• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قزع کا حکم شرعی نقطۂ نظر سے

شمولیت
فروری 21، 2019
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
49
از قلم : ہدایت اللہ فارس
متعلم: جامعہ نجران سعودیہ عربیہ

دین اسلام ایک فطری دین ہے،جس میں اللہ تعالیٰ کے تخلیقی امور میں انسانی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں،اس نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کرکے اسے زینت بخشی، اسکی بحالی انسان کا دینی فریضہ ہے،لیکن افسوس آج کل ہمارا معاشرہ خصوصا نوجوان طبقہ اس فریضہ سے غافل ہوکر اور کفار کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے تخلیقی امور میں مداخلت کی کوشش کررہا ہے، ان میں سے ایک فیشن "قزع " ہے،اور اس قبیح عمل کو انجام دینے میں نوجوانانِ اسلام بھی پیش پیش ہیں۔
*قزع کی تعریف*
لغت میں قزع کہتے ہیں"قطعة السحاب المتفرقة" یعنی بکھرے ہوئے بادل کے ٹکڑے اس کی واحد "قزعة" آتی ہے!
شریعت میں کہتے ہیں: القزع أن يحلق رأس الصبي ويترك في مواضع منه الشعر متفرقا۔
یعنی قزع یہ ہے کہ بچے کے سر کا کچھ حصہ مونڈ دیا جائے،اور سر کے مختلف جگہوں میں کچھ حصہ باقی چھوڑ دیا جائے ( لسان العرب : ٨/ ٢٧١ و مختار الصحاح: ص. ٢٦٤ "بالتاء في الحلق")
اسی طرح سے امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لفظ"قزع" کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: القزع بفتح القاف والزاى ثم المهملة جمع قزعة. وهي القطعة من السحاب وسمي شعر الرأس إذا حلق بعضه وترك بعضه قزعا تشبيها بالسحاب المتفرق۔
قزع قاف اور زاء کے فتح کے ساتھ قزعة کی جمع ہے، یعنی قزع بادل کے ٹکڑے کو کہتے ہیں۔اور یہاں سر کے ان بالوں کو کہا گیا ہے جو سر کا کچھ حصہ مونڈنے کے بعد ٹکڑوں میں باقی چھوڑ دیا جائے جیسے آسمان پر بادل کے ٹکرے ہوں‌!
(فتح الباری لابن الحجر العسقلانی رحمہ اللہ۔۔ ١٠ / ٤٤٦ )
*قزع کی صورتیں*
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے قزع کی چار صورتیں بیان کی ہیں۔
*١*: أن يحلق غير مرتب،فيحلق من الجانب الأيمن ومن الجانب الأيسر ومن الناصية ومن القفا (أى: يحلق اجزاء متفرقة من الرأس ويترك باقيه)
یعنی سر کے بال بغیر کسی ترتیب کے مونڈے جائیں۔سر کے دائیں بائیں اور پیشانی اور گدی سے مونڈے جائیں،یعنی سر کے متفرق جگہوں سے بال مونڈے جائیں اور باقی چھوڑ دئے جائیں۔
*٢*: أن يحلق وسطه،ويترك جانبيه۔
یعنی‌سر کا وسط مونڈ دیا جائے اور دونوں جانب چھوڑ دی جائیں۔
*٣*: أن يحلق جوانبه ويترك وسطه۔
يعنى سر کے دونوں طرف سے مونڈ دیا جائے اور وسط یعنی سر کے بیچ میں چھوڑ دیا جائے۔
*٤*: أن يحلق الناصية فقط ويترك الباقي. انتهى...
يعنى صرف پیشانی سے بال مونڈے جائیں اور باقی چھوڑ دئے جائیں
(الشرح الممتع لابن عثيمين رحمه الله: ١ /١٢٧ )

*قزع کی ممانعت احادیث صحیحہ کی روشنی میں*
کتب حدیث میں قزع کی ممانعت کے سلسلے میں متعدد احادیث وارد ہوئے ہیں،ان میں سے چند حدیثوں کا یہاں تذکرہ کیا جاتا ہے۔
*١* : عن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن القزع،قيل لنافع ما القزع ؟ قال. أن يحلق بعض رأس الصبي ويترك بعضه۔
*ترجمہ*: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا ہے۔ نافع سے کہا گیا "قزع" کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ بچے کے سر کے بعض حصے کو مونڈنا۔اور بعض کو چھوڑ دینا
(صحيح مسلم. ح : ٢١٢٠)
*٢*: عن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى صبيا قد حلق بعض شعره وترك بعضه فنهى عن ذالك و قال: احلقوا كله أو اتركوا كله.
*ترجمہ*: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا اس کے کچھ بال حلق کردئے گئے تھے۔اور کچھ چھوڑ دئے گئے تھے۔تو آپ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا اور کہا پورا سر حلق کرلو یا پورا چھوڑ دو
(مسند احمد . ح: ٥٥٨٣. صححه الألباني رحمه الله في سلسلة الأحاديث الصحيحة. ح: ١١٢٣)
*٣*: عن نافع مولى عبد الله أنه سمع ابن عمر رضي الله عنهما يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن القزع. قال عبيد الله قلت وما القزع؟ فأشار لنا عبيد الله قال إذا حلق الصبي وترك هاهنا شعره وهاهنا وهاهنا فأشار لنا عبيد الله إلى ناصية وجانبي رأسه رأسه قيل لعبيد الله فالجارية والغلام؟ قال لا أدري هكذا قال الصبي قال عبيد الله وعاودته فقال أما القصة والقفا للغلام فلا بأس بهما ولكن القزع أن يترك بناصية شعر وليس في رأسه وغيره وكذلك شق رأسه هذا هذا.

*ترجمہ*: حضرت نافع مولی عبداللہ رض سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا وہ کہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قزع سے منع فرماتے ہوئے سنا۔ عبیداللہ کا بیان ہے کہ میں نے پوچھا قزع کیا ہے؟ عبیداللہ نے اشارہ کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ جب بچہ سر منڈوائے، اور ادھر ادھر بال چھوڑ دے، اور اپنی پیشانی اور سر کے دونوں کناروں کی طرف اشارہ کیا،عبید اللہ سے پوچھا گیا کہ لڑکی اور لڑکے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا میں نہیں جانتا، صرف بچہ ہی کا لفظ بیان کیا۔ عبیداللہ نے کہا کہ میں نے دوبارہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ لڑکے کی پیشانی اور گدی کے بال مونڈنے میں کوئی حرج نہیں،لیکن قزع یہ ہے کہ پیشانی پر بال چھوڑ دے اور سر پہ کچھ بال نہ ہوں! اسی طرح اپنے سر کے بال آدھے مونڈنا اور آدھے رکھنا جائز نہیں۔
(صحیح البخاری کتاب اللباس باب القزع. ح: ٥٥٧٦ )
امام نووی رحمہ اللہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ: قزع کا معنی مطلق (کسی کے بھی) سر کے کچھ حصے کو مونڈنا (اور کچھ حصے کو چھوڑ دینا) اور یہی معنی زیادہ صحیح ہے کیوں کہ حدیث میں بھی یہی معنی بیان کیا گیا ہے،اور یہ حدیث کے ظاہری مفہوم کے خلاف بھی نہیں ہے!
لہذا یہی معنی مراد لیا جانا زیادہ قرین قیاس ہے، جہاں تک لڑکے کی تخصیص کا ذکر ہے تو یہ محض عام رواج وعادات کی بنا پر ہے ورنہ قزع جس طرح لڑکے کے حق میں مکروہ ہے اسی طرح بڑوں کے حق میں بھی مکروہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فقہی روایات میں یہ مسئلہ کسی قید و استثنا کے بغیر بیان کیا جاتا ہے اور قزع میں کراہت اہل کفر کی مشابہت اور بدہیتی سے بچانے کے لئے ہے!
حدیث میں قزع کا معنی و مطلب جو بیان گیا ہے اور جس کو امام نووی رحمہ اللہ نے زیادہ صحیح کہا ہے اس میں "چوٹی" (جیسا کہ غیر مسلم اپنے سر کے پیچھے جانب چھوڑ تے ہیں) بھی شامل ہے
( شرح مسلم للنووی کتاب اللباس باب کراھة القزع : ٧/ ٣٣٥ )
اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ خواہ بچے ہوں یا بڑے دونوں کے لئے ایک ہی حکم ہے!
جہاں تک تقصیر( یعنی بال کو بالکل چھوٹا کرلینے ) کی بات ہے کہ آیا یہ قزع میں داخل ہے یا نہیں کیوں کہ حدیث میں " حلق" کا لفظ آیا ہے۔ تو اس تعلق سے محسوس ہوتا ہے کہ حدیث میں جو حلق کا لفظ آیا ہے یہ اغلب حالات کا خیال رکھتے ہوئے بولا گیا ہے ورنہ اس سے مراد حلق اور تقصیر دونوں ہی ہیں!
لہذا تقصیر اس انداز میں کروائی جائے کہ سر کے مختلف حصوں کے بالوں میں واضح فرق نظر آئے تو یہ قزع میں شمار کیا جائے گا،یعنی اگر تقصیر کی صورت ان چار صورتوں میں سے ( جنہیں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے) کسی ایک صورت کے بھی مشابہ ہو تو وہ قزع میں شمار ہوگا! (البتہ اگر علاج وغیرہ کیلئے ایسا کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے)
لیکن اگر مطلق طور پر پورے سر کی تقصیر کی جائے۔ یا پورے سر کو مونڈ لئے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ایسا کرنا بالکل صحیح ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے " محلقين رؤوسكم و مقصرين لا تخافون " (سورة الفتح الآىة : ٢٧ )
اس کے علاوہ حدیث میں بھی اس کی دلیل موجود ہے۔
اسی طرح سے شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ نے " توالیت " کو قزع میں شمار کیا ہے ۔مزید توالیت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ۔ سر کے بعض حصہ کے بال کو کاٹنا،اور سر کے اگلے حصہ کے بال کو بڑھانا،لمبا کرنا توالیت کہلاتا ہے۔
(دیکھیں: فتاویٰ شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ۔ ٢/ ٤٨ )
اور شیخ عبداللہ البسام نے اسی کو مانا ہے، لہذا اپنی کتاب "تیسیر العلام" میں لکھتے ہیں کہ آج کل نوجوان سروں میں جو کچھ کرتے ہیں یعنی بعض بالوں کو کاٹتے ہیں اور بعض کو چھوڑ دیتے ہیں تو یہی وہ مثلہ ہے جسے توالیت کہا گیا ہے۔ یہ بہت ہی قبیح وبدصورت بدعت ہے!
( دیکھیں : تیسیر العلام ۔ ٢/ ٩٨٨ )
جہاں تک گدی، پیشانی اور کنپٹی کی بات ہے تو یہ قزع میں داخل نہیں ، کیونکہ قزع خاص ہے سر کے بالوں کے ساتھ ۔اور گدی، پیشانی اور کنپٹی سر میں داخل نہیں! اور مذکورہ حضرت نافع والی حدیث سے سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے " أما القصة والقفا للغلام فلا بأس بهما" یعنی لڑکے کی پیشانی اور گدی کے بال مونڈنے میں کوئی حرج نہیں۔
*قزع حرام ہے یا مکروہ*

اس بات پر تمام علماء کرام کا اتفاق ہے کہ قزع بہت ہی قبیح وبدصورت بدعت ہے اور یہ ایک مبغوض شئ ہے، البتہ اس کے مکروہ اور حرام ہونے میں اختلاف ہے۔
*قزع کے مکروہ ہونے کے قائل* : ١۔حنفیہ، ٢۔ مالکیہ۔ ٣۔ شافعیہ ، حنابلہ ،امام نووی ۔٤. علامہ ابن قدامہ اور ۔٥. شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ وغیرہم ہیں۔
----------------------------------------------------------
حوالہ جات۔۔۔۔۔۔۔۔
١۔ الدر المختار للحصكفي وحاشية ابن عابدين : ٦/ ٤٠٧ ؛ الفتاوى الهندية : ٥/ ٣٥٧
٢۔ الذخيرة للقرافي المالكي : ٣/ ٢٢٨ ؛ القوانين الفقهية لابن جزي. ص : ٢٩٣
٣۔ المجموع شرح المهذب للنووي : ١/ ٣٤٦ ؛ روضة الطالبين للنووي : ٣/ ٢٣٤
٤۔ المغني لابن قدامة : ١/ ١٢٣
٥۔ مجموع فتاوى ورسائل لابن عثيمين : ١١/ ١١٨
البتہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قزع مکروہ ہے لیکن اگر اس میں کفار کے ساتھ مشابہت ہوتو یہ حرام ہے کیوں کہ کفار کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی نے بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے۔انتہی۔۔۔
(دیکھیں الشرح الممتع لابن عثیمین رحمہ اللہ: ١/ ١٦٧
*قزع کے حرام ہونے کے قائل*: ١ سعودی مستقل فتاویٰ کمیٹی۔ ٢۔ شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ۔ ٣۔ شیخ محمد مختار الشنقیطی رحمہم اللہ اجمعین وغیرہم ہیں
----------------------------------------------------------
١ ۔ فتاوى اللجنة الدائمة: ٥ / ١٩٥
٢۔ فتاوى الشيخ محمد بن ابراهيم آل شيخ : ٢ / ٤٨
٣۔ شرح زاد المستقنع للشيخ محمد مختار الشنقيطي: ١/ ١٤٦

*اختلاف کا سبب*
اختلاف حدیث میں مذکور لفظ "نھی " کے فہم سے ہے بعض علماء اسے نھی تنزیہی اور بعض نھی تحریمی پر محمول کرتے ہیں!
لہذا جن کا کہنا ہے کہ قزع مکروہ ہے وہ حدیث میں مذکور لفظ" نھی" کو نھی تنزیہی پر محمول کرتے ہیں،اور جن کا کہنا ہے کہ قزع حرام ہے وہ لفظ "نھی" کو نھی تحریمی پر محمول کرتے ہیں۔اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ " الأصل في النهي التحريم إلا لقرينة " یعنی نهی میں اصل تحریم ہے الا یہ کہ کوئی قرینہ موجود ہو ۔
(من أصول الفقه على منهج أهل الحديث زكريا ابن غلام قادر الباكستاني.. ص: ١٢ )
لہذا یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے جو لفظ "نھی " کو نھی تحریمی سے نھی تنزیہی کی طرف پھیر دے ۔
صحیح بات یہ ہے کہ قزع حرام ہے کیوں کہ متعدد احادیث میں اس کو لفظ "نھی" کے ساتھ بیان کیا گیا ہے،اور ایسا کوئی قرینہ بھی موجود نہیں جو اس ۔نھی۔ کو تحریمی سے تنزیہی کی طرف پھیر دے۔ نیز جیسا کہ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی کہا کہ اگر ایسا کرنے سے کفار کی مشابہت لازم آئے تو وہ حرام ہے!
لہذا معلوم ہوا کہ قزع حرام ہے، اور قزع کی ممانعت کی کچھ علتیں بھی ہیں جنہیں اھل علم نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ علامہ عیني رحمه الله کہتے ہیں کہ اگر تم کہو کہ قزع سے ممانعت کی کیا حکمت ہے تو میں کہوں گا کہ (اس سے اللہ تعالیٰ کی) تخلیق میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے،اور کہا گیا ہے کہ یہ یہودیوں کی نشانی ہے۔ان کا فیشن ہے، اور یہ اھل شر اور اھل فسق وفجور کی علامت ہے نشانی ہے (عمدة القاري شرح صحيح البخاري. ٥٨/ ٢٢)
اسی طرح۔ قزع سے برائی اور خباثت کا منتشر ہونا لازم آتا ہے (شرح مسلم للنووي. ص : ١٣٣٧) اور یہ شیطان کا طرز عمل ہے (فتح الباري لابن حجر العسقلاني: ١٠/ ٣٦٥)
یہ سب علتیں تو اہل علم کے نزدیک ہیں۔لیکن ایک مکلف شخص کے لئے یہ لازم ہے کہ اللہ رب العالمین نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں سے اسے روکا ہے ان سے رک جائے،اور جن چیزوں کا حکم دیا ہے ان کی بجاآوری کرے۔خواہ ان کی حکمت ومصلحت اس کے فہم و ادراک میں آئے یا نہ آئے۔
اللہ کا فرمان ہے "وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا" یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تمہیں دیں اسے لے لو،اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ۔(سورة الحشر: ٧ )
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے اور لایعنی چیزوں سے محفوظ رکھے ۔۔ آمین یارب العالمین
 
Top