السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
روى البخاري (5921) ، ومسلم (2120) عَنْ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ( نَهَى عَنْ الْقَزَعِ ) قيل لنافع : ما القزع ؟ : قال : ( أن يحلق بعض رأس الصبي ويترك بعضه ) .
اس حدیث میں جو لفظ قزع ہے اسکی مکمل تشریح درکار ہے.
اگر فوٹو کی شکل میں سمجھا سکیں تو ممنون وشاکر ہوں گا.
جزاکم اللہ خیر
اس کی تصویری وضاحت محترم بھائی محمد عامر یونس نے تھریڈ
HAIR CUTTING
میں نقل کردی ہے ،وہاں دیکھ لیں ؛
لفظ "قزع " کی تشریح میں امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
(قَوْلُهُ بَابُ الْقَزَعِ)
بِفَتْحِ الْقَافِ وَالزَّايِ ثُمَّ الْمُهْمَلَةُ جَمْعُ قَزَعَةٍ وَهِيَ الْقِطْعَةُ مِنَ السَّحَابِ وَسمي شعر الرَّأْس إِذا حلق بعضه وَترك بَعْضُهُ قَزَعًا تَشِبِّيهَا بِالسَّحَابِ الْمُتَفَرِّقِ "
یعنی "قزعۃ " بادل کے ٹکڑے کو کہتے ہیں ، اور یہاں سر کے ان بالوں کو کہا گیا ہے ،جو کچھ سر مونڈنے کے بعد ٹکڑوں میں باقی چھوڑ دیا جائے ، جیسے آسمان پر بادل کےٹکڑے ہوں "
آپ کی مذکورہ حدیث اور اس کی شرح درج ذیل ہے
صحیح البخاری (کتاب اللباس ) میں ہے :
عَنْ نَافِعٍ، مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: «سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنِ القَزَعِ» قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: قُلْتُ: وَمَا القَزَعُ؟ فَأَشَارَ لَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ: إِذَا حَلَقَ الصَّبِيَّ، وَتَرَكَ هَا هُنَا شَعَرَةً وَهَا هُنَا وَهَا هُنَا، فَأَشَارَ لَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ إِلَى نَاصِيَتِهِ وَجَانِبَيْ رَأْسِهِ. قِيلَ لِعُبَيْدِ اللَّهِ: فَالْجَارِيَةُ وَالغُلاَمُ؟ قَالَ: لاَ أَدْرِي، هَكَذَا قَالَ: الصَّبِيُّ. قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: وَعَاوَدْتُهُ، فَقَالَ: أَمَّا القُصَّةُ وَالقَفَا لِلْغُلاَمِ فَلاَ بَأْسَ بِهِمَا، وَلَكِنَّ القَزَعَ أَنْ يُتْرَكَ بِنَاصِيَتِهِ شَعَرٌ، وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ غَيْرُهُ، وَكَذَلِكَ شَقُّ رَأْسِهِ هَذَا وَهَذَا
ترجمہ :
حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قزع سے منع فرماتے ہوئے سنا، عبیداللہ کا بیان ہے کہ میں نے پوچھا کہ قزع کیا ہے، عبداللہ نے اشارہ کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ جب بچہ سر منڈوائے اور ادھر ادھر بال چھوڑ دے اور اپنی پیشانی اور سر کے دونوں کناروں کی طرف اشارہ کیا،
عبیداللہ سے پوچھا گیا کہ لڑکی اور لڑکے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ میں نہیں جانتا صرف بچہ ہی کا لفظ بیان کیا، عبیداللہ نے کہا کہ میں نے دوبارہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ لڑکے کی پیشانی اور گدی کے بال مونڈنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن قزع یہ ہے کہ پیشانی پر بال چھوڑ دے اور سر پہ کچھ بال نہ ہوں، اسی طرح اپنے سر کے بال آدھے مونڈنا اور آدھے رکھنا جائز نہیں۔ "( صحیح البخاری 5920 )
علامہ النووی اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
وهذا الذي فسره به نافع أو عبيد الله هو الأصح وهو أن القزع حلق بعض الرأس مطلقا ومنهم من قال هو حلق مواضع متفرقة منه والصحيح الأول لأنه تفسير الراوي وهو غير مخالف للظاهر فوجب العمل به وأجمع العلماء على كراهة القزع إذا كان في مواضع متفرقة إلا أن يكون لمداواة ونحوها وهي كراهة تنزيه وكرهه مالك في الجارية والغلام مطلقا وقال بعض أصحابه لابأس به في القصة والقفا للغلام ومذهبنا كراهته مطلقا للرجل والمرأة لعموم الحديث قال العلماء والحكمة في كراهته أنه تشويه للخلق وقيل لأنه أذى الشر والشطارة وقيل لأنه زي اليهود وقد جاء هذا في رواية لأبي داود والله أعلم
تشریح
نووی کہتے ہیں کہ قزع کے معنی مطلق (کسی کے بھی ) سر کے کچھ حصے کو مونڈنا (اور کچھ حصے کو بغیر مونڈے چھوڑ دینا ہیں ) اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں کیوں کہ حدیث کے روای نے بھی یہی معنی بیان کئے ہیں اور یہ حدیث کے ظاہری مفہوم کے مخالف بھی نہیں ہیں لہٰذا اسی معنی پر اعتماد کرنا واجب ہے ! جہاں تک " لڑکے " کی تخصیص کا ذکر ہے تو یہ محض عام رواج و عادات کی بنا پر ہے ورنہ قزع جس طرح لڑکے کے حق میں مکروہ ہے، اس طرح بڑوں کے حق میں بھی مکروہ ہے، اسی لئے فقہی روایات میں یہ مسئلہ کسی قید و استثناء کے بغیر بیان کیا جاتا ہے، اور قزع میں کراہت اس اہل کفر کی مشابہت اور بد ہئیتی سے بچانے کے لئے ہے ۔
راوی نے " قزع " کا جو مطلب بیان کیا ہے اور جس کو نووی نے زیادہ صحیح کہا ہے اس میں چوٹی (جیسا کہ غیر مسلم اپنے سر چھوڑتے ہیں ) (زلف اور بالوں کی ) وہ تراش خراش شامل ہے جو مسنون طرز کے خلاف ہو۔