• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرض پر سروس فیس لینے کا کیا حکم ہے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
قرض پر سروس فیس لینے کا کیا حکم ہے؟

سوال: میں ایک گھریلو خاتون ہوں، اور اس وقت گھر میں رہتے ہوئے کام بھی کرتی ہیں، میں ملازمت تلاش کر کر کے تھک چکی ہوں، اس لئے گھر ہی میں شیشے اور برتنوں پر دستکاری کے ذریعے کچھ ڈیزائننگ کرتی ہوں، مجھے اردن میں ایک کمپنی کے بارے میں علم ہوا ہے جو چھوٹے کارباری منصوبوں کیلئے "تمویلکم" سے موسوم منصوبے کے تحت 400 دینار تک قرض فراہم کرتی ہے، اُنکے اس منصوبے کے ذریعے میں اپنی مصنوعات کو انہی کے شوروم پر فروخت کیلئے پیش کرسکتی ہوں،جب کہ میں گھر ہی میں رہونگی ، اسکے لئے 400 دینار قرض کے بدلے میں مجھ پر 13 ماہ کی اقساط 496 دینار بنتی ہیں، جب میں نے ان سے اضافی 96 دینار کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: "یہ دفتری فیس ہے"میں نے اس بارے میں سوچا تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ ہوسکتا ہے کہ اضافی 96 ریال شو روم کے کرائے، اور میری مصنوعات کو فروخت کرنے پر مامور ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں ہو سکتے ہیں، یہ میرا اپنا اجتہاد تھا، اور میں نے اپنے آپ کو تسلی دینے کیلئے یہ بات کہی، اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ سود نہیں ہوگا، لیکن پھر بھی حلال اور بابرکت روزی کیلئے میں نے اس مسئلہ کی تحقیق ٹھان لی، تا کہ مجھے یقین ہوجائے کہ کہ اس طریقہ کار میں سود نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ:مذکورہ بالا طریقہ میں سود ہے یا نہیں ؟

الحمد للہ:

شرعی قرض یہ ہے کہ: ایسا قرض حسنہ جس میں کسی قسم کے فائدہ یا سود کی شرط نہ ہو، جبکہ قرض خواہ قرض کی فراہمی کیلئے پیش کی جانی والی خدمت کی فیس لے سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ یہ فیس خدمت پیش کرنے کے حقیقی مصارف سے زیادہ نہ ہو۔

چنانچہ "اسلامی فقہ اکیڈمی"[ مجمع الفقه الإسلامي] کی تجاویز برائے قرضہ سروس فیس از "اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک"[ البنك الإسلامي للتنمية] میں درج ذیل شقیں موجود ہیں:

1- قرضہ فراہمی کیلئے سروس فیس لینا جائز ہے، بشرطیکہ حقیقی مصارف سے زیادہ نہ ہوں۔

2- حقیقی مصارف سے بڑھ کر جو کچھ بھی لیا جائے گا وہ شرعی طور پر حرام سود میں شامل ہوگا۔

ماخوذ از:" مجلة المجمع " شمارہ نمبر:2 ، ( 2 / 527 )، اسی طرح شمارہ نمبر:3 ،( 1 / 77 )

یہ کیسے پتہ چلے گا کہ فیس حقیقی مصارف پر مبنی ہےیا نہیں، اسکے لئے آپ یہ دیکھیں کہ قرضہ کی مقدار زیادہ ہو یا کم فیس ایک ہی ہوگی، اور قرضوں کی واپسی میں تاخیر پر قرضہ کی رقم اتنی ہی رہے گی۔

واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب ویب سائٹ

http://islamqa.info/ur/167874
 
Top