• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قریب ہے کہ مسلمان کا بہتر مال بکریاں ہوں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظک اللہ

سنن ابوداود:
4267- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ [بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ] ابْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمًا يَتَّبِعُ بِهَا شَغَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ >.

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
''قریب ہے کہ مسلمان کا بہتر مال بکریاں ہوں، جنہیں لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر پھرتا اور اپنا دین لے کر وہ فساد اور فتنوں سے بھاگتا ہو''۔

بھائی کا سوال ہے:
السّلام علیکم
اس حدیث کی تشریح چاہئیے. یہ کس دور کے بارے میں بات ھو رھی ھے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
''قریب ہے کہ مسلمان کا بہتر مال بکریاں ہوں، جنہیں لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر پھرتا اور اپنا دین لے کر وہ فساد اور فتنوں سے بھاگتا ہو''۔
اس حدیث کی تشریح چاہئیے. یہ کس دور کے بارے میں بات ھو رھی ھے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
پہلی بات تو یہ واضح ہو کہ یہ حدیث صحیحین ( صحیح بخاری ،صحیح مسلم ) کی ہے ،
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اسے پانچ مقامات پر بیان فرمایا ہے ، دیکھئے ((صحیح بخاری 19 ،3300 ،3600 ،6495،7088 )

سب سے پہلے کتاب الایمان میں باب ( مِنَ الدِّينِ الفِرَارُ مِنَ الفِتَنِ ،فتنوں سے دور بھاگنا (بھی) دین (ہی) میں شامل ہے ) کے تحت بیان فرمائی ہے :
اور امام المحدثین کی اس پہلی تبویب سے حدیث کا اجمالی ،مرادی معنی سامنے آتا ہے ،
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمًا يَتَّبِعُ بِهَا شَغَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ >
یعنی پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا (سب سے) عمدہ مال اس کی بکریاں ہوں گی۔ جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور برساتی وادیوں میں اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگ جائے گا۔ "

اس حدیث
حدیث کا اجمالی ،مرادی معنی یہ ہے کہ :
کہ اگر کسی وقت کہیں فتنے اس نوعیت کے ہوں جہاں
ایمان کو خطرہ ہو ، تو وہاں سے فرار ہونا ہی ایمان کا تقاضا ہے ، یعنی ایمان کی حفاظت ضروری ہے خواہ اس کیلئے انسانی معاشرے سے دور رہنا پڑے

لیکن فتنوں سے بچنے کا یہ واحد راستہ نہیں ،
کیونکہ اسی حدیث کے دوسرے طریق میں ( جسے امام بخاری ؒ نے کتاب الجہاد 2786 میں روایت کیا ) الفاظ حدیث یہ ہیں :
أن أبا سعيد الخدري رضي الله عنه، حدثه قال: قيل: يا رسول الله أي الناس أفضل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مؤمن يجاهد في سبيل الله بنفسه وماله»، قالوا: ثم من؟ قال: «مؤمن في شعب من الشعاب يتقي الله، ويدع الناس من شره»
جناب ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! کون شخص سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ مومن جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے۔“
صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا اس کے بعد کون؟ فرمایا ”وہ مومن جو پہاڑ کی کسی گھاٹی میں رہنا اختیار کرے ‘ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتا ہو اور لوگوں کو چھوڑ کر اپنی برائی سے ان کو محفوظ رکھے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث میں جس ( عمل ) کی فضیلت و اہمیت بیان ہوئی ہے اسے علمائے سلف ( العزلۃ ۔۔ عزلت یعنی الگ تھلگ رہنا ،کنارہ کشی اختیار کرنا ، تنہائی میں رہنا ) کے عنوان سے بیان کیا ہے ،
قدیم علماء نے اس موضوع پر مستقل تصانیف مرتب کی ہیں ، جن میں سب سے بہترین کتاب چوتھی صدی کے نامور محدث امام خطابیؒ
أبو سليمان حمد بن محمد المعروف بالخطابي (المتوفى: 388 ھ) کی ( الْعُزْلَةُ ) ہے ، جو دمشق سے تحقیق و تخریج کے ساتھ شائع ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام حافظ ابن حجر ؒ اور امام النوویؒ نے اوپر مذکور حدیثِ ابو سعیدرضی اللہ عنہ کے ذیل میں عزلت یعنی الگ تھلگ رہنے کی شرعی حیثیت و ضرورت پر ہی بات کی ہے ،
( ابھی تو نماز جمعہ کیلئے نکل رہا ہوں ان شاء اللہ بعد از جمعہ مکمل کرتا ہوں )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
'قریب ہے کہ مسلمان کا بہتر مال بکریاں ہوں، جنہیں لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر پھرتا اور اپنا دین لے کر وہ فساد اور فتنوں سے بھاگتا ہو''۔
جیسا کہ گذشتہ پوسٹ میں عرض کی کہ :
اس حدیث میں فتنوں سے بچنے کیلئے ۔۔ عزلت ،الگ تھلگ رہنے ۔۔ کا ذکر ہے ،
تو یاد رہے کہ اسلام نے عام حالات میں مسلم معاشرہ کے اندر رہ کر مختلف افراد کے حقوق ادا کرنے اور جمعہ و جماعت میں اہل اسلام کے ساتھ رہنے کی اہمیت و ضرورت کی تعلیم و ترغیب دی ہے ،
جن میں سے ایک اہم حق اور فریضہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر بھی ہے یعنی اصلاح معاشرہ ،
جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
عليكم بالجماعة وإياكم والفرقة فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد، من أراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة، من سرته حسنته وساءته سيئته فذلك المؤمن»
(قال الترمذی ): هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه وقد رواه ابن المبارك، عن محمد بن سوقة، وقد روي هذا الحديث من غير وجه عن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم

ترجمہ :
تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور پارٹی بندی سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے، دو کے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دور کی بات ہے، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے“۔
امام ترمذیؒ کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اسے ابن مبارک نے بھی محمد بن سوقہ سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث کئی سندوں سے عمر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔ (وقال الألباني : صحيح )
اور اگر اصلاح احوال کی کوئی سبیل نہ ہو ، تب بھی فوراً جنگل بیلے بھاگنے کی ضرورت نہیں بلکہ عام میل جول کو محدود کرتے ہوئے اپنے گھر میں رہنے کو عافیت سمجھنا چاہیئے جیسا کہ خود نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
عن عقبة بن عامر، قال: قلت: يا رسول الله ما النجاة؟ قال: «املك عليك لسانك، وليسعك بيتك، وابك على خطيئتك»: «هذا حديث حسن»
سیدنا عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! نجات کی کیا صورت ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر کی وسعت میں مقید رہو اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو“
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن عبد الله بن عمرو بن العاص، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «كيف بكم وبزمان» أو «يوشك أن يأتي زمان يغربل الناس فيه غربلة، تبقى حثالة من الناس، قد مرجت عهودهم، وأماناتهم، واختلفوا ، فكانوا هكذا» وشبك بين أصابعه، فقالوا: وكيف بنا يا رسول الله؟ قال: «تأخذون ما تعرفون، وتذرون ما تنكرون، وتقبلون على أمر خاصتكم، وتذرون أمر عامتكم» قال أبو داود: «هكذا روي عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، من غير وجه» (سنن ابوداود ، الملاحم)

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہو گا؟“
یا آپ نے یوں فرمایا: ”عنقریب ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ چھن اٹھیں گے، اچھے لوگ سب مر جائیں گے، اور کوڑا کرکٹ یعنی برے لوگ باقی رہ جائیں گے، ان کے عہد و پیمان اور ان کی امانتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہو گا (یعنی لوگ بدعہدی اور امانتوں میں خیانت کریں گے) آپس میں اختلاف کریں گے اور اس طرح ہو جائیں گے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا، تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت ہم کیا کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بات تمہیں بھلی لگے اسے اختیار کرو، اور جو بری لگے اسے چھوڑ دو، اور خاص کر اپنی فکر کرو، عام لوگوں کی فکر چھوڑ دو“۔
امام ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً اس سند کے علاوہ سے بھی مروی ہے۔"

یعنی معاشرے اور لوگوں میں بگاڑ کا ہونا شخصی ذمہ داریوں سے فرار کا بہانہ نہیں بن سکتا بلکہ ایسی صورت اپنی اور اپنوں کی مزید فکرکرنا لازم ہے ،
عــــ
مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچہ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقیہ ان شاء اللہ اگلی نشست میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top