ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 509
- ری ایکشن اسکور
- 167
- پوائنٹ
- 77
قربانی کی تعریف اور اس کی مشروعیت
━════﷽════━
✺ قربانی کی لغوی تعریف:
قربانی کو عربی زبان میں ’’أضحیۃ‘‘ کہتے ہیں، جس کی جمع ’’أضاحی‘‘ آتی ہے، اور’’أضحیۃ‘‘ لغت میں عید الأضحی کے دن ذبح کئے جانے والے جانور کو کہا جاتا ہے۔
[دیکھئے: معجم مقاييس اللغۃ: ۳؍۳۹۱، أنیس الفقھاء: ۱۰۳]
✺ اصطلاحی تعریف:
اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے یوم الأضحی سے ایام تشریق (۱۳ذوالحجہ ) تک‘ بہیمۃ الأنعام (اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ ) میں سے کسی جانور کو مخصوص شرائط کے ساتھ ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔
[دیکھئے: مغنی المحتاج: ٤؍ ۲۸۲، الدرر المختار: ٦؍۳۱۲ وغیرہ]
✺ قربانی کی مشروعیت:
قربانی کی مشروعیت سن ۲؍ ھجری میں ہوئی، اس کی مشروعیت پر کئی اہم علم نے مسلمانوں کا اجماع نقل فرمایا ہے اور اسے دینِ اسلام کا ایک عظیم شعار قرار دیا ہے۔
[دیکھئے: المغنی لابن قدامہ: ۹؍ ٤۳۵، إحکام الأحکام لابن دقیق: ٤۸۲، فتح الباري لابن حجر: ۱۰؍ ۳، أضواء البیان للشنقیطی: ۵؍ ۱۹۸]
❍ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
’’قربانی اسلام کے عظیم ترین شعائر میں سے ہے، قربانی کی یہ سنت تمام علاقوں میں عام ہے، اور اس کا ذکر قرآن کریم میں نماز جیسی عظیم عبادت کے ساتھ ہوا ہے‘‘۔
[دیکھئے: الفتاویٰ:۲۳؍ ۱٦۲]
✺ مشروعیتِ قربانی کی دلیل:
ارشادی باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ﴾ [الحج: ۳٦]
اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے شعار اللہ مقرر کردیا ہے، ان میں تمہارے لئے نفع ہے، پس انہیں کھڑا کرکے ان پر اللہ کا نام لو۔
نیز ارشاد ہے: ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وانْحَرْ﴾ [الکوثر: ۲]
پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
❍ عکرمہ، عطاء اور قتادہ رحمھم اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ: ’’نمازِ عید الأضحی پڑھو اور قربانی کا جانور ذبح کرو‘‘۔
[دیکھئے: تفسیر الطبری، تفسیر البغوی وغیرہ]
ذخیرۂ احادیث میں رسول اکرم ﷺ سے قربانی کی مشروعیت پر قولی وعملی کئی دلیلیں موجود ہیں۔
✺ مشروعیتِ قربانی کا منکر اور اس کا حکم:
❍ لجنہ دائمہ کا فتویٰ ہے کہ: ’’مشروعیت قربانی کا منکر شخص کافر ہے‘جبکہ وہ اسلامی ملک میں رہتا ہو، اور وہاں اس سنت پر عمل عام ہو، کیونکہ اِس صورت میں قربانی دین کے بدیہی امور میں سے شمار ہوگا جس کا علم ہر ایک کو ہوتا ہے‘‘۔
[دیکھئے: اللجنۃ الدائمۃ: رقم الفتوی: ۵۳۹٤]
•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•