عبد الرحمن فيض اللہ سلفی
مبتدی
- شمولیت
- اپریل 23، 2022
- پیغامات
- 19
- ری ایکشن اسکور
- 7
- پوائنٹ
- 12
قرضدار کے تنگدست ہونے کی بنا پر قرض کو بطور زکاۃ سمجھ کر ختم کر دینے کا کیا حکم ہے؟
سوال: ایک شخص کے ذمہ میرا کچھ قرض ہے، کافی وقت گزر جانے کے باوجود اس نے ادا نہیں کیا اور نا ہی وہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہے چونکہ وہ فقیر ہے لہذا میں نے اس رقم کو زکاۃ سمجھ کر معاف کر دیا تو کیا میرا یہ عمل جائز اور درست ہے؟ وضاحت فرما کر عند اللہ مأجور ہوں.
جواب: تنگ دست کو مہلت دینی چاہئے حتی کہ اللہ تعالی اس کے لئے ادائیگی آسان فرما دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡ عُسۡرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ وَ اَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ. ترجمه: اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تك مہلت دینی چاہیے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم میں علم ہو۔ ﴿البقرة: 280﴾ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی تنگ دست (قرض دار) کو مہلت دے یا اس کا کچھ قرض معاف کر دے، تو اللہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سایہ کے نیچے جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا۔ [ترمذی: 1306] لیکن زکاۃ سمجھ کر قرض کو ختم کرنا درست نہیں ہے، اہل علم کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ زکاۃ کا مطلب ہے دینا عطا کرنا اور ایسی صورت (قرض کو زکاۃ سمجھ کر ختم کر دینے) میں اپنے مال کا تحفظ ہے، قرض کا مال ممکن ہے ملے یا ممکن ہے نا ملے اس (قرض کو زکاۃ سمجھ کر ختم کر دینے) میں عطا کرنا اور دینا نہیں ہے بلکہ (اپنے مال کو) چھڑانا ہے چنانچہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے لہذا آپ پر واجب ہے کہ آپ اپنے مال کی زکاۃ نکالیں اور قرض دار کے پاس موجود مال کو اس کے حال پہ رہنے دیں.
Last edited: