- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
مام ترمذی نے اپنی سنن میں باب منعقد کیا ہے :
بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الشَّاةَ الوَاحِدَةَ تُجْزِي عَنْ أَهْلِ البَيْتِ (ایک بکری کی قربانی ایک گھر کے تمام افراد کی طرف سے کافی ہو جاتی ہے )
( عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ: كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ مَدِينِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشٍ
ترجمہ :عطا بن یسار کہتے ہیں ،میں نے جناب ابو ایوب انصاری سے پوچھا ،کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں قربانیاں کس طرح کرتے تھے ،انہوں نے بتایا کہ :ہر آدمی ایک بکری اپنی اور اپنے سارے گھر والوں کی طرف قربان کرتا تھا ،اور سب اسی کو خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے ؛لیکن بعد میں لوگوں نے فخر ونمود کا مظارہ سروع کردیا ،اور اب جو صورت ہے وہ تم دیکھ رہے ہو ؛
امام ترمذی کہتے ہیں :یہ حدیث حسن صحیح ہے ،اورجناب امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راھویہ اور دیگر کئی اہل علم کا یہی قول ہے ؛
جناب امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی یہی روایت درج فرمائی ہے :
قَالَ: كُنَّا « نُضَحِّي بِالشَّاةِ الْوَاحِدَةِ يَذْبَحُهَا الرَّجُلُ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، ثُمَّ تَبَاهَى النَّاسُ بَعْدُ فَصَارَتْ مُبَاهَاةً )
مجلہ ۔محدث۔کا اقتباس
حدیث ابو ایوب انصاری کی ہے کہ:
«كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّيْ بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَھْلِ بَيْتِه »
کہ ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے بکری قربانی کرتا۔
ان روايات كے ذكر كرنےسے مطلب یہ ہے کہ طحاویؒ نے حنفیت کی حمایت کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے کہ ''یہ نبی ﷺ کا خاصا تھا یا منسوخ ہو گیا ہے۔'' کسی طرح بھی صحیح نہیں کیونکہ نبی ﷺ کے سوا اور صحابہؓ نے بھی ایسا کیا اور ابو ایوب انصاری کی روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیر تک ایسا ہی ہوتا رہا کہ ایک شخص اپنے گھر والوں کی طرف سے اور اپنی طرف سے ایک قربانی کرتا حَتّٰي تَبَاھَي النَّاسُ پھر ایک یہ وقت آیا کہ لوگوں نے اس میں فخر شروع کر دیا اور جب اور صحابہ سے بھی ثابت ہے اور آپ کے بعد بھی لوگ اس پر عمل کرتے رہے، پھر یہ کہنا کہ یہ خاصہ نبی کریم ﷺ کا ہے یا یہ منسوخ ہو چکا ہے کیونکر صحیح ہو سکتا ہے لیکن طحاویؒ بھی مجبور بلکہ معذور ہیں کیونکہ تقلید کی وجہ سے حمایتِ مذہب کی جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں ان کے ہوتے ہوئے وہ یہی کر سکتے ہیں اور اس قسم کے مریضِ عشق کی تڑپ اور بے قراری کا مظاہرہ ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ پس کتنی ہی حدیثیں ہیں جن کو خاصہ نبی کریم کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے اور کتنی ہی حدیثیں ہیں جن کو خاصۂ نبی کہہ کر اپنے آپ کو بچا لیا جاتا ہے اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ پُر لطف وہی جگہ ہوتی ہے جہاں حدیث کے متعلق کہا جاتا ہے کہ منسوخ ہے، یہ بے چارگی اور سراسیمگی کا فی الحقیقت نہایت قابلِ رحم منظر ہوتا ہے۔ بہرحال اس مسئلہ میں صحیح اور مطابقِ حدیث نبوی اور تعاملِ صحابہ کے یہی ہے کہ ایک بکری کی قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہے سو وہ چاہے کتنے ہی ہوں۔
http://magazine.mohaddis.com/shumara/146-feb-1972/1985-qurbani-ahkam-masael
بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الشَّاةَ الوَاحِدَةَ تُجْزِي عَنْ أَهْلِ البَيْتِ (ایک بکری کی قربانی ایک گھر کے تمام افراد کی طرف سے کافی ہو جاتی ہے )
( عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ: كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ مَدِينِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشٍ
ترجمہ :عطا بن یسار کہتے ہیں ،میں نے جناب ابو ایوب انصاری سے پوچھا ،کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں قربانیاں کس طرح کرتے تھے ،انہوں نے بتایا کہ :ہر آدمی ایک بکری اپنی اور اپنے سارے گھر والوں کی طرف قربان کرتا تھا ،اور سب اسی کو خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے ؛لیکن بعد میں لوگوں نے فخر ونمود کا مظارہ سروع کردیا ،اور اب جو صورت ہے وہ تم دیکھ رہے ہو ؛
امام ترمذی کہتے ہیں :یہ حدیث حسن صحیح ہے ،اورجناب امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راھویہ اور دیگر کئی اہل علم کا یہی قول ہے ؛
جناب امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی یہی روایت درج فرمائی ہے :
قَالَ: كُنَّا « نُضَحِّي بِالشَّاةِ الْوَاحِدَةِ يَذْبَحُهَا الرَّجُلُ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، ثُمَّ تَبَاهَى النَّاسُ بَعْدُ فَصَارَتْ مُبَاهَاةً )
مجلہ ۔محدث۔کا اقتباس
حدیث ابو ایوب انصاری کی ہے کہ:
«كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّيْ بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَھْلِ بَيْتِه »
کہ ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے بکری قربانی کرتا۔
ان روايات كے ذكر كرنےسے مطلب یہ ہے کہ طحاویؒ نے حنفیت کی حمایت کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے کہ ''یہ نبی ﷺ کا خاصا تھا یا منسوخ ہو گیا ہے۔'' کسی طرح بھی صحیح نہیں کیونکہ نبی ﷺ کے سوا اور صحابہؓ نے بھی ایسا کیا اور ابو ایوب انصاری کی روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیر تک ایسا ہی ہوتا رہا کہ ایک شخص اپنے گھر والوں کی طرف سے اور اپنی طرف سے ایک قربانی کرتا حَتّٰي تَبَاھَي النَّاسُ پھر ایک یہ وقت آیا کہ لوگوں نے اس میں فخر شروع کر دیا اور جب اور صحابہ سے بھی ثابت ہے اور آپ کے بعد بھی لوگ اس پر عمل کرتے رہے، پھر یہ کہنا کہ یہ خاصہ نبی کریم ﷺ کا ہے یا یہ منسوخ ہو چکا ہے کیونکر صحیح ہو سکتا ہے لیکن طحاویؒ بھی مجبور بلکہ معذور ہیں کیونکہ تقلید کی وجہ سے حمایتِ مذہب کی جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں ان کے ہوتے ہوئے وہ یہی کر سکتے ہیں اور اس قسم کے مریضِ عشق کی تڑپ اور بے قراری کا مظاہرہ ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ پس کتنی ہی حدیثیں ہیں جن کو خاصہ نبی کریم کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے اور کتنی ہی حدیثیں ہیں جن کو خاصۂ نبی کہہ کر اپنے آپ کو بچا لیا جاتا ہے اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ پُر لطف وہی جگہ ہوتی ہے جہاں حدیث کے متعلق کہا جاتا ہے کہ منسوخ ہے، یہ بے چارگی اور سراسیمگی کا فی الحقیقت نہایت قابلِ رحم منظر ہوتا ہے۔ بہرحال اس مسئلہ میں صحیح اور مطابقِ حدیث نبوی اور تعاملِ صحابہ کے یہی ہے کہ ایک بکری کی قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہے سو وہ چاہے کتنے ہی ہوں۔
http://magazine.mohaddis.com/shumara/146-feb-1972/1985-qurbani-ahkam-masael