قرض دیئے ہوئے مال میں زکاۃ کیسے ادا کیا جائے؟
سوال: ہم اپنے اس مال کی زکاۃ کیسے ادا کریں جو دوسروں کے ذمہ قرض ہے اسے میں نے وصول نہیں کیا اور اس میں سے کچھ کو چار سال یا اس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے؟
جواب: اگر قرض ایسے شخص کے پاس ہے جو طلب کرنے پر فورا واپس کر دے تو اس کی زکاۃ ہر سال ادا کرنا ضروری ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ طلب کرنے پر فورا ادا کر دے تو ایسی صورت میں وہ رقم بطور امانت مانی جائے گی جس کی زکاۃ ہر سال دینا ضروری ہے اور اگر قرض ایسے شخص کے پاس ہو جو تنگ دست ہو یا ٹال مٹول کرنے والا ہو جن سے قرضہ بہت محنت ومشقت کے بعد واپس ملے، مانگنے پر نا دے رہا ہو ٹال مٹول کر رہا ہو تو اس مال پہ زکاۃ نہیں ہے کیونکہ وہ آپ کے قبضے اور تصرف میں نہیں ہے۔ جب وہ مال حاصل ہو جائے تو آئندہ سال کی زکاۃ نکالنی ہوگی اور اگر گزشتہ ایک سال کی زکاۃ نکال دے تو بہتر ہے جیسا کہ بعض اہل علم کا کہنا ہے۔ لیکن گزشتہ سال کی زکاۃ نکالنا واجب نہیں ہے ۔ واجب آئندہ سال کی زکاۃ ہے جب اس پر سال گزر جائے (اور مال نصاب کو برقرار رہے)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مقروضین کی تین قسمیں ہیں
1- خوشحال بوقت طلب قرض ادا کر دینے والا قرضدار ایسے شخص کے پاس موجود مال کی زکاۃ ادا کرنی ہوگی کیونکہ وہ بطور امانت مانی جائے گی.
2- تنگ دست قرضدار ایسے شخص کے پاس موجود مال پر زکاۃ نہیں ہے جب تک کہ وہ آپ کو رقم ادا نا کر دے اور اس پر سال نا گزر جائے.
3- ٹال مٹول کرنے والا قرضدار جس سے بہت ہی محنت ومشقت کے بعد ہی مال حاصل ہوگا چنانچہ اس کے پاس موجود مال آپ کے پاس موجود مال تسلیم نہیں کیا جائے گا نا ہی اس کی زکاۃ لازم ہوگی یہاں تک کہ آپ اسے حاصل کر لیں، بعض ٹال مٹول کرنے والوں سے مال حاصل کرنا تنگ دست سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے ان کے پاس موجود مال تنگ دست کے پاس موجود مال سے بھی پرے ہوتا ہے.