• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی کے بعض اہم مسائل

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791

قربانى كے بعض اہم مسائل
حافظ عمران ایوب لاہوری​
قربانى كى روح

(محدث میگزین ،فروری 2004 )​

شریعت كے وہ چند مسائل جو ہمارى توجہ كسى نہ كسى تاريخى واقعہ كى طرف مبذول كرتے ہيں ان ميں سے ايك قربانى بهى ہے- ايسے مسائل سے مقصود محض انہيں مقررہ وقت پر كر لينا ہى كافى نہيں ہے بلكہ ان تاريخى واقعات پر گہرى نگاہ ڈالتے ہوئے اس جذبہ عبادت اور قربانى كى ناقابل فراموش كنہ وحقيقت كو سمجھ كر اپنانے كى كوشش كرنابهى ضرورى ہے جس كے باعث يہ مسائل ہمارى اسلامى روايات ميں جزوِلاينفك كى حيثيت اختيار كر گئے- جيسا كہ حاجيوں كے ليے صفا مروہ كى سعى كرنا محض ايك دوڑ نہيں ہے بلكہ يہ اس تاريخى واقعہ كى غماز ہے جس ميں ايك طرف ننها سا بچہ شدتِ پياس كے باعث زمين پر ايڑياں مارتا نظر آتا ہے اور دوسرى طرف حضرت ہاجِرَ عليها السلام پانى كى تلاش ميں صفا مروہ كى پہاڑيوں كے چكر لگا تى نظر آتى ہيں كہ جنہيں ابراہیم عليہ السلام اللہ تعالىٰ كے حكم پر اپنى تمام تر محبتيں قربان كر كے مكہ كى بے آب وگياہ زمين ميں تنہا چهوڑ گئے تهے- بعينہ قربانى كا مسئلہ بهى ہے یعنى عيد ِقربان كے دن جانور ذبح كرنا، كچھ گوشت تقسيم كردينا،كچھ كها لينا اور پهر خود كو شريعت كے ہر حكم سے آزاد تصور كرنا اور قربانى كے مقصد يا غرض وغايت پر سنجيدگى سے غوروفكر نہ كرنا، كسى طور كافى نہيں ہے بلكہ يہ بهى ضرورى ہے كہ جانور قربان كرنے كے ساتھ ساتھ ابراہیم علیہ السلام كى مثالى اطاعت وفرمانبردارى اور اثر آفريں عقیدت واِردات كو بهى پيش نظر ركها جائے كہ جس كى وجہ سے انہوں نے اللہ تعالى كے حكم پر اپنا كم سن خوبصورت بيٹا بهى قربان كرنے سے دريغ نہ كيا-

اگرچہ چهرى ذبح نہ كرسكى اور پهر حكم الٰہى كے مطابق مينڈها ذبح كر ديا گيا ليكن وہ اللہ تعالى سے كيسى محبت ہوگى اور اللہ تعالى كے ليے ہر چيز قربان كر دينے كا كيسا جذبہ ہوگا كہ جس كى بدولت وہ اس مشكل ترين عمل سے بهى پیچھے نہ ہٹے- پهر اللہ تعالى نے بهى اس محبت واطاعت كا صلہ يوں ديا كہ اس عمل كو تمام مسلمانوں كے ليے مسنون قرار دے كر قيامت تك كے ليے ابراہیم علیہ السلام كى سنت كو جارى وسارى كر ديا- لامحالہ ہم سے بهى اسلام صرف جانوروں كى قربانى نہيں چاہتا بلكہ اس جذبہ اطاعت اور خشيت ِالٰہى كو بهى اُجاگر كرنا چاہتا ہے جس كے ذريعے ہم اپنى ہر چيز بوقت ِضرورت اللہ تعالى كى خاطر قربان كردينے كے ليے تيار ہوجائيں - اور يقينا آج اسلام كو جانوروں كى قربانيوں سے كہيں زيادہ ہمارى محبوب ترين اشيا يعنى مال، اولاد اور جان كى قربانيوں كى ضرورت ہے- لہٰذا ہميں چاہيے كہ اس عمل كو محض ايك تہوار ورسم سمجهتے ہوئے تفاخر اور رياء ونمود كا ذريعہ ہى نہ بنا ڈاليں كہ جس كے باعث ہميں دنيا ميں تو اسلامى شعائروروايات اپنانے كا اعزاز مل جائے ليكن ہمارى عقبىٰ تباہ وبرباد ہو كر رہ جائے بلكہ ہميں چاہيے كہ اس عمل كے پيچهے چھپى اُس عظيم قربانى كو مدنظر ركهتے ہوئے اپنے ايمانوں كو اس قابل بنائيں جو ہميں دنياوى لہو ولعب اور مصنوعى عيش ونشاط سے نكال كر اپنى زندگى كا ہر لمحہ اور ہر گوشہ رضاے الٰہى كى خاطر قربان كر دينے كے ليے تيار كردے-

قربانى كا معنى ومفہوم اور وجہ تسميہ

لفظ قربانى 'قربان' سے مشتق ہے اور مصباح اللغات كى رو سے لغوى طورپر قُربان سے مراد
"ہر وہ چيز ہے جس سے اللہ كا تقرب حاصل كيا جائے چاہے ذبيحہ ہو يا كچھ اور" (ص668)

صاحب ِقاموس فرماتے ہيں كہ "قُربان'ضمہ 'كے ساتھ يہ ہے كہ جس كے ذريعے اللہ تعالىٰ كا قرب حاصل كيا جائے۔"
(القاموس المحيط:ص127)

صاحب المعجم الوسیط فرماتے ہيں كہ "قربان ہر وہ چيز ہے جس كے ذريعے اللہ تعالىٰ كا تقرب حاصل كيا جائے خواہ وہ ذبیحہ ہو يا اس كے علاوہ كچھ اور-"(المعجم الوسيط :ص723)

بعض علما نے كہا ہے كہ لفظ ِ قربانى قرب سے مشتق ہے چونكہ اس عمل كے ذريعے قربِ الٰہى حاصل كرنا مقصود ہوتا ہے، اسى ليے اسے قربانى كا نام ديا گياہے-

اصطلاحى اعتبار سے قربانى سے مراد

"اونٹ، گائے اوربهيڑ بكريوں وغيرہ ميں سے كوئى جانور عيد الاضحى كے دن يا ايامِ تشريق ميں اللہ تعالىٰ كا تقرب حاصل كرنے كے ليے قربان كرنا ہے-" (فقہ السنة ازسيد سابق :3/195)

قربانى كى مشروعيت

قربانى ابراہیم عليہ السلام اور محمدﷺ دونوں كى سنت ہے اور اللہ تعالىٰ نے قرآن ميں ان دونوں انبيا كى سنت اپنانے اور اتباع كرنے كى تلقين فرمائى ہے-(آلِ عمران:31)

علاوہ ازيں قربانى كى مشروعيت كے مزيد دلائل حسب ِذيل ہيں :

(1) ارشاد بارى تعالىٰ ہے كہ
﴿
فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانْحَرْ‌﴾ ( الكوثر:2)
"پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر-"

(2) حضرت انس فرماتے ہيں كہ

"نبى كريمﷺ دو مينڈهوں كى قربانى كرتے تهے اور ميں بهى دو مينڈهوں كى قربانى كرتا تها- " (بخارى :5553)

(3) حضرت ابو ہريرہ فرماتے ہيں كہ رسول اللہ ﷺنے فرمايا:

"جس كے پاس وسعت وطاقت ہو اور وہ قربانى نہ كرے تو وہ ہمارى عيد گاہ كے قريب بهى ہر گز نہ آئے-" (ابن ماجہ:3123)

(4) حضرت انس بن مالك روايت كرتے ہيں كہ رسول اللہ ﷺنے فرمايا :

"جس نے نماز سے پہلے (جانور) ذبح كرليا، وہ دوبارہ قربانى كرے-" (بخارى:5549)

(5) ايك روايت ميں ہے كہ نبىﷺ نے فرمايا :

"اے لوگو! بے شك ہر گهر والوں پر ہر سال قربانى (كرنا مشروع) ہے-" (ابن ماجہ :3125)

(2) امام ابن قدامہ فرماتے ہيں كہ

"مسلمانوں كا قربانى كى مشروعيت پر اجماع ہے-" (المغنى :ج13/ص360)

قربانى كا حكم

اگرچہ اس كے حكم ميں اختلاف ہے اور بعض علما نے صاحب ِاستطاعت شخص كے ليے اسے واجب بهى قرار ديا ہے ليكن راجح بات يہ ہے كہ قربانى سنت ِموكدہ ہے اور يہ موقف محض راقم ہى كا نہيں بلكہ درج ذيل كبار علما بهى يہى موقف ركهتے ہيں :

ابن عمر كا فتوى ہے:

هي سنة ومعروف
"يہ سنت ہے اور يہ امر مشہور ہے"
(بخارى :5545)

امام ترمذى كا فتوىٰ:

"اہل علم كے نزديك اسى پر عمل ہے كہ قربانى واجب نہيں ہے بلكہ رسول اللہ ﷺ كى سنتوں ميں سے ايك سنت ہے اور اسى پر عمل كرنا مستحب ہے اور امام سفيان ثورى اور امام ابن مبارك  بهى اسى كے قائل ہيں - "(سنن ترمذى :بعد الحديث ؛1506)

وہ صورتيں جن ميں قربانى واجب ہوجاتى ہے:
(1) اگر كوئى شخص نذر كے ذريعے اپنے اوپر قربانى واجب كرلے تو اس پر قربانى واجب ہو جائے گى جيسا كہ اللہ تعالىٰ نے قرآن ميں ايمان والوں كى صفات بيان كرتے ہوئے ذكر فرمايا ہے كہ ﴿
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ‌﴾ (الدهر : 7) "وہ نذر پورى كرتے ہيں -"

اور ايك حديث ميں ہے كہ"حضرت عائشہ سے روايت ہے كہ نبى ﷺ نے فرمايا

"جس نے اللہ تعالىٰ كى اطاعت و فرمانبردارى كى نذر مانى، وہ اس كى اطاعت كرے (يعنى اس نذر كو پورا كر لے)-" (بخارى :6696)

(2) كسى جانور كے متعلق اگر يہ نيت كر لى جائے كہ يہ اللہ كے ليے ہے يا يہ صرف قربانى كے ليے ہے تو پهر اسے اللہ كے ليے قربان كرنا ضرورى ہو جاتا ہے- كيونكہ اب وہ وقف ہو چكا ہے اور وقف چيز كا حكم يہ ہے كہ نہ تو اسے فروخت كيا جا سكتا ہے، نہ اسے ہبہ كيا جا سكتا ہے اور نہ ہى اسے وراثت ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے بلكہ اسے صرف اللہ تعالىٰ كے ليے ہى صرف كيا جائے گا جيسا كہ صحيح مسلم ميں ابن عمر كى حديث سے يہ بات ثابت ہے-(ديكهئے مسلم:4224)

(3) اگر كوئى شخص حالت ِاحرام ميں شكار كے جانوركو قتل كر بيٹها تو اس پر فديہ كے طور پر قربانى لازم ہو جائے گى- (ديكهئے المائدة :95)

(4) حج تمتع يا حج قران كرنے والوں كے ليے بهى قربانى كرنا واجب ہے-
مزيد تفصيل كے ليے ملاحظہ ہو: فقہ الحديث از راقم اورمناسكِ حج از البانى

جو قربانى كى طاقت نہيں ركهتا، وہ كيا كرے؟

جيسا كہ گذشتہ سطور ميں بيان كيا جا چكا ہے كہ قربانى سنت ِموكدہ ہے اور تقربِ الٰہى كا ذريعہ ہے- اس ليے جو قربانى كر سكتا ہے اسے ضرور قربانى كرنى چاہيے ليكن اگر كوئى اس كى طاقت ہى نہ ركهتا ہو تو يقينا اسے قربانى نہ كرنے سے كوئى گناہ نہيں ہو گا- كيونكہ يہ تو سنت ہے اور اگر انسان طاقت نہ ہونے كى وجہ سے فرض زكوٰة بهى ادا نہ كرے يا فرض حج بهى نہ كرے تب بهى اس پر بالاتفاق كوئى گناہ نہيں - ہاں ايسا شخص اگر قربانى كا اجر حاصل كرنا چاہتا ہے تو اسے چاہيے كہ ذوالحجہ كا چاند طلوع ہونے كے بعد اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے، بلكہ عيد كے روز تك انہيں موٴخر كر دے- جيسا كہ ايك حديث ميں ہے كہ حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص سے روايت ہے كہ نبىﷺ نے فرمايا:

" مجهے يوم الاضحى كو عيد كا حكم ديا گيا ہے، اسے اللہ تعالىٰ نے اس اُمت كے ليے مقرر فرمايا ہے- ايك آدمى نے عرض كيا: آپ مجهے بتلائيں كہ اگر ميں قربانى كے ليے موٴنث دودہ دينے والى بكرى كے سوا نہ پاؤں تو كيا اس كى قربانى كروں ؟ آپﷺ نے فرمايا نہيں ،ليكن تم اپنے بال اور ناخن تراش لينا اور اپنى مونچھیں كاٹنا اور شرمگاہ كے بال مونڈ دينا- اللہ تعالىٰ كے ہاں تمہارى مكمل قربانى ہوجائے گى-" (ابو داود ؛2789،كتاب الضحايا )

قربانى كى فضيلت

قربانى كى فضيلت ميں مندرجہ ذيل روايت پيش كى جاتى ہے:

(ماعمل ابن آدم يوم النحر عملا أحب إلى الله من إراقة دم وإنها لتأتي يوم القيامة بقرونها وأظلافها وأشعارها وإن الدم ليقع من الله عزوجل بمكان قبل أن يقع على الأرض فطيبوا بها نفسا)
"دس ذوالحجہ كو خون بہانے سے بڑھ كر ابن آدم اللہ تعالىٰ كے ہاں كوئى بہتر عمل نہيں كرتا- يہ جانور قيامت كے دن اپنے سينگوں ' كهروں اور بالوں سميت آئيں گے اور خون كے زمين پر گرنے سے پہلے اللہ كے ہاں اس كا ايك مقام ہوتا ہے سو تم يہ قربانى خوش دلى سے ديا كرو-"

ليكن يہ روايت ثابت نہيں
، كما قالي الألباني (ضعيف ترمذى ؛1493) مزيد تفصيل كے ليے: 'فضائل قربانى كى احاديث كا علمى جائزہ' از غازى عزير (ماہنامہ محدث:ج 23 /عدد 3)

تاہم قربانى كى سنت پر عمل كا جو اجر وثواب اللہ تعالىٰ نے مقرر كر ركها ہے، وہ بہر حال قربانى كرنے والے كو ضرور ملے گا كيونكہ قربانى عبادت اور نيك عمل ہے اور ہر نيكى كے متعلق قرآن ميں اللہ تعالىٰ كا ارشاد ہے:﴿مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ‌ أَمْثَالِهَا﴾(الانعام :160)
"جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے-"

قبوليت ِقربانى كى شرائط

(1) قربانى خالص اللہ كى رضا كے ليے كى جائے،كيونكہ قربانى عبادت ہے اوركوئى بهى عبادت اس وقت تك قبول نہيں ہوتى جب تك كہ خالصتاً اللہ كے ليے نہ كى جائے جيسا كہ اللہ تعالى نے ارشاد فرمايا كہ ﴿
وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾(البينہ:5)
"انہيں اسكے سوا كوئى حكم نہيں كہ صرف اللہ كى عبادت كريں اور اس كيلئے دين كو خالص كريں -"

اور حضرت عمر بن خطاب سے مروى ہے كہ رسول اللہﷺ نے فرمايا:

إنما الأعمال بالنيات "عملوں كا دارومدار نيتوں پر ہے-"(بخارى؛ 1)

علاوہ ازيں قربانى كے متعلق بالخصوص ايك آيت ميں يہ الفاظ موجود ہيں :
﴿
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ﴾ (الانعام :162)
"آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے-"

قربانى نہ تو غير اللہ كے ليے جائز ہے اور نہ ہى ايسى جگہ پر درست ہے جہاں غيراللہ كى عبادت ہوتى ہو نيز ايسى قربانى بهى حلال نہيں جس پر غير اللہ كا نام پكارا گيا ہو- حضرت علىسے مروى ہے كہ رسول اللہﷺ نے فرمايا:

"اللہ ايسے شخص پر لعنت كرے جس نے اپنے والد پر لعنت كى، اللہ تعالىٰ ايسے شخص پر لعنت كرے جس نے غيراللہ كے ليے ذبح كيا،اللہ تعالىٰ ايسے شخص پر لعنت كرے جس نے كسى بدعتى كو پناہ دى اور اللہ تعالىٰ ايسے شخص پر لعنت كرے جس نے زمين كى علامات تبديل كرديں -" (مسلم :141)

(2) پاكيزہ مال سے ہو، حرام مال سے نہ ہو-جيسا كہ ايك حديث ميں ہے كہ حضرت ابوہريرہ سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا

(
أيها الناس إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا)مسلم :2346)
"اے لوگو! بے شك اللہ تعالىٰ پاك ہے اور صرف پاكيزہ چيز كو ہى قبول كرتا ہے-"
سود كى آمدن يا حرام مال سے كى ہوئى قربانى قبول نہيں ہوتى-
(مسلم:2346،كتاب الزكوٰة اور مسلم :535،كتاب الطہارة)

(3) سنت كے مطابق ہو جيسا كہ اگر كوئى شخص نماز عيد سے پہلے قربانى كر لے تو اس كى قربانى قبول نہيں ہو گى-اس كا مفصل بيان آئندہ صفحات ميں آئے گا-

(4) قربانى ايسے جانوروں كى نہ ہو جن جانوروں كى قربانى قبول نہيں ہوتى-اس كا بهى تفصيلى بيان آگے آئے گا-

قربانى كا جانور كيسا ہو؟

ايسے جانورں كى قربانى كى جائے جن پربهيمة الأنعام كا لفظ بولا جاتا ہے، قرآن ميں ہے

﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ﴾

"اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وه ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔ - "(الحج :34)

بهيمة ايسے جانوروں كو كہتے ہيں جو چار ٹانگوں والے ہوں خواہ پانى ميں ہى ہوں جيسا كہ صاحب ِقاموس نے اس كى يہى وضاحت كى ہے-
(القاموس المحيط:بهم)اور أنعام ميں چار قسم كے نر اور مادّہ جانور شامل ہيں : (1) اونٹ(2)گائے(3)بهيڑ(4)بكرى

مزيد تفصيل كے ليے ملاحظہ ہو: تفسير فتح القدير :2/210 اورتفسير ابن كثير :3/100

علاوہ ازيں مذكورہ مويشيوں ميں ہر ايك كا مُسِنّة(يعنى دوندا) ہونا بهى ضرورى ہے، ہاں اگر كوئى مجبورى ہو يا ايسا جانور ميسر نہ ہو تو بهيڑ كا كهيرا بهى كفايت كر جاتا ہے جيسا كہ حضرت جابر سے مروى ہے كہ رسول اللہﷺ نے فرمايا

(لاتذبحوا إلامسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن)(مسلم :117)

"مُسِنّہ ہى ذبح كرو، الايہ كہ تم پر تنگى ہو تو بهيڑ كا كهيرا ذبح كر لو-"

ياد رہے كہ بهيڑ كے كهيرے كى اجازت كا مفہوم يہ ہر گز نہيں ہے كہ ہر حال ميں اس كى قربانى جائز ہے جيسا كہ آج كل بعض مقامات پر قربانى كا جانور بیچنے والے يہى كہہ كر عوام كو جانور فروخت كررہے ہوتے ہيں كہ كهيرے كى قربانى بهى جائز ہے، حالانكہ اس كى قربانى صرف ايك خاص صورت (يعنى مجبورى وتنگ دستى) ميں ہى جائز قرار دى گئى ہے اگر يہ صورت نہ ہو تو مُسِنّہ كے علاوہ كوئى جانور بهى كفايت نہيں كرے گا-

مُسِنّة (يعنى دوندا) ايسے جانور كو كہتے ہيں جس كے دودہ كے دانت گر چكے ہوں - امام نووى شرح صحيح مسلم ميں فرماتے ہيں كہ

المسنة هي الثنية من كل شيءمن الإبل والبقر والغنم فما فوقها وهذا تصريح بأنه لايجوز الجذع من غير الضأن في حال من الأحوال

"مُسِنّة اونٹ، گائے اور بكرى وغيرہ ميں سے دو ندے كو كہتے ہيں اور يہ واضح ہے كہ بهيڑ كے علاوہ كسى حالت ميں كهيرا قربان كرنا جائز نہيں -" (شرح نووى :13/99،نيل الاوطار:5/202)

نيز واضح رہے كہ اونٹوں ميں دوندا عمر كے پانچويں سال ميں ہوتا ہے،گائے ميں دوندا عمر كے تيسرے سال ميں ہوتا ہے اور بكرى ميں دوندا عمر كے دوسرے سال ميں ہوتا ہے اور كهيرا (جذعہ) بهيڑ كا وہ بچہ ہوتا ہے جو ايك سال كا ہو اور دوندا نہ ہو- لہٰذا اونٹ، گائے اور بكرى ميں دوندے سے كم عمر والے جانور كى قربانى جائز نہيں ، البتہ دنبے ميں (كسى مجبورى كے وقت) دوندے سے كم عمر كے جانور كى قربانى بهى جائز ہے-

مزيد تفصيل كيلئے: '
جذعة من الضأن كى تحقیق' از عبد الرحمن عزيز (محدث: ج31/عدد3)

رسول اللہﷺ كا طرزِ عمل

(1) حضرت انس سے روايت ہے كہ

(انكفأ رسول الله ! إلى كبشين أقرنين أملحين فذبحهما بيده)
"رسول اللہﷺ سينگ والے دو چتكبرے مينڈهوں كى طرف متوجہ ہوئے اورانہيں اپنے ہاتھ سے ذبح كيا-"
(بخارى :5554)

(2) حضرت ابو سعيد خدرى  سے روايت ہے كہ

(كان رسول الله ! يضحي بكبش أقرن فحيل ينظر في سواد ويأكل في سواد ويمشي في سواد)
"رسول ﷺ سينگ والا موٹا تازه مينڈها ذبح كرتے جس كى آنكھیں ، منہ اور ٹانگيں سياہ ہوتيں -" (ابو داود: 2796)

(3) حضرت انس سے روايت ہے كہ

"نبى ﷺ نے كهڑے كهڑے سات اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر كيے اور مدينہ ميں دو سینگوں والے چتكبرے مينڈهے ذبح كيے-" (ابو داود:2793)

كس جانور كى قربانى افضل ہے؟

امام شوكانى كا فتوىٰ:
"اور افضل قربانى وہ ہے جو زيادہ موٹى تازى ہو-"(الدررالبهية :كتاب الأضحية) ايك اور مقام پر رقمطراز ہيں كہ
"سب سے افضل قربانى اونٹ كى ہے،پهر گائے كى اور پهر بكرى كى-"(ايضاً:كتاب الحج)

امام ابن قدامہ  كا فتوى:
"قربانيوں ميں افضل اونٹ ہے پهر گائے ہے پهر بكرى ہے پهر اونٹ ميں شريك ہونا ہے اور پهر گائے ميں شريك ہونا ہے" (المغنى:13/ 366)

سعودى مجلس افتا كا فتوىٰ:
"قربانيوں ميں افضل اونٹ، پهر گائے پهر بكرى اور پهراونٹنى يا گائے كى قربانى ميں شركت ہے كيونكہ آپ ﷺ نے جمعہ كے متعلق فرمايا: "جو پہلى گهڑى ميں (مسجد ميں ) گيا گويا كہ اس نے اونٹ كى قربانى كى، اور جو دوسرى گهڑى ميں گيا گويا كہ اس نے گائے كى قربانى كى، اور جو تيسرى گهڑى ميں گيا گويا كہ اس نے سينگ والے مينڈهے كى قربانى كى اور جو چوتهى گهڑى ميں گيا گويا كہ اس نے ايك مرغى كى قربانى كى اور جو پانچويں گهڑى ميں گيا گويا كہ اس نے ايك انڈہ قربان كيا-"

اس حديث ميں محل شاہد اللہ تعالىٰ كى طرف تقرب ميں اونٹ، گائے اور بهيڑ بكريوں كے درميان ايك دوسرے پر فضيلت كا وجود ہے اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ قربانى اللہ تعالىٰ كا قرب حاصل كرنے كا بہت بڑا ذريعہ ہے اور اونٹ قیمت، گوشت اور نفع كے لحاظ سے سب سے زيادہ ہے- ائمہ ثلاثہ يعنى امام ابوحنيفہ ،امام شافعى اور امام احمد بهى اسى كے قائل ہيں اور امام مالك نے فرمايا كہ (قربانى ميں ) افضل بهيڑ كا كهيرا ہے پهر گائے اور پهر اونٹ ہے كيونكہ نبى ﷺ نے دو مينڈهے قربان كيے اور آپ ﷺ صرف افضل كام ہى كرتے تهے - اس كے جواب ميں يوں كہا جا سكتا ہے كہ يقينا آپ ﷺ بعض اوقات غير افضل كام كو بهى امت پر نرمى كرنے كى غرض سے اختيار فرما ليا كرتے تهے كيونكہ وہ آپ كى اقتدا كرتے تهے اور آپيہ پسند نہيں كرتے تهے كہ ان پر مشقت ڈاليں ليكن آپ ﷺ نے اونٹ كى گائے اور بهيڑ بكريوں پر فضيلت بيان كر دى ہے جيسا كہ ابهى پيچهے گذرا ہے- واللہ اعلم

(فتاوىٰ اسلاميہ :2/320)

1۔ قربانى كے جانور كو كهلا پلا كر موٹا كرنا مستحب ہے- (المغنى: 13/367، بخارى؛ 5553)

خصى جانور كى قربانى

خصى جانور كى قربانى جائز ہے اور اس كے دلائل حسب ذيل ہيں :
حضرت ابو ہريرہسے روايت ہے كہ
"رسول اللہ ﷺ جب قربانى كا ارادہ فرماتے تو دو بڑے بڑے موٹے تازے سينگ والے' چتكبرے خصى مينڈهے خريد لاتے-" )(ابن ماجہ:3122)
حضرت جابر بن عبداللہ سے روايت ہے وہ كہتے ہيں كہ
"نبى ﷺ نے قربانى كے دن سينگ والے دوچتكبرے خصى مينڈهے ذبح كيے-"(ابو داود :2795)

امام ابن قدامہ فرماتے ہيں كہ
"خصى جانور (قربانى ميں ) كفايت كرجاتا ہے كيونكہ نبى ﷺ نے دو خصى مينڈهے ذبح كيے-"(المغنى :13/371)
سيد سابق فرماتے ہيں كہ
"خصى جانور كى قربانى كرنے ميں كوئى حرج نہيں -"(فقہ السنة:3/196)

بهينس كى قربانى

شريعت نے ايسے جانور بطور قربانى ذبح كرنے كا حكم ديا ہے جن پر بهيمة الأنعام كا لفظ بولا جاسكتا ہو اور وہ جانور صرف اونٹ، گائے، بهيڑ اور بكرى ہيں جيسا كہ پیچھے بيان كيا جاچكا ہے اس ليے صرف انہى جانوروں كى قربانى كرنى چاہيے او ر بهينس كى قربانى سے اجتناب ہى بہتر ہے بالخصوص اس ليے بهى كہ رسول اللہ ﷺ سے بهى بهينس كى قربانى ثابت نہيں ہے- تاہم بعض اہل علم اسے گائے كى نوع ميں شمار كركے قابل قربانى قرار ديتے ہيں -واللہ اعلم!

كن جانوروں كى قربانى جائز نہيں ؟

(1) حضرت براء بن عازب كى حديث ميں ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:

(أربع لاتجوز في الأضاحي:العوراء بيّن عورها والمريضة بين مرضها والعرجاء بين ظلعها والكسير التي لاتنقي)(ابو داود:2802)

"چار جانور قربانى ميں جائز نہيں : واضح طور پر آنكہ كا كانا، ايسا بيمار جس كى بيمارى واضح ہو، لنگڑا جس كا لنگڑا پن ظاہر ہو،اور ايسا كمزور جس ميں چربى نہ ہو"

حضرت علىسے مروى ہے كہ

أمرنا رسول الله ! أن نستشرف العين والأذن)
"رسول اللہ نے ہميں حكم ديا كہ ہم آنكہ او ركان اچهى طرح ديكھیں -"
(ابوداود :2704)

اس بنا پر بيان كردہ اوصاف والے جانور كى قربانى نا جائز ہوگى-

حاملہ جانور كى قربانى
حاملہ جانور كى قربانى جائز ہے جيسا كہ مندرجہ ذيل حديث اس پر شاہد ہے:

"حضرت ابو سعيدسے روايت ہے وہ كہتے ہيں كہ ميں نے رسول اللہ ﷺ سے پيٹ كے بچے كے متعلق سوال كيا تو آپ ﷺ نے فرمايا "اگر تم چاہو تو اسے كهالو" اور مسددكہتے ہيں كہ ہم نے كہا اے اللہ كے رسول! ہم اونٹنى' گائے اور بكرى ذبح كرتے ہيں تو ہم اس كے پيٹ ميں بچہ پاتے ہيں كيا ہم اسے پهينك ديں يا اسے كهاليں ؟ آپ ﷺ نے فرمايا:"اگر تم چاہو تو اسے كهالو كيونكہ اس كا ذبح اس كى ماں كا ذبح كرنا ہى ہے۔"(ابو داود:2827)

اس صحيح حديث سے معلوم ہوا كہ حاملہ جانور خواہ اونٹنى ہو، گائے ہو يا بكرى ہو اسے قربانى كے ليے ذبح كيا جاسكتا ہے اور اس كے پيٹ كے بچے كو ذبح كيے بغير كهانا درست ہے ليكن اگر طبعى كراہت كے پيش نظر اسے پهينك ديا جائے تب بهى كوئى حرج نہيں كيونكہ نبى ﷺ نے صحابہ كو لازمى طور پر پيٹ كا بچہ كهانے كا حكم نہيں ديا بلكہ اسے ان كى طبيعت و چاہت پر ہى معلق ركها-

علاوہ ازيں بعض حضرات نے جو اس كى يہ تاويل كى ہے كہ اس حديث كا مطلب يہ ہے
"بچے كو بهى اسى طرح ذبح كرو جيسے اس كى ماں كو ذبح كرتے ہو-" يہ تاويل نہايت بے بنياد ہے اور مذكورہ حضرت ابو سعيد ﷺ كى حديث ہى اس كا رد كرديتى ہے-

قربانى كے جانور پر سوارہونا

"حضرت ابو ہريرہ سے روايت ہے كہ رسول كريم ﷺ نے ايك شخص كو قربانى كا جانور لے جاتے ديكها تو آپ ﷺ نے فرمايا كہ اس پر سوار ہو جا- اس شخص نے كہا كہ يہ تو قربانى كا جانور ہے، آپ ﷺ نے فرمايا كہ اس پر سوار ہو جا- اس نے كہا كہ يہ تو قربانى كا جانور ہے تو آپ ﷺ نے پهر فرمايا افسوس! سوار بهى ہو جاؤ (ويلك آپ ﷺ نے) دوسرى يا تيسرى مرتبہ فرمايا۔"(بخارى : كتاب الحج:،باب ركوب البدن1689، مسلم :2323)

اس حديث كى شرح ميں مولانا داود راز نقل كرتے ہيں كہ

"زمانہ جاہليت ميں عرب لوگ سائبہ وغيرہ جو جانور مذہبى نياز نذر كے طور پر چهوڑ ديتے ان پر سوار ہونا معيوب جانا كرتے تهے- قربانى كے جانوروں كے متعلق بهى جو كعبہ ميں لے جائى جائيں ان كا ايسا ہى تصور تها- اسلام نے اس غلط تصور كو ختم كيا اور آنحضرت ﷺ نے بالاصرار حكم ديا كہ اس پر سوارى كرو تا كہ راستہ كى تهكن سے بچ سكو- قربانى كے جانور ہونے كا مطلب يہ ہرگز نہيں كہ اسے معطل كر كے چهوڑ ديا جائے- اسلام اسى ليے دين فطرت ہے كہ اس نے قدم قدم پر انسانى ضروريات كو ملحوظ نظر ركها ہے اور ہر جگہ عين ضروريات انسانى كے تحت احكامات صادر كيے ہيں ۔ (شرح بخارى:3/42)

مزيد اسى حديث كے متعلق امام ترمذى رقمطراز ہيں كہ

"حضرت انسكى حديث حسن صحيح حديث ہے اور بے شك نبى ﷺ كے صحابہ اور ان كے علاوہ دوسرے لوگوں ميں سے اہل علم كى ايك جماعت نے قربانى كے اونٹ پر سوارى كى رخصت دى ہے جبكہ وہ شخص اس كى سوارى كا محتاج ہواور يہى قول امام شافعى،امام احمد اور اسحق كا بهى ہے اور ان ميں سے بعض نے كہا كہ جب تك وہ شخص اسكى طرف مجبور نہ ہو جائے سوارى نہ كرے-" (ترمذى: كتاب الحج، باب ماجآء فى ركوب البدنة)

كيا قربانى كا جانور فروخت كيا جاسكتا ہے؟

اگر انسان قربانى كى نيت سے كوئى جانور خريدے تو پهر اسے فروخت كرنا درست نہيں كيونكہ اب وہ جانور اللہ تعالىٰ كا ہو چكا ہے اب اسے صرف اللہ كے ليے قربان كرنا ہى ضرورى ہے جيسے وقف شدہ مال كو نہ فروخت كرنا جائز ہے، نہ ہبہ كرنا جائز ہے اور نہ ہى وراثت ميں تقسيم كرنا جائزہے بلكہ اسے اللہ ہى كے ليے صرف كرنا ضرورى ہے۔ (مسلم :4224)

ہاں اگر اسے فروخت كرنے سے مقصود اسے تبديل كرنا ہے تو درست ہے مثلا اگر كوئى شخص بكرى خريد لايا ہے ليكن پهر وہ اسے فروخت كر كے گائے خريدنا چاہتا ہے تو يہ درست ہے كيونكہ يہ افضل قربانى كى طرف پيشرفت ہے- اور اس صورت ميں بهى فروخت كرنا جائز ہے كہ اگر جانور خريدنے كے بعدعلم ہو كہ يہ بيمار ہے يا اس ميں كوئى ايسا نقص ہے جس كى وجہ سے يہ قربانى كے قابل نہيں تو اسے فروخت كر كے دوسرا جانور خريدا جا سكتا ہے۔
واللہ اعلم
جاری ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
( قربانی کے بعض اہم مسائل ۔دوسرا حصہ )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

قربانى كرنے والا كن امور سے اجتناب كرے؟
جو شخص قربانى كا ارادہ ركهتا ہو اسے چاہيے كہ ذوالحجہ كا چاند ديكهنے كے بعد اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے- جيسا كہ امّ سلمہ سے مروى ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:

(إذا رأيتم هلال ذي الحجة وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره وأظفاره)(مسلم :3655)
"جب تم ذو الحجہ كا چاند ديكھ لو اور تم ميں سے كوئى قربانى كا ارادہ ركهتا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن كاٹنے سے رك جائے-"

امام نووى رقمطراز ہيں كہ

"حضرت سعيد بن مسيب، امام ربيعہ، امام احمد، امام اسحاق، امام داوٴد اور بعض اصحابِ شافعى رحمهم الله نے كہا ہے كہ ايسے شخص پر اپنے بال اور ناخن ميں سے كچھ بهى كاٹنا اس وقت تك حرام ہے جب تك كہ وہ شخص قربانى كے اوقات(ايام تشريق) ميں قربانى نہ كرلے-" (شرح مسلم :7/154، نيز ديكهئے المغنى:13/362)
جو شخص قربانى كا ارادہ نہ ركهتا ہو تو اس كے ليے بال ،ناخن كاٹنے كى ممانعت نہيں ،تا ہم اگر وہ بهى ان دنوں بال اور ناخن نہ كاٹے تو اسے بهى قربانى كا ثواب مل جاتا ہے -ديكهئے: حديث عبد اللہ بن عمرو بن العاص زير عنوان "جو قربانى كى طاقت نہ ركهے..." (ابوداود؛ 2789)

جس كى طرف سے قربانى كى جا رہى ہے كيا وہ بهى بال اور ناخن نہ كاٹے ؟

شيخ ابن جبرين فرماتے ہيں كہ اور صحيح حديث ميں آياہے كہ

"جب عشرہ ذو الحجہ شروع ہو جائے اورتم ميں سے كوئى شخص قربانى كرنے كا ارادہ كرے تو اپنے بال اور اپنے چمڑے (یعنى جسم ) سے كچھ نہ كاٹے- "(اس حديث ميں ) آپ ﷺ نے ايسے شخص كاذكر نہيں كيا جس كى طرف سے كوئى اور قربانى كر رہا ہوليكن بعض علما نے ايسے شخص كا(بال وغيرہ ) كاٹنا بهى ناپسند كيا ہے جس كى طرف سے كوئى اور قربانى كر رہاہواس كے ساتھ كہ ان ميں سے جس نے كسى چيز كو كاٹانہ تو اس پر كوئى فديہ ہے،نہ اس كى قربانى باطل ہوگى اور نہ ہى اسے قربانى كرنے سے پیچھے ہٹنا چاہيے وہ ان شاء اللہ اس كى طرف سے قبول ہو جائے گى۔ (فتاوىٰ اسلاميہ :ج2/ص318)
قربانى كا وقت

قربانى كا وقت نماز عيد كے بعد شروع ہوتا ہے اور جس نے نماز عيد سے پہلے قربانى كى خواہ وہ كسى بهى علاقے ميں ہو اس كى قربانى قبول نہيں ہوگى بلكہ اسے نماز عيد كے بعد قربانى كے ليے دوسرا جانور ذبح كرنا پڑے گا- جيسا كہ براء بن عازب سے روايت ہے كہ رسول اللہ نے فرمايا

"جو شخص نماز عيد سے پہلے قربانى كرليتا ہے وہ صرف اپنے كهانے كے ليے جانور ذبح كرتا ہے اور جو نمازِ عيد كے بعد قربانى كرے اس كى قربانى پورى ہوتى ہے اور وہ مسلمانوں كى سنت كو پاليتا ہے-" (بخارى:5556 نيز 5549،5560،5561،5562)

قربانى كتنے دنوں تك كى جاسكتى ہے؟
عيد الاضحى اور اس كے بعد تين دن یعنى تيرہ 13/ذو الحجہ كى شام تك قربانى كى جاسكتى ہے كيونكہ عيد الاضحى كے بعد 11،12،13ذو الحجہ كے دنوں كو ايام تشريق كہتے ہيں -
(تفسير احسن البيان :ص82 ،نيل الاوطار :ج3/ص490)

اور تمام ايام تشريق كو ذبح كے دن قرار ديا گيا ہے اس كى دليل مندجہ ذيل حديث ہے: (عن جبير ين مطعم عن النبي ! :كل أيام التشريق ذبح)

"تمام ايام تشريق ذبح كے دن ہيں -" (احمد :ج4/ص82، صحيح ابن حبان :3842، صحيح الجامع الصغير :4537)

اگر چہ اس حديث كے منقطع ہونے كا دعوى كيا گيا ہے ليكن امام ابن حبان نے صحيح ابن حبان ميں اسے موصول بيان كيا ہے او رامام ہيثمى  نے بهى اس روايت كو مرفوع بيان كيا ہے اور كہا ہے كہ احمد وغيرہ كے رجال ثقہ ہيں - (بلوغ الامانى للبنا :ج13/ص94،95)

امام شوكانى  كا فتوى:

انہوں نے اس ضمن ميں پانچ مختلف مذاہب ذكر كرنے كے بعد اس مذہب كو ترجيح دى ہے كہ (أيام التشريق كلها أيام ذبح وهي يوم النحر وثلاثة أيام بعده) "سارے ايام تشريق ذبح كے دن ہيں او روہ دن يہ ہيں : يوم النحراور اس كے بعد تين دن-" )نيل الاوطار :ج5/ص125)حضرت جبير بن مطعم، حضرت ابن عباس، عطا، حسن بصرى، عمر بن عبدالعزيز، سليمان بن موسى الاسدى، مكحول،شافعى، اورداود ظاہرى رحمهم اللہ سے بهى يہى قول منقول ہے- (نيل الاوطار:ج3/ص490،بيہقى :ج5/ص296،297)
البتہ بعض فقہاء نے يوم النحر كے بعد مزيد صرف دو دنوں تك قربانى كى اجازت دى ہے ان كى دليل حضرت ابن عمر ، حضرت عمراورحضرت انسكا يہ اثر ہے:(الأضحى يومان بعد يوم الأضحى)"قربانى يوم الاضحى كے بعد دو دن ہے-"(موٴطا:2/487،بيہقى:ج9/ ص297، شرح مسلم للنووى :ج7/ص128)ليكن يہ بات درست نہيں كيونكہ پہلى حضرت جبير بن مطعم كى حديث مرفوع يعنى رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور حضرت ابن عمر وغيرہ كى روايت محض ان كا اپنا قول ہى ہے اس ليے پہلى حديث كو ترجيح دى جائے گى نيز جس روايت ميں ايك دن كم كا ذكر ہے، اس ميں زيادتى كى نفى بهى نہيں ہے-

كس دن كى قربانى افضل ہے؟
اكثر علما كا يہ مو قف ہے كہ پہلے دن كى قربانى افضل ہے كيونكہ نبى ﷺ ہميشہ اسى پر عمل پيرا رہے- آپ ﷺ مدينہ ميں دس سال رہے اور قربانى كرتے رہے- حجۃ الوداع كے موقع پر آپ ﷺ نے سو اونٹ قربان كيے- ان سب قربانيوں ميں آپ ﷺ كا ہميشہ يہى معمول رہا كہ آپ ﷺ پہلے دن قربانى كرتے جيسا كہ اس حديث سے بهى اس كى طرف اشارہ ملتا ہے كہ

(عن البراء بن عازب قال قال النبي! إن أول ما نبدأ به في يومنا هذا نصلي ثم نرجع فننحر،من فعله فقد أصاب سنتنا)
"حضرت براء بن عازب سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا آج (عيدالاضحى كے دن) كى ابتدا ہم نماز (عيد) سے كريں گے پهر واپس آكر قربانى كريں گے جو اس طرح كرے گا وہ ہمارى سنت كے مطابق عمل كرے گا-") (بخارى :5545)
اس حديث سے معلوم ہوا كہ نبى ﷺ جس دن نماز عيد پڑهتے اسى دن قربانى كرتے اور يہ بات دليل كى محتاج نہيں كہ نماز عيد پہلے دن ہى ادا كى جاتى ہے-
علاوہ ازيں ايك اور حديث سے بهى پہلے دن كى افضيلت معلوم ہوتى ہے

(عن عبد الله بن قرط عن النبي! قال:إن أعظم الأيام عند الله يوم النحر ثم يوم الغد)
"حضرت عبداللہ بن قرط سے روايت ہے كہ نبى ﷺ نے فرمايا "بے شك اللہ تعالىٰ كے نزديك دنوں ميں سب سے عظیم دن یوم النحر ( یعنی عيدالاضحى كا پہلا دن) ہے پهر يوم الغد (يعنى دوسرا دن)ہے-" (ابو داود :1765)

اگر كوئى يہ خيال كرے كہ آخرى دنوں ميں قربانى كرنے سے غرباء و مساكين كو زيادہ فائدہ ہو سكتا ہے تو بعض علما نے اسے بهى پہلے دن كے برابر ہى قرار ديا ہے۔ (واللہ اعلم)

قربانى كے گوشت اور كهال كے مسائل

قربانى كا گوشت كيسے تقسيم كيا جائے؟

بعض علما نے كہا ہے كہ قربانى كا گوشت تقسيم كرنے كا افضل طريقہ يہ ہے كہ گوشت كے تين حصے كيے جائيں - ايك حصہ خود كهايا جائے،دوسرا حصہ اپنے اقربا اور دوست احباب وغيرہ كو كهلا ديا جائے اور تيسرا حصہ غرباء و مساكين ميں تقسيم كر ديا جائے- امام احمد بهى اسى كے قائل ہيں - ان حضرات كى دليل ابن عمر سے مروى يہ قول ہے كہ انہوں نے كہا كہ
"قربانيوں كا تيسرا حصہ تمہارے ليے ہے اور تيسرا حصہ تمہارے گهروالوں كے ليے ہے اور تيسرا حصہ مساكين كے ليے ہے-"(مزيد تفصيل كيلئے، المغنى لابن قدامہ :ج13/ص379)

اگر چہ علما نے اس تقسيم كو افضل كہا ہے ليكن يہ تقسيم ضرورى نہيں ہے بلكہ حسب ِضرورت حالات كے مطابق بهى گوشت تقسيم كيا جاسكتا ہے يعنى اگر فقراء ومساكين زيادہ ہوں تو زيادہ گوشت صدقہ كر دينا چاہيے اور اگر ايسا نہ ہو بلكہ اكثر وبيشتر لوگ خوشحال ہوں تو زيادہ گوشت خود بهى استعمال كيا جاسكتا ہے اور اسى طرح آئندہ ايام كے ليے ذخيرہ بهى كيا جاسكتا ہے كيونكہ قرآن ميں مطلقاً قربانى كا گوشت كهانے اور كهلانے كا حكم ديا گيا ہے جيسا كہ ارشادِ بارى ہے :

﴿وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ‌ اللَّـهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ‌ ۖ فَاذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ‌﴾ (الحج : 36)
"قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہیں نفع ہے۔ پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں اسے (خود بھی) کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ-"

ايك اور آيت ميں ہے كہ

"اپنے فائدے حاصل كرنے كے ليے آجائيں اور ان چوپايوں پر جو پالتو ہيں ، ان مقررہ دنوں ميں اللہ كا نام ياد كريں - پس تم خود بهى كهاؤ اور بهوكے فقيروں كو بهى كهلاؤ-"
درج بالا آيات سے معلوم ہوا كہ حسب ِضرورت قربانى كا گوشت كهايا اور كهلايا جاسكتا ہے، البتہ تين دن سے زيادہ ذخيرہ كرنے سے رسول اللہ ﷺ نے خاص مصلحت كے تحت ابتداے اسلام ميں منع فرما ديا تها جيسا كہ ايك حديث ميں ہے كہ

"حضرت ابن عمر سے روايت ہے كہ نبى ﷺ نے فرمايا: كوئى بهى اپنى قربانى كا گوشت تين دن سے اوپر نہ كهائے۔"(مسلم:5100،كتاب الاضاحى)

ليكن پهر اس كى اجازت دے دى تهى جيسا كہ ايك دوسرى حديث ميں ہے كہ

حضرت سلمہ بن اكوع  سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:

"تم ميں سے جو قربانى كرے تيسرے دن كے بعد اس كے گهرميں اس ميں سے كوئى چيز باقى نہ ہو- پس اگلے سال صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول ﷺ! كيا اس سال بهى ہم اسى طرح كريں جس طرح ہم نے گذشتہ سال كيا؟ آپ ﷺ نے فرمايا "كهاؤ اور كهلاؤ اور ذخيرہ كرو۔ بے شك اُس سال لوگ مشقت ميں تهے تو ميں نے ارادہ كيا كہ تم ان كى مدد كر دو-" (بخارى :5569،كتاب الاضاحى)

مذكورہ دلائل سے يہ بات ثابت ہو جاتى ہے كہ قربانى كے گوشت كے تين يا دو حصے بنا كر تقسيم كرنا ضرورى نہيں بلكہ حالات كے مطابق كسى بهى طريقے سے گوشت كهايا اور كهلايا جاسكتا ہے اور ذخيرہ بهى كها جاسكتا ہے-

امام ابن قدامہ كا فتوى

"تين دنوں سے زيادہ قربانيوں كا گوشت ذخيرہ كرنا جائز ہے-" (المغنى :ج13/ص381)
كيا غير مسلم كو قربانى كا گوشت ديا جاسكتا ہے؟

غير مسلم اگر مستحق ہو توا سے بهى تاليف ِقلب كے طور پر قربانى كا گوشت ديا جاسكتا ہے-
امام ابن قدامہ كا فتوى:

"اور يہ جائز ہے كہ كوئى قربانى كے گوشت سے كسى كافر كو كهلائے اور امام حسن،امام ابو ثور اور اصحاب الرائے بهى اسى كے قائل ہيں ۔"(المغنى :ج13/ص381)
سعودى مجلس اِفتا كا فتوى:
"قربانى ميں مستحب يہ ہے كہ اس كے گوشت كے تين حصے بنائے جائيں : ايك تهائى قربانى كرنے والے كے ليے، ايك تهائى اس كے دوست احباب كے ليے،اورايك تهائى مساكين كے ليے اور اس سے كافر كو دينا بهى جائز ہے اس كے فقر كى وجہ سے، يا اس كى قرابت دارى كى وجہ سے، يا اس كى ہمسائيگى كى وجہ سے، يا اس كى تاليف ِقلب وجہ سے-" (فتاوىٰ اسلاميہ:ج2/ص324)
قربانى كى كهالوں كا مصرف

قربانى كى كهالوں كا بهى وہى مصرف ہے جو قربانى كے گوشت كا ہے يعنى جيسے قربانى كا گوشت خود بهى كهايا جا سكتا ہے، دوسروں كو بهى كهلايا جاسكتا ہے اورصدقہ بهى كيا جاسكتا ہے اسى طرح كهال كو خود بهى استعمال كيا جاسكتا ہے كسى دوسرے كو بهى استعمال كے ليے دى جاسكتى ہے اور صدقہ بهى كى جاسكتى ہے كيونكہ اس كے استعمال كا كوئى الگ طريقہ كتاب وسنت ميں موجود نہيں ،بلكہ كتب ِاحاديث ميں ہے كہ صحابہ كرام قربانى كے جانور كى كهال كا مشكيزہ بنا كر اسے گهر ميں استعمال كر ليتے تهے۔(مسلم؛5103)

كيا قربانى كا گوشت يا كهال فروخت كى جاسكتى ہے؟

نہ تو قربانى كا گوشت فروخت كيا جاسكتا ہے اور نہ ہى اس كى كهال فروخت كى جاسكتى ہے كيونكہ شریعت نے انہيں استعمال كرنے كا جو طریقہ بتلايا ہے فروخت كرنا اس ميں شامل نہيں ۔
امام ابن قدامہ كا فتوى:

"من جملہ قربانى كى كسى چيز كو بهى فروخت كرنا جائز نہيں نہ تو اس كا گوشت اور نہ ہى اس كا چمڑا خواہ قربانى واجب ہو يا نفلى ہو كيونكہ وہ ذبح كے ساتھ متعين ہوچكى ہے-" (المغنى:ج13/ص382)
امام احمد كا فتوى:
"وہ اسے (يعنى قربانى كے جانور كو) فروخت نہيں كرسكتا ہے اور نہ ہى اس كى كوئى چيز (گوشت يا كهال وغيرہ) فروخت كرسكتا ہے اور (امام احمد) مزيد فرماتے ہيں كہ'سبحان اللہ' وہ اسے كيسے فروخت كرسكتا ہے جبكہ وہ اسے اللہ تبارك وتعالىٰ كے ليے مقرر كر چكا ہے-" (ايضاً)
کیاقربانى كا گوشت يا كهال قصائى كو بطور اُجرت دى جاسكتى ہے؟

ايسا كرنا جائز نہيں كيونكہ نبى ﷺ نے اس سے منع فرمايا ہے جيسا كہ

"حضرت على كہتے ہيں كہ مجهے رسول اللہ ﷺ نے حكم ديا كہ ميں ان قربانى كے جانوروں كے جهول اور ان كے چمڑے صدقہ كردوں جن كى قربانى ميں نے كردى تهى-"(بخارى :1707،كتاب الحج ، باب الجلال للبدن)

اور صحيح مسلم ميں ہے كہ
؎
"حضرت على سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے مجهے حكم ديا كہ ميں آپ ﷺ كى قربانيوں كى نگرانى كروں اور ميں ان قربانيوں كا گوشت اور ان كے چمڑے اور ان كى جليں صدقہ كر دوں اور ان سے (كچھ بهى) قصائى كو نہ دوں - "
اور حضرت على كہتے ہيں كہ
"ہم اسے (قصائى كو) اپنے پاس سے (معاوضہ) ديا كرتے تهے-" (مسلم :3180،كتاب الحج )

ان احاديث سے معلوم ہوا كہ قربانى كے جانوروں كى ہر چيز حتى كہ جل تك بهى صدقہ كر دى جائے اور قصائى كو ان ميں سے اُجرت ميں كچھ نہ ديا جائے بلكہ اُجرت عليحدہ دينى چاہيے-

دوسروں كى طرف سے قربانى

زندہ افراد كى طر ف سے قربانى

اپنے علاوہ ديگر زندہ افراد كى طرف سے قربانى كرنا بالا تفاق جائز و مباح ہے اور اس كى دلیل يہ حديث ہے كہ
"حضرت عائشہ سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے اپنى بيويوں كى طرف سے گائے كى قربانى كى-" (بخارى؛5548) ايك اور حديث ميں ہے كہ
"عطاء بن يسار سے روايت ہے كہ ميں نے حضرت ابو ايوب انصارى سے دريافت كيا كہ رسول اللہ ﷺ كے زمانے ميں قربانى كيسے ہوتى تهى تو انہوں نے كہا : نبى كريم ﷺ كے زمانے ميں آدمى اپنى طرف سے اور اپنے گهر والوں كى طرف سے ايك بكرى قربان كرتا تها، وه (اسے) كهاتے اور كهلاتے تهے-" (ترمذى؛1505،كتاب الاضاحى)
اس حديث سے ثابت ہوا كہ اگر كوئى زندہ افراد يعنى گهروالے يا دوست احباب وغيره كى طرف سے قربانى كرنا چاہے توجائز ہے-

ميت كى طرف سے قربانى
اس كى ايك صورت تو يہ ہے كہ قربانى تو زندہ افراد كى طرف سے كى جائے ليكن اس ميں فوت شدگان كو بهى شريك كرليا جائے، يہ جائز ہے جيسا كہ آنحضرت ﷺ نے جانور ذبح كرتے وقت فرمايا:

" اللہ كے نام كے ساتھ اے اللہ! محمد، آلِ محمد اور اُمت ِمحمد كى طرف سے (اسے) قبول فرما-" (مسلم ؛5091،كتاب الاضاحى)

ايك اور حديث ميں ہے كہ آپ نے جانور قربان كرتے وقت فرمايا:

(بسم الله والله أكبر عن محمد! وأمة من شهد الله بالتوحيد وشهد لي بالبلاغ)
"اللہ كے نام كے ساتھ اور الله سب سے بڑا ہے، (يہ جانور) محمد كى طرف سے اور اس كى اُمت ميں سے جس نے اللہ تعالىٰ كى توحيد كى گواہى دى اور ميرے ليے پيغام پہنچانے كى گواہى دى، كى طرف سے (قبول فرما)-" (ارواء الغليل:ج4/ص251)

ان احاديث سے معلوم ہو اكہ نبى ﷺ نے قربانى ميں اپنے گهروالوں كے ساتھ پورى اُمت كو بهى شريك كيا اور يقينا اس وقت آپ ﷺ كى اُمت كے كئى افراد فوت ہوچكے تهے- لہٰذا ثابت ہوا كہ اپنى قربانى ميں فوت شدگان كو بهى شريك كيا جاسكتا ہے-

شيخ ابن باز كا فتوى: شيخ ابن باز نے بهى اسى كى طرف اشارہ كيا ہے :

"قربانى زندہ اور مردہ كى طرف سے مشروع ہے كيونكہ نبى ﷺ مدينہ ميں ايك بكرى اپنى طرف سے اور اپنے گهر والوں كى طرف سے قربان كرتے تهے، حالانكہ اُن ميں بعض فوت ہوچكے تهے جيسے حضرت خديجہ اور آپ ﷺ كى دو بيٹياں حضرت رقيہ اور حضرت اُمّ كلثوم اور اس ليے بهى مشروع ہے كہ يہ صدقہ اور قربت ہے پس يہ بقيہ صدقات كے مشابہ ہوگئى اور يہ زندہ افراد كى طرف سے زيادہ موٴكد ہے آپ ﷺ كے فعل كى وجہ سے اور آپ ﷺ كے اِس قول كى وجہ سے كہ "جب ذوالحجہ كا مہينہ شروع ہوجائے اور تم ميں سے كوئى قربانى كا ارادہ ركهتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور اپنے ناخنوں سے كچھ نہ كاٹے-" اسے امام مسلم نے اپنى كتاب صحيح مسلم ميں حضرت اُمّ سلمہ كى حديث سے تخريج كيا ہے۔" (فتاوىٰ اسلاميہ :ج2/ص321)
شيخ ابن عثيمين كا فتوى:
"ميت كے ليے قربانى كى دو قسمیں ہیں :
(1) (پہلى )يہ كہ شرعى قربانى ہو اور وہ يہ ہے كہ جو عيدالاضحى ميں اللہ كا تقرب حاصل كرنے كے ليے ذبح كى جاتى ہے اور اس كا ثواب ميت كے ليے مقرر كر ديا جاتا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں - ليكن اس سے بهى افضل يہ ہے كہ انسان اپنى طرف سے اور اپنے گهر والوں كى طرف سے قربانى كرے اور اس كے ساتھ زندہ اور فوت شدہ(افراد) كى بهى نيت كر لے تو تبعاً ميت بهى اس ميں شامل ہو جائے گى كيونكہ نبى ﷺ نے صرف اپنے گهر كے فوت شدگان ميں سے كسى كى طرف سے قربانى نہيں كى- آپ ﷺ كى تين بیٹیاں :زينب،امّ كلثوم اور رقيہ رضى اللہ عنہن فوت ہوئيں ليكن آپ ﷺ نے ان كى طرف سے قربانى نہيں كى اور اسى طرح خديجہ جو آپ كو بيويوں ميں سب سے زيادہ محبوب تهيں ،آپ نے ان كے ليے بهى قربانى نہيں كى، اور اسى طرح آپ كے چچا حضرت حمزہ جو جنگ ِاُحد ميں شہيد كر ديے گئے، آپ نے ان كى طرف سے بهى قربانى نہيں كى -ہاں ! ليكن آپ ﷺ نے اپنى طرف سے اور اپنے گهر والوں (مجموعى طور پر ،زندہ يا فوت شدہ )كى طرف سے قربانى كى ہے-"

(2) "غيرعيدا لاضحى ميں ميت كى طرف سے جانور ذبح كرنا جيسا كہ بعض جاہل لوگ ايسا كرتے ہيں كہ ميت كے ليے اس كى وفات كے ساتويں روز جانور ذبح كيا جاتا ہے يا اس كى وفات كے چاليسويں روز، يا اس كى وفات كے تيسرے روز، يہ بدعت ہے اور جائز نہيں كيونكہ يہ ايسے بے فائدہ كام ميں مال كا ضياع ہے جس ميں نہ تو دينى فائدہ ہے اور نہ دنياوى، بلكہ دينى نقصان ميں (مال كا ضياع ہے) اور تمام بدعتيں گمراہى ہيں جيسا كہ آپ ﷺ نے فرمايا: "ہر بدعت گمراہى ہے-" (واللہ الموفق) (فتاوىٰ منار الاسلام :ج2/ص411)

جہاں تك صرف ميت كى طرف سے قربانى كرنے كا تعلق ہے توبقول شيخ ابن عثيمين اس سے اجتناب ہى بہتر ہے، جبكہ ديگر اہل علم مثلاً علامہ ابن تيميہ، امام بغوى وغيرہ اس كے جواز كے بهى قائل ہيں -( فتاوىٰ: 26/306 اور شرح السنہ: 4/258)

كيا مقروض شخص قربانى كرسكتا ہے؟
شريعت سے كوئى ايسى دليل نہيں ملتى جس سے يہ ثابت ہوتا ہو كہ مقروض شخص قربانى نہيں كرسكتا، ہاں اتنا ضرور ہے كہ قرض لينے كے بعد اسے جلد از جلد اتارنے كى كوشش كرنى چاہيے ليكن اس كا يہ مطلب ہر گز نہيں كہ اگر مقروض شخص قربانى كرے گا تو اس كى قربانى قبول نہيں ہوگى بلكہ قربانى عبادت ہے اور نبى ﷺ كى سنت ہے اس ليے اگر مقروض شخص بهى قربانى جيسى عبادت كے ذريعے تقربِ الٰہى حاصل كر سكتا ہے تو اسے ضرور ايسا كرنا چاہيے۔ (واللہ اعلم)

جانور كو ذبح كرنے كے مسائل

* عيد گاہ ميں قربانى كى جائے كيونكہ رسول اللہ ﷺ كا يہى معمول تها جيسا كہ حضرت ابن عمر فرماتے ہيں كہ

(كان رسول الله يذبح وينحر بالمصلى)
"رسول الله ﷺ (قربانى) ذبح اور نحر عيد گاہ ميں كيا كرتے تهے-"
(بخارى :5552)

* جانور قبلہ رخ لٹانا چاہيے جيساكہ حضرت جابر بن عبداللہ  سے روايت ہے، انہوں نے كہا نبى ﷺ نے قربانى كے دن سينگ والے دو چتكبرے، خصى مينڈهے ذبح كيے پس جب آپ ﷺ نے انہيں قبلہ رخ كيا- (ابوداود :كتاب الضحايا،2795 )

* جانور ذبح كرتے وقت اس كے پہلوپر پاؤں ركهنا سنت سے ثابت ہے جيسا كہ حضرت انس فرماتے ہيں كہ

(ضحى النبي !بكبشين أملحين فرأيته واضعا قدمه على صفاحهما)
'
'نبى كريم ﷺ نے دو چتكبرے مینڈهوں كى قربانى كى، ميں نے ديكها كہ آپ ﷺ اپنے پاؤں ان جانوروں كے پہلوٴوں پر ركهے ہوئے ہيں -" (بخارى :5558)

* قربانى كے لئے چهرى خوب تيز كرنا چاہئے :
(1) حضرت شدادبن اوسسے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:

"جب تم ذبح كرو تو اچهے طريقے سے ذبح كرو اور تم ميں سے ايك اپنى چهرى تيز كرے اور اپنے ذبيحہ كو آرام پہنچائے-" (ابو داود:2814)

* چهرى چلانے سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے مختلف دعائيں ثابت ہيں :

(1) بروايت ِحضرت انس :
بِسْمِ اللهِ وَاللهُ اَكْبَرْ: (بخارى :5565)

(2) بروايت جابر
(بِسْمِ اللهِ وَاللهُ اَكْبَرْ هَذَاعَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ اُمَّتِي) (ابو داود:2810)

(3) بروايت عائشہ
(اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ)(مسلم :1967)

(4)
(وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِىْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيْفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ إِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَبِذٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ اَللّٰهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ بِسْمِ اللهِ وَاللهُ اَكْبَرْ)
(ابو داود:2795)

حديث سے معلوم ہو اكہ جانور قربان كرنے سے پہلے چهرى كو خوب اچهى طرح تيز كرلينا چاہيے تاكہ جانور آسانى سے ذبح ہوجائے اور اسے زيادہ تكليف نہ ہو كيونكہ گذشتہ روايت ميں يہ الفاظ بهى موجود ہيں

"بے شك اللہ تعالىٰ نے ہر چيز پر احسان لكھ ديا ہے پس جب تم قتل كر و تو (اس ميں بهى) احسان كرو"

(2) ايك اور روايت ميں ہے كہ حضرت انس فرماتے ہيں

"رسول اللہ ﷺ نے جانورں كو باندھ كر ذبح كرنے سے منع فرمايا ہے-" (ابوداود:2815)

گائے كى ٹانگيں باندہ كر ذبخ كرنا كيسا ہے- يا دو افرا د كا پكڑ كا ذبح كرنا؟؟؟؟

(3)
"حضرت عائشہ سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے سينگ والا ايك مينڈها لانے كا حكم ديا جس كے ہاتھ 'پاؤں 'پيٹ اور آنكهيں سياه ہوں تو وہ قربانى كے ليے لايا گيا- آپ ﷺ نے حضرت عائشہ سے كہا: چهرى لاؤ- پهر آپ ﷺ نے فرمايا: اسے پتهر كے ساتھ تيز كرو تو انہوں نے ايسا ہى كيا- پهر آپ ﷺ نے چهرى كو پكڑا اور مينڈهے كو ذبح كرنے كے ليے لٹا ديا- پهر كہا: "اللہ كے نام كے ساتھ،اے الله! محمد ، آلِ محمد اور اُمت محمد كى طرف سے قبول فرما" پهر آپ ﷺ نے اسے ذبح كر ديا-" (مسلم :5091)

اونٹ نحر كرنے كا طريقہ
اونٹ كو ذبح نہيں بلكہ نحر كرنا چاہيے اور نحر كا طريقہ يہ ہے كہ اونٹ كا اگلا باياں گهٹنا باندہ كر اسے تين ٹانگوں پر كهڑا كردينا چاہيے اور كوئى تيز دهار چيز مثلاً چهرى' چاقو' نيزه يا برچهى وغيره اس كى گردن ميں مارنى چاہيے، آہستہ آہستہ خون بہہ جائے گا اور اونٹ ايك طرف گر جائے گا پهر اس كى كهال وغيره اتار كر گوشت بنا لينا چاہيے، اونٹ كو نحر كرنے كے دلائل حسب ِذيل ہيں :

(1) ارشادِ بارى تعالى ہے كہ
"قربانى كے اونٹ ہم نے تمہارے ليے اللہ تعالىٰ كى نشانياں مقرر كر دى ہيں ، ان ميں تمہيں نفع ہے پس انہيں كهڑا كر كے ان پر اللہ كا نام لو- پهر جب ان كے پہلو زمين سے لگ جائيں تواس سے كهاؤ-"(الحج : 36)
حضرت ابن عباس 'صواف'كى تفسیر ميں فرماتے ہيں كہ اس كا معنى قياما معقولۃ یعنى ايك ٹانگ باندہ كر كهڑا كرنا ہے۔
(تفسیر فتح القدير:ج3/ص558)امام شوكانى آيت
﴿فَإذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا﴾كے متعلق فرماتے ہيں كہ وجوب (سے مراد )ساقط ہونا ہے يعنى جب نحر ہونے كے بعد اونٹ گر جائے- اور يہ اس وقت ہوتا ہے جب اس كى روح نكل جاتى ہے-
(تفسير فتح القدير :13/556)

(2)
"حضرت ابن عمر  سے روايت ہے كہ وہ ايك ايسے آدمى كے پاس سے گزرے جس نے اونٹ كو ذبح كرنے كى غرض سے بٹها ركها تها تو انہوں نے كہا: "اس كا گهٹنا بانده كر اسے كهڑا كرو، يہى محمد ﷺ كى سنت ہے-" (بخارى:كتاب الحج،1713)

(3)
"حضرت جابر سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ اور آپ كے صحابہ اونٹ كى بائيں ٹانگ باندہ كر اسے نحر كرتے تهے اور وہ اپنى باقى ٹانگوں پركهڑاہوتاتہا-" (ابوداود :1767)

(4) حضرت جابر سے حجة الوداع كے بيان ميں حديث مروى ہے اور اس ميں ہے كہ
"رسول اللہ نے اپنے ہاتھ كے ساتھ تريسٹہ (63)اونٹ نحر كيے- آپ ﷺ اونٹوں كى گردنوں ميں اپنے ہاتھ ميں موجود چهوٹا نيزه مارتے تهے-"(مسلم :1218)

زندہ جانور سے كاٹا ہوا گوشت حرام ہے

جانور كو ذبح يا نحر كرنے كے بعد جب تك اچهى طرح اس كا خون بہہ كر روح نہ نكل جائے اس كا گوشت بنانا شروع نہيں كرنا چاہيے كيونكہ اگر زندہ جانور سے ہى گوشت كاٹ ليا جائے تو وہ حرام ہے جيسا كہ حديث ميں ہے كہ حضرت ابو واقد ليثى  سے مروى ہے كہ اللہ كے رسول ﷺ نے فرمايا :

"زندہ جانور سے جو كچھ كاٹ ليا جائے وہ مردار ہے-"(ابو داود :2858)

ہر خون بہا دينے والى چيز سے ذبح كرنا جائز ہے ...

سوائے دانت اور ناخن كے، جيسا كہ مندرجہ ذيل حديث اس كا واضح ثبوت ہے:

(1)
"حضرت رافع بن خديج  نے نبى ﷺ سے روايت كياہے كہ "جو چيز خون كو بہادے اور اسے اللہ كا نام لے كر ذبح كيا گيا ہو تو اس جانور كو كهالو- ذبح كرنے كا آلہ دانت اور ناخن نہيں كيونكہ دانت تو ہڈى ہے اور ناخن حبشيوں كى چهرى ہے-"
(بخارى :كتاب الذبائح والصيد5498)

يہ حديث مطلق دانت اور ناخن سے ممانعت پر دلالت كرتى ہے (يعنى )دانت اور ناخن خواہ انسان كا ہو يا كسى اور جانور كا 'الگ اور جدا ہو يا جسم كے ساتھ لگا ہو 'خواہ لوہے سے بنايا ہو(ہر صورت ميں ان دونوں سے ذبح كرنا ممنوع ہے)-
(تفصيل كے ليے ملاحظہ ہو : سبل السلام :ص4/ج1852)

(2)
"حضرت كعب بن مالك سے روايت ہے كہ ايك عورت نے پتهر سے ايك بكرى كو ذبح كر ديا، نبى ﷺ سے اس كے كهانے كے متعلق پوچها گيا تو آپ ﷺ نے اسے كهانے كا حكم فرمايا- "(بخارى :5504)
اس حديث سے معلوم ہوا كہ چهرى كے علاوہ اور چيزوں سے بهى جانور ذبح كرنا درست ہے بشرطيكہ اس سے خون بہہ جائے جيسا كہ اس عورت نے ايك نوكدار پتهر سے ذبح كيا تها اور اس سے خون بہہ گيا تها-

جانور خود ذبح كرنا چاہيے

جيسا كہ اس كے دلائل حسب ِذيل ہيں :
(1) حضرت جابر سے حجة الوداع كے بيان ميں حديث مروى ہے اور اس ميں ہے كہ
"رسول اللہ نے اپنے ہاتھ كے ساتھ تريسٹہ (63)اونٹ نحر كيے- آپ اپنے ہاتھ ميں موجود چهوٹا نيزه اونٹوں كى گردنوں ميں مارتے تهے- "(مسلم :1218)

(2) حضرت انس سے روايت ہے كہ
"نبى ﷺ نے كهڑے كهڑے سات اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر كيے اور مدينہ ميں دوسینگوں والے چتكبرے مينڈهے ذبح كيے-" (ابو داو د:3 9 7 2 )

(3) حضرت انس سے روايت ہے كہ
"رسول اللہ ﷺ سينگ والے دو چتكبرے مينڈهوں كى طرف متوجہ ہوئے اور انہيں اپنے ہاتھ سے ذبح كيا-" (بخارى :5554)

(4)
"حضرت انس نے بيان كيا ہے كہ نبى كريم ﷺ نے دو چتكبرے مینڈهوں كى قربانى كى-ميں نے ديكها كہ آنحضرت ﷺ اپنے پاؤں جانور كے اوپر ركهے ہوئے ہيں اور بسم اللہ واللہ اكبر پڑھ رہے ہيں - اس طرح آپ ﷺ نے دونوں مینڈهوں كو اپنے ہاتھ سے ذبح كيا۔" (بخارى :5558)

درج بالا احاديث سے ثابت ہوا كہ انسان كو اپنى قربانى خود ذبح كرنے كى كوشش كرنى چاہيے كيونكہ رسول اللہ ﷺ ہميشہ اپنى قربانى خود ذبح كيا كرتے تهے۔
امام ابن قدا مہ  فرماتے ہيں كہ

"اور اگر وہ شخص قربانى كا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح كرے تو يہ افضل ہے -"(المغنى لابن قدامة:ج13/ص389)
سيد سابق  فرماتے ہيں كہ
"جو شخص عمدہ طريقے سے جانور ذبح كر سكتا ہواس كے ليے مسنون ہے كہ وہ اپنى قربانى اپنے ہاتھ كے ساتھ ذبح كرے ۔" (فقہ السنة:ج3/ص198)
كيا قصائى سے ذبح كرانا درست ہے؟
بہتر تو يہ ہے كہ جانور خود ذبح كيا جائے جيسا كہ نبى ﷺ اپنا جانور خود ہى ذبح كرتے تهے ليكن اگر كوئى ايسا نہ كر سكتا ہو تو قصائى سے ذبح كرانا بهى درست ہے- كيونكہ كسى صحيح حديث ميں اس كى ممانعت موجود نہيں -

كيا عورت ذبح كرسكتى ہے؟

اگر عورت كوجانور ذبح كرنے كا طريقہ آتا ہو تو اس كے ليے جانور ذبح كرنا جائز ہے جيسا كہ اس كے دلائل حسب ِذيل ہيں :
(1) امام بخارى رقمطراز ہيں كہ
"حضرت ابو موسى اشعرى نے اپنى بيٹيوں سے كہا كہ وہ اپنى قربانى اپنے ہاتھ سے ہى ذبح كريں ۔"(بخارى قبل الحديث :5559)

علامہ عينى  فرماتے ہيں كہ

"اس حديث ميں يہ دليل ہے كہ عورتيں اگر اچهى طرح ذبح كر سكتى ہوں تو وہ اپنى قر بانياں خود ذبح كر سكتى ہيں ۔" (عمدة القارى :ج21/ص155)
(2) "حضرت كعب بن مالك سے روايت ہے كہ ايك لونڈى سِلَع پہاڑى پر بكرياں چرايا كرتى تهى -(چراتے وقت ايك مرتبہ) اس نے ديكها كہ ايك بكرى مرنے والى ہے چنانچہ اس نے ايك پتهر توڑ كر اس سے بكرى ذبح كر دى تو كعب بن مالك نے اپنے گهر والوں سے كہا كہ اسے اس وقت تك نہ كهانا جب تك ميں رسول اللہ ﷺ سے اس كا حكم نہ پوچھ آؤں يا (انہوں نے كہا كہ) ميں كسى كو بهيجوں جو آنحضرت ﷺ سے مسئلہ پوچھ آئے- پهر وه آنحضرت ﷺ كى خدمت ميں حاضر ہوئے يا كسى كو بهيجا اور آنحضرت ﷺ نے اس كے كهانے كى اجازت بخشى-"(بخارى:5501)

شيخ ابن جبرين كا فتوى:

كسى نے دريافت كيا كہ جب قربانى كا وقت ہوجائے او رگهر پر كوئى آدمى موجود نہ ہو تو اس صورت ميں كيا عورت قربانى كا جانور ذبح كرسكتى ہے؟ تو شيخ نے جواب ميں كہا كہ
"ہاں اگر جانور ذبح كرنے كى ديگر شرائط پورى ہو رہى ہوں تو بو قت ِضرورت عورت قربانى وغيرہ كا جانور ذبح كر سكتى ہے -قربانى كا جانور ذبح كرتے وقت اُس زندہ يا فوت شدہ آدمى كا نام لينا مسنون ہے جس كى طرف سے قربانى كى جارہى ہو- اور اگر ايسا نہ بهى ہوسكے تو نيت كرلينا ہى كافى ہے اگر ذبح كرنے والا غلطى سے اصل شخص كى بجائے كسى اور كا نام لے لے تو بهى كوئى نقصان نہ ہوگا، اس ليے كہ اللہ ربّ العزت نيتوں سے بخوبى آگاہ ہيں -( والله الموفق) (فتاوىٰ اسلاميہ :2/ 318)
اس حديث سے يہ مسئلہ نكلتا ہے كہ بامر مجبورى عورت ذبح كرسكتى ہے، كيا عام حالات ميں بهى اس كى اجازت ہے، صريح دليل كوئى نہيں پيش كى-
مكمل اہل وعيال كى طرف سے ايك بكرى بهى كفايت كرجاتى ہے اور اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

"عطاء بن يسار سے روايت ہے كہ ميں نے حضرت ابو ايوب انصارى سے دريافت كيا كہ رسول اللہ ﷺ كے زمانے ميں قربانى كیسے ہوتى تهى؟ تو انہوں نے كہا : نبى كريم ﷺ كے زمانے ميں آدمى اپنى طرف سے اور اپنے گهر والوں كى طرف سے ايك بكرى قربان كرتا تها، وہ (اسے) كهاتے تهے اور كهلاتے تهے-" (ترمذى:كتاب الاضاحى،1505)

ايك اور حديث ميں ہے كہ

"حضرت ابو سريحہ سے روايت ہے كہ ہمارے گهر والوں نے ہم كو خلافِ سنت كام پر مجبور كيا اُس كے بعد كہ جب ہم سنت پر عمل كرتے تهے تو ايك گهر والے بكرى يا دو بكريوں كى قربانى كرتے اور اب اگر ہم ايسا كرتے ہيں تو ہمارے ہمسائے ہميں بخيل كہتے ہيں "(ابن ماجہ:كتاب الاضحى3148)

درج بالا احاديث سے معلوم ہوا كہ ايك بكرى مكمل اہل وعيال كى طرف سے كفايت كر جاتى ہے- اس حديث كو نقل كرنے كے بعد امام ترمذى فرماتے ہيں كہ

"بعض اہل علم كے نزديك اسى پر عمل ہے اور امام احمد اور امام اسحق كا بهى يہى قول ہے... اور بعض اہل علم نے كہا ہے كہ بكرى صرف ايك نفس كى طرف سے ہى كفايت كرتى ہے اور يہ قول عبد اللہ بن مبارك اور ان كے علاوہ (بعض ديگر) اہل علم كا ہے-"بہر حال راجح موقف امام احمد  وغيرہ كا ہى ہے كيونكہ حضرت ابو ايوب انصارى كى گذشتہ صحيح حديث اسى كو ثابت كرتى ہے-

امام شوكانى كا فتوى:

"حق بات يہ ہے كہ ايك بكرى (مكمل ) گهر والوں كى طرف سے كفايت كى جاتى ہے، اگرچہ وہ سويا اس سے بهى زياده نفس ہوں جيسا كہ سنت نے يہى فيصلہ كرديا ہے-" (نيل الاوطار :5/137، ا لسيل الجرار :3/233)
امام ابن قيمكا فتوى :
"آپ ﷺ كى سنت سے يہ بهى ہے كہ ايك بكرى آدمى كى طرف سے اور اس كے گهروالوں كى طرف سے كفايت كرجاتى ہے خواہ ان كى تعداد زيادہ ہو-" (كمافى تحفہ الاحوذى :5/73)
امام ابن قدامہ كا فتوى:
"اس ميں كوئى حرج نہيں كہ آدمى اپنے گهر والوں كى طرف سے ايك بكرى ذبح كر دے-" (المغنى :ج13/ص365)
كيا قربانى فرد پر لاگو ہوتى ہے، يا گهر پر- حسن

اونٹ اور گائے كے حصے

اونٹ كى قربانى ميں دس افراد جبكہ گائے كى قربانى ميں سات افراد شريك ہوسكتے ہيں اور اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
"حضرت ابن عباس سے روايت ہے، وہ كہتے ہيں : ہم رسول اللہ ﷺ كے ساتھ سفر ميں تهے تو قربانى كا وقت ہو گيا-ہم اونٹ ميں دس آدمى شريك ہوئے اور گائے ميں سات-" (ابن ما جہ :3131كتاب الاضحى)

ايك اور حديث سے بهى يہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے جيسا كہ حضرت رافع بن خديج  فرماتے ہيں كہ "ہم نبى ﷺ كے ساتھ ذوالحليفہ مقام پر تهے-ہمارے ہاتھ بكرياں اور اونٹ لگے- لوگوں نے جلدى جلدى اُنہيں ذبح كر كے ہانڈياں چڑها كر اُبالنى شروع كر ديں - نبى ﷺ تشريف لائے- آپ ﷺ نے ہانڈياں اُلٹ دينے كا حكم اور
(ثم عدل عشرة من الغنم بجزور) "پهر آپ ﷺ نے دس بكريوں كو ايك اونٹ كے برابر قرار ديا-"(بخارى :2507 كتاب الشركة)اور جن روايات ميں ہے كہ اونٹ ميں سات آدمى شريك ہوسكتے ہيں مثلاً حضرت جابر سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا "گائے سات آدميوں كى طرف سے قربان كى جاسكتى ہے اوراونٹ بهى سات آدميوں كى طرف سے قربان كيا جاسكتا ہے-" (ابو داود:2808،كتاب الضحايا) تو ايسى تمام روايات كے متعلق بعض علما كہتے ہيں كہ يہ حج كے متعلق ہيں يعنى دورانِ حج قربانى كرنے والے ايك اونٹ ميں صرف سات افراد ہى شريك ہوں گے- اور بعض علما كاخيال ہے كہ يہ اللہ كى طرف سے رخصت ہے يعنى اونٹ ميں دس آدمى بهى شريك ہو سكتے ہيں اور سات بهى - (واللہ اعلم)

علاوہ ازيں اگر استطاعت ہو تو اكيلا آدمى بهى اونٹ يا گائے كى قربانى كر سكتا ہے جيسا كہ حضرت عائشہ سے روايت ہے كہ "بے شك رسول اللہ ﷺ نے حجة الوداع كے موقع پر آلِ محمد كى طرف سے ايك گائے قربان كى-" (ابن ماجہ:3135،كتاب الاضاحى)

كيا مختلف لوگ مل كر ايك بكرى قربان كر سكتے ہيں ؟

ايسا كرنا جائز نہيں كيونكہ شريعت ميں اتنا تو ثابت ہے كہ ايك بكرى مكمل گهر والوں كى طرف سے كفايت كر جاتى ہے ليكن يہ بالكل ثابت نہيں كہ ايك بكرى زيادہ گهرانوں يا مختلف افراد كى طرف سے كفايت كرتى ہے-
ايك قربانى ايك سے زيادہ افراد كى طرف سے ہوجاتى ہے ، كفايت كرجانے كا مقصد كيا ہوا، كيا يہ فرض ہے جو ان كے ذمہ سے ساقط ہوجاتا ہے، يہ كہنا درست نہيں كہ ايك بكرى تمام گهر والوں كى طرف سے كفايت كرجاتى ہے، ثواب ميں شركت اور شے ہے، اور كفايت كرنا اور...؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ایک بھائی نے ذاتی پیغام میں سوال کیا ہے کہ :
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں پاکستان میں بھی عید الاضحیٰ کی قربانی کر رہا ہوں ، میں نے گھر والوں کو کہا ہے کہ وہ اپنی طرف سے نیت کرے تاکہ میں ناخن اور بال کی پابندی ان دس دنوں میں نہ کر سکوں ،تا کہ جب حج کا احرام باندھو تو بال اور ناخن کاٹ سکوں ۔
شیخ اس مسلے میں میری رہنمائی کر دے
والسلام
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ٭
جواب :
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ذوالحجہ کے ان دس دنوں میں ناخن اور بال نہ کٹانے کا حکم صرف اسی کیلئے ہے جو اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کررہا ہے ،
گھر کے باقی افراد کیلئے یہ پابندی نہیں ، درج ذیل فتوی دیکھئے :

ـــــــــــــــــــــــــــــــ
فتویٰ ( الاسلام سؤال و جواب )

کیا قربانی کرنے کا ارادہ رکھنےوالے کے لیے بال اورناخن کاٹنے جائز ہيں ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد للہ
شیخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
جب کوئي شخص قربانی کرنا چاہے اورچاندنظرآنے یا ذی القعدہ کے تیس دن پورے ہونے کی بنا پرذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے توقربانی ذبح کرنے تک اس کے لیے اپنے بال اورناخن یا جلد وغیرہ سے کچھ کاٹنا حرام ہے ۔


اس کی دلیل مندجہ ذیل حدیث ہے ۔
إذا رأيتم هلال ذي الحجة ، وفي لفظ : " إذا دخلت العشر وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره وأظفاره ". رواه أحمد ومسلم ،
وفي لفظ : " فلا يأخذ من شعره وأظفاره شيئاً حتى يضحي " ، وفي لفظ : " فلا يمس من شعره ولا بشره شيئاً ))

سیدہ ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو ۔


اورایک روایت کے الفاظ ہيں :
جب عشرہ ( ذی الحجہ ) شروع ہوجائے اورتم میں سے کوئي قربانی کرنا چاہے تووہ اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے ) مسند احمد اورصحیح مسلم ۔


اورایک روایت کے الفاظ ہيں :
توقربانی کرنے تک اپنے بال اورناخن نہ کٹوائے ۔


اورایک روایت کے الفاظ ہيں :
تووہ اپنے بال اورجلد میں سے کچھ بھی نہ لے ۔


اورجب کوئي شخص عشرہ ذی الحجہ کے دوران قربانی کرنے کی نیت کرے تواسے اپنی نیت کے وقت سے ہی بال اورناخن کٹوانے سے رک جانا چاہیے ، اوراس نے قربانی کرنے کی نیت سے قبل جوکچھ کاٹا ہے اس کا کوئي گناہ نہيں ہوگا ۔

اس ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ جب قربانی کرنے والا شخص قربانی کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کےلیے حاجی کے بعض اعمال میں شریک ہوا تو بال اورناخن وغیرہ نہ کٹوانے سے رکنے کے ساتھ احرام کے بعض خصائص میں بھی شریک ہوگيا ۔

اوریہ حکم یعنی بال اورناخن وغیرہ نہ کٹوانے کا حکم صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ ہی خاص ہے ، اورجس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہے وہ اس سے تعلق نہيں رکھتا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
لأن النبي صلى الله عليه وسلّم قال : " وأراد أحدكم أن يضحي " ولم يقل أو يضحى عنه ؛ ولأن النبي صلى الله عليه وسلّم كان يضحي عن أهل بيته ولم ينقل عنه أنه أمرهم بالإمساك عن ذلك
( اورتم میں سے کوئي قربانی کرنے کاارادہ کرے تو )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ : یا جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہو ، اوراس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول نہيں کہ آپ نےانہيں بال وغیرہ کٹوانے سےمنع فرمایا ہو ۔

تواس بنا پرقربانی کرنے والے کے اہل وعیال کے لیے عشرہ ذی الحجہ میں بال ، ناخن وغیرہ کٹوانے جائز ہیں ۔


اورجب قربانی کرنے کا اراہ رکھنے والا عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بال ، ناخن یا اپنی جلد سے کچھ کاٹ لے تواسے اللہ تعالی کے ہاں توبہ کرنی چاہیے اورآئندہ وہ ایسا کام نہ کرے ، اوراس پرکوئي کفارہ نہيں ہوگا اورنہ ہی یہ اس کے لیے قربانی کرنے میں مانع ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس سے قربانی میں ممانعت پیدا ہوجاتی ہے ۔

اوراگرکسی شخص نے بھول کریا جہالت میں بال وغیرہ کٹوا لیے یا اس کے بال بغیر قصد وارادہ کے گر گئے تواس پرکوئي گناہ نہیں ، اوراگراسے اتارنے کی ضرورت پیش آجائے تواسے کاٹنے میں کوئي گناہ اورحرج نہيں ہوگا مثلا کسی کا ناخن ٹوٹ جائے اوراسے ٹوٹا ہواناخن تکلیف دیتا ہوتواس کےلیے کاٹنا جائز ہے ، اوراسی طرح اگر اس کے بال آنکھوں میں پڑنے لگیں تواس کے لیے اسےزائل کردے ، یااسے کسی زخم کے علاج کے لیے بال کٹوانے کی ضرورت ہوتواس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ۔ .
دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 2 / 316 ) ۔

https://islamqa.info/ar/36567
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
ميت كى طرف سے قربانى
اس كى ايك صورت تو يہ ہے كہ قربانى تو زندہ افراد كى طرف سے كى جائے ليكن اس ميں فوت شدگان كو بهى شريك كرليا جائے، يہ جائز ہے
بعض اس کو جائز نہیں مانتے ان کا موقف یہ ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ صحابہ سے اس حوالے سے کوئی اثر صحیح سند سے ثابت نہیں ہے کیونکہ میں ایسا کرتا تھا مگر یہ بات سننے کے بعد نہیں کرتا اس حوالے سے رہنمائی کریں
 
Top