• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:15)(( دائرہ معارف سیرت ، Daira Marif Seerat،محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ))(تعارف و امتیازات)اِفتتاحیہ

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(قسط:15)(( دائرہ معارف سیرت ، Daira Marif Seerat،محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ))(تعارف و امتیازات)

عصر حاضر کا ممتاز ترین سیرت النبی انسائیکلوپیڈیا ، علمی و تحقیقی ، دعوتی و تربیتی اور فکری و منہجی کئی خصوصیات کا حامل

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

(( دائرہ معارف سیرت ،محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم )) (قسط:15)اِفتتاحیہ


رسول کریمe سے محبت، عقیدت اور اتباع سنت ہمارا ایمان ہے۔ اس کے نتیجے میں سیرت مبارکہ کا مطالعہ ہر مسلمان کا ایک محبوب عمل ہے۔ مجھے بھی بچپن ہی سے سیرت نبوی سے بڑی عقیدت اور محبت تھی اور اللہ سے دعا بھی کرتا تھا کہ مجھے توفیق دے، میں تیرے دین کی خدمت کروں۔

میرے دینی ذوق اور تربیت میں گھریلو ماحول اور والد گرامی کا بڑا ہاتھ ہے۔ سنٹرل ماڈل سکول لوئر مال (١٩٦٨ئ) میں کلاس ششم میں تھا۔ سکول کے اوقات کے بعد والد محترم پروفیسر عبدالقیوم صاحب کے دفتری ملازم کے ساتھ شعبہ اُردو دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی پہنچ جاتا۔ والد صاحب دفتر کے کام کاج سے فارغ ہوتے تو ان کے ساتھ گھر واپس آتا۔ یہ سلسلہ آٹھویں کلاس تک دو سال (٧٠۔١٩٦٨ئ) متواتر جاری رہا۔

شعبہ اُردو دائرہ معارف اسلامیہ کی رونقیں ،علمی محفلیں،ادبی گفتگو، باہمی عزت و احترام، قد آور اساتذہ کرام اور اعلی تعلیمی مدارج کے طلبہ و طالبات کی آمد ورفت کی خوش گوار یادیں میرے حافظے میں محفوظ ہیں۔ والد مرحوم اور ڈاکٹر سید محمدعبداللہ کے نامور رفقائ، تلامذہ اور دیگر اہل علم کو دیکھنے اور ملنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ١؎ اسی دوران چھوٹی عمر میں والد صاحب کے زیر سایہ میرے علمی ذوق کی آبیاری بھی ہوتی رہی۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں والد صاحب میری ڈیوٹی لگاتے کہ میں ان کی لائبریری کی کتابوں کی جھاڑ پونچھ کروں۔ میں الماریوں سے اُن کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ایک ایک کر کے کتاب نکالتا، ہر کتاب کو اندر باہر سے صاف کرتا، جھاڑتا اور اُسی جگہ پر واپس رکھتا۔ دس پندرہ دنوں کی محنت کے بعد یہ کام مکمل ہوتا اور والد صاحب مجھے انعام میں دس روپے دیتے۔ یہ کام ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں کرنا ہوتا تھا۔

پروفیسر صاحب وفات پا گئے، اُن کی یاد میں ١٩٩٠ء میں اورینٹل کالج میگزین کا خصوصی نمبر شائع ہوا۔ میں اُن کی مختلف تحریریں اور مضامین بڑے شوق سے پڑھتا۔ اُن کے مقالات میں چند علمی منصوبوں کےخاکوں پر نظر پڑی۔

دوست احباب سے مشورہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ انتہائی مفید اور کارآمد ہیں۔ پروفیسر صاحب اِن خاکوں پر شاید خود کام کرنا چاہتے تھے یا انھوں نے پنجاب یونیورسٹی کے مختلف منصوبے خصوصاً ''دائرۃ المعارف سیرت نبویہ'' کے لیے تشکیل دیے۔ مجھے سیرت طیبہ کے یہ دونوں خاکے بہت پسند آئے ۔ ان کی علمی حیثیت کے پیش نظر یہ خاکے اورینٹل کالج میگزین ١٩٩٢ء میں بھی شائع ہوئے۔

١٩٩٧ء سے میں نے پروفیسر صاحب کی کتب جیسے ''فہارس لسان العرب، نوادر الاخبار، مقالات پروفیسر عبدالقیوم (دوجلدیں)'' کو یکے بعد دیگرے شائع کرنے کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں پروفیسر صاحب کے تلامذہ خصوصاً محترم ڈاکٹر شیر محمد زمان، ڈاکٹر امین اللہ وثیر، ڈاکٹر خورشید رضوی اور دیگر اہل علم سے میرا مسلسل رابطہ رہا، وہ میری حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے اور میرا شوق پروان چڑھتا رہا۔

میں نے ٢٠٠٨ء میں ایک علمی وتحقیقی ادارے ''دار المعارف '' کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر چند علمی کاموں کی تکمیل اور نشرواشاعت تھی۔ دار المعارف میں پروفیسر صاحب مرحوم کے خُطہئ سیرت پر تحقیقی کام کا آغاز ہوا۔

خاکہئ سیرت پر کام کا آغاز ہوا توسب سے بڑی ضرورت قابل افراد اور علمی وسائل کی دستیابی تھی۔ علمی وسائل اور کتب کا وسیع ذخیرہ جمع کرنے کے لیے ایک طویل اور کٹھن محنت کے بعد ایک بھرپور تحقیقی لائبریری قائم کی گئی ۔ سیرت طیبہ اور دیگر علومِ اسلامیہ کے مصادر و مراجع اکٹھے کیے گئے تاکہ محققین کو ایک چھت تلے تمام ضروری علمی کتب میسر ہوں۔ یہ لائبریری آج لاہور کی پرائیویٹ لائبریریوں میں سب سے بڑی لائبریری شمار ہوتی ہے۔

سیرت طیبہ پر مبسوط محققانہ علمی تالیف کا کام بہت بڑا تھا۔ میرا شوق، ہدف اور معیار بھی بہت بلند تھا، لیکن اس اعلیٰ ہدف تک رسائی کے لیے محنت، جستجو اور لگن بھی بہت زیادہ درکار تھی۔اس قحط الرجال کے زمانے میں قابل اور محنتی اہل علم و محققین تک رسائی بھی ایک مشکل کام تھا۔

کچھ اہل علم نے اس منصوبے کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا لیکن اُنھیں تصنیف و تحقیق کا گہرا اور وسیع تجربہ نہ تھا۔ محققین کی نگرانی اور کام کی صحیح نہج پر پیش رفت اتنی دشوار ثابت ہوئی کہ ایک عرصے کی محنت کے بعد ایک ہی جلد تیارہو پائی۔

ان دنوں دارالسلام بھی سیرت انسائیکلوپیڈیا کا آغاز کر چکا تھا، اس تالیف کی بنیاد بھی پروفیسر عبدالقیوم کا مذکورہ خاکہئ سیرت ہی تھا۔ میں اپنی تیار شدہ پہلی جلد لے کر دارالسلام پہنچا اور میں نے ان کے ذمہ داران سے عرض کی کہ براہِ مہربانی میرا کام آپ لے لیں اور اِسے اپنے کام میںشامل کر لیں، میں یہ منصوبہ ترک کرنا چاہتا ہوں۔ میری دلی خواہش اور کوشش تھی کہ سیرت کا کام پایہئ تکمیل تک پہنچے لیکن محققین کی سست رَوی اور کچھ اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا۔

دارالسلام لاہور کے سینئرریسرچ فیلو پروفیسر محمد یحییٰ جلال پوری صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوئی، بہت پیاراور محبت سے ملے اور معلوم ہوا کہ وہ والدِ محترم کے اجل تلامذہ میں سے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آپ حوصلہ نہ ہاریں، ہم آپ کے لیے کوئی راہ نکالتے ہیں،

چنانچہ چند دنوں کے بعد شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے دفتر میں ڈاکٹر محمود الحسن عارف، پروفیسر محمد یحییٰ ،حافظ محمد اسلم اور راقم کی میٹنگ ہوئی۔ مشاورت کے بعد طے ہوا کہ دارالمعارف کو اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ سیرت پر ہمیشہ سے کام ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا، انھوں نے مزید فرمایا کہ سیرت طیبہ کی خدمت میں امت کا کوئی بھی فرد یا ادارہ اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ پروفیسر محمد یحییٰ اور ڈاکٹر محمود الحسن عارف نے علمی سرپرستی اور کام کی نگرانی میں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔

چنانچہ منصوبہئ سیرت پر پھر نئے جذبے اور لگن سے محنت شروع ہوئی۔ پروفیسرمحمد یحییٰ اور ڈاکٹر محمود الحسن عارف گاہے گاہے دارالمعارف تشریف لاتے اور کام دیکھتے، محققین کی تربیت و اصلاح بھی کرتے اور معیار کی بہتری کے لیے رہنمائی بھی کرتے۔

مذکورہ پہلے وقفے اور تعطّل کے بعد دوبارہ کسی موقع پر کسی قسم کا تعطّل واقع نہ ہوا اور کام بلاانقطاع آخر تک جاری رہا۔ کام کے آغاز ہی سے طے ہوا تھا کہ یہ سیرت مبسوط ہو گی اور بنیادی عربی مصادر پر مشتمل ہوگی۔ اس منصوبے کو کسی خاص گروہ یا مکتب فکرکے لیے تیار نہیں کرنا بلکہ تمام مکاتب فکر کو علمی وتحقیقی نمایندگی دینی ہے۔

اللہ کے فضل سے ٢٠١٣ء میں دارالمعارف کے لیے الگ پانچ منزلہ خوب صورت اور باوقار عمارت بھی پایہ تکمیل کو پہنچی۔ کام پٹڑی پر چڑھ گیا۔ علمی نظر ثانی اور نثری و اَدبی اصلاح کے لیے ماہرین کی مدد لی گئی۔ ٢٠١٤ء میں ڈاکٹر محمد حماد لکھوی نے تجویز دی کہ سیرت نگاری کے ساتھ ساتھ فقہ السیرہ کی تدوین بھی ضروری ہے۔ چنانچہ فقہ السیرہ کو دارالمعارف کی سیرت میں باقاعدہ شامل کیا گیا۔ فقہ السیرہ کا رجحان عرب میں پچھلی سات آٹھ دہائیوں سے نہایت مقبول ہے لیکن برصغیر میں اس کی مثال کم تھی۔

ایک موقع پر میں نے مولانا اسحاق بھٹی سے کہا کہ بھٹی صاحب! میری دلی تمنا ہے کہ سیرت کی ایسی خدمت کر جاؤں جو شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی اور قاضی سلیمان منصور پوری مرحومین سے بھی بہتر ہو کیونکہ سو سال گزرنے کے بعد مجھے اپنے اوپر یہ ایک قرض محسوس ہوتا ہے۔

وہ کہنے لگے: میجر صاحب! سید سلیمان ندوی اور قاضی سلیمان منصورپوری جیسے گراں قدر افراد کہاں سے لائیں گے؟ میں خاموش ہو گیا، پھر میں نے عرض کی کہ سیرت کے کام سے پہلے سید سلیمان ندوی اور قاضی منصور پوری کو کون جانتا تھا، انھوں نے محنت کی، کچھ کر دکھایا تو وہ آسمانِ علم پر ستارے بن کر چمکے۔ مولانا اسحاق بھٹی خاموش ہو گئے، مجھے گلے لگایا اور نیک جذبوں کی تکمیل کی دعا دی۔

٢٠٠٨ء سے شروع ہونے والا یہ کٹھن علمی سفر ایڈیٹر ، محققین ، کمپوزر اور لائبریرین کی آٹھ سے دس افراد کی ٹیم پر مشتمل تھا۔ علمی نگرانی جاری رہی، انتظامی ضروریات کی بروقت تکمیل کی جاتی رہی۔ کچھ افراد راستے میں ساتھ چھوڑ گئے۔

کئی نئے افراد نے ان کی جگہ لی اور یہ کاروانِ سیرت نبوی اپنی منزل کی طرف گامزن رہا۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے ایک بہتر ٹیم کا بندوبست کردیا جس نے مکمل دلجمعی ، یکسوئی اور انہماک سے کام کیا اور سیرت کے اس منصوبے کی تسوید ٢٠١٩ء میں مکمل ہوگئی۔ الحمد للہ!

میرے لیے بڑی خوشی اور اعزاز کی بات ہے کہ پاک فوج کا ایک سابق آرمڈ کور آفیسر ہوتے ہوئے اور اپنی انڈسٹری کی بھاری بھرکم مصروفیات کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے سیرت مبارکہ جیسی عظیم دینی خدمت کا ایک مشن مکمل ہوا۔

تسوید، کمپوزنگ اور دو دفعہ علمی نظر ثانی کے عمل سے گزارنے کے بعدمیری تجویز پر اس تالیف کا عربی اور اردو کی بارہ بارہ معروف کتبِ سیرت سے تقابل کیا گیا تاکہ تشنہ مقامات کی تکمیل ہو سکے، جس پر مزید ایک سال لگ گیا۔ کتاب کی آخری پروف خوانی میں سیرت کے گہرے علمی اور حساس مباحث کو بطورِ خاص بہتر کیا گیا۔

کوشش کی گئی کہ یہ دائرہ معارفِ سیرت زیادہ سے زیادہ جامع ، نافع اور معتدل ہو۔ کئی بار کی علمی مشاورت کے بعد میں نے اس منصوبہئ سیرت کا نام ''دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم'' تجویز کیا۔ پروفیسر محمد یحییٰ جلال پوری ،پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی اور مشاورتی ٹیم کے دیگر اہل علم نے اسے پسند اور قبول کیا۔

علمِ سیرت میں اختلافی مقامات کم ہیں، اکثر واقعات اور اُن کی توجیہات سیرت نگاروں کے ہاں متفق علیہ ہیں، تاہم برصغیر میں سیرت طیبہ کے عنوان پر تصنیف و تالیف کا جتنا کام ہوا، وہ زیادہ ترکسی ایک مخصوص مسلک یا مکتب فکر کی ترجمانی کرتا ہے۔ مختلف مکاتب فکر کا تقابلی مطالعہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی انھیں علمی وتحقیقی نمایندگی دی گئی۔ زیر نظر منصوبہئ سیرت میں کوشش کی گئی کہ تمام مسالک و مکاتب فکر کی آراء کو علمی نمایندگی دی جائے،

ان کے دلائل صحیح حوالوں سے بیان کیے جائیں اور قرآن وسنت کی روشنی میں راجح موقف واضح کر دیا جائے۔ اس ضمن میں التزام کیا گیا کہ فرقہ واریت اور سطحی مناظرانہ بحثوں سے اجتناب کیا جائے اور سیرتِ طیبہ کے محاسن کو زیادہ سے زیادہ مثبت انداز میں اجاگر کیا جائے۔

یہ علمی منصوبہ سیرت طوالت کا حامل ضرور ہے اور ''دائرہ معارف '' کی فنی ضرورت بھی یہی تھی کہ مباحث میں زیادہ سے زیادہ تفصیل بیان کی جائے ، تاہم مختصر مواد کے متلاشیوں کے لیے دار المعارف نے دیگر منصوبہ ہائے سیرت بھی ترتیب دیے ہیں۔ دار المعارف کے زیر اہتمام ''سیرتِ طیبہ ایک نظر میں'' ایک جلد میں سنین ہجری کے مطابق تکمیل پا چکی ہے۔ عنقریب ''دائرہ معارف ِ سیرت'' کا اختصار بھی دوجلدوں میں '' مختصر دائرہ معارفِ سیرت محمد رسول اللہ'' کے نام سے تیار کیا جائے گا، (ان شاء اللہ)۔

پروفیسر عبدالقیوم ؒ کی دس بارہ سال کے بچوںکے لیے''ہمارے رسول'' اور طلبہ وطالبات کے لیے''سیرتِ رحمت عالم'' نہایت مفید ہیں جو دار المعارف کے اشتراک سے حالیہ سالوں میں بزم اقبال لاہور سے شائع ہو چکی ہیں۔ یوں دارالمعارف نے ہر عمر اور ہر سطح کے لوگوں کے لیے سلسلہ مطبوعاتِ سیرت کا اہتمام کیا ہے، جو انتہائی علمی، معلوماتی اور مفید ہے۔

میرا شوق تھا کہ دائرہ معافِ سیرت کی پہلی جلد ایک شاندار علمی اور تحقیقی مقدمہ پر مشتمل ہو۔ مقدمہ ابن خلدون، مقدمہ فتح الباری اور مقدمہ ابن صلاح کی عظیم کتب بڑی نظر افروز اور علوم کا خزینہ ہیں۔ بچپن سے ان مقدموں کا نام سنتا آ رہا تھا، چنانچہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے دائرہ معارف سیرت کی پہلی جلد ''مقدمہ سیرت'' کے لیے مختص کی۔ میں نے اپنے رفقاء کار اور محققین کو بلند علمی معیار قائم کرنے کے لیے قدم قدم پر تلقین کی اور ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی اور انھوں نے بھی اپنی علمی اور انسانی بساط کے تحت کوئی کسر نہیں چھوڑی، تاہم اہل علم ہی ''مقدمہ اور سیرت پروجیکٹ'' کو دیکھ کر ان کی قدر وقیمت، میرے شوق اور محبت کا صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں۔

زیرِ نظر مقدمہ اور دائرہ معارفِ سیرت میں فقہ السیرہ کے عنوان کی تدوین ''محمد زکریا رفیق'' کی کاوش ہے۔ محمد نعمان فاروقی نے دائرہ معارفِ سیرت کی علمی ایڈیٹنگ کے فرائض انجام دیے۔ حافظ محمد فیاض الیاس نے اس کے اکثر ابواب کی تدوین کی۔ سیرت کے علمی اشکالات کے حل میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ کاشف الرحمن سیف نے سب ایڈیٹنگ، ٹیلی اور فنی پروف ریڈنگ جیسی خدمات انجام دیں۔ ادارے کی علمی نظامت محمد زکریا رفیق کے ذمے رہی۔
میں پروفیسر محمد یحییٰ اور مجلس تحریر و مشاورت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے سیرت طیبہ کے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں میری مدد کی۔ میں ریاض احمد چودھری سیکرٹری بزم اقبال لاہور کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے دائرہ معارفِ سیرت کو اپنے مؤقر ادارے کی طرف سے شائع کرنے کی اجازت دی۔

مجھے خوشی ہے کہ رب ذوالجلال نے مجھ پر بہت کرم فرمایا اور مجھے ُحبِ نبوی اور خدمت ِ دین کے جذبے سے سرفراز کیا۔میری پروثوق رائے یہی ہے کہ دین کے کام صرف مذہبی افرادِ کار اور محض علماء و فضلاء کے ذمے نہیں ہیں۔ ان کی مقدور بھر رہنمائی اور اس کے ساتھ انتظامی، مالی اور اخلاقی تعاون بھی بہت ضروری ہے، بشرطیکہ رہنمائی اور تعاون کرنے والا صحیح دینی اقدار سے واقف ہو اور تنگ نظری اور تعصب سے بالا تر ہو۔

چودہ سال کی ایک طویل مسافت ، جہدِمسلسل اور کٹھن محنت کے بعد سیرت پروجیکٹ کی تکمیل اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہی سے ممکن ہوئی ہے ورنہ حالات و واقعات اور بعض حضرات کا رویہ بالکل موافق نہ تھا۔ اللہ اس کام کو قبولیت اور مقبولیت عطا فرمائے (آمین)۔

تمام تر احتیاط کے باوجود علمی وتحقیقی کاموں میں بتقاضائے بشریت سہو و نسیان کا امکان باقی رہتا ہے۔ اہل علم سے التماس ہے کہ ایسا کوئی مقام نظر سے گزرے تو اس کی نشاندہی کریں، ان کی علمی آرا کو شکریے کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ محبت بھری اِس خدمت کو قبول فرمائے۔ اس سیرت پروجیکٹ میں احمد زبیر نائب صدر دارالمعارف،میرے صنعتی ادارے کے ایڈمن، پرچیز، اکاؤنٹس اور آئی ٹی کے افراد شریک ِکار رہے ہیں۔اہل خانہ نے دارالمعارف کے سلسلے میں میری ادارتی مصروفیت کو بڑی خوشی سے دیکھا اور میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ فنِ سیرت نگاری علومِ اسلامیہ میں ایک بہت بڑا علم ہے جسے ہم نے اپنے ذاتی شوق ، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت و وابستگی اور خالص اللہ جل شانہ کی رضا کے لیے اُسی کی توفیق سے مکمل کیا ہے۔

میں اللہ سے پر اُمید اور دعاگو ہوں کہ وہ ہماری خطاؤں، فروگزاشتوں اور زندگی بھر کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور ہمارا مواخذہ نہ کرے۔اللہ تعالیٰ اس کام کو میرے اعزّہ و رفقاء اور میرے لیے سعادتوں کا ذریعہ بنائے۔ روزِ آخرت شفاعتِ نبوی eکا حقدار بنائے اور بلا حساب جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ (آمین !)

تو غنی ا ز ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
وَر حسابم را تو بینی ناگزیر
اَز نگاہِ مصطفٰے پنہاں بگیر

(اقبالؔ)
اے اللہ! تو دونوں جہانوں سے بے نیاز ہے اور میں ایک بے بس فقیر ہوں۔
تیرا کرم ہو گا کہ قیامت کے دن میری معافی قبول کر لے اور مجھے بخش دے
اور اگر تو میرا حساب بہت ضروری خیال کرے
تو حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے میرا حساب نہ لینا۔

خاکسار
*میجر زبیر قیوم بٹ(ر)
لاہور، ٩ مئی ٢٠٢٢ء
 
Top