• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قسطوں پر فروخت اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
السلام علیکم!
کافی عرصہ سے قسطوں پہ اشیاء کی خرید و فروخت سے متعلق مجھے اشکالات تھے۔ جن علماء سے پوچھا، انہوں نے عدم جواز ہی بتایا۔ بعد میں ایک عالم دین نے بتایا ، کہ تین طرح کی رائے اہل علم کے ہاں پائی جاتی ہے ۔
1)قطعی حرام اور ناجائز ہے ۔
2)جائز ہے، کوئی حرج نہیں ۔
3)جائز ہے، کیونکہ ادھار کی صورت میں معاملہ ہوا ہے ، تو پھر دو قیمتوں والا تو کئی سلسلہ ہی نہیں ۔البتہ اگر طے شدہ مدت سے اوپر جانے کی صورت میں جرمانہ یا کسی اور شکل میں اضافی رقم وصول کی جائے، تو وہ سود ہے۔
ایک عجیب بات ، یہ کہ چند بھائیوں سے میں نے اس سلسلہ میں بات کی ، جو پہلے نکتہ نظر کے حامی تھے ـــــــــــــتو ان کا رویہ عجیب تھاــــــــ فرمانے لگے ، چیمہ صاحب! اگر آپ نے کوئی چیز قسطوں پہ لینی ہے ، تو لے لیں ــــــــــ حلال حلول یہ کوئی نہیں ہے ــــــ ہے حرام ہے ہی ــــــــــــاوپر سے ان کی طنزیہ مسکراہٹ !!
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے ــــــــــ کہ غیر مقلد کہلانے والے احباب بھی لا شعوری طور پہ شخصی تقلید کی ایک قسم کا جوا ہی گلے میں ڈالے پھرتے ہیں ـــــــــــ کہ جن علماّ سے ان کی مناسبت و تعلق ہے ــــــــــانہی کا فتوا ان کے ہاں اول و آخر ہے ہے ، مقابل کے پاس خواہ دلیل موجود ہی کیوں نہ ہو۔
خیرــــــــــــ آج مجھے ایک بھائی نے فون کر کے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا اس سلسلہ میں فتوا بتا یا ، جو نچلی سطروں میں پیسٹ کر رہا ہوں ۔ اہل علم سے روشنی ڈالنے کی درخواست ہے۔

س 2: اُدھار فروخت کرتے وقت تاجر جو اپنی طرف سے قیمت ميں زیادتی کردیتا ہے، کیا یہ زیادتی سود میں شمار ہوگی یا نہیں؟ مثال کے طور پر ایک چیز اگر نقد خریدی جائے تو اس کی قیمت پانچ سو درھم ہے، اور اگر اسی کو اُدھار اور قسطوں میں خريدی جائے، تو اس کی قیمت کے ساتھـ پانچ یا دس فیصد اس کی قیمت پر بڑھادی جاتی ہے، تو کیا یہ زیادتی سود میں شمار ہوگی یا نہیں؟ ہم آنجناب سے مع دلیل اطمینان بخش جواب کے متمنی ہیں؟ ج 2: جب سامانِ تجارت ادھار کی شکل ميں اپنے مارکيٹ ريٹ سے بڑھا کر فروخت کیا جائے، اور فروخت کے وقت بڑھائی گئی رقم کے ساتھـ ادھار قيمت کی تعیین ہوجائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے ایک مدت کے بعد اس کی یکمشت ادائیگی ہو یا پھر ماہانہ قسطوں میں ایک متعین مدت تک ادا کیا جائے، چنانچہ صحيحين میں حضرت عائشہ رضی الله عنها سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ:
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آپ کو اپنے آقا سے نو اوقیہ کے عوض خریدلیا، جس کی ادائیگی سالانہ ایک اوقیہ تھی۔

( جلد کا نمبر 13; صفحہ 91)
اور یہ ماہواری قسطوں میں کئے جانے والا معاملہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد، وآلھ وصحبھ وسلم۔علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ماخذ کا ربط
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

کاروبار میں قیمت اخراجات کے مطابق تہہ کی جاتی ھے۔ رہڑی بان، کھوکھہ، دکان، شاپنگ سینٹر، مال و پلازہ۔۔۔۔۔۔ کسی بھی ایک پروڈکٹ کی قیمت ہر جگہ مختلف ہو گی ایسا نہیں کہ دکان پر ایک چیز 100 روپے میں مل رہی ھے تو پلازہ پر وہی پروڈکٹ 500 روپے پر وہ رقم سود سمیت بیچی جا رہی ھے۔

اسے ایک مثال سے اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں، 3 طریقے سے کاروبار کی سیل ھے۔ کسی سیلز آفس میں جا کر، فون کے ذریعے اور آن لائن۔

ہمارے یہاں سیلز آفس سے اگر کوئی چیز 500£ کی مل رہی ھے تو فون پر وہ آپکو 450£ میں ملے گی اور انلائن پر 400 روپے میں۔ اس پر جہاں بھی زیادہ رقم لی جا رہی ھے وہ سود شمار نہیں ہوتی، کیوں؟

سیلز آفس پر آفس کا کرایہ، اور تمام یوٹیلیٹی بلز پر خرچہ بہت زیادہ ہوتا ھے اور ایک کسٹمر کو بہت وقت دینا پڑتا ھے جس وجہ سے سلیز بھی بہت کم ہوتی ھے۔

فون پر بھی ایک مخصوص جگہ پر بے شمار لائنوں سے ایک مخصوص سٹاف ڈیل کرتا ھے اس پر کم وقت میں زیادہ کنٹریکٹ بنتے ہیں۔

آنلائن پر سٹاف کی جگہ ایک پروگرام کے تحت تمام کاروبار چلتا ھے جس پر چند سٹاف ممبر کے ایک ہی پی آر او نے یہ ساری رپورٹنگ کرنی ہوتی ھے۔ یہاں قیمت پر بہت رعائیت ملتی ھے۔

مینوفیکچر سے کنزیومر تک ادھار سے کاروبار پر پیمنٹ کی مدت 90 دن کی ہوتی ھے۔ جس پر کیش پرائس اور ادھار پرائس سے تھوڑی کم ہوتی ھے۔

اگر آپکو یہ باتیں سمجھ آئی ہوں تو پھر آگے دیکھیں گے نہیں تو اگنورنس!

والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم!

خیرــــــــــــ آج مجھے ایک بھائی نے فون کر کے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا اس سلسلہ میں فتوا بتا یا ، جو نچلی سطروں میں پیسٹ کر رہا ہوں ۔ اہل علم سے روشنی ڈالنے کی درخواست ہے۔

س 2: اُدھار فروخت کرتے وقت تاجر جو اپنی طرف سے قیمت ميں زیادتی کردیتا ہے، کیا یہ زیادتی سود میں شمار ہوگی یا نہیں؟ مثال کے طور پر ایک چیز اگر نقد خریدی جائے تو اس کی قیمت پانچ سو درھم ہے، اور اگر اسی کو اُدھار اور قسطوں میں خريدی جائے، تو اس کی قیمت کے ساتھـ پانچ یا دس فیصد اس کی قیمت پر بڑھادی جاتی ہے، تو کیا یہ زیادتی سود میں شمار ہوگی یا نہیں؟ ہم آنجناب سے مع دلیل اطمینان بخش جواب کے متمنی ہیں؟ ج 2: جب سامانِ تجارت ادھار کی شکل ميں اپنے مارکيٹ ريٹ سے بڑھا کر فروخت کیا جائے، اور فروخت کے وقت بڑھائی گئی رقم کے ساتھـ ادھار قيمت کی تعیین ہوجائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے ایک مدت کے بعد اس کی یکمشت ادائیگی ہو یا پھر ماہانہ قسطوں میں ایک متعین مدت تک ادا کیا جائے، چنانچہ صحيحين میں حضرت عائشہ رضی الله عنها سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ:
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آپ کو اپنے آقا سے نو اوقیہ کے عوض خریدلیا، جس کی ادائیگی سالانہ ایک اوقیہ تھی۔

( جلد کا نمبر 13; صفحہ 91)
اور یہ ماہواری قسطوں میں کئے جانے والا معاملہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد، وآلھ وصحبھ وسلم۔علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ماخذ کا ربط
یہ فتوی عربی میں درج ذیل ہے :
س2: هل تعتبر الزيادة التي يضيفها البائع عند البيع بالدين ربا أم لا؟ مثلا: حاجة تساوي خمسمائة درهم إذا أديتها نقدا حالا، أما إذا أديتها إلى أجل وبالأقساط فإنه يضاف إلى ثمنها نسبة مئوية، خمسة أو عشرة في المائة. هل هذه الزيادة تعتبر ربا أم لا؟ نريد جوابا مقنعا مع الدليل.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ج2: إذا بيعت البضاعة بأكثر من قيمتها الحاضرة إلى أجل، وحددت قيمتها المؤجلة عند البيع بالزيادة - فلا شيء في ذلك، سواء كان ذلك إلى أجل واحد أو كان ذلك أقساطا إلى آجال معلومة، وقد تبت في الصحيحين عن عائشة رضي الله عنها، «أن بريرة اشترت نفسها من سادتها بتسع أواق، في كل عام أوقية (1) »

__________
(1) انظر (موطأ مالك) 2 / 780، 781، و (مسند أحمد) 6 / 213، و (صحيح البخاري) 1 / 117، 3 / 29، 126- 128، 177، 184، و (صحيح مسلم) 2 / 1141 برقم (1504) ، و (سنن أبي داود 4 / 245، برقم (3929) ، و (سنن النسائي) 6 / 164 برقم (3451) ، و (سنن ابن ماجه) 2 / 842 برقم (2521) ، و (صحيح ابن حبان) 10 / 93، 167، 168 برقم (4272، 4325، 4326) ، و (سنن البيهقي) 5 / 338، 7 / 132، 10 / 295، 299-300، 336- 338.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
قسطوں ميں فروخت كرنے كےليے قيمت بڑھانا جائز ہے


كيا سامان كي قيمت بڑھا كرقسطوں ميں فروخت كرنا جائز ہے ؟
الجواب
الحمد للہ :
بيع التقسيط ميں فروخت كردہ چيز فوري طور پر دي جاتي ہےاور اس كي مكمل يا كچھ قيمت معلوم مدت اور قسطوں ميں ادا كي جاتي ہے.

اس كا حكم جاننےكي اہميت:

بيع التقسيط ان مسائل ميں سے ہے اس دور ميں جن كا حكم معلوم كرنے كا اہتمام كرنا ضروري ہے اس ليے كہ اس وقت دوسري جنگ عظيم كےبعد يہ مسئلہ بہت سي امتوں اور افراد ميں پھيل چكا ہے.

كمپنياں اور ادارے سامان بنانےاور باہر سےلانےوالوں سے قسطوں ميں خريداري كرتےاور اپنےگاہكوں كوبھي قسطوں ميں فروخت كرتےہيں، مثلا گاڑياں، جائداد، اور مختلف قسم كےآلات وغيرہ.

اور بنك وغيرہ بھي اسے پھيلانے كا باعث بنےہيں، اس طرح كہ بنك سامان نقد خريد كراپنے ايجنٹوں كو ادھارقيمت ( قسطوں پر ) فروخت كرتے ہيں.

قسطوں ميں فروخت كرنے حكم :

بيع النسيئۃ كےجواز ميں نص وارد ہے، اوريہ قيمت كومؤخر كرنے والي بيع كانام ہے.

بخاري اور مسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا سے بيان كيا ہے كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ايك يھودي سے ادھار غلہ خريدا اور اس كےپاس اپني لوہے كي درعہ رہن ركھي. صحيح بخاري حديث نمبر ( 2068 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1603 ) .

يہ حديث قيمت ادھار كرنے كي بيع پر دلالت كرتي ہے، اور قسطوں كي بيع بھي قيمت ادھار كرنے كي بيع ہے، اس ميں غايت يہ ہے كہ اس ميں قيمت كي قسطيں اورہرقسط كي مدت مقرر ہوتي ہے.

اور حكم شرعي ميں اس كا كوئي فرق نہيں كہ ادھار كردہ قيمت كي مدت ايك ہو يا كئي ايك مدتيں مقرر كي ہوں .

عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ ميرے پاس بريرہ رضي اللہ تعالي عنھا آئيں اور كہنےلگي: ميں نےاپنےمالكوں سے نو اوقيہ ميں كتابت كي ہے اور ہر برس ايك اوقيہ دينا ہے... صحيح بخاري حديث نمبر ( 2168 ) .

اور يہ حديث ادھارقسطوں ميں قيمت كي ادئيگي كے جواز كي دليل ہے.

اگرچہ قيمت ادھار كرنےميں جواز كي نصوص وارد ہيں ليكن اس كي كوئي دليل اور نص نہيں ملتي كہ ادھار كي وجہ سے قيمت بھي زيادہ كرني جائز ہے.

اسي ليے علماء اكرام اس مسئلہ كےحكم ميں اختلاف كرتےہيں:

بہت كم علماء اس كي حرمت كےقائل ہيں اس ليے كہ يہ سود ہے.

ان كا كہنا ہےكہ: اس ليے كہ اس ميں قيمت زيادہ ہے اوريہ زيادہ قيمت مدت كے عوض ميں ہے اور يہي سود ہے.

اورجمہور علماء كرام جن ميں آئمہ اربعہ شامل ہيں اس كےجواز كے قائل ہيں .

ذيل ميں اس كےجواز كي عبارات پيش كي جاتي ہيں:

حنفي مذھب ميں ہےكہ :

( بعض اوقات مدت كےعوض قيمت بڑھ جاتي ہے ) ديكھيں بدائع الصنائع ( 5 / 187 ) .

مالكي مذھب :

( وقت كےليے قيمت ميں سے كچھ مقدار ركھي گئي ہے ) بدايۃ المجتھد ( 2 / 108 ) .

شافعي مذھب :

( نقد پانچ ادھار ميں چھ كےبرابر ہے ) الوجيز للغزالي ( 1 / 85 )

حنبلي مذھب :
( مدت قيمت ميں سے كچھ حصہ ليتي ہے ) فتاوي ابن تيميۃ ( 29 / 499 ).
اس پر انہوں نے كتاب وسنت سے دلائل بھي ليے ہيں ان ميں بعض ذيل ميں پيش كيے جاتےہيں:

1 - فرمان باري تعالي ہے:
{اللہ تعالي نے بيع حلال كي ہے} البقرۃ ( 275 ).

آيت عموم كےاعتبار سے بيع كي سب صورتوں كو شامل ہے اوراس ميں مدت كےعوض ميں قيمت زيادہ كرنا داخل ہے.

2 - اور ايك مقام پر اللہ تعالي نےاس طرح فرمايا:
{اے ايمان والو تم آپس ميں ايك دوسرے كا مال باطل طريقہ سے نہ كھاؤ مگر يہ كہ تمہاري آپس كي رضامندي سے خريدوفروخت ہو} النساء ( 29 ).

يہ آيت بھي عموم كےاعتبار سے طرفين كي رضامندي كي صورت ميں بيع كے جواز پر دلالت كرتي ہے، لھذا جب خريدار اور تاجر مدت كےعوض قيمت بڑھانےميں اتفاق كرليں تو بيع صحيح ہوگي.

3 - امام بخاري رحمہ اللہ تعالي نے ابن عباس رضي اللہ تعالي عنھما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتےہيں كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم مدينہ تشريف لائے تو وہ كھجوروں ميں دو اور تين برس كي بيع سلف كرتے تھے، تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

( جس نے بھي كسي چيز كي بيع سلف كي وہ معلوم ماپ اور تول اور مدت معلومہ ميں بيع كرے ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 2086 ) .

بيع سلف نصا اوراجماعا جائز ہے، اور يہ بيع التقسيط كےمشابہ ہے، علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ اس كي حكمت يہ ہے كہ خريدار اس ميں سستي قيمت كا فائدہ حاصل كرتا ہےاور فروخت كرنےوالا مال پہلےحاصل كركےنفع حاصل كرتا ہے، اور يہ دليل ہے كہ خريدوفروخت ميں مدت كا قيمت ميں حصہ ہے، اور خريدوفروخت ميں اس كا كوئي حرج نہيں. ديكھيں: المغني ( 6 / 385 ) .

4 - ادھار كے عوض ميں قيمت زيادہ كرنا مسلمانوں كا عمل بن چكا ہے اور اس پر كوئي اعتراض نہيں، لھذا اس صورت كي بيع پر يہ اجماع كي مانند ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالي سے مدت كےعوض ميں قيمت زيادہ كرنے كے حكم كےمتعلق سوال كياگيا تو ان كا جواب تھا:

اس معاملہ ميں كوئي حرج نہيں، اس ليےكہ نقدكي بيع ادھار كےعلاوہ ہے، اور آج تك مسلمان اس طرح كےمعاملات كر رہے ہيں، اس كےجواز پر ان كي جانب سے يہ اجماع كي مانند ہي ہے، اور بعض شاذ اہل علم نےمدت كےعوض قيمت زيادہ كرنا منع قرار ديا ہےاور ان كا گمان ہے كہ يہ سود ہے، اس قول كي كوئي وجہ نہيں بنتي، اور نہ ہي سود ہے، اس ليے كہ تاجرنےجب ادھار سامان فروخت كيا تووہ مدت كي وجہ قيمت زيادہ كركےنفع حاصل كرنےپرمتفق ہوا اورخريدار بھي مہلت اورمدت كي بنا پر قيمت زيادہ دينےپر متفق ہوا كيونكہ وہ نقد قيمت ادا كرنے كي استطاعت نہيں ركھتا، تواس طرح دونوں فريق اس معاملہ سے نفع حاصل كرتےہيں.

نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم سے بھي اس كا ثبوت ملتا ہے جواس كےجواز پر دلالت كرتا ہےوہ يہ كہ نبي كريم سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالي عنھما كو لشكر تيار كرنےكاحكم ديا، تو وہ ادھار ميں ايك اونٹ كےبدلے دواونٹ خريدتےتھے، پھر يہ معاملہ اللہ سبحانہ وتعالي كےمندرجہ ذيل فرمان ميں بھي داخل ہوتا ہے:
{اے ايمان والو! جب تم آپس ميں ميعاد مقرر تك كےليے قرض كا لين دين كروتواسےلكھ ليا كرو} البقرۃ ( 282 ).
اوريہ معاملہ بھي جائز قرضوں ميں سے اور مذكورہ آيت ميں داخل ہےاور يہ بيع سلم كي جنس ميں سے ہي ہے.. اھ
ديكھيں: فتاوي اسلاميۃ ( 2 / 331 ) .
مزيد تفصيل كےليے ديكھيں: كتاب " بيع التقسيط" تاليف ڈاكٹر رفيق يونس المصري .
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
http://islamqa.info/ar/13973
 

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
قسطوں ميں فروخت كرنے كےليے قيمت بڑھانا جائز ہے


كيا سامان كي قيمت بڑھا كرقسطوں ميں فروخت كرنا جائز ہے ؟
الجواب
الحمد للہ :
بيع التقسيط ميں فروخت كردہ چيز فوري طور پر دي جاتي ہےاور اس كي مكمل يا كچھ قيمت معلوم مدت اور قسطوں ميں ادا كي جاتي ہے.

اس كا حكم جاننےكي اہميت:

بيع التقسيط ان مسائل ميں سے ہے اس دور ميں جن كا حكم معلوم كرنے كا اہتمام كرنا ضروري ہے اس ليے كہ اس وقت دوسري جنگ عظيم كےبعد يہ مسئلہ بہت سي امتوں اور افراد ميں پھيل چكا ہے.

كمپنياں اور ادارے سامان بنانےاور باہر سےلانےوالوں سے قسطوں ميں خريداري كرتےاور اپنےگاہكوں كوبھي قسطوں ميں فروخت كرتےہيں، مثلا گاڑياں، جائداد، اور مختلف قسم كےآلات وغيرہ.

اور بنك وغيرہ بھي اسے پھيلانے كا باعث بنےہيں، اس طرح كہ بنك سامان نقد خريد كراپنے ايجنٹوں كو ادھارقيمت ( قسطوں پر ) فروخت كرتے ہيں.

قسطوں ميں فروخت كرنے حكم :

بيع النسيئۃ كےجواز ميں نص وارد ہے، اوريہ قيمت كومؤخر كرنے والي بيع كانام ہے.

بخاري اور مسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا سے بيان كيا ہے كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ايك يھودي سے ادھار غلہ خريدا اور اس كےپاس اپني لوہے كي درعہ رہن ركھي. صحيح بخاري حديث نمبر ( 2068 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1603 ) .

يہ حديث قيمت ادھار كرنے كي بيع پر دلالت كرتي ہے، اور قسطوں كي بيع بھي قيمت ادھار كرنے كي بيع ہے، اس ميں غايت يہ ہے كہ اس ميں قيمت كي قسطيں اورہرقسط كي مدت مقرر ہوتي ہے.

اور حكم شرعي ميں اس كا كوئي فرق نہيں كہ ادھار كردہ قيمت كي مدت ايك ہو يا كئي ايك مدتيں مقرر كي ہوں .

عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ ميرے پاس بريرہ رضي اللہ تعالي عنھا آئيں اور كہنےلگي: ميں نےاپنےمالكوں سے نو اوقيہ ميں كتابت كي ہے اور ہر برس ايك اوقيہ دينا ہے... صحيح بخاري حديث نمبر ( 2168 ) .

اور يہ حديث ادھارقسطوں ميں قيمت كي ادئيگي كے جواز كي دليل ہے.

اگرچہ قيمت ادھار كرنےميں جواز كي نصوص وارد ہيں ليكن اس كي كوئي دليل اور نص نہيں ملتي كہ ادھار كي وجہ سے قيمت بھي زيادہ كرني جائز ہے.

اسي ليے علماء اكرام اس مسئلہ كےحكم ميں اختلاف كرتےہيں:

بہت كم علماء اس كي حرمت كےقائل ہيں اس ليے كہ يہ سود ہے.

ان كا كہنا ہےكہ: اس ليے كہ اس ميں قيمت زيادہ ہے اوريہ زيادہ قيمت مدت كے عوض ميں ہے اور يہي سود ہے.

اورجمہور علماء كرام جن ميں آئمہ اربعہ شامل ہيں اس كےجواز كے قائل ہيں .

ذيل ميں اس كےجواز كي عبارات پيش كي جاتي ہيں:

حنفي مذھب ميں ہےكہ :

( بعض اوقات مدت كےعوض قيمت بڑھ جاتي ہے ) ديكھيں بدائع الصنائع ( 5 / 187 ) .

مالكي مذھب :

( وقت كےليے قيمت ميں سے كچھ مقدار ركھي گئي ہے ) بدايۃ المجتھد ( 2 / 108 ) .

شافعي مذھب :

( نقد پانچ ادھار ميں چھ كےبرابر ہے ) الوجيز للغزالي ( 1 / 85 )

حنبلي مذھب :
( مدت قيمت ميں سے كچھ حصہ ليتي ہے ) فتاوي ابن تيميۃ ( 29 / 499 ).
اس پر انہوں نے كتاب وسنت سے دلائل بھي ليے ہيں ان ميں بعض ذيل ميں پيش كيے جاتےہيں:

1 - فرمان باري تعالي ہے:
{اللہ تعالي نے بيع حلال كي ہے} البقرۃ ( 275 ).

آيت عموم كےاعتبار سے بيع كي سب صورتوں كو شامل ہے اوراس ميں مدت كےعوض ميں قيمت زيادہ كرنا داخل ہے.

2 - اور ايك مقام پر اللہ تعالي نےاس طرح فرمايا:
{اے ايمان والو تم آپس ميں ايك دوسرے كا مال باطل طريقہ سے نہ كھاؤ مگر يہ كہ تمہاري آپس كي رضامندي سے خريدوفروخت ہو} النساء ( 29 ).

يہ آيت بھي عموم كےاعتبار سے طرفين كي رضامندي كي صورت ميں بيع كے جواز پر دلالت كرتي ہے، لھذا جب خريدار اور تاجر مدت كےعوض قيمت بڑھانےميں اتفاق كرليں تو بيع صحيح ہوگي.

3 - امام بخاري رحمہ اللہ تعالي نے ابن عباس رضي اللہ تعالي عنھما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتےہيں كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم مدينہ تشريف لائے تو وہ كھجوروں ميں دو اور تين برس كي بيع سلف كرتے تھے، تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

( جس نے بھي كسي چيز كي بيع سلف كي وہ معلوم ماپ اور تول اور مدت معلومہ ميں بيع كرے ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 2086 ) .

بيع سلف نصا اوراجماعا جائز ہے، اور يہ بيع التقسيط كےمشابہ ہے، علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ اس كي حكمت يہ ہے كہ خريدار اس ميں سستي قيمت كا فائدہ حاصل كرتا ہےاور فروخت كرنےوالا مال پہلےحاصل كركےنفع حاصل كرتا ہے، اور يہ دليل ہے كہ خريدوفروخت ميں مدت كا قيمت ميں حصہ ہے، اور خريدوفروخت ميں اس كا كوئي حرج نہيں. ديكھيں: المغني ( 6 / 385 ) .

4 - ادھار كے عوض ميں قيمت زيادہ كرنا مسلمانوں كا عمل بن چكا ہے اور اس پر كوئي اعتراض نہيں، لھذا اس صورت كي بيع پر يہ اجماع كي مانند ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالي سے مدت كےعوض ميں قيمت زيادہ كرنے كے حكم كےمتعلق سوال كياگيا تو ان كا جواب تھا:

اس معاملہ ميں كوئي حرج نہيں، اس ليےكہ نقدكي بيع ادھار كےعلاوہ ہے، اور آج تك مسلمان اس طرح كےمعاملات كر رہے ہيں، اس كےجواز پر ان كي جانب سے يہ اجماع كي مانند ہي ہے، اور بعض شاذ اہل علم نےمدت كےعوض قيمت زيادہ كرنا منع قرار ديا ہےاور ان كا گمان ہے كہ يہ سود ہے، اس قول كي كوئي وجہ نہيں بنتي، اور نہ ہي سود ہے، اس ليے كہ تاجرنےجب ادھار سامان فروخت كيا تووہ مدت كي وجہ قيمت زيادہ كركےنفع حاصل كرنےپرمتفق ہوا اورخريدار بھي مہلت اورمدت كي بنا پر قيمت زيادہ دينےپر متفق ہوا كيونكہ وہ نقد قيمت ادا كرنے كي استطاعت نہيں ركھتا، تواس طرح دونوں فريق اس معاملہ سے نفع حاصل كرتےہيں.

نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم سے بھي اس كا ثبوت ملتا ہے جواس كےجواز پر دلالت كرتا ہےوہ يہ كہ نبي كريم سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالي عنھما كو لشكر تيار كرنےكاحكم ديا، تو وہ ادھار ميں ايك اونٹ كےبدلے دواونٹ خريدتےتھے، پھر يہ معاملہ اللہ سبحانہ وتعالي كےمندرجہ ذيل فرمان ميں بھي داخل ہوتا ہے:
{اے ايمان والو! جب تم آپس ميں ميعاد مقرر تك كےليے قرض كا لين دين كروتواسےلكھ ليا كرو} البقرۃ ( 282 ).
اوريہ معاملہ بھي جائز قرضوں ميں سے اور مذكورہ آيت ميں داخل ہےاور يہ بيع سلم كي جنس ميں سے ہي ہے.. اھ
ديكھيں: فتاوي اسلاميۃ ( 2 / 331 ) .
مزيد تفصيل كےليے ديكھيں: كتاب " بيع التقسيط" تاليف ڈاكٹر رفيق يونس المصري .
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
http://islamqa.info/ar/13973
جزاک اللہ خیر
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اگنورنس سے کیا مراد ہے آپ کی؟
سوال پوچھنے والوں کی کچھ اقسام،
ایک جو اس پر معلومات رکھتے ہیں اور کچھ کنفیوژن کی وجہ سے وہ اس پر مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ایک جو اس پر معلومات رکھتے ہیں اور خود کو عقلمند ثابت کرنے کے لئے جواب آنے پر استاد بن جاتے ہیں اور ایک نہ ختم ہونے والی فضول بحث کا سلسلہ چل پڑتا ھے۔

ایک وہ جو اس پر ذاتی کوئی علم نہیں رکھتے اور سوال پوچھتے ہیں جس پر جس بات کا پہلے علم نہ ہو اسے اگر فیس ٹو فیس سمجھا جائے تو بہتر ہوتا ھے فارم پر سمجھنا اور سمجھانا اتنا آساں نہیں۔ کیونکہ سوال کرنے والے کا سوال وہیں رہ جاتا ھے اور جواب دینے والوں پر آپس کے اختلافات کی وجہ سے نیا سلسلہ چل پڑتا ھے۔

۔
۔


اس لئے بہتر یہی ھے کہ جب کوئی دو یا اس سے زیادہ لوگ ایک دوسرے کو نہ جاننے کے سبب مزاج سے بھی واقف نہیں ہوں تو وہاں اپنی رائے دینے کے بعد کچھ وجوہات کی بنا پر یہ کہہ دیا جائے کہ اگر میری بات سمجھے تو ٹھیک ورنہ اسے اگنور کر دیں، درگزر کر دیں، جس پر فضول بحث سے بچا جا سکتا ھےاور آپس میں ایک دوسرے کی نظر میں عزت بنی رہتی ھے۔

والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس کا حوالہ مل سکتا ہے؟
جی محترم بھائی !
اس کا حوالہ تلاش کرکے ۔۔پیش کرنے کیلئے تیار ۔۔ہی کیا تھا ۔کہ ۔ نیٹ ڈیوائس ۔۔جواب دے گئی ، پھر کافی تگ و دو کے سلسلہ بحال کیا،
اگر نیٹ کنکشن میں مزید رکاوٹ نہ آئی ،تو ان شاء اللہ جلد حوالہ پوسٹ کر دوں گا ،
 
Top