یہ حدیث کس کتاب میں ہے ،،یا کم از کم اس کی عربی عبارت ہی لکھ دیں ۔
3957- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانٍ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ، يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً،وَتَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ، قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ فَاخْتَلَفُوا، وَكَانُوا هَكَذَا! " (وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ) قَالُوا: كَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِذَا كَانَ ذَلِكَ؟ قَالَ: " تَأْخُذُونَ بِمَا تَعْرِفُونَ، وَتَدَعُونَ مَا تُنْكِرُونَ، وَتُقْبِلُونَ عَلَى خَاصَّتِكُمْ، وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَوَامِّكُمْ "۔
* تخريج: د/الملاحم ۱۷ (۴۳۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۹۳)، وقد أخرجہ: خ/الصلاۃ ۸۸ (۴۸۰) (صحیح)
۳۹۵۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہا را اس زما نہ میں کیا حال ہو گا جو عنقریب آنے والا ہے؟ جس میں لو گ چھانے جا ئیں گے (اچھے لوگ سب مرجائیں گے) اور خراب لو گ با قی رہ جائیں گے (جیسے چھلنی میں آٹا چھاننے سے بھوسی باقی رہ جاتی ہے)، ان کے عہدوپیمان ا وراما نتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہوگا، اور لوگ آپس میں الجھ کر اور اختلاف کرکے اس طرح ہو جائیں گے'' پھر آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھا ئیں،لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !اس وقت ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جو بات تمہیں معروف (اچھی) معلوم ہو اسے اپنا لینا، اور جو منکر (بری) معلوم ہو اسے چھو ڑ دینا، اور تم اپنے خصوصی معاملات ومسائل کی فکر کرنا، اور عام لوگوں کے مائل کی فکر چھوڑ دینا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جب عوام سے ضرر اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو توامر بالمعروف اور نہی المنکر کے ترک کی اجازت ہے۔یعنی بھلی باتوں کا حکم نہ دینے اوربری باتوں سے نہ روکنے کی اجازت ،ایسے حالات میں کہ آدمی کو دوسروں سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو ۔
3958- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنِ الْمُشَعَّثِ ابْنِ طَرِيفٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ،عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " كَيْفَ أَنْتَ، يَا أَبَا ذَرٍّ! وَمَوْتًا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى يُقَوَّمَ الْبَيْتُ بِالْوَصِيفِ؟ "، (يَعْنِي الْقَبْرَ) قُلْتُ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ (أَوْ قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ) قَالَ: " تَصَبَّرْ " قَالَ: " كَيْفَ أَنْتَ وَجُوعًا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى تَأْتِيَ مَسْجِدَكَ فَلاتَسْتَطِيعَ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى فِرَاشِكَ، وَلا تَسْتَطِيعَ أَنْ تَقُومَ مِنْ فِرَاشِكَ إِلَى مَسْجِدِكَ؟ " قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ (أَوْ مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ)، قَالَ: " عَلَيْكَ بِالْعِفَّةِ " ثُمَّ قَالَ: " كَيْفَ أَنْتَ وَقَتْلا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى تُغْرَقَ حِجَارَةُ الزَّيْتِ بِالدَّمِ؟ " قُلْتُ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ،قَالَ: "الْحَقْ بِمَنْ أَنْتَ مِنْهُ " قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَلا آخُذُ بِسَيْفِي فَأَضْرِبَ بِهِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ؟ قَالَ: " شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذًا، وَلَكِنِ ادْخُلْ بَيْتَكَ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَإِنْ دُخِلَ بَيْتِي؟ قَالَ: " إِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ فَأَلْقِ طَرَفَ رِدَائِكَ عَلَى وَجْهِكَ،فَيَبُوئَ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِكَ، فَيَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۴۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۹۰)، وقد أخرجہ: د/الفتن ۲ (۴۲۶۱)، بدون ذکر الجوع و العفۃ ، حم (۵/۱۴۹، ۱۶۳) (صحیح) (ملا حظہ ہو : الإرواء : ۲۴۵۱)
۳۹۵۸- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''ابو ذ ر ! اس وقت تمہا ری کیا حالت ہوگی جس وقت لوگوں پر مو ت کی وبا آئے گی یہاں تک کہ ایک گھر یعنی قبر کی قیمت ایک غلام کے برابر ہو گی ۱؎ ، میں نے عرض کیا: جو اللہ اور اس کا رسول میرے لئے پسند فرمائیں ( یا یوں کہا : اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ) آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس وقت تم صبر سے کا م لینا''، پھر فرمایا:''اس وقت تم کیا کروگے جب لوگ قحط اور بھوک کی مصیبت سے دو چار ہوں گے، حتی کہ تم اپنی مسجد میں آئوگے، پھر تم میں اپنے بستر تک جا نے کی قوت نہ ہو گی اور نہ ہی بستر سے اٹھ کر مسجد تک آنے کی قوت ہوگی، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیا دہ جانتے ہیں،یاکہا( اللہ اور اس کا رسول جو میرے لئے پسند کرے) آپ ﷺ نے فرمایا:'' ( اس وقت ) تم اپنے اوپرپاک دامنی کو لازم کر لینا''، پھر فرمایا:'' تم اس وقت کیا کرو گے جب (مدینہ میں ) لو گوں کا قتل عام ہوگا، حتی کہ مدینہ میں ایک پتھر یلا مقام ''حِجَارَةُ الزَّيْتِ '' ۲؎ خون میں ڈوب جا ئے گا''، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول جو میرے لئے پسند فرمائیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:''تم ان لوگوں سے مل جانا جن سے تم ہو''(یعنی اپنے اہل خاندان کے ساتھ ہوجانا) ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ''اللہ کے رسول !کیا میں اپنی تلوارلے کر ان لوگوں کو نہ ماروں جو ایسا کریں ؟ ''، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اگر تم ایسا کروگے تب تو تم بھی انہیں لوگوں میں شریک ہوجاؤگے، تمہیں چا ہئے کہ (چپ چاپ ہو کر) اپنے گھرہی میں پڑے رہو'' ۳؎ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر وہ میرے گھر میں گھس آئیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''اگر تمہیں ڈر ہو کہ تلوار کی چمک تم پر غالب آجائے گی، تو اپنی چادر کا کنارا منہ پر ڈال لینا، (قتل ہوجانا) و ہ قتل کرنے والا اپنا اور تمہا را دونوں کا گنا ہ اپنے سرلے گا، اور وہ جہنمی ہو گا'' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک قبرکی جگہ کے لیے ایک غلام دینا پڑے گا یا ایک قبرکھودنے کے لیے ایک غلام کی قیمت اداکرنی پڑے گی یا گھر اتنے خالی ہوجائیں گے کہ ہرغلام کو ایک ایک گھرمل جائے گا۔
وضاحت ۲؎ : مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔
3980- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ، وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ "۔
* تخريج: خ/الإیمان ۱۲ (۱۹)، بدء الخلق ۱۵ (۳۳۰۰)، المناقب ۲۵ (۳۶۰۰)، الرقاق ۳۴ (۴۶۹۵)، د/الفتن ۱۴ (۴۲۶۷)، ن/الإیمان ۳۰ (۵۰۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۰۳)، وقد أخرجہ: ط/الاستئذان ۶ (۱۶) حم (۳/۶، ۳۰، ۴۳، ۵۷) (صحیح)
۳۹۸۰- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عنقریب ایسا زما نہ آئے گا کہ اس وقت مسلمان کا بہترین ما ل بکر یا ں ہو ں گی جنہیں وہ لے کر پہاڑ کی چو ٹیوں یا با رش کے مقامات میں چلا جا ئے گا، وہ اپنا دین فتنوں سے بچاتا پھررہا ہوگا''۔
3981- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدِّمِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْخَزَّازُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ قُرْطٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " تَكُونُ فِتَنٌ عَلَى أَبْوَابِهَا دُعَاةٌ إِلَى النَّارِ، فَأَنْ تَمُوتَ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جِذْلِ شَجَرَةٍ، خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَتْبَعَ أَحَدًا مِنْهُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفۃ الأشراف: ۳۳۷۲) (صحیح)
۳۹۸۱- حذ یفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کچھ ایسے فتنے پیدا ہوں گے کہ ان کے دروازوں پر جہنم کی طرف بلا نے والے ہو ں گے، لہٰذا اس وقت تمہا رے لئے کسی درخت کی جڑ چبا کر جا ن دے دینا بہتر ہے،بہ نسبت اس کے کہ تم ان بلا نے والوں میں سے کسی کی پیر وی کر و'' ۔