- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
قربانی کے مسائل
فاروق رفیع (مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور )
قربانی کی تعریف
قربانی وہ جانور ہے جو خدا کی راہ میں قربان کیا جائے۔ ( فيروز اللغات : ۹۰۳)
صاحب قاموس (مجد الدين محمد بن يعقوب الفيروزآبادى (المتوفى: 817 ھ) فرماتے ہیں: « والقُرْبانُ، بالضم: ما يُتَقَرَّبُ به إلى اللَّهِ تعالى» [القاموس المحيط )
قربانی وہ عمل ذبیحی ہے، جس سے الله تعالی کا قرب حاصل کیا جائے۔“ .
تخلیق انسانیت کے آغاز ہی سے قربانی کا جذبہ کارفرما ہے اور انسان بارگاہ ایزدی میں قرب و مقام حاصل کرنے کے لیے الله تعالی کی راہ میں قربانی پیش کرنے کا خواہاں رہا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (27) [المائدة : ۲۷ ]
اوراے (محبوب نبی ) ان لوگوں پر آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا کھرا کھرا حال بیان کر دیجئے، جب ان دونوں نے کچھ قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی ، تو اس نے (جس کی قربانی مقبول نہ ہوئی ) کہا: میں تجھے ضرور ہی قتل کر دوں گا، اس (جس کی قربانی قبول ہوئی تھی ) نے کہا: الله و متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔
قربانی ابراہیم کی عظیم ترین سنت
قربانی ابراہیم علیہ السلام کی عظیم ترین سنت ہے، یہ عمل الله تبارک وتعالی کو اتنا پسند آیا کہ اس عمل کو قیامت تک کے لیے مسلمانوں کے لیے عظیم سنت قرار دیا گیا۔ قرآن حکیم میں منقول ہے کہ جب قوم ابراہیم نے انھیں ہجرت پر مجبور کیا تو انھوں نے کہا: -
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (27) [المائدة : ۲۷ ]
اوراے (محبوب نبی ) ان لوگوں پر آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا کھرا کھرا حال بیان کر دیجئے، جب ان دونوں نے کچھ قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی ، تو اس نے (جس کی قربانی مقبول نہ ہوئی ) کہا: میں تجھے ضرور ہی قتل کر دوں گا، اس (جس کی قربانی قبول ہوئی تھی ) نے کہا: الله و متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔
قربانی ابراہیم کی عظیم ترین سنت
قربانی ابراہیم علیہ السلام کی عظیم ترین سنت ہے، یہ عمل الله تبارک وتعالی کو اتنا پسند آیا کہ اس عمل کو قیامت تک کے لیے مسلمانوں کے لیے عظیم سنت قرار دیا گیا۔ قرآن حکیم میں منقول ہے کہ جب قوم ابراہیم نے انھیں ہجرت پر مجبور کیا تو انھوں نے کہا: -
وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ (99) رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ (100) فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ (101) فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (102) فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ (103) وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ (104) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (105) إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ (106) وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ (107) وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ (108) سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ (109)الصافات : ۹۹ تا ۱۰۸)
اور اس نے ( ابراہیم علیہ السلام) نے کہا: میں تو اپنے رب کی طرف جانے والا ہون، وہ میری ضرور راہنمائی کرے گا۔(اور دعاء کی ) اے میرے رب ! مجھے صالح اولاد عطا فرما۔ تو ہم نے اسے نہایت برد بار بچے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچا تو اس نے کہا، میرے پیارے بیٹے ! یقیناً میں خواب دیکھتا ہوں کہ واقعی میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ اس
اسماعیل علیها ) نے کہا: ابا جان ! آپ کو جو ظلم ہوا ہے کر گزریئے، ان شاء اللہ آپ ضرور مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں (حکم خداوندی پر راضی ہو گئے اور اس (باپ نے اسے بیٹے کو ) پیشانی کی ایک جانب گرا دیا۔ اور ہم نے اسے آواز دی، اے ابراہیم ! یقینا تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، بلاشبہ ہم نیکو کاروں کو اس طرح بدلہ دیتے ہیں۔ بالیقین یہ واقعی کھلی آزمائش تھی اور ہم نے اس کے فدیے میں ایک بہت بڑا زبیحہ دیا۔ اور ہم نےان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔
سلام ہو ابراہیم پر "‘‘
فقہ القرآن:
(1)نیک اور صالح اولاد کی دعا کرنا مستحسن فعل ہے اور نا امید اور مایوس ہونے کے بجائےبڑھاپے میں بھی اللہ تعالی کی رحمت سے پرامید رہنا چاہیے۔ .
(2) انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی ہوتے ہیں اور حالت نیند اور حالت بیداری میں ان کے لیے
حکم خداوندی یکساں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے
ابراہیم علیہ السلام خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے تیار ہوئے تھے۔
(3) تفاسیر میں جو مذکور ہے کہ سیدناابراہیم علیہ السلام نے جناب اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرتے وقت چہرے کے بل لٹایا تھا، تا کہ چھری پھیرتے وقت شفقت پدری حکم ربانی پر غالب نہ آئے، تو یہ بات سراسر باطل اور سیاق قرآن کے مخالف ہے،
قرآن حکیم میں تو میں ہے کہ (فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ) غرض جب (سیدنا ابراہیم و سیدنا اسمعیل علیہا السلام )دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے اسے پیشانی کی ایک جانب گرا دیا "
یہاں جبین سے مراد پیشانی کی ایک جانب ہے، پیشانی نہیں بلکہ پیشانی کے لیے عربی زبان میں لفظ (الجَبْهَة )مستعمل ہے، اس کے دلائل حسب ذیل ہیں: :
لغات الحدیث میں ہے کہ بعض نے کہا: جبین وہ مقام ہے جو ابرو کے بال کی جگہ تک ہے، تو ہر آدمی میں دو جبین ہیں، جو چہرے کے دونوں طرف ہیں۔[ لغات الحديث : ۲۶4/ 1 ]
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں : ہر انسان کے منہ (چہرے) پردوجبینیں (دائیں اور بائیں ) ہوتی ہیں اور درمیان میں پیشانی "جبهة“ ہوتی ہے ،
اس لیے (لِلْجَبِينِ) کا زیادہ صحیح ترجمہ ( کروٹ پر )ہے۔ لیکن اس طرح کروٹ پر لٹا لیا، جس طرح جانور کوذبح کرتے وقت قبلہ رخ کروٹ پر لٹایا جاتا ہے۔ (تفسیر احسن البیان از صلاح الدین یوسف ]
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ “وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ " کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ (ابراہیم علیہ السلام ) نے
اسے (اسماعیل علیه ) کو چہرے کی ایک جانب گرایا اور پیشانی کے دائیں اور بائیں جانب دو جبینیں ہوتی ہیں، یوں چہرے کی دو جبینیں اور ان کے درمیان میں پیشانی ہوتی ہے۔ [تفسیر طبری : ۷۹/ ۲۱ ]
اور جن روایات میں اسا عیل علیہ السلام کو اوندھے منہ لٹا کر ذبح کرنے کا بیان ہے، وہ روایات کمزور اور نا قابل حجت ہیں۔
(فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ) کی تفسیر مشہور مفسرعکرمہؒ یوں بیان کرتے ہیں کہ : جب دونوں باپ بیٹا ) نے حکم الہی بخوشی و رضاتسیم کر لیا اور بیٹا ذبح ہونے اور باپ زبح کرنے کے لیے راضی ہو گیا تو بیٹے نے عرض کی :
« حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يحيى بن واضح، قال: ثنا الحسين، عن يزيد، عن عكرمة، قوله (فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ) قال: أسلما جميعا لأمر الله ورضي الغلام بالذبح، ورضي الأب بأن يذبحه، فقال: يا أبت اقذفني للوجه كيلا تنظر إلي فترحمني، وأنظر أنا إلى الشفرة فأجزع، ولكن أدخل الشفرة من تحتي، وامض لأمر الله، فذلك قوله (فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ)ابو جان! مجھے چہرے کے بل گرائے تا کہ مجھے دیکھ کر آپ ترس نہ کھائیں اور میں چھری دیکھ کر بے صبرانہ ہو جاؤں، بلکہ میرے نیچے سے چری داخل کریں اور الله تعالی کے علم کو کر گزریئے۔[ تفسير طبری : ۷۹ / ۲۱ ۔ اسناده ضعيف ]
. اس کے ضعف کی دوعلتیں ہیں: (1)اس سند میں محمد بن محمد بن حیان رازی ضعیف راوی ہے۔ جمہور محدثین نے اسےضعیف قرار دیا ہے۔
(2)عکرمہ اور اسماعیل علیہ السلام کے درمیان نقطاع ہے۔ عکرمہ نے یہ روایت کسی سے سنی اور
درمیان میں کتے واسطے ہیں، اس بارے کوئی صراحت نہیں ہے۔
(3)مجاہد بیان کرتے ہیں : (وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ) کا معنی ہے کہ انھوں (ابراہیم ) نے سیدنااسماعیل کا چہرہ زمین پر رکھا تو اسماعیل علیہ السلام نے کہا:
لا تذبحني وأنت تنظر إلى وجهي عسى أن ترحمني، ولا تجهز عليّ، اربط يدي إلى رقبتي ثم ضع وجهي للأرض »
مجھے ذبح کرتے وقت میرے چہرے کی طرف نہ دیکھنا ممکن ہے اس طرح آپ مجھ پر ترس آ جائے اور آپ میرا کام تمام نہ کر سکو (بلکہ میرے ہاتھ میری گردن کی طرف باندھو اور میرا چہرہ زمین پر رکھو ( پھر چھری چلا دو )“
في تفسير طبری : ۷۹ /۲۱ إسناده ضعيف ]
اس حدیث کا سبب ضعف دو علتیں ہیں: ۔
(1)عبد الله بن ابی نجیح کی تدلیس ہے۔ ۲۔ مجاہد اور اساعیل علی کے درمیان انقطاع ہے۔
(۳)۔ سیدنا عبداللہ ابن عباس (: وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ) کی تفسیر بایں الفاظ بیان کرتے ہیں:
(عن ابن عباس (وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ) قال: أكبه على جبهته ابراہیم نے اسے (اسماعیل کو ) پیشانی کے بل الٹا گرایا۔ (تفسير طبری : ۷۸ / ۲۱ - إسناده ضعيف }
اس اثر کی سند کے تمام راوی ضعیف ہیں، جو بالترتیب بیان کیے جاتے ہیں :
(1)محمد بن سعد بن محمد بن حسن عطیہ کمزو راوی ہے۔
(2)سعد بن محمدحسن بن عطیہ متساہل ہے۔
(3) حسین بن حسن بن عطيہ بالاتفاق ضعیف راوی ہے۔
(4) حسن بن عطیہ عوفی ضعیف ہے۔
(5) عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی ضعیف مدلس راوی ہے۔ .
لهذا راحج مفہوم یہی ہے کہ سیدنا اسماعیل مین کو ذبح کرتے وقت ابراہیم علیہ السلام نے انھیں دائیں کروٹ لٹایا تھا، جیسے جانور کو ذبح کرتے وقت چہرے کی دائیں جانب لگایا جاتا ہے۔
عظیم ذبیحہ خوبصورت سفید مینڈھا تھا:.
سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ میں جو عظیم ذبیحہ عنایت کیا گیا، وہ سفید رنگ کا سینگوں والا خوبصورت مینڈھا تھا، اس کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی آئنده حدیث ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
' ثم تله للجبين - وعلى إسماعيل قميص أبيض، وقال: يا أبت، إنه ليس لي ثوب تكفنني فيه غيره، فاخلعه حتى تكفنني فيه، فعالجه ليخلعه، فنودي من خلفه: {أن يا إبراهيم قد صدقت الرؤيا} [الصافات: 105] فالتفت إبراهيم، فإذا هو بكبش أبيض أقرن أعين، قال ابن عباس: لقد رأيتنا نتبع ذلك الضرب من الكباش »
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے چہرے کی ایک جانب لٹایا اور اسماعیل علیہ السلام کے بدن پر سفید قمیض تھی اس دوران اسماعیل علیہ السلام
نے عرض کی : ابو جان ! اس قمیض کے سوا میرا کوئی اور کپڑا نہیں، جس میں آپ مجھے کفان سکیں، لہذا اسے اتار لیجیے، تا کہ آپ مجھے اس میں کفن دے سکیں، چنانچہ وہ قمیض اتارنے لگے تو انھیں پیچھے سے آواز دی گئی، اے ابراہیم ! تو نے واقعی خواب سچ کر دکھایا ہے، اس پر ابراہیم علیہ السلام نے پیچھے جھانکا تو ناگہاں وہاں انتہائی سفید سینگوں والا خوبصورت ترین مینڈھا تھا...........
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں؛
تحقیق ہم (قربانی کے لیے اس قسم کے مینڈھے خریدا کرتے تھے۔ [ مسند أحمد: ۲۹۷ / ۱ ، ۲۷۰۷- بیهقی : 154 / 5 - تاریخ دمشق : ۲۱۰/ ۹ ]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کی سند یوں ہے ؛ حدثنا سريج، ويونس، قالا: حدثنا حماد يعني ابن سلمة، عن أبي عاصم الغنوي،
: ا۔ ابو عاصم غنوی ثقہ راوی ہے، یحی بن معین نے اسے ثقہ قرار دیا ہے، لہذا ابو حاتم کا
"لا أعرفه، کہنا ان کی ثقاہت میں قادح نہیں۔ [دیکھیے میزان الاعتدال : الجرح و التعدی]
۲۔ حماد بن سلمہ ثقہ اور تدلیس سے بری ہیں۔ دیکھیے (فتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین از
زبیرعلی زئی ص: ۱۰۸۔ )
لہذا مسند احمد میں حماد بن سلمہ کا عنده قادح نہیں پھر تاریخ دمشق اور بیہقی میں
عنعنہ نہیں ہیں بلکہ حماد بن سلمہ کی تحدیث ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــاسماعیل علیها ) نے کہا: ابا جان ! آپ کو جو ظلم ہوا ہے کر گزریئے، ان شاء اللہ آپ ضرور مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں (حکم خداوندی پر راضی ہو گئے اور اس (باپ نے اسے بیٹے کو ) پیشانی کی ایک جانب گرا دیا۔ اور ہم نے اسے آواز دی، اے ابراہیم ! یقینا تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، بلاشبہ ہم نیکو کاروں کو اس طرح بدلہ دیتے ہیں۔ بالیقین یہ واقعی کھلی آزمائش تھی اور ہم نے اس کے فدیے میں ایک بہت بڑا زبیحہ دیا۔ اور ہم نےان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔
سلام ہو ابراہیم پر "‘‘
فقہ القرآن:
(1)نیک اور صالح اولاد کی دعا کرنا مستحسن فعل ہے اور نا امید اور مایوس ہونے کے بجائےبڑھاپے میں بھی اللہ تعالی کی رحمت سے پرامید رہنا چاہیے۔ .
(2) انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی ہوتے ہیں اور حالت نیند اور حالت بیداری میں ان کے لیے
حکم خداوندی یکساں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے
ابراہیم علیہ السلام خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے تیار ہوئے تھے۔
(3) تفاسیر میں جو مذکور ہے کہ سیدناابراہیم علیہ السلام نے جناب اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرتے وقت چہرے کے بل لٹایا تھا، تا کہ چھری پھیرتے وقت شفقت پدری حکم ربانی پر غالب نہ آئے، تو یہ بات سراسر باطل اور سیاق قرآن کے مخالف ہے،
قرآن حکیم میں تو میں ہے کہ (فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ) غرض جب (سیدنا ابراہیم و سیدنا اسمعیل علیہا السلام )دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے اسے پیشانی کی ایک جانب گرا دیا "
یہاں جبین سے مراد پیشانی کی ایک جانب ہے، پیشانی نہیں بلکہ پیشانی کے لیے عربی زبان میں لفظ (الجَبْهَة )مستعمل ہے، اس کے دلائل حسب ذیل ہیں: :
لغات الحدیث میں ہے کہ بعض نے کہا: جبین وہ مقام ہے جو ابرو کے بال کی جگہ تک ہے، تو ہر آدمی میں دو جبین ہیں، جو چہرے کے دونوں طرف ہیں۔[ لغات الحديث : ۲۶4/ 1 ]
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں : ہر انسان کے منہ (چہرے) پردوجبینیں (دائیں اور بائیں ) ہوتی ہیں اور درمیان میں پیشانی "جبهة“ ہوتی ہے ،
اس لیے (لِلْجَبِينِ) کا زیادہ صحیح ترجمہ ( کروٹ پر )ہے۔ لیکن اس طرح کروٹ پر لٹا لیا، جس طرح جانور کوذبح کرتے وقت قبلہ رخ کروٹ پر لٹایا جاتا ہے۔ (تفسیر احسن البیان از صلاح الدین یوسف ]
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ “وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ " کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ (ابراہیم علیہ السلام ) نے
اسے (اسماعیل علیه ) کو چہرے کی ایک جانب گرایا اور پیشانی کے دائیں اور بائیں جانب دو جبینیں ہوتی ہیں، یوں چہرے کی دو جبینیں اور ان کے درمیان میں پیشانی ہوتی ہے۔ [تفسیر طبری : ۷۹/ ۲۱ ]
اور جن روایات میں اسا عیل علیہ السلام کو اوندھے منہ لٹا کر ذبح کرنے کا بیان ہے، وہ روایات کمزور اور نا قابل حجت ہیں۔
(فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ) کی تفسیر مشہور مفسرعکرمہؒ یوں بیان کرتے ہیں کہ : جب دونوں باپ بیٹا ) نے حکم الہی بخوشی و رضاتسیم کر لیا اور بیٹا ذبح ہونے اور باپ زبح کرنے کے لیے راضی ہو گیا تو بیٹے نے عرض کی :
« حدثنا ابن حميد، قال: ثنا يحيى بن واضح، قال: ثنا الحسين، عن يزيد، عن عكرمة، قوله (فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ) قال: أسلما جميعا لأمر الله ورضي الغلام بالذبح، ورضي الأب بأن يذبحه، فقال: يا أبت اقذفني للوجه كيلا تنظر إلي فترحمني، وأنظر أنا إلى الشفرة فأجزع، ولكن أدخل الشفرة من تحتي، وامض لأمر الله، فذلك قوله (فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ)ابو جان! مجھے چہرے کے بل گرائے تا کہ مجھے دیکھ کر آپ ترس نہ کھائیں اور میں چھری دیکھ کر بے صبرانہ ہو جاؤں، بلکہ میرے نیچے سے چری داخل کریں اور الله تعالی کے علم کو کر گزریئے۔[ تفسير طبری : ۷۹ / ۲۱ ۔ اسناده ضعيف ]
. اس کے ضعف کی دوعلتیں ہیں: (1)اس سند میں محمد بن محمد بن حیان رازی ضعیف راوی ہے۔ جمہور محدثین نے اسےضعیف قرار دیا ہے۔
(2)عکرمہ اور اسماعیل علیہ السلام کے درمیان نقطاع ہے۔ عکرمہ نے یہ روایت کسی سے سنی اور
درمیان میں کتے واسطے ہیں، اس بارے کوئی صراحت نہیں ہے۔
(3)مجاہد بیان کرتے ہیں : (وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ) کا معنی ہے کہ انھوں (ابراہیم ) نے سیدنااسماعیل کا چہرہ زمین پر رکھا تو اسماعیل علیہ السلام نے کہا:
لا تذبحني وأنت تنظر إلى وجهي عسى أن ترحمني، ولا تجهز عليّ، اربط يدي إلى رقبتي ثم ضع وجهي للأرض »
مجھے ذبح کرتے وقت میرے چہرے کی طرف نہ دیکھنا ممکن ہے اس طرح آپ مجھ پر ترس آ جائے اور آپ میرا کام تمام نہ کر سکو (بلکہ میرے ہاتھ میری گردن کی طرف باندھو اور میرا چہرہ زمین پر رکھو ( پھر چھری چلا دو )“
في تفسير طبری : ۷۹ /۲۱ إسناده ضعيف ]
اس حدیث کا سبب ضعف دو علتیں ہیں: ۔
(1)عبد الله بن ابی نجیح کی تدلیس ہے۔ ۲۔ مجاہد اور اساعیل علی کے درمیان انقطاع ہے۔
(۳)۔ سیدنا عبداللہ ابن عباس (: وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ) کی تفسیر بایں الفاظ بیان کرتے ہیں:
(عن ابن عباس (وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ) قال: أكبه على جبهته ابراہیم نے اسے (اسماعیل کو ) پیشانی کے بل الٹا گرایا۔ (تفسير طبری : ۷۸ / ۲۱ - إسناده ضعيف }
اس اثر کی سند کے تمام راوی ضعیف ہیں، جو بالترتیب بیان کیے جاتے ہیں :
(1)محمد بن سعد بن محمد بن حسن عطیہ کمزو راوی ہے۔
(2)سعد بن محمدحسن بن عطیہ متساہل ہے۔
(3) حسین بن حسن بن عطيہ بالاتفاق ضعیف راوی ہے۔
(4) حسن بن عطیہ عوفی ضعیف ہے۔
(5) عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی ضعیف مدلس راوی ہے۔ .
لهذا راحج مفہوم یہی ہے کہ سیدنا اسماعیل مین کو ذبح کرتے وقت ابراہیم علیہ السلام نے انھیں دائیں کروٹ لٹایا تھا، جیسے جانور کو ذبح کرتے وقت چہرے کی دائیں جانب لگایا جاتا ہے۔
عظیم ذبیحہ خوبصورت سفید مینڈھا تھا:.
سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ میں جو عظیم ذبیحہ عنایت کیا گیا، وہ سفید رنگ کا سینگوں والا خوبصورت مینڈھا تھا، اس کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی آئنده حدیث ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
' ثم تله للجبين - وعلى إسماعيل قميص أبيض، وقال: يا أبت، إنه ليس لي ثوب تكفنني فيه غيره، فاخلعه حتى تكفنني فيه، فعالجه ليخلعه، فنودي من خلفه: {أن يا إبراهيم قد صدقت الرؤيا} [الصافات: 105] فالتفت إبراهيم، فإذا هو بكبش أبيض أقرن أعين، قال ابن عباس: لقد رأيتنا نتبع ذلك الضرب من الكباش »
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے چہرے کی ایک جانب لٹایا اور اسماعیل علیہ السلام کے بدن پر سفید قمیض تھی اس دوران اسماعیل علیہ السلام
نے عرض کی : ابو جان ! اس قمیض کے سوا میرا کوئی اور کپڑا نہیں، جس میں آپ مجھے کفان سکیں، لہذا اسے اتار لیجیے، تا کہ آپ مجھے اس میں کفن دے سکیں، چنانچہ وہ قمیض اتارنے لگے تو انھیں پیچھے سے آواز دی گئی، اے ابراہیم ! تو نے واقعی خواب سچ کر دکھایا ہے، اس پر ابراہیم علیہ السلام نے پیچھے جھانکا تو ناگہاں وہاں انتہائی سفید سینگوں والا خوبصورت ترین مینڈھا تھا...........
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں؛
تحقیق ہم (قربانی کے لیے اس قسم کے مینڈھے خریدا کرتے تھے۔ [ مسند أحمد: ۲۹۷ / ۱ ، ۲۷۰۷- بیهقی : 154 / 5 - تاریخ دمشق : ۲۱۰/ ۹ ]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کی سند یوں ہے ؛ حدثنا سريج، ويونس، قالا: حدثنا حماد يعني ابن سلمة، عن أبي عاصم الغنوي،
: ا۔ ابو عاصم غنوی ثقہ راوی ہے، یحی بن معین نے اسے ثقہ قرار دیا ہے، لہذا ابو حاتم کا
"لا أعرفه، کہنا ان کی ثقاہت میں قادح نہیں۔ [دیکھیے میزان الاعتدال : الجرح و التعدی]
۲۔ حماد بن سلمہ ثقہ اور تدلیس سے بری ہیں۔ دیکھیے (فتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین از
زبیرعلی زئی ص: ۱۰۸۔ )
لہذا مسند احمد میں حماد بن سلمہ کا عنده قادح نہیں پھر تاریخ دمشق اور بیہقی میں
عنعنہ نہیں ہیں بلکہ حماد بن سلمہ کی تحدیث ہے ۔
جاری ہے ؛
Last edited: