ہے جو تمام احادیث کو عمر بھر عجمی سازش کا نتیجہ قرار دیتے رہے ۔اب انہی کے اندازمیں غامدی صاحب نے بھی قرآن مجید کی ایک قراء ت کے سوا باقی سب قراء توں کو عجم کا فتنہ قرار دے ڈالا ہے۔
غامدی صاحب کومعلوم ہوناچاہیے کہ جس’قراء تِ حفص‘کو وہ ’قراء ت عامہ‘ کا جعلی نام دے کر صحیح مان رہے ہیں وہ در اصل امام عاصم بن ابی النجود رحمہ اللہ کی قراء ت ہے جس کو امام حفص نے ان سے روایت کیا ہے اور خود امام عاصم ابن ابی النجود عربی النسل نہیں بلکہ عجمی النسل تھے۔ چنانچہ امام بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب البرہان فی علوم القرآن میں پہلے سبعہ قراء (سات مشہورقراء حضرات) کے یہ نام لکھے ہیں:
(١)عبد اللہ بن کثیر رحمہ اللہ(م۱۲۰ھ)
(٢) نافع بن عبد الرحمن رحمہ اللہ(۱۶۹ھ)
(٣) عبد اللہ بن عامررحمہ اللہ(۱۱۸ھ)
(٤) ابوعمرو بن علاء رحمہ اللہ(م۱۵۴ھ)
(٥) عاصم بن ابی النجودرحمہ اللہ(م۱۲۸ھ)
(٦) حمزہ بن حبیب رحمہ اللہ(م۱۵۶ھ)
(٧) علی بن حمزہ الکسائی رحمہ اللہ(م۱۸۹ھ)
’’ولیس فی ہؤلاء السبعۃ من العرب إلا ابن عامر وأبوعمرو‘‘ (البرہان فی علوم القرآن اززرکشی :۱؍۳۲۹،طبع بیروت)
’’اوران ساتوں میں سوائے ابن عامر اورابوعمر کے کوئی بھی عربی النسل نہیں۔‘‘
اب غامدی صاحب اگرعربی النسل قراء کی قراء توں کوعجم کافتنہ کہہ کر ان کا انکار کرسکتے ہیں تو وہ ایک عجمی قاری کی قراء ت (امام عاصم کی قراء ت جس کی روایت امام حفص نے کی ہے اور جسے غامدی صاحب ’قراء تِ عامہ‘ کا نام دے کر صحیح مانتے ہیں) کو کس دلیل سے صحیح مانتے ہیں؟اگر عربی قراء تیں محفوظ نہیں رہیں اورعجم کے فتنے کاشکار ہوگئی ہیں تو ایک عجمی قراء ت عجم کے فتنے سے کیسے محفوظ رہ گئی؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ متواتر قراء تیں عجم کا فتنہ نہیں ہیں بلکہ غامدی صاحب خود عجم کا فتنہ ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے؟
غامدی صاحب کایہ دعویٰ ہے کہ قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے۔ غالباً وہ قرآن اورمصحف کافرق نہیں جانتے ۔حقیقت یہ ہے کہ جب قرآن کو رسم الخط کی شکل میں لکھا جاتا ہے تووہ مصحف کہلاتا ہے۔لیکن اصل قرآن وہ ہے جو ایک مستند حافظ یاقاری کے سینے میں محفوظ ہوتا ہے اوروہ زبانی طور پر اس کی تلاوت کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے کہ
’’بَلْ ہُوَ آیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ‘‘ (العنکبوت:۴۹)
’’بلکہ یہ( قرآن) ایسی واضح آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جن میں علم عطا ہوا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ جب کسی مصحف کی تیاری میں کچھ غلطیاں ہوجاتی ہیں تو ان کی نشاندہی اوراصلاح کا کام بھی کوئی مستند حافظ یاقاری سرانجام دیتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ قرآن کی حفاظت کا اصل دارومدار اس کے حفظ وقراء ت پرہے نہ کہ مصاحف پر۔
پھر اہل علم جانتے ہیں کہ قرآن مجید تحریری شکل میں نازل نہیں ہوا ہے بلکہ وقفے وقفے سے جبرئیل علیہ السلام نے نبی اُمی ﷺکو پڑھ کر سنایا جسے آپؐ نے حفظ فرمایا۔پھر آپﷺ نے اسے لوگوں کو زبانی سنایا اورصحابہ کرام نے آپﷺ سے سن کر اسے حفظ کیا ۔یہی سلسلۂ حفظ وقراء ت جسے اِصطلاح میں تلقی کہا جاتا ہے نسل درنسل چلا آرہا ہے۔
اس کے علاوہ صحابہ کرام نے احتیاطاً یہ اہتمام بھی کیا کہ قرآن کو مصحف کی صورت میں بغیر نقاط اوراعراب کے امت کومنتقل کردیا جسے کسی مستندقاری کے بغیر پڑھنے کی ممانعت تھی۔کیونکہ بغیر استاد کے کسی بھی زبان کی عبارت کا صحیح تلفظ ادا نہیں کیا جاسکتا۔ورنہ ایسا نہیں ہوا کہ خود نبی امی1نے قرآن کے کچھ نسخے (مصاحف) لکھوا کر لوگوں میں تقسیم کردیئے ہوں کہ ان میں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ قرآن ثبت ہے اسے پڑھو، سمجھو اور اس کے مطابق عمل کرو۔
(٣)کیا اُمت مسلمہ کی عظیم اکثریت جس قراء ت کے مطابق قرآن کی تلاوت کر رہی ہے صرف وہی قرآن ہے؟
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کی عظیم اکثریت جس قراء ت کے مطابق قرآن کی تلاوت کر رہی ہے صرف وہی قرآن ہے ۔عظیم اکثریت کی بناپر قرآن کی ایک ہی قراء ت ہونے کا دعویٰ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ دنیائے اسلام میں چونکہ حنفی فقہ کے پیروکاروں کی عظیم اکثریت ہے لہٰذا صرف فقہ حنفی ہی صحیح اسلامی فقہ ہے اورباقی تمام فقہیں فتنۂ عجم کی باقیات ہیں۔ظاہر ہے ایسا دعویٰ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو یا تو احمق ہو، یا انتہائی درجے کا متعصب ہو، یا پھر فتنہ پرور۔
پھر کیا اس طرح کا دعویٰ کرکے غامدی صاحب پورے شمالی افریقہ کے درجن بھرممالک کے ان کروڑوں مسلمانوں کی تکفیر کا ارتکاب نہیں کر رہے جو دوسری متواتر قراء توں کے مطابق قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں ؟کیونکہ یہ افریقی مسلمان غامدی صاحب کے فتویٰ کی روسے جب غیر قرآن کو قرآن مانتے ہیں تو لا محالہ کافر ٹھہرتے ہیں۔غور کیجئے غامدی صاحب کے نشتر کی رو کہاں تک پہنچ رہی ہے؟
(٤)کیا قرآن کا متن ایک قراء ت کے سوا کسی دوسری قراء ت کو قبول نہیں کرتا؟
اب ہم غامدی صاحب کے موقف کے اس نکتے پر بحث کریں گے کہ کیا قرآن کا متن ایک قراء ت کے سوا کسی دوسری قراء ت کوقبول نہیں کرتا۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے متن میں تمام قراء ا تِ متواترہ کی گنجائش موجود ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ موجودہ مصاحف کے قرآنی الفاظ رسم عثمانی کے مطابق لکھے گئے ہیں۔اس رسم الخط کی خوبی اورکمال یہی ہے کہ اس میں تمام قراء اتِ متواترہ (سبعہ بلکہ عشرہ) کے پڑھنے کا امکان موجود ہے اوریہ ساری قراء تیں اس ایک متن میں سماجاتی ہیں۔
مثال کے طورپر سورۃ فاتحہ کی آیت’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ کولیجئے۔اسے رسم عثمانی (بغیر اعراب اورنقطوں کے) میں یوں لکھا گیا تھا:
’’ ملک یوم الدیں ‘‘
اس آیت میں لفظ مٰلک کو مٰلِکِ اورمَلِکِ دونوں طرح سے پڑھا جا سکتا ہے اور یہ دونوں قراء تیں متواترہ ہیں۔ قراء ت حفص میں اسے مٰلِکِ (میم پر کھڑی زبر)اورقراء ت ورش میں اسے مَلِکِ (میم پر زبر)کے ساتھ پڑھتے ہیں۔حجاز میں یہ دونوں الفاظ ایک ہی مفہوم کے لئے استعمال ہوتے تھے۔یعنی روزِجزا کامالک یاروزِجزا کا بادشاہ۔ بادشاہ بھی اپنے علاقے کا مالک ہی ہوتاہے۔ قرآنِ مجید کے نظائر سے بھی ان دونوں مفاہیم کی تائید ملتی ہے۔اس طرح قراء ات کایہ اختلاف اورتنوع قرآن مجید کے رسم عثمانی میں موجود ہے۔
اب مذکورہ لفظ ملک کے رسم عثمانی پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ غامدی صاحب کی رائے کے برعکس اس قرآنی لفظ کا متن قراء ت ورش (ملک) کو زیادہ قبول کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں قراء تِ حفص کو کم قبول کرتاہے۔پہلی قراء ت (ورش )میں اسے بغیر کسی تکلف کے ملک کو مَلِکِ پڑھا جا سکتاہے۔او ر دوسری قراء ت(حفص)میں اسے تھوڑے سے تکلف (کھڑا زبر)کے ساتھ پڑھا جاتاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ پہلی دلیل:اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ جب سورۃ الناس میں آتا ہے تو رسم عثمانی کے مطابق اس طرح آتا ہے:’’ملک الناس‘‘اور سب اسے’’مَلِکِ النَّاسِ‘‘پڑھتے ہیں جو کہ متن کے بالکل قریب ایک صحیح قراء ت ہے اور اسے کوئی بھی مٰلِکِ (کھڑے مد کے ساتھ) نہیں پڑھتا۔ لہٰذا سورۃ الفاتحہ میں بھی مٰلِکِ کو مَلِکِ پڑھنے کی پوری گنجائش موجود ہے اور قراء تِ ورش کے مطابق یہ بالکل جائز اور درست ہے۔
٭ دوسری دلیل:اس کی دوسری دلیل سورہ ہود ، آیت:۴۱ کے لفظ مَجْریہَا میں ہے کہ:
’’بِسْمِ اﷲِ مَجْریْہَا وَمُرْسٰہا‘‘
اسے رسم عثمانی میں یوں لکھاگیاہے: ’’ ــــــــسمِ اللہ محریہا ومرسہا ‘‘
اس میں لفظ (محریہا) کو قراء ت متواترہ میں تین طرح سے پڑھا جاتا ہے:
محریہا (اصل رسم عثمانی)
(١) مُجْرٰیہَا (ایک متواترہ قراء ت کے مطابق)
(٢) مُجْرَیْ ہَا (دوسری متواترہ قراء ت کے مطابق)
(٣) مَجْرَیْ ہَا (تیسری متواترہ قراء تِ حفص کے مطابق)
اس سے معلوم ہوا کہ رسمِ عثمانی کے مطابق لکھا ہوایہ لفظ (محریہا) جوکہ قرآن کااصل متن ہے وہ تینوں متواتر قراء توں کو قبول کرلیتا ہے۔اور اسے تینوں طریقوں سے پڑھنے کی گنجائش موجود ہے۔بلکہ اہل علم جانتے ہیں پہلی دو قراء تیں تیسری قراء ت حفص کے مقابلے میں زیادہ متداول اور زیادہ فصیح عربی کے قریب ہیں۔کیونکہ یہی لفظ جب مشہور جاہلی شاعر عمرو بن کلثوم کے معلقے میں آتا ہے:
صبنت الکأس عنا أم عمرو
وکان الکأس مَجْرَاہَا الیمینا​
تو اس شعر کے لفظ’مجراہا‘ کوبھی عام طور پر مَجْرٰاہَا پڑھا جاتا ہے۔اسے قراء ت حفص کی طرح کوئی بھی مَجْرَیْ ہَانہیں پڑھتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ تیسری دلیل:
غامدی صاحب کومعلوم ہونا چاہیے کہ خود قراء ت حفص (جسے وہ قراء ت عامہ کا نامانوس نام دیتے ہیں) میں بھی قرآن مجید کے کئی الفاظ کی دو دو قراء تیں درست ہیں۔گویا ایک ہی قراء تِ حفص میں بھی بعض قرآنی الفاظ کو دو دو طریقوں سے پڑھا جاسکتا ہے اور پڑھا جاتا ہے۔جیسے:
(ا) سورۃ البقرۃ ،آیت نمبر۲۴۵ میں ہے کہ
’’وَاﷲُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ‘‘
میں لفظ یَبْصُطُ کو یَبْسُطُ بھی پڑھا جاتا ہے، جس کے لئے ہمارے ہاں کے مصاحف میں حرف صاد کے اوپر چھوٹا سین ڈال دیا جاتا ہے۔
(ب)سورۃ الغاشیہ ،آیت نمبر۲۲ میں ہے کہ
’’لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ‘‘
میں لفظ بِمُصَیْطِرٍکو بِمُسَیْطِرٍ بھی پڑھا جاتا ہے۔
(ج)سورۃ الطور ،آیت نمبر۳۷ میں ہے کہ
’’أَمْ عِنْدَہُمْ خَزَائِنُ رَبِّکَ أمْ ہُمُ الْمُصَیْطِرُوْنَ‘‘
میں لفظ الْمُصَیْطِرُوْنَ کو الْمُسَیْطِرُوْنَ بھی پڑھا جاتا ہے۔
(د)سورۃ الروم ، آیت نمبر۵۴ میں ہے کہ
’’اﷲُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَشَیْبَۃً‘‘
میں ضُعْف کے تینوں الفاظ کو ضَعْف بھی پڑھا جاتا ہے۔ ( مجمع ملک فہد سے مطبوعہ روایت حفص یا ’قراء تِ عامہ‘ کے کروڑہا نسخوں میں بھی ایسے ہی لکھا گیا ہے۔ جبکہ پاکستانی مصاحف میں ضُعْف لکھا گیا ہے۔
اس وضاحت کے بعد کیا کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ قرآن کا متن ایک قراء ت کے سوا کسی اورقراء ت کو قبول ہی نہیں کرتا؟ایسا دعویٰ صرف وہی آدمی کرسکتا ہے جو علم قراء ات سے نابلد ہو، رسم عثمانی سے بے خبر ہو اور جس نے کبھی آنکھیں کھول کر قرآن کے متن کو نہ پڑھا ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
در اصل قراء ات متواترہ کا یہ اختلاف دنیا کی ہر زبان کی طرح تلفظ اور لہجے کا اختلاف ہے ۔ اس سے قرآن مجید میں کوئی ایسا تغیر نہیں ہوجاتا جس سے اس کے معنی ومفہوم تبدیل ہوجائیں یا حلال حرام ہوجائے بلکہ اس کے باوجود قرآن قرآن ہی رہتا ہے او ر اس کے نفس مضمون میں کسی قسم کا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
خود ہماری اردو زبان میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسے ’ناپ تول ‘اور ’ماپ تول‘ دونوں صحیح ہیں۔اسی طرح ’کے بارہ میں‘اور ’کے بارے میں‘دونوں درست ہیں۔
انگلش میںبھی اس کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں ۔مثال کے طور پر scheduleکو ’شیڈول‘بھی پڑھا جاتا ہے اور سکیجوئل بھی۔ constitutionکو کانسٹی چوشن بھی پڑھتے ہیں اور کانسٹی ٹیوشن بھی۔ یہ محض تلفظ اور لہجے(pronunciation)کافرق ہے جوعربی سمیت دنیا کی ہر بڑی زبان میں پایا جاتا ہے۔بالکل یہی معاملہ قرآن مجید کی مختلف قراء توں کا ہے۔
یہ تفصیل جان لینے کے بعد آخر یہ دعویٰ کرنے کی کہاں گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت درست ہے اور باقی تمام قراء تیں عجم کا فتنہ ہے؟

٭_____٭_____٭​
 
Top