- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
فقہ السیرۃ النبویہ : سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تنظیمی تربیتی اور سیاسی رہنمائی
جاہلیت اور تصور اخلاق و معاشرت
(1) اہل عرب زیادہ تر بادیہ نشیں اور بدوی تھے۔ یہ اچھی بری دونوں طرح کی ملی جلی سماجی اقدار و روایات کے حامل تھے۔ اس کی بنیادی وجہ جہالت و بے دینی، قبائلی طرزِ حیات اور خاص جغرافیائی صورت حال تھی۔
(2) عرب کے جاہلی معاشرہ کا مرکز ومحور خاندان و قبیلہ ہی تھا۔اہل عرب مہمان نوازی، شجاعت و بہادری، جودو سخا، صدق و امانتداری جیسی اعلی صفات سے متصف تہے۔
(3) اچھی سماجی عادات و اقدار کی و جہ مذہب اور جذبہ نیکی نہ تھی بلکہ قبیلے کا نام بلند کرنا اور خاندان کی عزت و وقار کو برقرار رکھنا تھا۔
جاہلی ادب میں سخاوت و شجاعت کا زیادہ تذکرہ اسی انداز و تناظر میں ملتا ہے۔
(4) ابو جہل نے رسول اللہ ﷺ کے انکار کی بنیادی و جہ قبائلی رقابت بیان کی تھی۔
(5) خواتین و بچیوں کی تحقیر و تذلیل کا ایک اہم سبب خاندانی عزت و وقار ہی تھا۔ مرد قبیلے کے نام و ناموس اور خاندان کے دفاع و وقار کی خاطر داد شجاعت دیتے۔ مرد شاعر اپنے خاندانی وقار و ناموس کے محافظ سمجھے جاتے۔
(6) شاعر اپنے قبیلے کے اوصاف و کمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے خوب مبالغہ آمیزی کرتے۔شاعر اپنے قبیلے کو اوج ثریا پر پہنچا دیتے۔ مخالفین کو ذلت ورسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا پٹختے۔
(7) شاعر اور شاعر کے قبیلے سے مخالفین بہت محتاط رہتے۔ شجاع و شاعر مرد کو عرب معاشرے میں غیر معمولی مقام حاصل تھا۔ قبیلے میں شاعر کے ابھرنے پر انھیں مبارکیں دی جاتیں۔
(8) لڑکے کی ولادت پر ”شہسوار کی ولادت مبارک ہو،، کے الفاظ میں مبارک دی جاتی۔یوم ولادت، یوم ختنہ اور یوم عقیقہ طعام و شراب کی دعوتِ عام ہوتی۔
(9) خواتین و بچیاں مردوں کی طرح نہ تھیں۔ یہ جنگ و جدال میں قیدی بننے کی صورت میں خاندان و قبیلے کی ذلت و رسوائی کا باعث بنتیں۔ اس لیے ان کی ولادت باعث ننگ و عار سمجھی جاتی۔
(10) بچی کی ولادت پر ”مال میں اضافے کا باعث بننے والی،، کا طعنہ دیا جاتا۔ یوم ولادت قابل فروخت چیز کی طرح صدا لگائی جاتی۔ مستقبل میں اس بچی سے نکاح کی کوئی ہامی بھرتا تو بچی کو زندہ رہنے کا حق دیا جاتا بصورت دیگر زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔
(11) فقر و فاقہ کے باعث بھی بچیوں سے زندگی چھین لی جاتی۔ یہ عمل سو چند قبائل میں تھا۔ بتوں کے نام پر بھی اولاد کو ذبح کر دیا جاتا۔
(12) عرب معاشرہ جنگ و جدال کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔ اظہار شجاعت و بہادری کے لیے بچوں کے نام درندوں اور موذی جانور کے نام پر رکھے جاتے۔ بچیوں اور غلاموں کے متعلق اس طرح نہ تھا۔
(13) غلاموں کی بے توقیری اور ذلت و رسوائی کی بنیادی وجہ غریب الدیاری، اسیری، بے حیثیت خاندان اور محتاجگی و فقیری تھی۔
(14) عرب معاشرے میں بدکاری اور جنسی بے راہ روی کے بھی عموماً یہی اسباب تھے۔ مرد جنگ و حرب میں قتل ہوتے۔ خواتین قیدی ہوتیں اور غلط رستہ اختیار کرتیں۔
(15) خاندانی اور شریف زادیاں عموماً غلط روش سے اپنا دامن پاک رکھتیں۔ حضرت ہندہ کے قبول اسلام کے وقت جذبات و خیالات اسی کا عکاس ہیں۔ان سے زنا سے احتراز کا اقرار کروایا گیا۔تب انہوں نے تعجب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آزاد عورتیں بھی ایسا کرتیں ہیں۔
(16) عرب میں تو خاندانی دوشیزائیں گھر میں بھی گوشہ نشیں رہتی تھیں۔ باہر آزادانہ گھومنا پھرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اگر کوئی برائی میں ملوث ہوتی بھی تو خفیہ انداز میں۔ علانیہ یہ برائی سماجی وخاندانی طور پر گوارہ نہ کی جاتی تھی۔بلکہ خاندان کے لیے بدنما داغ تصور کی جاتی۔
(17) عرب میں خاندان و قبیلہ ہی سب کچھ تھا۔ جینا مرنا قوم و قبیلے کے لیے تھا۔ تمام طرح کی اقدار وروایات اور دوستی ودشمنی کا مرکز ومحور قبیلہ وخاندان ہی تھا۔
(( محمد فیاض الیاس الأثری: حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))
جاہلیت اور تصور اخلاق و معاشرت
(1) اہل عرب زیادہ تر بادیہ نشیں اور بدوی تھے۔ یہ اچھی بری دونوں طرح کی ملی جلی سماجی اقدار و روایات کے حامل تھے۔ اس کی بنیادی وجہ جہالت و بے دینی، قبائلی طرزِ حیات اور خاص جغرافیائی صورت حال تھی۔
(2) عرب کے جاہلی معاشرہ کا مرکز ومحور خاندان و قبیلہ ہی تھا۔اہل عرب مہمان نوازی، شجاعت و بہادری، جودو سخا، صدق و امانتداری جیسی اعلی صفات سے متصف تہے۔
(3) اچھی سماجی عادات و اقدار کی و جہ مذہب اور جذبہ نیکی نہ تھی بلکہ قبیلے کا نام بلند کرنا اور خاندان کی عزت و وقار کو برقرار رکھنا تھا۔
جاہلی ادب میں سخاوت و شجاعت کا زیادہ تذکرہ اسی انداز و تناظر میں ملتا ہے۔
(4) ابو جہل نے رسول اللہ ﷺ کے انکار کی بنیادی و جہ قبائلی رقابت بیان کی تھی۔
(5) خواتین و بچیوں کی تحقیر و تذلیل کا ایک اہم سبب خاندانی عزت و وقار ہی تھا۔ مرد قبیلے کے نام و ناموس اور خاندان کے دفاع و وقار کی خاطر داد شجاعت دیتے۔ مرد شاعر اپنے خاندانی وقار و ناموس کے محافظ سمجھے جاتے۔
(6) شاعر اپنے قبیلے کے اوصاف و کمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے خوب مبالغہ آمیزی کرتے۔شاعر اپنے قبیلے کو اوج ثریا پر پہنچا دیتے۔ مخالفین کو ذلت ورسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا پٹختے۔
(7) شاعر اور شاعر کے قبیلے سے مخالفین بہت محتاط رہتے۔ شجاع و شاعر مرد کو عرب معاشرے میں غیر معمولی مقام حاصل تھا۔ قبیلے میں شاعر کے ابھرنے پر انھیں مبارکیں دی جاتیں۔
(8) لڑکے کی ولادت پر ”شہسوار کی ولادت مبارک ہو،، کے الفاظ میں مبارک دی جاتی۔یوم ولادت، یوم ختنہ اور یوم عقیقہ طعام و شراب کی دعوتِ عام ہوتی۔
(9) خواتین و بچیاں مردوں کی طرح نہ تھیں۔ یہ جنگ و جدال میں قیدی بننے کی صورت میں خاندان و قبیلے کی ذلت و رسوائی کا باعث بنتیں۔ اس لیے ان کی ولادت باعث ننگ و عار سمجھی جاتی۔
(10) بچی کی ولادت پر ”مال میں اضافے کا باعث بننے والی،، کا طعنہ دیا جاتا۔ یوم ولادت قابل فروخت چیز کی طرح صدا لگائی جاتی۔ مستقبل میں اس بچی سے نکاح کی کوئی ہامی بھرتا تو بچی کو زندہ رہنے کا حق دیا جاتا بصورت دیگر زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔
(11) فقر و فاقہ کے باعث بھی بچیوں سے زندگی چھین لی جاتی۔ یہ عمل سو چند قبائل میں تھا۔ بتوں کے نام پر بھی اولاد کو ذبح کر دیا جاتا۔
(12) عرب معاشرہ جنگ و جدال کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔ اظہار شجاعت و بہادری کے لیے بچوں کے نام درندوں اور موذی جانور کے نام پر رکھے جاتے۔ بچیوں اور غلاموں کے متعلق اس طرح نہ تھا۔
(13) غلاموں کی بے توقیری اور ذلت و رسوائی کی بنیادی وجہ غریب الدیاری، اسیری، بے حیثیت خاندان اور محتاجگی و فقیری تھی۔
(14) عرب معاشرے میں بدکاری اور جنسی بے راہ روی کے بھی عموماً یہی اسباب تھے۔ مرد جنگ و حرب میں قتل ہوتے۔ خواتین قیدی ہوتیں اور غلط رستہ اختیار کرتیں۔
(15) خاندانی اور شریف زادیاں عموماً غلط روش سے اپنا دامن پاک رکھتیں۔ حضرت ہندہ کے قبول اسلام کے وقت جذبات و خیالات اسی کا عکاس ہیں۔ان سے زنا سے احتراز کا اقرار کروایا گیا۔تب انہوں نے تعجب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آزاد عورتیں بھی ایسا کرتیں ہیں۔
(16) عرب میں تو خاندانی دوشیزائیں گھر میں بھی گوشہ نشیں رہتی تھیں۔ باہر آزادانہ گھومنا پھرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اگر کوئی برائی میں ملوث ہوتی بھی تو خفیہ انداز میں۔ علانیہ یہ برائی سماجی وخاندانی طور پر گوارہ نہ کی جاتی تھی۔بلکہ خاندان کے لیے بدنما داغ تصور کی جاتی۔
(17) عرب میں خاندان و قبیلہ ہی سب کچھ تھا۔ جینا مرنا قوم و قبیلے کے لیے تھا۔ تمام طرح کی اقدار وروایات اور دوستی ودشمنی کا مرکز ومحور قبیلہ وخاندان ہی تھا۔
(( محمد فیاض الیاس الأثری: حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))