• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی کے مختصر احکام

شمولیت
اپریل 23، 2022
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
12
قربانی کے مختصر احکام

ترتيب: عبد الله محسن الصاهود
ترجمہ: عبد الرحمن فيض الله
مراجعہ: بدر الزماں عاشق على

قربانی کا حکم
سوال/1: صاحب استطاعت پر قربانی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی مرد اور عورت دونوں کے لئے سنت مؤکدہ ہے اور ایک ہی قربانی پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔ مجموع الفتاویٰ (18-38)
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صاحب استطاعت پر قربانی سنت مؤکدہ ہے، چنانچہ ایک آدمی کو چاہئے کہ اپنے اور اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرے۔ مجموع الفتاویٰ (25-10)

قربانی کے ثواب میں شرکت
سوال/2: کیا ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہاں ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے، اللہ کے نبی ﷺ ہر سال دو سفید رنگ کے بڑے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دیتے تھے ایک اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے۔ مجموع الفتاویٰ (18-38)

سوال/3: کیا قربانی کرنے والا اپنی قربانی کے ثواب میں کسی دوسرے کو شریک کر سکتا ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جی ہاں قربانی کرنے والا اپنی قربانی کے ثواب میں زندہ يا مردہ جس کو چاہے شامل کر سکتا ہے۔ مجموع الفتاویٰ (18-37)

ایک ہی گھر میں رہنے والے بھائیوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کا حکم
سوال/4: کیا میرے والد کی قربانی میرے اور میرے بچوں کی طرف سے کافی ہوگی؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر آپ الگ مستقل گھر میں رہتے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ آپ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے خود قربانی کریں، آپ کے والد کی قربانی آپ کے لئے کافی نہیں ہوگی کیونکہ آپ ان کے ساتھ ایک ہی گھر میں نہیں رہ رہے ہیں۔ مجموع الفتاویٰ (18-37)

سوال/5: دو بھائی اپنے بچوں سمیت ایک ہی گھر میں رہ رہے ہوں کھانا پانی بھی ایک ساتھ ہو تو کیا ایک قربانی ان سب کی طرف سے جائز ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایک ساتھ ایک گھر میں رہنے والے دو بھائی ایک ہی قربانی پر اكتفاء کر سکتے گرچہ دو الگ الگ فیملی ہوں۔ مجموع الفتاویٰ (25-37)

سوال/6: ایک باپ اپنے تین شادی شدہ بیٹوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہے اور گھر کے اندر ان میں سے ہر ایک کا الگ حصہ ہے، تو کیا ان کے لیے ایک قربانی کافی ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میرے خیال سے سب کو علاحدہ علاحدہ قربانی کرنی چاہئے کیونکہ سب کے گھر مستقل ہیں ۔ مجموع الفتاویٰ (25-38)

سوال/7: ایک شخص اپنے والد کے ساتھ رہتا ہے اور شادی شدہ ہے نیز اس کے پاس اپنے پیسے بھی ہیں تو کیا اس کے والد کی قربانی اس کے لئے کافی ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: سنت یہ ہے کہ آدمی اپنی اور اپنے چھوٹے بڑے تمام بچوں کی طرف سے قربانی کرے۔
ب: اگر آدمی اپنے والد سے الگ دوسرے گھر میں رہ رہا ہو تو ہر ایک کو اپنی اپنی قربانی کرنی ہوگی۔ مجموع الفتاویٰ (25-41)

سوال/8: اگر کسی شخص کے کئی بچے ہوں اور ان میں سے کچھ شادی شدہ ہوں تو کیا والد کی قربانی ان تمام بچوں کی طرف سے کافی ہوگی؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر سارے لوگ ایک ہی گھر میں ایک ہی پریوار کی طرح رہ رہے ہوں تو ایک قربانی سب کے لئے کافی ہوگی۔
ب: اگر سارے بچے ایک ہی گھر میں ایک دوسرے سے الگ رہ رہے ہوں تو والد کی قربانی کافی نہیں ہوگی بلکہ ہر ایک کو اپنی اپنی قربانی کرنی پڑے گی۔ مجموع الفتاویٰ (25-41)

سوال/9: تین بھائی ایک ہی گھر میں رہ رہے ہیں سب شادی شدہ ہیں اور سب کی اپنی اپنی تنخواہ ہے تو کیا ایک ہی قربانی ان تینوں کے لئے کافی ہوگی یا تینوں کو الگ الگ قربانی کرنی پڑے گی؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر سب کا کھانا پانی ایک ساتھ ہو تو ایک قربانی سب کے لئے کافی ہوگی، بڑا بھائی اپنی اور سارے گھر والوں کی طرف سے قربانی کر دے گا۔
ب: اگر ہر ایک کا کھانا پانی (كچن) الگ الگ ہو تو سب کو اپنی اپنی قربانی کرنی ہوگی۔ مجموع الفتاویٰ (25-42)

سوال/10: ایک شخص کی دو بیویاں ہیں ایک اس کے ساتھ ہے اور دوسری اپنے میکے میں تو کیا ایسے آدمی کو ایک قربانی کرنی ہوگی یا دو؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہاں رہ رہا ہے وہاں ایک قربانی کر دے سب کے لئے کافی ہوگی چونکہ دوسری بیوی بھی اس کے اہل خانہ میں سے ہے گرچہ اپنے میکے میں رہ رہی ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-43)

قربانی کے لیے قرض لینا
سوال/11: کیا تنخواہ آنے تک قربانى كا جانور خريدنے كے ليے قرض ليا جا سكتا ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی کے لئے قرض لینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ ادا کرنے کی استطاعت ہو۔ مجموع الفتاویٰ (18-38)
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: ایسا شخص جس کے پاس عید کے موقعہ پر پیسہ نہیں ہے لیکن اسے امید ہے کہ عنقریب اس کے پاس پیسے ہو جائیں گے مثلا تنخواہ وغیرہ ملنے والی ہو تو ایسے شخص کے لئے قرض لے کر قربانی کرنا جائز ہے۔
ب: ہاں ایسا نادار شخص جسے کسی بھی طرف سے پیسہ آنے کی امید نا ہو تو ایسے شخص کے لئے قرض لے کر قربانی کرنا درست نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-110)

قربانی کرنے کا وقت
سوال/12: قربانی کرنے کا وقت کیا ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یوم النحر یعنی دس ذی الحجہ اور ایام تشریق 13،12،11 ذی الحجہ قربانی کرنے کے دن ہیں۔ مجموع الفتاویٰ (18-38)
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نماز عید کے بعد سے تیرہ ذی الحجہ کو سورج غروب ہونے تک، عید کا دن اور اس کے بعد مزید تین دن یعنی کل چار دن۔ مجموع الفتاویٰ (25-12)

سوال/13: قربانی کے وقت کا کیا مطلب ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر کسی نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو اس کی قربانی نہیں مانی جائے گی اور اس کے بدلے دوسری قربانی کرنی ہوگی۔
ب: اگر کسی نے تیرہ ذی الحجہ کو سورج غروب ہونے کے بعد قربانی کی تو اس کی بھی قربانی نہیں شمار ہوگی الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔ مجموع الفتاویٰ (25-12)

سوال/14: وہ کون سے عذر ہیں جن کی بناء پر 13 ذی الحجہ کے بعد قربانی کرنا جائز ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: آدمى كى كوتاہى كے بغير قربانى كا جانور بھاگ جائے اور وقت ختم ہونے كے بعد اسے ملے، يا پھر اس نے كسى شخص كو قربانى كرنے كا وكيل بنايا تو وكيل قربانى كرنا ہى بھول گيا حتى كہ وقت نكل جائے، تو نماز بھول جانے يا سوئے رہنے والے شخص پر قياس كرتے ہوئے كہ جب اسے ياد آئے يا پھر بيدار ہو تو نماز ادا كر لے اس قياس كى بناء پر وقت نكل جانے كے بعد قربانى كرنے ميں كوئى حرج نہيں۔ (اسلام سوال وجواب: 36651)

سوال/15: عصر کے بعد اور رات میں قربانی کا جانور ذبح کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:عید الاضحٰی کے دنوں میں عصر کے بعد قربانی کرنا بلا اختلاف جائز ہے اسی طرح راجح قول کے مطابق رات کے وقت بھی قربانی کرنا جائز ہے۔ اللجنہ الدائمہ

قربانی کے جانور میں کن شروط کا پایا جانا ضروری ہے؟
سوال/16: قربانی کی کیا شرطیں ہیں؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: قربانی کا جانور مویشی چوپائے (اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری) میں سے ہو۔
ب: قربانی کا جانور شرعی عمر کو پہنچ چکا ہو۔ (بھیڑ: چھ ماہ، بکری: ایک سال، گائے: دو سال، اونٹ: پانچ سال)
ج: قربانی کا جانور قربانی میں مانع عیوب سے پاک ہو۔ (قربانی میں مانع عیوب: ¹کانا جس کا کانا پن واضح ہو، ²مریض جس کا مرض واضح ہو، ³لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو،ایسا لاغر اور کمزور جس کی ہڈیوں پر گوشت نا ہو) مجموع الفتاویٰ (25/ 12)

سوال/17: کان کٹے یا سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی ہو جائے گی لیکن مکروہ ہے کیونکہ یہ جانور ناقص الخلقت ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25/ 40)

سوال/18: کیا خصی جانور کی قربانی جائز ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خصی جانور کی قربانی جائز ہے بلکہ بعض علماء خصی جانور کی قربانی کو افضل قرار دیتے ہیں کیونکہ خصی جانور کا گوشت غیر خصی جانور سے اچھا ہوتا ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25/ 50)

سوال/19: کیا کانوں میں ٹیگ لگی ہوئی بکریوں کی قربانی جائز ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صحیح بات یہ ہے کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہے ۔ مجموع الفتاویٰ (25-54)

سوال/ 20: کیا حاملہ جانور کی قربانی کرنا جائز ہے؟ اور اگر جائز ہے تو پیٹ میں موجود بچے کا کیا حكم ہے ؟
جواب: الف: حاملہ جانور کی قربانی ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے لیکن راجح یہی ہے کہ مویشی چوپایوں میں سے حاملہ جانور عید کی قربانی میں کفایت کرے گا، بشرطیکہ اس جانور میں کوئی اور عیب موجود نہ ہو۔
ب: اگر بچہ ٹھیک ٹھاک زندہ حالت میں باہر آئے، اور اس کو ذبح کرنا بھی ممکن ہو، لیکن اسے ذبح نہ کیا جائے اور وہ مر جائے تو وہ کھانے کے قابل نہیں ہوگا، اور اگر بچہ مردہ حالت میں باہر آئے تو جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اسے کھایا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ اپنی ماں کے ذبح ہونے سے خود بھی ذبح ہوچکا ہے۔ (اسلام سوال وجواب: 192041)

سوال/21: قربانی کی بکری کو ذبح کرنے کے بعد کلو کے حساب سے خریدنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: عمومی طور پر زندہ یا ذبح کرنے کے بعد بکری کو کلو کے حساب سے خریدنے بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جہاں تک قربانی، عقیقہ وغیرہ کا تعلق ہے تو ذبح کرنے سے پہلے مکمل ملکیت ہونا ضروری ہے، چنانچہ قصائی کی ملکیت میں ذبح کرنا درست نہیں ہے بلکہ زندہ جانور خرید کر اسے قربانی کی نیت سے ذبح کرنا چاہئے۔ (لجنۃ الإفتاء الأردنيۃ سؤال: 3507)

قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کا طریقہ
سوال/22: قربانی کرنے والا قربانی کا گوشت کس طرح تقسیم کرے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی کرنے والے کے لئے سنت ہے کہ:
الف: قربانی کے گوشت میں سے خود کھائے۔
ب: اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو ہدیہ کرے۔
ج: غریبوں مسکینوں کو بھی صدقہ کرے۔ مجموع الفتاویٰ (18-38)

سوال/23: قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کیا حکمت ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تاکہ تین جائز شرعی امور قربانی میں جمع ہو سکیں:
نمبر1: قربانی کا گوشت کھا کر اللہ کی نعمت سے استفادہ۔
نمبر2: اس میں سے کچھ صدقہ کر کے اللہ سے ثواب کی امید ۔
نمبر3: اس میں سے کچھ ہدیہ کر کے اللہ کے بندوں سے محبت کا اظہار ۔ مجموع الفتاویٰ (25-14)

سوال/24: بڑے اور موٹے تگڑےجانور کی قربانی کرنا افضل ہے یا قیمتی جانوركى قربانی کرنا؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر قربانی کے فائدہ کو مد نظر رکھیں تو بڑے اور موٹے تگڑےجانور کی قربانی کرنا افضل ہے۔
ب: اگر اللہ تعالی سے عقیدت اور اخلاص کو مد نظر رکھیں تو قیمتی جانور کی قربانی افضل ہے۔
ج: لیکن آپ کے لئے جو بہتر ہو وہ کریں اگر زیادہ خرچ کرنے سے آپ کے دل کو سکون ملتا ہواور اس سےآپ کا ایمان تازہ ہو جاتا ہو تو پیسہ خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مجموع الفتاویٰ (25-35)

سوال/25: قربانی کا گوشت کچا تقسیم کیا جائے یا پکا کر؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صدقہ اور ہدیہ کچا گوشت کیا جائے گا نا کہ پکا کر۔ مجموع الفتاویٰ (25-132)

سوال/26: کیا قربانی کا گوشت جمع کرنا اور پھر اسے غریبوں میں تقسیم کرنا جائز ہے، چاہے وہ عید کے دن کے بعد ہی کیوں نہ ہو؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں قربانی کا گوشت کھانے اور بانٹنے میں وقت کی کوئی پابندی نہیں۔ مجموع الفتاویٰ (25-137)

مردوں کی طرف سے قربانی
سوال/27: میت کی طرف سے قربانی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر مرنے والا شخص اپنے ایک تہائی مال میں سے قربانی کی وصیت کیا ہے، یا قربانی کے لئے وقف متعین کیا ہے تو وصیت کے مطابق اس کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔
ب: اگر مرنے والا شخص وصیت کیا ہے نا ہی وقف متعین کیا ہے لیکن کوئی اپنے مرحوم ماں اور باپ کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔ مجموع الفتاویٰ (18-40)
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: قربانی زندوں کے لئے ہے مردوں کے لئے نہیں، نبی کریم ﷺکے کئی رشتہ داروں کا انتقال ہوا لیکن نبی ﷺنے ان کی طرف سے قربانی نہیں کی۔
ب: اگر میت نے قربانی کی وصیت کی ہے تو اس کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس کی طرف سے قربانی کی جائے گی۔
ج: بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرے اور زندہ مردہ سب کی طرف سے نیت کر لے۔
د: میت کی طرف سے مستقل قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-11)

سوال/28: مردوں کی طرف سے قربانی کرنے والوں پر تنقید کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص مردوں کی طرف سے قربانی کرتا ہے تو ہم اس کی تنقید نہیں کریں گے بلکہ اسے افضل کام کی طرف رہنمائی کریں گے اور افضل کام ہے میت کے لئے دعا کرنا۔ مجموع الفتاویٰ (25-122)

سوال/29: میت کی طرف سے قربانی نا کر کے اس کی قیمت صدقہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر وقف کئے گئے مال میں قربانی کرنے کی وصیت کی گئی ہو تو وکیل کے لئے قربانی نا کر کے اس کی قیمت صدقہ کرنا جائز نہیں ہے۔
ب: اگر کسی کی طرف سے نفلی قربانی کرنی ہو تو اس باب میں وسعت ہے چاہے قربانی کر یں چاہے اس کی قیمت صدقہ کر یں۔
ج: بہر صورت قربانی کرنا اس کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے۔ مجموع الفتاویٰ (18-41)

سوال/30: میں اپنے مال میں سے اپنی اور اپنی بیوی کی طرف سے قربانی کروں تو کیا میری بیوی اپنے مرحوم والدین کو اس میں شریک کر سکتی ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر آپ اپنی بیوی کے مرحوم والدین کو شریک کرنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ب: لیکن آپ کی بیوی آپ کی قربانی میں تصرف کاحق نہیں رکھتی ہے چنانچہ وہ خود شریک نہیں کر سکتی۔ مجموع الفتاویٰ (18-43)

کس جانور کی قربانی کرنا زیادہ بہتر ہے
سوال/31: گائے کی قربانی زیادہ افضل ہے یا دنبہ کی؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: بکری کی قربانی زیادہ افضل ہے۔
ب: اونٹ یا گائے كی قربانی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (18-43)
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر پورا جانور قربانی کریں تو سب سے بہتر اونٹ پھر گائے پھر بکری،اور بھیڑ بکری سے افضل ہے
ب: اگر گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ قربانی کرنا ہو تو بھیڑ کی قربانی زیادہ افضل ہے پھر بکری کی۔ مجموع الفتاویٰ (25-34)

قربانی میں شراکت
سوال/32: کیا اونٹ اور گائے کے ساتویں حصہ کی قربانی ایک آدمی اور اس کے اہل خانہ کی طرف سے کافی ہوگی؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: صحیح سنت کے دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ ایک اونٹ، ایک گائے، اور ایک بکری کی قربانی آدمی اور اس کے پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوگی گھر کے افراد خواہ جتنے بھی ہوں۔
ب: گائے اور اونٹ کے ساتویں حصہ کی قربانی کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ آدمی اور اس کے سارے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوگی یا نہیں لیکن راجح قول کے مطابق سب کے لئے کافی ہوگی کیونکہ آدمی اور اس گھر والے ایک ہی شخص جیسے ہیں۔ مجموع الفتاویٰ (18-44)

سوال/33: کیا ایک جانور میں پانچ لوگوں کی شرکت جائز ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: بکری کی قربانی میں بحیثیت ملکیت ایک سے زیادہ کی شرکت جائز نہیں۔
ب: گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات لوگ شریک ہو سکتے ہیں۔ مجموع الفتاویٰ (25-21)

سوال/34: کیا ایک بکری کی قربانی میں تین پڑوسی شریک ہو سکتے ہیں؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ قربانی کے شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ قربانی شریعت کے مطابق ہو اور شریعت میں بکری کی قربانی میں ایک سے زیادہ کی شرکت ثابت نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-44)

سوال/35: کیا میاں بیوی آدھی آدھی رقم ادا کر کے ایک قربانی میں شریک ہو سکتے ہیں؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: آدھی آدھی رقم دے کر میاں بیوی کا ایک بکری کی قربانی میں شریک ہونا جائز نہیں۔
ب: متعدد لوگوں کی شرکت صرف اونٹ اور گائے میں جائز ہے، اونٹ میں سات لوگ اور گائے میں سات لوگ۔ مجموع الفتاویٰ (25-46)

سوال/36: جب کوئی شخص قربانی کے لیے اونٹ یا گائے خریدتا ہے تو کیا اس سے پہلے شرکاء کا متعين ہونا ضروری ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر اونٹ یا گائے خریدتے وقت صرف یہی نیت تھی کہ سات لوگ شریک ہونگے لیکن لوگوں کی تحدید نہیں تھی تو کوئی بھی سات لوگ شریک ہو سکتے ہیں۔
ب: اگر اونٹ یا گائے خریدتے وقت یہ نیت رہی ہو کہ پورے جانور کی قربانی کسی کو شریک کئے بغیر اکیلے کرنا ہے تو اس کے بعد کسی کو شریک کرنا جائز نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-98)

سوال/37: کیا صاحب حیثیت کے لئے ایک سے زیادہ قربانی کرنا جائز ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایک آدمی اور اس کے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ہی قربانی کرنا افضل ہے، اگر کسی کے پاس زیادہ مال ہو تو اسے نقد خرچ کرے، غریبوں مسکینوں اور محتاجوں کو کھانا وغیرہ کھلائے۔ مجموع الفتاویٰ (25-46)

سوال/38: اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات لوگوں سے کم چار یا پانچ لوگوں کی شرکت کاكيا حکم ہے؟
جواب:علامہ کاسانی رحمہ اللہ "بدائع الصنائع" میں کہتے ہیں: گائے یا اونٹ کو سات افراد سے کم کی طرف سے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ جب سات افراد شریک ہو سکتے ہیں تو دو، تین، چار، پانچ، یا چھ افراد تو بدرجہ اولی شریک ہو سکتے ہیں، چاہے ان کے حصے برابر ہوں یا مختلف، مثلاً: ایک آدمی آدھا جانور ، كوئى ایک تہائی ، اور کوئی چھٹا حصہ لے لے تو کوئی حرج نہیں ، لیکن یہ خیال رہے کہ کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو۔ (اسلام سوال وجواب: 111322)

قربانی کرنے والے کے لئے ناخن اور بال کاٹنا
سوال/39: کیا قربانی کرنے والے کے لئے شرط ہے کہ قربانی سے پہلے ناخن اور بال نا کاٹے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی کرنے والے کے لئے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کر لینے تک اپنے ناخن، بال اور چمڑے کاٹنا جائز نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (18-38)

سوال/40: کیا قربانی کرنے والے کے لئے بال، ناخن اور چمڑے کاٹنے کى نہی تحریمی ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اصل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺکی نہی تحریمی ہی مانی جائے الا یہ کہ کوئی دلیل ہو جو اس کی کراہت وغیرہ پر دلالت کرے، چنانچہ قربانی کرنے والے پر عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بال، ناخن اور چمڑے کاٹنا حرام ہے یہاں تک کہ قربانی کر لے۔ مجموع الفتاویٰ (25-139)

سوال/41: صحیح مسلم میں قربانی کے متعلق ایک حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ (فلا يَمَسَّ من شعَرِه ولا من بشَرِه شيئًا) اس حدیث میں "بشر" سے کیا مراد ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "بشر" یعنی چمڑا چنانچہ قربانی کرنے والا جس طرح اپنے بال اور ناخن نہیں کاٹے گا اسی طرح اپنے چمڑے کو بھی نہیں نوچے گا جس طرح سے بعض لوگ اپنے ایڑی یا ناخن کے پاس کے چمڑے کو نوچتے رہتے ہیں ۔ مجموع الفتاویٰ (25-139)

سوال/42: قربانی کرنے والے كے بال اور ناخن نا کاٹنے میں کیا حکمت ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: تاکہ جو لوگ حج سے محروم رہ گئے ہوں وہ ناخن اور بال نا کاٹ کر حجاج کى بعض عبادات میں شریک ہو سکیں۔
ب: جب قربانی کرنے والا شخص قربانی کر کے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے حاجی کے بعض اعمال میں شریک ہوا تو بال اورناخن وغیرہ کٹوانے سے رک کر احرام کے بعض خصائص میں بھی شریک ہو جائے۔ مجموع الفتاویٰ (25-139)

سوال/43: کیا ناخن اور بال کاٹنے کی حرمت قربانی کرنے والے کے پورے گھر والوں پہ لاگو ہوگی؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بال اور ناخن وغیرہ نہ کٹوانے کا حکم صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ ہی خاص ہے، اور جس کی جانب سے قربانی کی جارہی ہے وہ اس سے تعلق نہيں رکھتے کیونکہ نبی ﷺاپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے اور آپ ﷺسے یہ منقول نہيں کہ آپ نے انہيں بال وغیرہ کٹوانے سےمنع فرمایا ہو۔ مجموع الفتاویٰ (25-140)

سوال/44: کیا ناخن اور بال کاٹنے کی حرمت میت کی طرف سے قربانی کرنے والے پر بھی لاگو ہوگی؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ شخص حقیقت میں قربانی کرنے والا نہیں ہے بلکہ مردے کی طرف نائب مانا جائے گا، چنانچہ قربانی کے احکام اس پر نہیں لاگو ہوں گے، لیکن مردوں کے ساتھ احسان کرنے اور ان کی وصیت نافذ کرنے کی وجہ سے ضرور ثواب کا مستحق ہوگا۔ مجموع الفتاویٰ (25-140)

سوال/45: اس شخص کا کیا حکم ہے جو جان بوجھ کر عشرہ ذی الحجہ میں ناخن اور بال کاٹ لے کیا اس کی قربانی ہو جائے گی؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس نے جان بوجھ کر عشرہ ذی الحجہ میں ناخن اور بال کاٹ لئے اس نے نبی کریم ﷺکی نافرمانی کی لیکن اس کی قربانی ہو جائے گی۔ مجموع الفتاویٰ (25-146)

سوال/46: کیا داڑھی منڈوانے والے کی قربانی ہو جائے گی؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: داڑھی بڑھانا نبی کریم ﷺکا طریقہ ہے اور داڑھی منڈانا مشرکین کا، چنانچہ داڑھی منڈانے والا قربانی کرےتو اس کی قربانی ہو جائے گی کیونکہ قربانی اور داڑھی منڈانا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مجموع الفتاویٰ (25-149)

سوال/47: جو شخص عشرہ ذی الحجہ شروع ہونے کے بعد قربانی کی نیت کرے اور بال ناخن بھی کاٹ چکا ہو کیا اس کی قربانی ہو جائے گی؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کوئی حرج نہیں ہے اس کی قربانی ہو جائے گی اور بال ناخن کاٹنے پر گنہگار بھی نہیں ہوگا کیونکہ قربانی کی نیت سے پہلے بال اور ناخن کاٹا ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-150)

سوال/48: قربانی کرنے والے کے لئے بال اور ناخن کاٹنے کی ممانعت کب تک ہوتی ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی کرنے والے کے لئے بال اور ناخن کاٹنے کی ممانعت قربانی کرنے تک ہوتی ہے، قربانی کرنے کے بعد ممانعت ختم ہو جاتی ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-152)

سوال/49: کیا قربانی کے لئے کسی کی طرف سے بنائے گئے وکیل پر بھی قربانی کے احکام بال اور ناخن نا کاٹنے کا حکم نافذ ہوگا؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی کے احکام قربانی کرنے والے پر نافذ ہوں گے وکیل پر نہیں چنانچہ وکیل کے لئے بال اور ناخن کاٹنے کی ممانعت نہیں ہوگی۔ مجموع الفتاویٰ (25-155)
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وکیل کے لئے بال ناخن اور چمڑے چھوڑنا لازم نہیں، کیونکہ وہ قربانی نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ پابندی قربانی کرنے والے پر ہوگی۔ مجموع الفتاویٰ (18-39)

سوال/50: بعض لوگوں کو یہ وہم ہوتا ہے کہ قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص اگر عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بال ناخن کاٹ لے تو اس کی قربانی نہیں ہوتی ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: یہ صریح غلط فہمی ہے قربانی کے قبول ہونے کا بال ناخن کاٹنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ب: لیکن جو شخص بلا عذر کے بال ناخن کاٹ لے اس نے نبی کریم ﷺکے حکم کی مخالفت کی۔ مجموع الفتاویٰ (25-161)

سوال/51: اس آدمی کا کیا حکم ہے جو قربانی کا ارادہ رکھے اور عشرہ ذی الحجہ میں مجبوری کی حالت میں اپنے بال ناخن کاٹ لے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر درج ذیل حالات میں کاٹے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے:
الف: زخم لگ جائے اور اس کی وجہ سے بال کاٹنا ضروری ہو جائے۔
ب: ناخن ٹوٹ جائے اور تکلیف پہنچاتا ہو جس کی وجہ سے کاٹنا ضروری ہو جائے۔
ج: چمڑے کى کوئی پرت لٹکتی ہو اور تکلیف پہنچائے، جس کی وجہ سے اسے کاٹنا پڑ جائے۔ مجموع الفتاویٰ (25-161)

سوال/52: بال ناخن اور چمڑی کاٹنے کی ممانعت کس کس کو شامل ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: جو شخص اپنی طرف سے قربانی کا ارادہ کرے یا کسی اور کی طرف سے صدقہ کرے۔
ب: رہی بات جو دوسروں کی طرف سے وکیل کے طور پر یا وصیت سے قربانی کرتا ہے، بلاشبہ اس کے لیے بال ناخن کاٹنے کی حرمت نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-161)

سوال/53: اگر عورت کے کچھ بال خود سے گر جائیں تو کیا اس سے قربانی متاثر ہوتی ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر عورت کے لئے دس دن تک بال کو بلا سلجھائے رہنا نا ممکن ہو تو سہولت کے ساتھ بالوں کو سلجھا سکتی ہے اگر سلجھاتے ہوئے بلا قصد وارادہ کچھ بال گر جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ مجموع الفتاویٰ (25-151)

سوال/54: عشرہ ذی الحجہ میں عورت کے لئے کنگھی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی کا ارادہ رکھنے والی عورت کنگھی کرنے کی ضرورت محسوس کرے تو کنگھی کر سکتی ہے کوئی حرج نہیں ہے، لیکن سہولت کے ساتھ کنگھی کرے گی پھر بھی کچھ بال گر جائیں تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-146)

سوال/55: عشرہ ذی الحجہ میں وہ عورت اپنے بالوں کو کیا کرے جو قربانی کا ارادہ رکھتی ہو؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس كے ليے اپنے بال كھولنا اور انہيں دھونا جائز ہے، ليكن وہ سر كى كنگھى نہ كرے اور نہ ہى خوب كھجلائے، اور بال كھولتے اور دھوتے وقت گرنے والے بالوں ميں اس كے ليے كوئى ضرر نہيں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-146)

سوال/56: کوئی عورت حیض یا نفاس کا غسل کر رہی ہو تو اس کے بال ضرور گریں گے اور وہ قربانی کا ارادہ رکھتی ہے پھر وہ کیا کرے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر عورت کوشش کرے کہ بال نا گرے پھر بھی گر جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ مجموع الفتاویٰ (25-154)

سوال/57: جو شخص قربانی نا کر رہا ہو اس کے بال ناخن کاٹنے یا نا کاٹنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:جو شخص قربانی نا کر رہا ہو اس کے بال ناخن کاٹنے کی ممانعت کسی بھی حدیث میں وارد نہیں ہے، ابو داؤد حدیث نمبر 2789 میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے کہا: اگر مجھے دودھ کے جانور کے سوا کوئی جانور نہ ملے تو کیا میں اس کی قربانی کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ اپنے بال کاٹ لو، ناخن اور مونچھیں تراش لو اور زیر ناف کی صفائی کر لو۔ اﷲ کے يہاں تمہاری یہی کامل قربانی ہو گی۔ واضح ہو کہ اس حدیث کی صحت مختلف فیہ ہے اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو اس حدیث سے ممانعت ثابت نہیں بلکہ عید الاضحٰی کے دن بال ناخن کاٹنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ (مترجم)

غیر مسلموں کو قربانی کا گوشت دینے کا حکم
سوال/58: غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایسا کافر جس نے ہمارے پاس پناہ لے رکھی ہو یا اسکے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو تو اسے قربانی كا گوشت اور صدقہ دیا جا سکتا ہے۔ مجموع الفتاویٰ (18-47)
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا جائز ہے بشرطیکہ وہ مسلمانوں سے قتال نا کرتا ہو۔ مجموع الفتاویٰ (25-133)

حج کرنے والے کی قربانی
سوال/59: آدمی حج اور قربانی ایک ساتھ کیسے کر سکتا ہے، اور كيا ايسا كرنا مشروع ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حاجى عيد قرباں والى قربانى نہيں كرےگا، بلكہ وہ تو ہدى دے گا، ليكن اگر فرض كريں كہ كسى شخص نے اكيلے حج كيا اور اس كے بيوى بچے اپنے ملك ميں ہيں تواس شخص کو چاہئے کہ اپنے گھر والوں كے لئے کچھ رقم چھوڑ جائے تاكہ وہ قربانى كرليں۔ مجموع الفتاویٰ (25-19)

سوال/60: اگر حج کرنے والا شخص اپنی طرف سے قربانی کرنے کے لئے کسی کو وکیل مقرر کیا ہو تو کیا میقات پر احرام کے وقت وہ اپنے بال اور ناخن کاٹ سکتا ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی کا ارادہ رکھنے والا میقات پر احرام کے وقت اپنے بال اور ناخن نہیں کاٹ سکتا ہے، ہاں عمرہ کر کے فارغ ہونے پر اپنے بال کٹوائے گا اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس وقت بال کٹوانا واجب ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-144)

سوال/61: جو شخص حج کر رہا ہو اور اپنے ملک میں قربانی کرنا چاہے اسے کیا کرنا ہوگا؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: ایسا حاجی جسے قربانی کرنے کا ارادہ ہے اسے اپنے بغل ، مونچھ، زير ناف کے بال اور ناخن نہیں کاٹنے چاہئے۔
ب: حج یا عمرہ کے دوران سر کے بال کٹانے یا حلق کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ ایک عبادت ہے جسے کرنا ضروری ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-149)

سوال/62: کیا حج کرنے والے پر قربانی واجب ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: حج کرنے والا اپنے گھر والوں کو پیسے دے دے تاکہ گھر والے قربانی کر لیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ب: حج کے دوران قربانی نہیں صرف ہدی ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-20)

سوال/63: قربانی کس جگہ کرنا افضل ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر گھر والے ساتھ ہوں تو آپ وہیں قربانی کریں جہاں آپ رہ رہے ہیں۔
ب: اگر گھر والے دوسری جگہ رہ رہے ہوں اور دوسرا کوئی ان کے لئے قربانی نا کر رہا ہوتو آپ قربانی كى قيمت ان کے پاس بھیج دیں تاکہ وہ وہیں قربانی کر لیں۔ مجموع الفتاویٰ (24-208)

قربانی کا جانور متعین کرنا

سوال/64: اگر کوئی شخص قر بانی کا جانور پالنے کے لئے خریدے پھر وہ جانور بیمار ہو جائے یا اس کا پیر ٹوٹ جائے تو کیا اس کی قربانی کر سکتا ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص قربانی کا جانور متعین کرتے ہوئے یہ کہہ دے کہ یہ میری قربانی ہے تو وہ اس کی قربانی متعين ہو جاتی ہے۔
الف: اس کے بعد اگر وہ بیمار ہو جائے یا اس کا پیر ٹوٹ جائے اور ایسا لاپرواہی کے سبب ہوا ہو تو اس کی قربانی نہیں ہوگی، بلکہ اس پر واجب ہوگا کہ ویسا ہی یا اس سے اچھا دوسرا جانور خرید ے ۔
ب: اور اگر بیمار ہونے یا پیر ٹوٹنے کا سبب لاپرواہی نا ہو تو اس کی قربانی ہو جائے گی۔ مجموع الفتاویٰ (24-208)

سوال/65: کیا وقت سے کافی پہلے قربانی کو متعین کرنا افضل ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بہتر ہے کہ آدمی قربانی متعین کرنے میں صبر سے کام لے اور جلد بازی نا کرے، جانور جلدی خرید لے تاکہ پال پوس کر موٹا کر لے لیکن متعین نا کرے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بالفرض اگر اسے چھوڑ کر دوسرا جانور خریدنا پڑے توايسا كرنا ممکن ہو کیونکہ اس نے ابھی تک متعین نہیں کیا ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-99)

سوال/66: قربانی کے جانور پر مہندی سے یا قلادہ پہنا کر نشان لگانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی کے جانور پر مہندی سے یا قلادہ پہنا کر نشان لگانے کی کوئی ضرورت نہیں قلادہ سے نشان ہدی کو لگایا جاتا ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-100)

سوال/67: ایک شخص نے ایک خاص دنبہ قربانی کرنے کی نذر مان لی پھر وہ دنبہ مر گیا اب وہ شخص کیا کرے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر کسی شخص نے قربانی متعین کر دی پھر وہ اس کی طرف سے غفلت یا زیادتی کے بغیر مر جائے تو کوئی حرج نہیں اسے دوسرا جانور ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔
ب: اگر قربانی کی نذر مانی ہو تو اسے اپنی نذر پوری کرنی چاہئے۔ مجموع الفتاویٰ (25-100)

سوال/68: قربانی کا جانور متعین کرنے کے بعد کیا اسے ولیمہ میں ذبح کر سکتے ہیں؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایسا کرنا جائز نہیں ہے، قربانی کے علاوہ دوسرے مد میں اسے ذبح کرنا بالکل درست نہیں بلکہ اسے بدلنا بھی جائز نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-107)

قربانی کا جانور ذبح کرنے کا طریقہ
سوال/69: قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت کون سی دعا پڑھنی چاہئے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت "بِسْمِ اللَّـهِ وَاللهُ أكْبرُ اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ اللَّهُمَّ هَذَهِ عَنِّي وَعَن أَهلِ بَيتِي" پڑھنا چاہئے۔ مجموع الفتاویٰ (25-55)

سوال/70: قربانی کا جانور ذبح کرتے ہوئے دعا کب پڑھنی چاہئے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جانور کو لٹانے کے بعد قربانی کی دعا اس طرح پڑھنی "بِسْمِ اللَّـهِ وَاللهُ أكْبرُ اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ اللَّهُمَّ هَذَا عَن فُلَان"۔ مجموع الفتاویٰ (25-56)

سوال/71: قربانی کا جانور ذبح کرتے ہوئے جو شخص "بسم الله" بھول جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر "بسم الله" بھول جائے تو کوئی گناہ نہیں ہے لیکن ذبیحہ حرام ہے اس میں سے کچھ بھی کھانا جائز نہیں۔ مجموع الفتاویٰ (25-56)
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی کا جانور ذبح کر نے والا اگر "بسم الله" بھول جائے تو کوئی حرج نہیں ذبیحہ حلال ہے کیونکہ بھول جانے والے کو شریعت نے معذور مانا ہے ۔ مجموع الفتاویٰ
نوٹ: جمہور کا بھی یہی مسلک ہے کہ بھول کر "بسم الله" چھوٹ جائے تو ذبیحہ حلال ہے اور یہی راجح ہے۔

سوال/72:"بسم اللہ اللہ اکبر" قصائی کہے گا یا قربانی کرنے والا؟
جواب: جانور ذبح کرتے ہوئے اس شخص کا "بسم اللہ اللہ اکبر" پڑھنا معتبر ہو گا جو ذبح کر رہا ہے، یعنی قصاب اور قصائی وغیرہ جو ذبح کرتے ہیں وہ تسمیہ پڑھیں، قربانی کے مالک کی طرف سے پڑھی ہوئی تسمیہ معتبر نہیں ہے۔ اسلام سؤال وجواب: 296337

سوال/73: کیا ذبح کرتے وقت یہ کہنا کہ "یہ قربانی فلاں کی طرف سے ہے" واجب ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: ذبح کرتے وقت یہ کہنا کہ "یہ قربانی فلاں کی طرف سے ہے" افضل ہے۔
ب: اور اگر کوئی نا کہے تو نیت ہی کافی ہوگی۔ مجموع الفتاویٰ (25-59)

سوال/74: اونٹ کو قربانی میں ذبح کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اونٹ کو کھڑا رکھ کر نحر کیا جائے گا (نحر کا طریقہ یہ ہے کہ گردن کے بالکل نِچلے حصہ میں سینہ کے پاس دھار دار چھری بھونک کر رگیں کاٹ دی جائے) ۔
ب: بایاں پیر گھٹنے سے موڑ کر بندھا ہونا چاہئے۔
ج: اگر کھڑا رکھ کر نحر کرنا ممکن نا ہو تو بیٹھا کر بھی نحر کرنا جائز ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-55)

سوال/75: بکری کی قربانی کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: بائیں پہلو لٹایا جائے ۔
ب: پیر اس کے گردن پہ رکھا جائے ۔
ج: بائیں ہاتھ سے سر کو مضبوطی کے ساتھ پکڑا جائے گا تاکہ حلق ظاہر ہو جائے۔
د: پھر حلقوم اور شَہِ رَگ پر تیزی سے چھری پھیرى جائے۔ مجموع الفتاویٰ (25-55)

سوال/76: کیا عورت قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جی ہاں عورت قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے کیونکہ اصل یہی ہے کہ عبادت میں مرد عورت برابر ہیں۔ مجموع الفتاویٰ (25-18)

سوال/77: عید گاہ میں قربانی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید گاہ میں قربانی کرنا سنت ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-94)

سوال/78: مکہ میں قربانی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: ہر نیک کام مکہ میں انجام دینا دوسری جگہوں کے مقابل افضل ہے۔
ب: لیکن اگر مکہ میں کھانے والے موجود نا ہوں تو ایسی جگہ ذبح کرنا جہاں فقراء اور مساکین ہوں زیادہ بہتر ہے۔ مجموع الفتاویٰ (18-48)

سوال/79: ہدی، قربانی اور فدیہ میں کیا فرق ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: قربانی: جو جانور عید الاضحٰی کے دنوں میں اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ساری دنیا میں ذبح کیا جاتا ہے۔
ب: ہدی: وہ جانور جسے حج تمتع یا حج قران کرنے والے حدود حرم کے اندر ذبح کرتے ہیں، اور فقراء مکہ اور دوسرے لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہدی کرنے والا خود بھی اس میں سے کھا سکتا ہے۔
ج: فدیہ: وہ جانور جو حج میں کسی واجب کے چھوڑ دینے یا کسی محظور کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے حرم کے اندر ذبح کر کے فقراء مکہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25-9)

قربانی کا جانور دوسرے سے ذبح کرانا
سوال/80: کیا ضروری ہے کہ آدمی اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرے یا کوئی دوسرا ذبح کر رہا ہو تو اس کے پاس موجود رہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: افضل ہے کہ آدمى اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرے کیونکہ قربانی ایک عبادت ہے جس سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔
ب: کسی ثقہ آدمی کو ذبح کرنے اور تقسیم کرنے کا وکیل بھی بنانا جائز ہے، لیکن وکیل بنانے کی صورت میں وہاں موجود رہنا ضروری نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25/ 60)

سوال/81: اگر وکیل بھول کر یا انجانے میں عید کی نماز سے پہلے قربانی کر دےتو کیا اس پر جرمانہ عائد ہوگا؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: اگر عید کی نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو یہ قربانی نہیں شمار کی جائے گی بلکہ گوشت مانا جائے گا اور گوشت مؤکل کا ہوگا اور مؤکل کو دوسری قربانی دینی ہوگی۔
ب: زندہ اور ذبح کی ہوئی بکری کی قیمت میں جو فرق ہوگا اس کا ذمہ دار وکیل ہوگا۔ مجموع الفتاویٰ (25/ 93)

قربانی دوسرے ملک بھیجنا
سوال/82: دوسرے ملک قربانی کی قیمت بھیجنے کا کیا حکم ہے کہ وہاں کی کمیٹی والے جانور خرید کرذبح کریں؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی کی قیمت دوسرے ملک کسی کمیٹی کو بھیجنا میں جائز نہیں سمجھتا ۔ مجموع الفتاویٰ (25/ 62)

سوال/83: قربانی کی قیمت دوسرے ملک بھیجنے سے کون سی مصلحتیں فوت ہو جاتی ہیں؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی كى قیمت دوسرے ملک بھیجنے سے بہت سی مصلحتیں فوت ہو جاتی ہیں مثلا:
1: - اسلامی ممالک میں اللہ کی نشانیوں کا ظہور، اگر لوگ اپنی قربانی کی قیمت دوسرے ممالک میں بھیجیں گے تو ان کے اپنے ملک اس نشانی سے محروم ہو جائیں گے اور ان کا ظہور نہیں ہو سکے گا۔
2: - قربانی کرنے والے کے لیے مشروع ہے کہ وہ اپنی قربانی خود ذبح کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے، قیمت دوسرے ممالک بھیجنے میں یہ سنت چھوٹ جائے گى۔
3: - قربانی پر اللہ کا نام لے کر اس کی عبادت کرنا اور یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے، اگر قیمت دوسرے ممالک میں قربانی کے لیے بھیجی جائے تو وہ قربانی کرنے والے سے چھوٹ جائے گی۔
4: - قربانی کا گوشت کھا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا، کیونکہ قربانی کا گوشت کھانا ایک عبادت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اگر قیمت کسی دوسرے ملک میں بھیج دی جائے اور وہاں قربانی کی جائے تو یہ عبادت ضائع ہو جاتی ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25/ 69)

قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنا
سوال/84: اس حدیث: "لَا يَدَّخِر أَحَدُكُم مِن أُضْحِيَّتِهِ فَوْقَ ثَلاثَةِ أيَّامٍ". ترجمہ: تم میں سے کوئی بھی تین دن سے زیادہ اپنی قربانی کا گوشت بچا کر نا رکھے۔ کا کیا معنی ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ فاقہ کشی میں مبتلا تھے، اس لیے نبی ﷺنے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا، اگلے سال قحط ختم ہو گیا، تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "إِنَّمَا نَهَيْتُكُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ فَكُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا. ترجمہ: میں نے تو تمہیں ان خانہ بدوشوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت بمشکل آپا ئے تھے، اب (قربانی کا گو شت) کھاؤ رکھو اور صدقہ کرو۔ مسلم: 1971 ۔ مجموع الفتاویٰ (25-134)

قربانی میں سے کچھ بیچنا
سوال/85: کیا قربانی کا گوشت، چربی، چکنائی یا کھال میں سے کوئی چیز فروخت کرنا جائز ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی میں سے کچھ بھی بیچنا حرام ہے کیونکہ یہ وہ مال ہے جسے بندے نے اللہ کے لئے نکال دیا ہے چنانچہ اب اسے صدقہ کى طرح واپس لینا جائز نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (25/ 161)

سوال/86: قصائی کو اجرت کے طور پر قربانی میں سے کچھ دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: قصائی کو اجرت کے طور پر قربانی میں سے کچھ بھی دینا جائز نہیں۔ (متفق علیہ) البتہ تحفہ کے طور پر دینے میں كوئى حرج نہیں ہے ۔

( جمعيۃ الدعوة والإرشاد وتوعيۃ الجاليات بمحافظۃ الوجہ)

المـراجـع:
مجموع فتاوى العلامة ابن باز
مجموع فتاوى العلامة ابن عثيمين

 
Last edited:
Top