• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی کرنے اور نہ کرنے والے کیلئے بال اور ناخن کاٹنے اور نہ کاٹنے کا حکم؟

شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
302
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79


قربانی کرنے اور نہ کرنے والے کیلئے
بال اور ناخن کاٹنے اور نہ کاٹنے کا حکم؟

~~~~~~~~~~~~؛
~~~~~~~~~~~~؛

الف

1 ؛
قربانی کا ارادہ رکھنے والے کو نبی اکرم صلی اللہ وسلم نے حکم دیا کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک اپنے بال کاٹے نہ ناخن تراشے

صحیح مسلم ،/١٦٠، ح ، ١٩٧٧ ک

2 ؛
سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے (مدینہ میں ) قربانی کرنے کے بعد سر کے بال منڈوائے ،فرمایا؛ یہ واجب نہیں

موطّأ امام مالک ، ٢ /٤٨٣ ، وسندہ، صحیحٌ

3 ؛
سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے ایام ذی الحجہ میں ایک عورت کواپنے بچے کے بال کاٹتے دیکھ کر فرمایا

''اگر قربانی والے دن تک موخر کر دیتی تو بہتر تھا ''

المستدرک علی الصّحیحین للحاکم ، ٤/٢٤٦ ،ح ، ٧٥٢٠, وسندہ، حسنٌ

4 ؛
قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والا ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے پہلے جسم کے فاضل بال (زیر ناف )، سر کے بال اور مونچھیں کاٹ لے، ناخن تراشے ،پھر قربانی تک اس سے پرہیز کرے ، تو اسے قربانی کا پورا اجروثواب ملے گا

مسند أحمد ، ٢/١٦٩، سنن أبي داؤد ، ٢٧٨٩، سنن النّسائي ، ٤٣٦٥، وسندہ، حسنٌ)
اسے امام ابنِ حبان (٥٩١٤)، امام حاکم (٤/٢٢٣)، اور حافظ ذہبی نے ''صحیح '' کہا ہے

ماخوذ
قربانی کے احکام و مسائل، صفحہ 19،
از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

~~~~~~~~~~~~؛
~~~~~~~~~~~~؛

ب

عشرۂ ذی الحجہ میں بال اور ناخن ترشوانے کا حکم

سوال
ہمارے یہاں یہ مشہور ہے کہ بقر عید کا چاند نظر آنے کے وقت سے قربانی تک اگر وہ لوگ جن کے یہاں قربانی نہیں ہو رہی ہے، اپنے بال اور ناخن نہ ترشوائیں تو انھیں قربانی کا ثواب ملے گا، جب کہ بعض علماء کی تقریروں میں ہم نے سنا ہے کہ یہ حکم ان کے لئے ہے جن کے یہاں قربانی ہونے والی ہے، براہ کرم دلائل سے صحیح بات کی وضاحت فرمائیں

~~~؛

جواب
جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، ان کے لئے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک بال اور ناخن تراشنے کی ممانعت ہے

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

”إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّىَ فَلاَ يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا“ رواه مسلم، ح ن (
1) ت

یعنی جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ داخل ہو، اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو اپنے بال اور کھال میں سے کسی کو ہاتھ نہ لگائے

ایک روایت میں ہے
”فَلاَ يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلاَ يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا“، ح ن (
2) ت

تو وہ نہ بال کاٹے نہ ناخن تراشے

اور ایک روایت میں ہے

”إِذَا رَأَيْتُمْ هِلاَلَ ذِى الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّىَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ“

رواه مسلم، ح ن (
3) ت، والنسائي، ح ن (
4) ت، وغيرهما، مشكاة مع المرعاة، 5/ 86

یعنی جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے

اس حدیث کی بناء پر امام احمد، اسحاق، سعید بن المسیب، ربیعہ، اور بعض شافعیہ و حنابلہ وغیرہ اس بات کی جانب گئے ہیں کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو اس کے لئے ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں اپنے ناخن اور بال کاٹنا اور کٹوانا جائز نہیں، کیونکہ بظاہر نہی تحریم کے لئے ہے، یہی فتویٰ علماء اہل حدیث کا بھی ہے ، ح ن (
5) ت

بعض ائمہ نے یہاں نہی کو تنزیہی مانا ہے، اور اس کی بنیاد پر اس عشرہ میں بال کاٹنے کو صرف مکروہ قرار دیا ہے، مگر راجح پہلا قول ہی معلوم ہوتا ہے

البتہ اگر کسی نے ناخن اور بال کٹوا لئے تو اس کے اوپر کوئی کفارہ نہیں ہے، اس کے لئے صرف توبہ واستغفار کرنا ہی کافی ہے

علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں

”فَإِنَّهُ يَتْرُكُ قَطْعَ الشَّعْرِ وَتَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ، فَإِنْ فَعَلَ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ تَعَالَى، وَلَا فِدْيَةَ فِيهِ إجْمَاعًا، سَوَاءٌ فَعَلَهُ عَمْدًا أَوْ نِسْيَانًا“ ، ح ن (
6) ت

قربانی کا ارادہ رکھنے والا بال او ر ناخن تراشنا ترک کردے گا اور اگر اس نے تراش لیا تو اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے گا اور بالاجماع اس پر فدیہ نہیں ہے، خواہ اس نے ایسا عمدا کیا ہو یا بھول چوک کر

اور جو قربانی کا ارادہ نہیں رکھتا اس کے لئے اس عشرہ میں ناخن اور بال تراشنے سے ممانعت کے بارے میں میری نگاہ سے کوئی صریح حدیث نہیں گذری، البتہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا

"أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَ الرَّجُلُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ، لَا وَلَكِنْ خُذْ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ مِنْ شَارِبِكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ"

رواه ابوداود ، ح ن (
7) ت، والنسائي ، ح ن (
8) ت، والحاكم ، ح ن (
9) ت، وصححه، ووافقه الذهبي، وضعفه الألباني، انظر المشکاة مع تعليق الألباني،1/ 466 [1479] والمشكاة مع المرعاة، 1/ 466 ک

مجھے قربانی کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے اس امت کے لئے اسے عید قرار دیا ہے، اس پر آپﷺ سے ایک شخص نے عرض کیا، اگر میرے پاس دودھ کے لئے عاریۃً دی گئی بکری کے سوا کوئی جانور نہ ہو تو کیامیں اسی بکری کی قربانی کردوں؟ آپ نے فرمایا، نہیں! لیکن (قربانی کے دن) اپنے بال اور ناخن تراش لو، اپنے مونچھ کے بال کاٹ لو اور زیر ناف بال کا حلق کرلو، یہ اللہ کے نزدیک تمہاری مکمل قربانی ہو جائے گی

اس حدیث کی بناء پر بعض علماء نے اس شخص کے لئے بھی جس کے پاس قربانی کی استطاعت نہ ہو، اس عشرہ میں ناخن اور بال تراشوانے سے اجتناب کرنے کو کہا ہے، لیکن جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں اس حدیث میں ناخن اور بال تراشنے کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ اس کے لئے قربانی کے دن سر، مونچھ، اور زیر ناف بال اور ناخن کے کاٹنے کی فضیلت اور قربانی کے برابر اجر وثواب کا بیان ہے، اسی بنا پر امام نسائی وغیرہ نے اسے ”باب مَنْ لَمْ يَجِدِ الأُضْحِيَةَ“ کے تحت ذکر کیا ہے

اس واسطے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس کے پاس قربانی کرنے کی استطاعت نہ ہو، اگر وہ اس عشرہ میں ناخن اور بال مختصراً تراش لے، اور پھر دس تاریخ کوبھی تراش لے تو وہ اس اجر سے محروم اور کسی ممنوع چیز کا مرتکب نہیں ہوگا

یاد رہے کہ اس حدیث کی تصحیح و تضعیف کے بارے میں اختلاف ہے، مگر راجح یہ ہے کہ یہ ضعیف ہے اس واسطے غیر مستطیع کے لئے یوم النحر کو بال اور ناخن ترشوانے پر قربانی کے ثواب کی بات محل نظر ہے

واللہ اعلم

________

حوالہ نمبر تخریج

ح ن (1) ت
صحيح مسلم،6/83 [5232] كتاب الأضاحي، باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شعره أو أظفاره شيئا

ح ن (2) ت
المصدر السابق

ح ن (3) ت
صحيح مسلم،13/ 138[1977] كتاب الأضاحي،باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شهره أو أظفاره شيئا

ح ن (4) ت
سنن النسائي،7/211 [4361] كتاب الضحايا

ح ن (5) ت
انظر المرعاة،5/ 87، التعليقات السلفية، 2/ 194 ک

ح ن (6) ت
المغني، 8/ 619 [7853] ک

ح ن (7) ت
سنن أبي داود،3/ 93 [2789] كتاب الضحايا، باب ما جاء في إيجاب الأضاحي، وقال الألباني، ضعيف

ح ن (8) ت
سنن النسائي،7/ 212 [4365] كتاب الضحايا، باب من لم يجد الأضحية

ح ن (9) ت
مستدرك الحاكم،4/223 [7529] كتاب الأضاحي

نعمة المنان مجموع فتاوى فضيلة الدكتور فضل الرحمن المدنی، جلد ششم، صفحہ 34 - 37 ک

~~~~؛

دکتور فضل الرحمن المدنی ٹیلیگرام چینل
علمی٬ عقدی٬ تربوی٬ دعوی، اصلاحی

https://telegram.me/dr_fazlurrahman_almadni

~~~~~~~~~~~~؛
~~~~~~~~~~~~؛

http://salafitehqiqimaqalat.blogspot.com/2020/07/blog-post_21.html

 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
302
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.

قربانی کرنے والے کے اہل وعیال عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بال اورناخن وغیرہ کاٹ سکتے ہیں

https://telegram.me/salafitehqiqikutub/3766

سوال
جب مرد نے قربانی کرنی ہوتوکیا اس کی بیوی اوربچوں کے لیے ذی الحجۃ کا چاند نظر آنے کےبعد اپنےبال اورناخن وغیرہ کاٹنے جائز ہیں ؟


جواب

الحمد للہ

جی ہاں ایسا کرنا جائز ہے ، اورسوال نمبر ( 36567 ) کے جواب میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ قربانی کرنے والے شخص کےلیے اپنے بال اورناخن یا جسم کے کسی بھی حصہ سےکچھ کاٹنا حرام ہے ، اوریہ حکم صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے جس نے قربانی کرنی ہو، آپ اس کی تفصیل وہاں دیکھ سکتے ہیں۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

اورقربانی کرنے والے کے اہل وعیال پرکچھ نہیں ، اورعلماء کرام کے صحیح قول کے مطابق انہیں بال اورناخن کاٹنے سے منع نہيں کیا جائيگا ، بلکہ یہ حکم توصرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے جس نے اپنے مال میں سے قربانی خریدی ہے ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 2 / 316 ) ۔

اوراللجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) کے فتوی میں ہے کہ :

جوشخص قربانی کرنا چاہے اس کے حق میں یہ مشروع ہے کہ وہ ذی الحجۃ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بال اورناخن اپنے جسم کےکسی بھی حصہ سے کوئي بھی چيز نہ لے ، اس کی دلیل امام بخاری کے علاوہ محدثین کی ایک جماعت کی روایت کردہ مندرجہ ذیل حدیث ہے :

ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اورتم میں سے کوئي ایک قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوتووہ اپنے بالوں اورناخن ( کے کاٹنے ) سے رک جائے ) ۔

اورابوداود اورمسلم کے الفاظ یہ ہیں :

( جس کے پاس ذبح کرنے کے لیے کوئي قربانی ہو توجب ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے تووہ قربانی ذبح کرنے تک وہ اپنے بال اورناخن نہ کاٹے )

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2791 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1977 )

چاہے وہ قربانی خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے یا پھر اسے ذبح کرنے میں کسی اورکووکیل بنائے ، لیکن جس کی جانب سے ذبح کی جارہی ہے اس کےحق میں مشروع نہيں ، کیونکہ اس میں کوئي چيز وارد نہيں ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 11 / 397 ) ۔

اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " الشرح الممتع میں کہتےہیں :

جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہے اس کےلیے ( بال وغیرہ ) کاٹنے میں کوئي حرج نہيں ، اس کی دلیل مندرجہ ذيل ہے :

1 - حدیث کا ظاہر یہی ہے کہ یہ حرمت صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے ، تواس بنا پرتحریم گھر کے سربراہ کے ساتھ مختص ہوگی ، لیکن اہل وعیال پریہ حرام نہيں ہوگا ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم قربانی کرنے والے کےساتھ معلق کیا ہے ، لھذا اس کا مفھوم یہ ہوا کہ جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہے اس کےلیے یہ حکم ثابت نہيں ہوتا ۔

2 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے لیکن ان سے یہ یہ منقول نہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر والوں کوبھی یہ فرمایا ہو ، تم اپنے بال اورناخن اورجسم کےکسی بھی حصہ سے کچھ بھی نہ کاٹو ، اگران پریہ حرام ہوتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم انہيں اس سے منع کرتے ، اور راجح قول یہی ہے ۔ اھـ

دیکھیں : الشرح الممتع لابن عثیمین رحمہ اللہ ( 7 / 530 )

واللہ اعلم .

محمد صالح المنجد

https://telegram.me/salafitehqiqikutub/3766

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
302
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.

قربانی کرنے والا کس چيز سے اجتناب کرے

https://telegram.me/salafitehqiqikutub/3767


سوال 36567
کیا قربانی کرنے کا ارادہ رکھنےوالے کے لیے بال اورناخن کاٹنے جائز ہيں ؟


جواب

الحمد للہ

شیخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب کوئي شخص قربانی کرنا چاہے اورچاندنظرآنے یا ذی القعدہ کے تیس دن پورے ہونے کی بنا پرذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے توقربانی ذبح کرنے تک اس کے لیے اپنے بال اورناخن یا جلد وغیرہ سے کچھ کاٹنا حرام ہے ۔

اس کی دلیل مندجہ ذیل حدیث ہے ۔

ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو ۔

اورایک روایت کے الفاظ ہيں :

جب عشرہ ( ذی الحجہ ) شروع ہوجائے اورتم میں سے کوئي قربانی کرنا چاہے تووہ اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے ) مسند احمد اورصحیح مسلم ۔

اورایک روایت کے الفاظ ہيں :

توقربانی کرنے تک اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے ۔

اورایک روایت کے الفاظ ہيں :

تووہ اپنے بال اورجلد میں سے کچھ بھی نہ لے ۔

اورجب کوئي شخص عشرہ ذی الحجہ کے دوران قربانی کرنے کی نیت کرے تواسے اپنی نیت کے وقت سے ہی بال اورناخن کٹوانے سے رک جانا چاہیے ، اوراس نے قربانی کرنے کی نیت سے قبل جوکچھ کاٹا ہے اس کا کوئي گناہ نہيں ہوگا ۔

اس ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ جب قربانی کرنے والا شخص قربانی کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کےلیے حاجی کے بعض اعمال میں شریک ہوا تو بال اورناخن وغیرہ نہ کٹوانے سے رکنے کے ساتھ احرام کے بعض خصائص میں بھی شریک ہوگيا ۔

اوریہ حکم یعنی بال اورناخن وغیرہ نہ کٹوانے کا حکم صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ ہی خاص ہے ، اورجس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہے وہ اس سے تعلق نہيں رکھتا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( اورتم میں سے کوئي قربانی کرنے کاارادہ کرے تو )

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ : یا جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہو ، اوراس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول نہيں کہ آپ نےانہيں بال وغیرہ کٹوانے سےمنع فرمایا ہو ۔

تواس بنا پرقربانی کرنے والے کے اہل وعیال کے لیے عشرہ ذی الحجہ میں بال ، ناخن وغیرہ کٹوانے جائز ہیں ۔

اورجب قربانی کرنے کا اراہ رکھنے والا عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بال ، ناخن یا اپنی جلد سے کچھ کاٹ لے تواسے اللہ تعالی کے ہاں توبہ کرنی چاہیے اورآئندہ وہ ایسا کام نہ کرے ، اوراس پرکوئي کفارہ نہيں ہوگا اورنہ ہی یہ اس کے لیے قربانی کرنے میں مانع ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس سے قربانی میں ممانعت پیدا ہوجاتی ہے ۔

اوراگرکسی شخص نے بھول کریا جہالت میں بال وغیرہ کٹوا لیے یا اس کے بال بغیر قصد وارادہ کے گر گئے تواس پرکوئي گناہ نہیں ، اوراگراسے اتارنے کی ضرورت پیش آجائے تواسے کاٹنے میں کوئي گناہ اورحرج نہيں ہوگا مثلا کسی کا ناخن ٹوٹ جائے اوراسے ٹوٹا ہواناخن تکلیف دیتا ہوتواس کےلیے کاٹنا جائز ہے ، اوراسی طرح اگر اس کے بال آنکھوں میں پڑنے لگیں تواس کے لیے اسےزائل کردے ، یااسے کسی زخم کے علاج کے لیے بال کٹوانے کی ضرورت ہوتواس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ۔ .

ماخذ: دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 2 / 316 ) ۔

محمد صالح المنجد

https://telegram.me/salafitehqiqikutub/3767

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
302
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
کیا گھر کے تمام افراد بال اور ناخن نہ کاٹے

~~~؛

کیا اس حکم میں گھر کے تمام افراد شامل ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ عشرہ ذوالحجہ میں بال کاٹنے اور ناخن تراشنے سےصرف وہ شخص اجتناب کرےگا جو قربانی کا منتظم اور سرپرست ہے۔ باقی اہل خانہ جن کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے یا گھر کے دیگر افراد جو قربانی میں شامل ہیں وہ اس ممانعت میں شامل نہیں کیونکہ احادیث میں قربانی کا ارادہ رکھنے اور قربانی کرنے والے شخص کےلئے ہی بال اور ناخن زائل کرنے کی ممانعت ہے باقی افراد اس حکم میں شامل نہیں۔جیسے سعودی افتاء کونسل کا فتوی ہے کہ یہ حدیث جس میں بال اور ناخن کاٹنے کی ممانعت ہے صرف اس شخص کے ساتھ خاص ہے جو قربانی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ لوگ جن کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ، انہیں بال کاٹنے ، مونڈنے اور ناخن تراشنے کی ممانعت نہیں کیونکہ اصل جواز ہے اور ہمیں اس جواز کے خلاف کوئی دلیل معلوم نہیں۔
( فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء:13؍500 )

محدث لاہور اکتوبر 2011ء
عشرہ ذوالحجہ کے فضائل و مسائل
محقق شیخ الحدیث مولانا فاروق رفیع
جامعہ اسلامیہ لاہور

https://telegram.me/salafitehqiqikutub/3765

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
302
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
بال اور ناخن قطع کرنے والے پر کوئی فدیہ ہوگا؟

قربانی کا ارادہ کرنے والا شخص اگر عشرہ ذوالحجہ میں بال یا ناخن قطع کروائے تو وہ گناہ کا مرتکب ہو گا اس لئے اس حرام عمل سے اجتناب ضروری ہے اور بدعملی کی صورت میں استغفار کرنا چاہئےالبتہ اس پر کوئی فدیہ یا جرمانہ لاگو نہیں ہوگا۔ابن قدامہ حنبلی کہتے ہیں:

إذا ثبت هذا فإنه يترك قطع الشعر وتقليم الأظفار فإن فعل استغفرالله تعالى ولافدية فيه إجماعا سواء فعله عمدا أو ناسيا ( المغنی لابن قدامہ مع الشرح الکبیر:11؍97 )

جب ( عشره ذوالحجہ میں بال اور ناخن زائل کرنے کی حرمت ) ثابت ہوچکی تو قربانی کرنے والے کو بال قطع کرنے اور ناخن تراشنے سےباز رہنا چاہئے پھر اگر وہ اس گناہ کا مرتکب ہو تو اسے اللہ تعالی سے استغفار کرنا چاہئے۔نیز اس گناہ کے ارتکاب پر بالاجماع کوئی فدیہ نہیں۔خواہ اس نے یہ کام قصداً کیا ہو یا بھول کر۔

محدث لاہور اکتوبر 2011ء
عشرہ ذوالحجہ کے فضائل و مسائل
محقق شیخ الحدیث مولانا فاروق رفیع
جامعہ اسلامیہ لاہور

https://telegram.me/salafitehqiqikutub/3764

.
 
Top