• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:17)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( صبر و تحمل ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

صبر و تحمل ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد

♻ آنحضرت ﷺ کی عادات و خصائل میں سے ایک اہم ترین خصلت صبر وتحمل بھی ہے۔ پیغام ربانی کی نشرو اشاعت کے لیے صبر وتحمل انتہائی ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے تبلیغ دین کی خاطر سب سے زیادہ مصائب و آلام کا سامنا کیا۔ مشرکین نے آپ پر اور آپ کے پیروکاروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے۔اہل مکہ کے اس قدر مظالم کے باوجود آپ ﷺ نے دعوت واصلاح کا سلسلہ جاری رکھا۔

♻ متوقع اور ممکنہ نتائج نہ ملنے پر آپ نے دعوت کا رخ بدلنا چاہا۔ اس کے لیے آنحضرت ﷺ اہل طائف کے ہاں گئے۔ انھوں نے دعوت قبول کرنے کے بجائے اہل مکہ سے بھی بڑھ کر مظالم توڑے۔ یہ آپ کی زندگی کا مشکل ترین موقع تھا جیسا کہ آپ نے خود بھی اس بارے میں فرمایا ہے۔ اس کے باوجود آپ نے صبر و تحمل کا بے مثل اسوہ پیش کیا اور فرمایا: ''میرے پروردگار! میری قوم کو معاف کر دے کیونکہ یہ نادان ہیں۔'' (صحیح البخاری:٣٤٧٧ و صحیح مسلم:١٧٩٢)

♻ نبی کریم ﷺ نے صبر و تحمل کی عدیم النظیر مثالیں پیش کیں۔ آپ نے اس دیہاتی کو بھی معاف کر دیا تھا ، جس نے آپ کی گردن مبارک میں چادر ڈال کر بل دیے تو آپ کی گردن پر نشانات پڑ گئے تھے۔ آپ نے اس کی بد تمیزی اور بد کلامی کے باوجود اسے معاف ہی نہیں کیا ، بلکہ مسکراتے ہوئے اسے مال و متاع سے بھی نوازا،(صحیح البخاری:٥٨٠٩ و صحیح مسلم:١٠٥٧)

♻ ایک بار کچھ یہودی آنحضرت ﷺ کے ہاں آئے۔ انھوں نے السلام علیکم کہنے کی بجائے السام علیکم کہا۔ اس کے معنی ہیں: تم پر موت طاری ہو۔ ان کی اس ہرزہ سرائی پر ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سخت ردعمل کا اظہار کیا، لیکن صبر و تحمل کے پیکر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسی سخت گفتگو سے منع فرمایا اور ان بدکردار یہود کو کچھ بھی نہ کہا۔ (صحیح البخاری:٦٠٢٤ و صحیح مسلم:٢١٦٥)

♻ آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ کے آخری ایام انتہائی پر تکلیف تھے۔ مرض الوفات میں آپ پر متعدد بار غشی طاری ہوئی۔ اس کے باوجود آپ نے صبر و تحمل کا دامن تھامے رکھا۔ ان آخری لمحات میں امت کو بیش بہا وصیتیں فرمائیں اور پروردگار عالم سے رفیق اعلیٰ کی رفاقت کی دعا فرماتے رہے،

♻ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو بھی صبر و تحمل کا درس دیا اور اس کے منافی تمام امور سے بچنے کی رہنمائی فرمائی۔ جیسے آپ ﷺ کا فرمان ہے: ''اصل بہادری مدمقابل کو پچھاڑنا نہیں ، بلکہ غصے کے وقت خود کو قابو میں رکھنا ہے حقیقی شجاعت ودلیری ہے ۔'' (صحیح البخاری:٦١١٤ و صحیح مسلم:٢٦٠٩)

♻پیغمبرِ اسلام ﷺ نے اپنے امتیوں کو صبر و تحمل کی بہت ہی عمدہ انداز میں تعلیم دی ہے۔ آپ کا فرمان ہے: ''مومن کے تو کیا ہی کہنے ! اس کے لیے ہر حال میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ خیراور بھلائی ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کےاجر و ثواب پا لیتا ہے اور مصیبت و پریشانی میں صبر کر کے اجر و ثواب کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ (صحیح مسلم:٢٩٩٩ و أحمد بن حنبل، المسند:١٨٩٣)

♻ رسول اکرم ﷺ ہی کا فرمان ہے: ''جو بھی مومن اپنی آنکھوں کے چھن جانے پر اجر و ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے، اس کا ٹھکانا صرف اور صرف جنت ہے۔ (صحیح البخاری:٥٦٥٣ و أحمد بن حنبل، المسند:١٢٤٦٨)

♻رسول اللہ ﷺ نے نماز کو حصولِ نور کا باعث ، صدقہ و خیرات کو برہان اور صبر کو حصولِ روشنی کا سبب قرار دیا۔(صحیح مسلم:٢٢٣ و سنن الترمذی:٣٥١٧)

♻ آنحضرت ﷺ نے ایسے مسلمان کو جہنم سے آزادی کا پروانہ عنایت کیا ہے جو بیٹیوں کی صورت میں آزمائش پر اجر و ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے۔ (سنن الترمذی:١٩١٣و الألبانی، صحیح الجامع:٥٩٣١)

♻رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''خود کو صبر کا عادی بنانے والے کو اللہ تعالیٰ نعمت صبر سے نواز دیتا ہے ۔ اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی نعمتوں میں سب سے بہتر اور عمدہ چیز صبر ہے۔'' (صحیح البخاری:١٤٦٩ و ابن حبان، الصحیح:٣٤٠٠)

♻ ﷲ تعالیٰ نے جن چار امور کی بنیاد پر انسان کی نجات اور فلاح و کامیابی کی ضمانت دی ہے، ان میں سے ایک ''تواصی بالصبر'' ہے۔ تواصی بالصبر کا مطلب ہے : ایک دوسرے کو صبر کی تلقین و نصیحت کرنا۔ سورت العصر انہی چار امور پر مشتمل ہے ،

♻ صبرو تحمل ﷲ کی ایسی نعمت ہے ، جس کی بدولت انسان مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنا راستہ بنا لیتا ہے اور کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ آج کے پر خطر حالات میں اسلام پر کار بند رہنے اور اس کی نشر واشاعت کے لیے صبرو تحمل کا خوگر بننا انتہائی ضروری ہے ، صبر واستقامت اور استقلال و پامردی کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ،

♻ مصائب و مشکلات اور تکلیف وپریشانی میں صبر و تحمل اختیار کرنے سے بندہ مومن کئی طرح کے دعوتی و تربیتی ، اخلاقی وسماجی اور معاشی وسیاستی نقصانات سے محفوظ رہتا ہے ، صبر و تحمل جس قدر مشکل ہے ، اسی قدر اس کا پھل بھی میٹھا ہوتا ہے ، عصر حاضر میں دین سے کمزور تعلق ، آخرت پر ضعیف ایمان اور جدید تہذیب والحاد کے اثرات کے باعث ہر سطح پر عدم برداشت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے، انفرادی واجتماعی اور ریاستی معاملات میں اس عدم صبر و تحمل کے بھیانک نتائج بھی سب کے سامنے ہیں،

♻ عصر حاضر میں صبر و تحمل ، عفو و درگزر ، ہمدردی وخیرخواہی اور عفت و پاکدامنی جیسی عمدہ صفات و عادات سے انسانوں کا دامن خالی ہوتا جا رہا ہے ، اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جیسے: کمزور ایمان وعقیدہ ، دین ومذہب سے کمزور تعلق ، آخرت اور حساب وکتاب پر کمزور ایمان ، حرص وہوس ، خود پسندی ، خود غرضی ، دنیا طلبی اور خواہش پرستی ، یہ تمام چیزیں عدم برداشت اور اور عدم رواداری کے اسباب وعوامل میں شامل ہیں ، اسی طرح مذہب بیزاری پر مبنی نظام تعلیم وترتیب ، بے حیائی پر قائم خاندانی نظام و معاشرہ ، صنعتی انقلاب سے متاثر زدہ ماحول وآب وہوا ، حلال و حرام کی عدم تمیز پر مبنی خوراک اور اشیاء خورونوش ، ان چیزوں کے بھی انسانی طبیعت ومزاج اور عادات و اطوار پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،

♻ جدید تہذیب والحاد کے حاملین صبر و تحمل ، حلم و بردباری اور برداشت و درگزر جیسی عمدہ عادات و صفات سے عام طور پر عاری ہوتے ہیں ، قتل وغارت گری ، لوٹ گھسوٹ ، خاندانی نظام کی تباہی ، لڑائی جھگڑا ، اختلاف وانتشار اور خود کشی جیسے بھیانک جرائم مغربی تہذیب ومعاشرے کا نمایاں ترین حصہ ہیں ، دیگر اسباب وعوامل کے ساتھ ساتھ اس کا ایک بہت بڑا سبب عدم برداشت اور صبر و تحمل سے دامن خالی ہونا ہے ، آخر وہ درگزر اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں تو کیوں ؟!!

♻ عالمی استعماری منصوبے کے تحت مسلمانوں میں بھی منفی جذبات واحساسات اور غلط عادات و اطوار کو پروان چڑھایا جا رہا ہے ، اس میں بہت حد تک وہ کامیاب ہو چکے ہیں ، میڈیا اور نظام تعلیم وتربیت اغیار کے بنیادی ہتھیار ہیں ،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے ،
 
Top