- شمولیت
- نومبر 13، 2016
- پیغامات
- 7
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 10
قربانی فضائل ومسائل
تحریر :علیم اللہ عنایت اللہ سلفیؔ
دنیائے انسانیت کی تخلیق کا مقصد رب کی عبادت وبندگی ہے،اللہ رب العالمین نے جن وانس کو صرف اس مقصد سے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اسکےاحکام کی بجاآوری اور اس کی اطاعت وبندگی کریں اور پھرعبادت وبندگی کی مختلف قسمیں،مختلف طریقے اور راستے بھی بتائے ہیں ۔مثلا نماز،روزہ،حج،زکات ،صدقہ وخیرات اور اس طرح کی مزید اور بھی مختلف قسم کی عبادتیں ہیں ۔انہیں عبادتوں میں سے ایک اہم عبادت ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو اللہ کی جناب میں اپنے جانوروں کی قربانی پیش کرنا بھی ہے۔قربانی کی اہمیت وفضیلت اور اس کے احکام ومسائل قرآن واحادیث میں جابجا بیان کیے گئے ہیں جنہیں درج ذیل سطور میں مختصراً بیان کیا جارہا ہے۔
*قربانی کامعنی و مفہوم:
قربانی عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کے معنی ایثار اور ذبح کے ہیں اور کسی کے عوض اپنی جان دے دینا بھی قربانی کہلاتا ہے۔
اصطلاح میں قربانی اس جانور کو کہتے ہیں جو حج یا عید الاضحی کے موقع پر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے۔
*قربانی فضیلت واہمیت:
چونکہ قربانی ہمارے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ ہے اس لیے تمام مسلمانوں کو بھی قربانی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ہمارے نبی ﷺ نے عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنے میں مداومت اور ہمیشگی فرمائی ہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’کان النبی ﷺیضحی بکبشین ،وأنا أضحي بکبشین ۔‘‘نبی ﷺ دومینڈھے ذبح کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھے ذبح کرتا ہوں۔(صحیح بخاری:۵۵۵۳)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس روایت سے آپ ﷺ کے ہمیشہ قربانی کرنے کا پتہ چلتا ہے۔(فتح الباری:۱۰؍۱۰)
رسول اکرم ﷺ کا قربانی کے متعلق شدت کے ساتھ اہتمام قربانی کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں نماز کے ساتھ قربانی کا تذکرہ کیا ہے ظاہر سی بات ہے جب نماز کے ساتھ قربانی کا تذکرہ ہو تو جتنی اہمیت نماز کو حاصل ہے اس سے کم اہمیت قربانی کو حاصل نہیں ہوگی۔دو آیتیں ملاحظہ ہوں ،پہلی آیت (قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین)(انعام:۱۶۲)کہہ دو میری نماز،میری قربانی،میراجینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔اور دوسری جگہ فرمایا :(فصل لربک وانحر) (کوثر:۲)نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔
مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں اللہ نے قربانی کا تذکرہ نماز کے ساتھ کیا ہے ایسے ہی حدیث کے اندر بھی آپ ﷺ نے نماز ہی کے ساتھ قربانی کا ذکر فرمایا ہے،صحیح بخاری اور مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’ان أول مانبدأ بہ فی یومنا ھٰذا أن نصلی فنرجع فننحر فمن فعلہ فقد أصاب سنتنا ۔‘‘بے شک اس دن ہم پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ نماز عید ادا کرتے ہیں پھر واپس گھر جاکر قربانی کرتے ہیں جس شخص نے ایسے ہی کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا۔
ایک اور روایت میں ہے ’’من وجد سعۃ لأن یضحی فلم یضح فلایحضرمصلانا‘‘جو استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔اس سے بھی قربانی کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے۔(رواہ الحاکم وحسنہ الألبانی رحمہ اللہ فی صحیح الترغیب والترھیب:۱۰۸۷)
*قربانی کی تاریخ:
قربانی کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔کائنات کا وجود ہوتے ہی اللہ رب العالمین نے آدم علیہ السلام کے بیٹوں کو قربانی کرنے کا حکم دیا اور وہیں سے قربانی کی ابتدا ہوئی (اذقربا قربانا فتقبل من أحدھما ولم یتقبل من الآخر)(مائدہ:۲۷)آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں نے قربانی کی ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہیں ۔ایسے ہی اللہ نے قرآن میں اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ کہ ہم نے ہر امت میں قربانی رکھی ہے فرمایا :(ولکل أمۃ جعلنا منسکا )(حج:۳۴)اسی طرح بعد کی قوموں میں بھی قربانی کا رواج رہا ہے ابراہیم علیہ السلام نے بھی قربانی کی جس کا ذکرمفصل طور پر سورۂ صٰفت آیت نمبر۹۹ تا ۱۰۷میں ملتا ہے۔آپ ﷺ نے بھی اس سنت کو جاری رکھا اور تاحیات قربانی کرتے رہے۔
*مقصد قربانی:
قربانی اللہ رب العالمین کی قربت اور اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ اور سبب ہے ۔انسان اللہ رب العالمین کے نام قربانی پیش کرکے اس کا ثواب چاہتا ہے ،اس کا محبوب بندہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور قربانی کا یہی مقصد اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے ۔(قل ان صلاتی ونسکی ومحیا ی ومماتی للہ رب العالمین)(انعام:۱۶۲))کہ نماز،قربانی ،جینااور مرنا سب اللہ کے لیے ہونا چاہیے لیکن اس کے برخلاف زمانہء جاہلیت میں لوگ جب کسی بت کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے تو اس کا گوشت اس بت کے سامنے رکھ دیتے تھے اور اس کا خون اس بت کے جسم پر مل دیتے اور جب وہ اللہ کے نام کی قربانی پیش کرتے تو بھی گوشت کعبہ کے سامنے لاکر رکھ دیتے تھے اور خون کعبہ کی دیواروں پر مل دیتے تھے گویا ا ن کے خیال کے مطابق قربانی کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کہ قربانی کا گوشت اور خون پیش کردیا جائے ہماری قربانی مقبول ہوگئی، جب کہ اللہ نے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :(لن ینال اللہ لحومھا ولا دماءھا ولٰکن ینالہ التقویٰ منکم )(حج:۳۷)اللہ کے یہاں اس کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ تم نے کس مقصد سے قربانی پیش کی ہے تمہاری نیت جیسی ہوگی ویسی ہی اس قربانی کی قدرومنزلت ہوگی ۔
معلوم ہوا کہ قربانی میں بھی اخلاص اور اتباع رسول ضروری ہے ،ریا ونمود یا رسم کے طور پر کی ہوئی قربانی اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہوتی۔قربانی کرنے والوں میں لوگوں کی کئی قسمیں ہیں بعض لوگ قربانی محض رسم کے طور پر کرتے ہیں، اور بعض اس لیے کہ ہمارے بچے آخر دوسروں کی طرف سے گوشت آنے کا کیونکر انتظار کریں اور بعض دولت مند لوگوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ ہمیں طعن وتشنیع کا نشانہ نہ بنائیں اور بعض لوگ شہرت طلبی اور ناموری کے لیے لاکھوں اور کروڑوں کی قربانیاں کرتے ہیں اور بعض حضرات بخل سے کام لیتے ہوئے کوئی کمزور سا جانور ذبح کردیتے ہیں ایسے لوگوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ صرف ہمارے دل اور اعمال کو دیکھتا ہے اور ہماری صورتوں اور مال ودولت کو نہیں دیکھتا ،صحیح مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ’’ان اللہ لاینظر الی صورکم وأموالکم ولٰکن ینظر الیٰ قلوبکم وأعمالکم ‘‘(صحیح مسلم:۴۶۵۱)
*قربانی میں ذبح کیے جانے والے جانور:
قربانی کے لیے جس جانور کا انتخاب کیا جائے وہ گائے ،اونٹ،بھیڑ،بکری کی جنس سے ہونا چاہیے اللہ کا فرمان ہے ۔(ولکل أمۃ جعلنا منسکا لیذکروااسم اللہ علی ما رزقھم من بھیمۃ الأنعام)(الحج:۳۴)اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں ۔
آیت کریمہ میں( بھیمۃ الأنعام)سے مراد اونٹ،گائے،بھیڑاور بکری ہی ہیں اسی لیے امام نووی رحمہ اللہ نے تمام مسلمانوں کا اس پراجماع نقل کیا ہے کہ قربانی میں صرف یہی جانور ہی کفایت کرسکتے ہیں۔(شرح مسلم للنووی:۱۳؍۱۲۵)
ایک دوسری جگہ فرمایا: (ثمانیۃ أزواج۔۔)(أنعام:۱۴۳۔۱۴۴)آٹھ نر اور مادہ۔اس کی تفصیل انہی دونوں آیتوں میں مذکور ہے بھیڑ میں دوقسم ،بکری میں دو قسم،اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم۔صرف انہی جانوروں کی قربانی جائزاوردرست ہے ۔
*عید الأضحی یا حج کے موقع پر ذبح کیے جانے والے جانور:
مسلمانوں کو چاہیے کہ قربانی کے لیے ایسا جانور خریدیں جو صحت مند ،تندرست وتوانا اور عیوب ونقائص سے پاک ہو نبی کریم ﷺ نے ان عیوب کی نشاندہی فرمائی ہے جن میں سے کسی ایک عیب کی موجودگی جانور کو قربانی کے نااہل ٹھہرائے جانے کا سبب ہوگی۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’أربع لاتجوز فی الأضاحی :العوراء بین عورھا ،والمریضۃ بین مرضھا ،والعرجاء بین ظلعھا ،والکسیر التی لاتنقی۔‘‘چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں ،کانا جس کا کانا ہونا بالکل صاف طور پر ظاہر ہو ،ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو ،ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن نمایاں ہواور ایسا بوڑھا کہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہاہو۔ (سنن ترمذی:۱۵۳۰)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ أمرنا رسول اللہ ﷺ’’ أن نستشرف العین والأذن وأن لا نضحی بعوراء ،ولا مقابلۃ،ولا مدابرۃ،ولا شرقاء ،ولاخرقاء۔‘‘ہمیں رسول اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ ہم قربانی والے جانور کی آنکھوں اور کانوں کو اچھی طرح پڑتال کرلیا کریں اور وہ جانور ذبح نہ کریں جو کانا ہو یا جس کاکان آگے سے یا پیچھے سے کٹ کر لٹک گئے ہوں یا جس کے کان لمبائی میں کٹے ہوئے ہوں یا عرض میں یا جس کے کانوں میں سوراخ ہو۔(مسند أحمد:۱۲۷۴)
مذکورہ دونوں حدیثوں کی رو سے مندرجہ ذیل عیوب والے جانور وں کی قربانی کرنا درست نہیں۔(۱)کانا جس کا کانا ہونا صاف طور پر معلوم ہو ۔(۲)ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو ۔(۳)ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔(۴)ایسا بوڑھا جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو ۔(۵)جس کے کان آگے سے کٹ کر لٹک گئے ہوں۔(۶)جس کے کان پیچھے سے کٹ کر لٹک گئے ہوں ۔(۷)جس کے کان لمبائی میں کٹے ہوں ۔(۸)جس کے کان چوڑائی میں کٹے ہوں ۔(۹)جس کے کان میں سوراخ ہو۔اور(۱۰)جن جانوروں میں ان عیوب سے بڑا عیب ہوگا ان کی قربانی کرنا بھی درست نہیں ہے۔
*شرائط قربانی:
(۱)شرائط قربانی میں پہلی چیز اخلاص اور اتباع سنت ہے۔(۲)جانور احادیث میں مذکور عیوب ونقائص سے پاک ہو ۔(۳)نماز عید کے بعد ذبح کیا جائے کیونکہ نبی ﷺ نے نماز سے عید سے قبل قربانی کرنے سے منع کیا ہے فرمایا:’’من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا فلایذبح حتی ینصرف‘‘۔جس نے ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کیا وہ نماز عید سے واپس پلٹنے سے پہلے قربانی نہ کرے۔(صحیح بخاری :۵۵۶۳)۔(۴)دنبہ اور بھیڑ کے بچوں کے علاوہ دیگر جانور جیسے بکری اور گائے میں دودانت والا ہونا ضروری ہے استثناء صرف بھیڑ اور دنبہ کے بچوں کے ساتھ ہے دیگر جانوروں کے ساتھ نہیں ،حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’لاتذبحوا الا مسنۃ الا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضأن ۔‘‘دودانت والے کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی نہ کرو ،ہاں اگر دشواری پیش آجائے تودو دانت سے کم عمر کا دنبہ بھی ذبح کرلو۔(صحیح مسلم:۱۹۶۳)۔(۵)قربانی کے جانور قربانی کے ایام میں ذبح کیے جائیں ۔اور قربانی کے ایام چار دن ہیں ۔حدیث رسول ہے :’’وفی کل ایام التشریق ذبح ۔‘‘تشریق کے سب دنوں میں قربانی کرنا درست ہے۔(صحیح ابن حبان:۳۸۵۴)اور عید الأضحی کے بعد تشریق کے تین دن ہیں ۔
قربانی کے وقت کی ابتدا عید الأضحی کی نماز کے بعد سے ہوتی ہے اور اس وقت کا اختتام چوتھے دن کے غروب آفتاب کے ساتھ ہوتا ہے۔(۶)’’بسم اللہ واللہ اکبر‘‘ پڑھ کر ذبح کرنا ۔
نبی ﷺ نے دووچتکبرے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ذبح کرتے وقت بسم اللہ واللہ اکبر پڑھا ۔(صحیح بخاری:۵۵۵۸)۔(۷)جس کی طرف سے قربانی ہو ذبح کے وقت اس کانام لیا جائے۔(۸)جانور ذبح کرنے والا احسان کے ساتھ ذبح کرے۔یعنی اس کو ذبح کرنے سے پہلے چھری تیز کرلے۔
*اونٹ اور گائے میں اشتراک بھی جائزہے جبکہ ایک بکرا پورے گھر والوں کی طرف سے کفایت کرے گا ۔
بہت سی حدیثیں ایسی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پورے گھر والوں کی طرف سے ایک بکرا ذبح کردیا جائے تو کافی ہوگا ،انہیں میں سے ایک حدیث حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہیکہ ’’کان رسول اللہ ﷺ یضحی بالشاۃ الواحدۃ عن جمیع أھلہ ۔‘‘رسول اکرم ﷺ اپنے پورے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتے تھے۔ (صحیح بخاری:۷۲۱۰)لیکن اس کے برعکس نبی اکرم ﷺ کی سنت سے حج اور عید الأضحی کے لیے ذبح کیے جانے والے اونٹ اور گائے میں ایک سے زیادہ لوگوں کا شامل ہونا بھی ثابت ہے ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’نحرنا مع رسول اللہ ﷺ عام الحدیبیۃ البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ ۔‘‘ہم نے حدیبیہ کے سال سات سات آدمیوں کی جانب سے اونٹ اور گائے کو ذبح کیا۔(صحیح مسلم :۱۳۱۸)۔اور ترمذی کی روایت ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں :’’کنا مع رسول اللہ ﷺ فی سفر فحضر الأضحی ،فاشترکنا فی البقرۃ سبعۃ وفی البعیر عشرۃ۔‘‘ہم اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ قربانی کا جانور آیا تو گائے میں سات لوگ شریک ہوئے اور اونٹ میں دس۔(جامع ترمذی:۱۵۳۷)۔
مذکورہ بالاحدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ گائے میں سات اور اونٹ میں دس افراد شریک ہوسکتے ہیں جبکہ بھیڑ ،بکری وغیرہ میں
سے ایک پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔
*قربانی کے گوشت کا استعمال:
قربانی کے گوشت کا کھانا ،کھلانا ،غریبوں وغیرہ کو دینا اور جمع کرکے رکھنا ساری صورتیں جائز اور درست ہیں قرآن وحدیث میں اس کے بے شمار دلائل موجود ہیں اللہ نے فرمایا:(فکلوا منھا وأطعموا البائس الفقیر) قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیر کوبھی کھلاؤ۔(حج:۲۸۰)۔اور دوسری جگہ سورۂ حج آیت نمبر۳۶میں (المعتر)کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں زائروں کو بھی کھلاؤ۔زائر میں مسلم اور غیر مسلم سب آتے ہیں۔اور حدیث کے اندرہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’کلوا ،وأطعموا، وادخروا‘‘کھاؤ،کھلاؤ اور ذخیرہ کرو۔(صحیح بخاری:۵۵۶۹)۔مذکورہ بالا آیت کو سامنے رکھ کر بعض لوگ کہتے ہیں کہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں برابر برابر تقسیم کرنا چاہیے یا آدھا کھائے آدھا دوسروں کو کھلائے لیکن یہ بات صحیح اور درست نہیں ہے۔گوشت کی تقسیم میں اس قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔اس بات کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت کو کھانے سے روکھا تھا اب تم جتنا چاہو اس میں سے اپنے لیے ذخیرہ کرو یعنی کھانے کے لیے روک رکھو۔(صحیح مسلم:۱۹۷۷ )اور ترمذی میں ہے۔ ’’فکلوا منھا مابدالکم وأطعموا وادخروا۔‘‘جتنا چاہو خود کھاؤ ،کھلاؤ اور ذخیرہ کرو۔(۱۵۴۶)۔
اس حدیث سے واضح طور پر یہ بات معلوم ہوجاتی ہے ایک تہائی تقسیم کرنے یا نصف کھانے کی کوئی پابندی نہیں ۔اس میں اس بات کی بھی دلیل موجود ہے کہ کھانے والے گوشت کی مقدار متعین نہیں ،قربانی کرنے والا جتنا چاہے اس میں سے کھائے خواہ وہ مقدار زیادہ ہی کیوں نہ ہو ،ہاں اس بات کا خیال رہے کہ کھلانے والی بات ختم نہ ہونے پائے۔
*کیاقصاب کو قربانی میں سے بطور اجرت کچھ دیا جاسکتا ہے؟
تحریر :علیم اللہ عنایت اللہ سلفیؔ
دنیائے انسانیت کی تخلیق کا مقصد رب کی عبادت وبندگی ہے،اللہ رب العالمین نے جن وانس کو صرف اس مقصد سے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اسکےاحکام کی بجاآوری اور اس کی اطاعت وبندگی کریں اور پھرعبادت وبندگی کی مختلف قسمیں،مختلف طریقے اور راستے بھی بتائے ہیں ۔مثلا نماز،روزہ،حج،زکات ،صدقہ وخیرات اور اس طرح کی مزید اور بھی مختلف قسم کی عبادتیں ہیں ۔انہیں عبادتوں میں سے ایک اہم عبادت ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو اللہ کی جناب میں اپنے جانوروں کی قربانی پیش کرنا بھی ہے۔قربانی کی اہمیت وفضیلت اور اس کے احکام ومسائل قرآن واحادیث میں جابجا بیان کیے گئے ہیں جنہیں درج ذیل سطور میں مختصراً بیان کیا جارہا ہے۔
*قربانی کامعنی و مفہوم:
قربانی عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کے معنی ایثار اور ذبح کے ہیں اور کسی کے عوض اپنی جان دے دینا بھی قربانی کہلاتا ہے۔
اصطلاح میں قربانی اس جانور کو کہتے ہیں جو حج یا عید الاضحی کے موقع پر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے۔
*قربانی فضیلت واہمیت:
چونکہ قربانی ہمارے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ ہے اس لیے تمام مسلمانوں کو بھی قربانی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ہمارے نبی ﷺ نے عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنے میں مداومت اور ہمیشگی فرمائی ہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’کان النبی ﷺیضحی بکبشین ،وأنا أضحي بکبشین ۔‘‘نبی ﷺ دومینڈھے ذبح کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھے ذبح کرتا ہوں۔(صحیح بخاری:۵۵۵۳)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس روایت سے آپ ﷺ کے ہمیشہ قربانی کرنے کا پتہ چلتا ہے۔(فتح الباری:۱۰؍۱۰)
رسول اکرم ﷺ کا قربانی کے متعلق شدت کے ساتھ اہتمام قربانی کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں نماز کے ساتھ قربانی کا تذکرہ کیا ہے ظاہر سی بات ہے جب نماز کے ساتھ قربانی کا تذکرہ ہو تو جتنی اہمیت نماز کو حاصل ہے اس سے کم اہمیت قربانی کو حاصل نہیں ہوگی۔دو آیتیں ملاحظہ ہوں ،پہلی آیت (قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین)(انعام:۱۶۲)کہہ دو میری نماز،میری قربانی،میراجینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔اور دوسری جگہ فرمایا :(فصل لربک وانحر) (کوثر:۲)نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔
مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں اللہ نے قربانی کا تذکرہ نماز کے ساتھ کیا ہے ایسے ہی حدیث کے اندر بھی آپ ﷺ نے نماز ہی کے ساتھ قربانی کا ذکر فرمایا ہے،صحیح بخاری اور مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’ان أول مانبدأ بہ فی یومنا ھٰذا أن نصلی فنرجع فننحر فمن فعلہ فقد أصاب سنتنا ۔‘‘بے شک اس دن ہم پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ نماز عید ادا کرتے ہیں پھر واپس گھر جاکر قربانی کرتے ہیں جس شخص نے ایسے ہی کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا۔
ایک اور روایت میں ہے ’’من وجد سعۃ لأن یضحی فلم یضح فلایحضرمصلانا‘‘جو استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔اس سے بھی قربانی کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے۔(رواہ الحاکم وحسنہ الألبانی رحمہ اللہ فی صحیح الترغیب والترھیب:۱۰۸۷)
*قربانی کی تاریخ:
قربانی کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔کائنات کا وجود ہوتے ہی اللہ رب العالمین نے آدم علیہ السلام کے بیٹوں کو قربانی کرنے کا حکم دیا اور وہیں سے قربانی کی ابتدا ہوئی (اذقربا قربانا فتقبل من أحدھما ولم یتقبل من الآخر)(مائدہ:۲۷)آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں نے قربانی کی ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہیں ۔ایسے ہی اللہ نے قرآن میں اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ کہ ہم نے ہر امت میں قربانی رکھی ہے فرمایا :(ولکل أمۃ جعلنا منسکا )(حج:۳۴)اسی طرح بعد کی قوموں میں بھی قربانی کا رواج رہا ہے ابراہیم علیہ السلام نے بھی قربانی کی جس کا ذکرمفصل طور پر سورۂ صٰفت آیت نمبر۹۹ تا ۱۰۷میں ملتا ہے۔آپ ﷺ نے بھی اس سنت کو جاری رکھا اور تاحیات قربانی کرتے رہے۔
*مقصد قربانی:
قربانی اللہ رب العالمین کی قربت اور اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ اور سبب ہے ۔انسان اللہ رب العالمین کے نام قربانی پیش کرکے اس کا ثواب چاہتا ہے ،اس کا محبوب بندہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور قربانی کا یہی مقصد اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے ۔(قل ان صلاتی ونسکی ومحیا ی ومماتی للہ رب العالمین)(انعام:۱۶۲))کہ نماز،قربانی ،جینااور مرنا سب اللہ کے لیے ہونا چاہیے لیکن اس کے برخلاف زمانہء جاہلیت میں لوگ جب کسی بت کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے تو اس کا گوشت اس بت کے سامنے رکھ دیتے تھے اور اس کا خون اس بت کے جسم پر مل دیتے اور جب وہ اللہ کے نام کی قربانی پیش کرتے تو بھی گوشت کعبہ کے سامنے لاکر رکھ دیتے تھے اور خون کعبہ کی دیواروں پر مل دیتے تھے گویا ا ن کے خیال کے مطابق قربانی کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کہ قربانی کا گوشت اور خون پیش کردیا جائے ہماری قربانی مقبول ہوگئی، جب کہ اللہ نے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :(لن ینال اللہ لحومھا ولا دماءھا ولٰکن ینالہ التقویٰ منکم )(حج:۳۷)اللہ کے یہاں اس کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ تم نے کس مقصد سے قربانی پیش کی ہے تمہاری نیت جیسی ہوگی ویسی ہی اس قربانی کی قدرومنزلت ہوگی ۔
معلوم ہوا کہ قربانی میں بھی اخلاص اور اتباع رسول ضروری ہے ،ریا ونمود یا رسم کے طور پر کی ہوئی قربانی اللہ کے یہاں مقبول نہیں ہوتی۔قربانی کرنے والوں میں لوگوں کی کئی قسمیں ہیں بعض لوگ قربانی محض رسم کے طور پر کرتے ہیں، اور بعض اس لیے کہ ہمارے بچے آخر دوسروں کی طرف سے گوشت آنے کا کیونکر انتظار کریں اور بعض دولت مند لوگوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ ہمیں طعن وتشنیع کا نشانہ نہ بنائیں اور بعض لوگ شہرت طلبی اور ناموری کے لیے لاکھوں اور کروڑوں کی قربانیاں کرتے ہیں اور بعض حضرات بخل سے کام لیتے ہوئے کوئی کمزور سا جانور ذبح کردیتے ہیں ایسے لوگوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ صرف ہمارے دل اور اعمال کو دیکھتا ہے اور ہماری صورتوں اور مال ودولت کو نہیں دیکھتا ،صحیح مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ’’ان اللہ لاینظر الی صورکم وأموالکم ولٰکن ینظر الیٰ قلوبکم وأعمالکم ‘‘(صحیح مسلم:۴۶۵۱)
*قربانی میں ذبح کیے جانے والے جانور:
قربانی کے لیے جس جانور کا انتخاب کیا جائے وہ گائے ،اونٹ،بھیڑ،بکری کی جنس سے ہونا چاہیے اللہ کا فرمان ہے ۔(ولکل أمۃ جعلنا منسکا لیذکروااسم اللہ علی ما رزقھم من بھیمۃ الأنعام)(الحج:۳۴)اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں ۔
آیت کریمہ میں( بھیمۃ الأنعام)سے مراد اونٹ،گائے،بھیڑاور بکری ہی ہیں اسی لیے امام نووی رحمہ اللہ نے تمام مسلمانوں کا اس پراجماع نقل کیا ہے کہ قربانی میں صرف یہی جانور ہی کفایت کرسکتے ہیں۔(شرح مسلم للنووی:۱۳؍۱۲۵)
ایک دوسری جگہ فرمایا: (ثمانیۃ أزواج۔۔)(أنعام:۱۴۳۔۱۴۴)آٹھ نر اور مادہ۔اس کی تفصیل انہی دونوں آیتوں میں مذکور ہے بھیڑ میں دوقسم ،بکری میں دو قسم،اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم۔صرف انہی جانوروں کی قربانی جائزاوردرست ہے ۔
*عید الأضحی یا حج کے موقع پر ذبح کیے جانے والے جانور:
مسلمانوں کو چاہیے کہ قربانی کے لیے ایسا جانور خریدیں جو صحت مند ،تندرست وتوانا اور عیوب ونقائص سے پاک ہو نبی کریم ﷺ نے ان عیوب کی نشاندہی فرمائی ہے جن میں سے کسی ایک عیب کی موجودگی جانور کو قربانی کے نااہل ٹھہرائے جانے کا سبب ہوگی۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’أربع لاتجوز فی الأضاحی :العوراء بین عورھا ،والمریضۃ بین مرضھا ،والعرجاء بین ظلعھا ،والکسیر التی لاتنقی۔‘‘چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں ،کانا جس کا کانا ہونا بالکل صاف طور پر ظاہر ہو ،ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو ،ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن نمایاں ہواور ایسا بوڑھا کہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہاہو۔ (سنن ترمذی:۱۵۳۰)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ أمرنا رسول اللہ ﷺ’’ أن نستشرف العین والأذن وأن لا نضحی بعوراء ،ولا مقابلۃ،ولا مدابرۃ،ولا شرقاء ،ولاخرقاء۔‘‘ہمیں رسول اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ ہم قربانی والے جانور کی آنکھوں اور کانوں کو اچھی طرح پڑتال کرلیا کریں اور وہ جانور ذبح نہ کریں جو کانا ہو یا جس کاکان آگے سے یا پیچھے سے کٹ کر لٹک گئے ہوں یا جس کے کان لمبائی میں کٹے ہوئے ہوں یا عرض میں یا جس کے کانوں میں سوراخ ہو۔(مسند أحمد:۱۲۷۴)
مذکورہ دونوں حدیثوں کی رو سے مندرجہ ذیل عیوب والے جانور وں کی قربانی کرنا درست نہیں۔(۱)کانا جس کا کانا ہونا صاف طور پر معلوم ہو ۔(۲)ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو ۔(۳)ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔(۴)ایسا بوڑھا جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو ۔(۵)جس کے کان آگے سے کٹ کر لٹک گئے ہوں۔(۶)جس کے کان پیچھے سے کٹ کر لٹک گئے ہوں ۔(۷)جس کے کان لمبائی میں کٹے ہوں ۔(۸)جس کے کان چوڑائی میں کٹے ہوں ۔(۹)جس کے کان میں سوراخ ہو۔اور(۱۰)جن جانوروں میں ان عیوب سے بڑا عیب ہوگا ان کی قربانی کرنا بھی درست نہیں ہے۔
*شرائط قربانی:
(۱)شرائط قربانی میں پہلی چیز اخلاص اور اتباع سنت ہے۔(۲)جانور احادیث میں مذکور عیوب ونقائص سے پاک ہو ۔(۳)نماز عید کے بعد ذبح کیا جائے کیونکہ نبی ﷺ نے نماز سے عید سے قبل قربانی کرنے سے منع کیا ہے فرمایا:’’من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا فلایذبح حتی ینصرف‘‘۔جس نے ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کیا وہ نماز عید سے واپس پلٹنے سے پہلے قربانی نہ کرے۔(صحیح بخاری :۵۵۶۳)۔(۴)دنبہ اور بھیڑ کے بچوں کے علاوہ دیگر جانور جیسے بکری اور گائے میں دودانت والا ہونا ضروری ہے استثناء صرف بھیڑ اور دنبہ کے بچوں کے ساتھ ہے دیگر جانوروں کے ساتھ نہیں ،حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’لاتذبحوا الا مسنۃ الا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضأن ۔‘‘دودانت والے کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی نہ کرو ،ہاں اگر دشواری پیش آجائے تودو دانت سے کم عمر کا دنبہ بھی ذبح کرلو۔(صحیح مسلم:۱۹۶۳)۔(۵)قربانی کے جانور قربانی کے ایام میں ذبح کیے جائیں ۔اور قربانی کے ایام چار دن ہیں ۔حدیث رسول ہے :’’وفی کل ایام التشریق ذبح ۔‘‘تشریق کے سب دنوں میں قربانی کرنا درست ہے۔(صحیح ابن حبان:۳۸۵۴)اور عید الأضحی کے بعد تشریق کے تین دن ہیں ۔
قربانی کے وقت کی ابتدا عید الأضحی کی نماز کے بعد سے ہوتی ہے اور اس وقت کا اختتام چوتھے دن کے غروب آفتاب کے ساتھ ہوتا ہے۔(۶)’’بسم اللہ واللہ اکبر‘‘ پڑھ کر ذبح کرنا ۔
نبی ﷺ نے دووچتکبرے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ذبح کرتے وقت بسم اللہ واللہ اکبر پڑھا ۔(صحیح بخاری:۵۵۵۸)۔(۷)جس کی طرف سے قربانی ہو ذبح کے وقت اس کانام لیا جائے۔(۸)جانور ذبح کرنے والا احسان کے ساتھ ذبح کرے۔یعنی اس کو ذبح کرنے سے پہلے چھری تیز کرلے۔
*اونٹ اور گائے میں اشتراک بھی جائزہے جبکہ ایک بکرا پورے گھر والوں کی طرف سے کفایت کرے گا ۔
بہت سی حدیثیں ایسی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پورے گھر والوں کی طرف سے ایک بکرا ذبح کردیا جائے تو کافی ہوگا ،انہیں میں سے ایک حدیث حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہیکہ ’’کان رسول اللہ ﷺ یضحی بالشاۃ الواحدۃ عن جمیع أھلہ ۔‘‘رسول اکرم ﷺ اپنے پورے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتے تھے۔ (صحیح بخاری:۷۲۱۰)لیکن اس کے برعکس نبی اکرم ﷺ کی سنت سے حج اور عید الأضحی کے لیے ذبح کیے جانے والے اونٹ اور گائے میں ایک سے زیادہ لوگوں کا شامل ہونا بھی ثابت ہے ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’نحرنا مع رسول اللہ ﷺ عام الحدیبیۃ البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ ۔‘‘ہم نے حدیبیہ کے سال سات سات آدمیوں کی جانب سے اونٹ اور گائے کو ذبح کیا۔(صحیح مسلم :۱۳۱۸)۔اور ترمذی کی روایت ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں :’’کنا مع رسول اللہ ﷺ فی سفر فحضر الأضحی ،فاشترکنا فی البقرۃ سبعۃ وفی البعیر عشرۃ۔‘‘ہم اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ قربانی کا جانور آیا تو گائے میں سات لوگ شریک ہوئے اور اونٹ میں دس۔(جامع ترمذی:۱۵۳۷)۔
مذکورہ بالاحدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ گائے میں سات اور اونٹ میں دس افراد شریک ہوسکتے ہیں جبکہ بھیڑ ،بکری وغیرہ میں
سے ایک پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔
*قربانی کے گوشت کا استعمال:
قربانی کے گوشت کا کھانا ،کھلانا ،غریبوں وغیرہ کو دینا اور جمع کرکے رکھنا ساری صورتیں جائز اور درست ہیں قرآن وحدیث میں اس کے بے شمار دلائل موجود ہیں اللہ نے فرمایا:(فکلوا منھا وأطعموا البائس الفقیر) قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیر کوبھی کھلاؤ۔(حج:۲۸۰)۔اور دوسری جگہ سورۂ حج آیت نمبر۳۶میں (المعتر)کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں زائروں کو بھی کھلاؤ۔زائر میں مسلم اور غیر مسلم سب آتے ہیں۔اور حدیث کے اندرہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’کلوا ،وأطعموا، وادخروا‘‘کھاؤ،کھلاؤ اور ذخیرہ کرو۔(صحیح بخاری:۵۵۶۹)۔مذکورہ بالا آیت کو سامنے رکھ کر بعض لوگ کہتے ہیں کہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں برابر برابر تقسیم کرنا چاہیے یا آدھا کھائے آدھا دوسروں کو کھلائے لیکن یہ بات صحیح اور درست نہیں ہے۔گوشت کی تقسیم میں اس قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔اس بات کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت کو کھانے سے روکھا تھا اب تم جتنا چاہو اس میں سے اپنے لیے ذخیرہ کرو یعنی کھانے کے لیے روک رکھو۔(صحیح مسلم:۱۹۷۷ )اور ترمذی میں ہے۔ ’’فکلوا منھا مابدالکم وأطعموا وادخروا۔‘‘جتنا چاہو خود کھاؤ ،کھلاؤ اور ذخیرہ کرو۔(۱۵۴۶)۔
اس حدیث سے واضح طور پر یہ بات معلوم ہوجاتی ہے ایک تہائی تقسیم کرنے یا نصف کھانے کی کوئی پابندی نہیں ۔اس میں اس بات کی بھی دلیل موجود ہے کہ کھانے والے گوشت کی مقدار متعین نہیں ،قربانی کرنے والا جتنا چاہے اس میں سے کھائے خواہ وہ مقدار زیادہ ہی کیوں نہ ہو ،ہاں اس بات کا خیال رہے کہ کھلانے والی بات ختم نہ ہونے پائے۔
*کیاقصاب کو قربانی میں سے بطور اجرت کچھ دیا جاسکتا ہے؟
- قصاب کو بطور اجرت قربانی میں سے کچھ دینا جائز نہیں ہے حضرت علی رضی اللہ عنی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ آپ کے قربانی کے اونٹوں کو ذبح کرنے اور ان کے گوشت کو تقسیم کرنے کی نگرانی کریں اور ان کے گوشت ،کھالوں اور اوجھ سب تقسیم کردیں اور ذبح وغیرہ کرنے کے عوض میں قصاب کو اس میں سے کچھ بھی نہ دیں۔
ہاں قصاب کو پوری اجرت دینے کے بعد اگر اس کی غریبی کے پیش نظر دیگر مسکینوں کی طرح قربانی کے جانور میں سے کچھ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ الہ العالمین ہمیں قربانی کی فضیلت واہمیت کوسمجھنے اور عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین