فلک شیر
رکن
- شمولیت
- ستمبر 24، 2013
- پیغامات
- 186
- ری ایکشن اسکور
- 100
- پوائنٹ
- 81
السلام علیکم!
کافی عرصہ سے قسطوں پہ اشیاء کی خرید و فروخت سے متعلق مجھے اشکالات تھے۔ جن علماء سے پوچھا، انہوں نے عدم جواز ہی بتایا۔ بعد میں ایک عالم دین نے بتایا ، کہ تین طرح کی رائے اہل علم کے ہاں پائی جاتی ہے ۔
1)قطعی حرام اور ناجائز ہے ۔
2)جائز ہے، کوئی حرج نہیں ۔
3)جائز ہے، کیونکہ ادھار کی صورت میں معاملہ ہوا ہے ، تو پھر دو قیمتوں والا تو کئی سلسلہ ہی نہیں ۔البتہ اگر طے شدہ مدت سے اوپر جانے کی صورت میں جرمانہ یا کسی اور شکل میں اضافی رقم وصول کی جائے، تو وہ سود ہے۔
ایک عجیب بات ، یہ کہ چند بھائیوں سے میں نے اس سلسلہ میں بات کی ، جو پہلے نکتہ نظر کے حامی تھے ـــــــــــــتو ان کا رویہ عجیب تھاــــــــ فرمانے لگے ، چیمہ صاحب! اگر آپ نے کوئی چیز قسطوں پہ لینی ہے ، تو لے لیں ــــــــــ حلال حلول یہ کوئی نہیں ہے ــــــ ہے حرام ہے ہی ــــــــــــاوپر سے ان کی طنزیہ مسکراہٹ !!
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے ــــــــــ کہ غیر مقلد کہلانے والے احباب بھی لا شعوری طور پہ شخصی تقلید کی ایک قسم کا جوا ہی گلے میں ڈالے پھرتے ہیں ـــــــــــ کہ جن علماّ سے ان کی مناسبت و تعلق ہے ــــــــــانہی کا فتوا ان کے ہاں اول و آخر ہے ہے ، مقابل کے پاس خواہ دلیل موجود ہی کیوں نہ ہو۔
خیرــــــــــــ آج مجھے ایک بھائی نے فون کر کے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا اس سلسلہ میں فتوا بتا یا ، جو نچلی سطروں میں پیسٹ کر رہا ہوں ۔ اہل علم سے روشنی ڈالنے کی درخواست ہے۔
س 2: اُدھار فروخت کرتے وقت تاجر جو اپنی طرف سے قیمت ميں زیادتی کردیتا ہے، کیا یہ زیادتی سود میں شمار ہوگی یا نہیں؟ مثال کے طور پر ایک چیز اگر نقد خریدی جائے تو اس کی قیمت پانچ سو درھم ہے، اور اگر اسی کو اُدھار اور قسطوں میں خريدی جائے، تو اس کی قیمت کے ساتھـ پانچ یا دس فیصد اس کی قیمت پر بڑھادی جاتی ہے، تو کیا یہ زیادتی سود میں شمار ہوگی یا نہیں؟ ہم آنجناب سے مع دلیل اطمینان بخش جواب کے متمنی ہیں؟ ج 2: جب سامانِ تجارت ادھار کی شکل ميں اپنے مارکيٹ ريٹ سے بڑھا کر فروخت کیا جائے، اور فروخت کے وقت بڑھائی گئی رقم کے ساتھـ ادھار قيمت کی تعیین ہوجائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے ایک مدت کے بعد اس کی یکمشت ادائیگی ہو یا پھر ماہانہ قسطوں میں ایک متعین مدت تک ادا کیا جائے، چنانچہ صحيحين میں حضرت عائشہ رضی الله عنها سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ:
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آپ کو اپنے آقا سے نو اوقیہ کے عوض خریدلیا، جس کی ادائیگی سالانہ ایک اوقیہ تھی۔
( جلد کا نمبر 13; صفحہ 91)
اور یہ ماہواری قسطوں میں کئے جانے والا معاملہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد، وآلھ وصحبھ وسلم۔علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ماخذ کا ربط
کافی عرصہ سے قسطوں پہ اشیاء کی خرید و فروخت سے متعلق مجھے اشکالات تھے۔ جن علماء سے پوچھا، انہوں نے عدم جواز ہی بتایا۔ بعد میں ایک عالم دین نے بتایا ، کہ تین طرح کی رائے اہل علم کے ہاں پائی جاتی ہے ۔
1)قطعی حرام اور ناجائز ہے ۔
2)جائز ہے، کوئی حرج نہیں ۔
3)جائز ہے، کیونکہ ادھار کی صورت میں معاملہ ہوا ہے ، تو پھر دو قیمتوں والا تو کئی سلسلہ ہی نہیں ۔البتہ اگر طے شدہ مدت سے اوپر جانے کی صورت میں جرمانہ یا کسی اور شکل میں اضافی رقم وصول کی جائے، تو وہ سود ہے۔
ایک عجیب بات ، یہ کہ چند بھائیوں سے میں نے اس سلسلہ میں بات کی ، جو پہلے نکتہ نظر کے حامی تھے ـــــــــــــتو ان کا رویہ عجیب تھاــــــــ فرمانے لگے ، چیمہ صاحب! اگر آپ نے کوئی چیز قسطوں پہ لینی ہے ، تو لے لیں ــــــــــ حلال حلول یہ کوئی نہیں ہے ــــــ ہے حرام ہے ہی ــــــــــــاوپر سے ان کی طنزیہ مسکراہٹ !!
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے ــــــــــ کہ غیر مقلد کہلانے والے احباب بھی لا شعوری طور پہ شخصی تقلید کی ایک قسم کا جوا ہی گلے میں ڈالے پھرتے ہیں ـــــــــــ کہ جن علماّ سے ان کی مناسبت و تعلق ہے ــــــــــانہی کا فتوا ان کے ہاں اول و آخر ہے ہے ، مقابل کے پاس خواہ دلیل موجود ہی کیوں نہ ہو۔
خیرــــــــــــ آج مجھے ایک بھائی نے فون کر کے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا اس سلسلہ میں فتوا بتا یا ، جو نچلی سطروں میں پیسٹ کر رہا ہوں ۔ اہل علم سے روشنی ڈالنے کی درخواست ہے۔
س 2: اُدھار فروخت کرتے وقت تاجر جو اپنی طرف سے قیمت ميں زیادتی کردیتا ہے، کیا یہ زیادتی سود میں شمار ہوگی یا نہیں؟ مثال کے طور پر ایک چیز اگر نقد خریدی جائے تو اس کی قیمت پانچ سو درھم ہے، اور اگر اسی کو اُدھار اور قسطوں میں خريدی جائے، تو اس کی قیمت کے ساتھـ پانچ یا دس فیصد اس کی قیمت پر بڑھادی جاتی ہے، تو کیا یہ زیادتی سود میں شمار ہوگی یا نہیں؟ ہم آنجناب سے مع دلیل اطمینان بخش جواب کے متمنی ہیں؟ ج 2: جب سامانِ تجارت ادھار کی شکل ميں اپنے مارکيٹ ريٹ سے بڑھا کر فروخت کیا جائے، اور فروخت کے وقت بڑھائی گئی رقم کے ساتھـ ادھار قيمت کی تعیین ہوجائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے ایک مدت کے بعد اس کی یکمشت ادائیگی ہو یا پھر ماہانہ قسطوں میں ایک متعین مدت تک ادا کیا جائے، چنانچہ صحيحين میں حضرت عائشہ رضی الله عنها سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ:
( جلد کا نمبر 13; صفحہ 91)
اور یہ ماہواری قسطوں میں کئے جانے والا معاملہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد، وآلھ وصحبھ وسلم۔علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ماخذ کا ربط