• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:20) امام الانبیاء ﷺ کی خصوصیات((آنحضرت ﷺ کی بددعا بھی باعث رحمت ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہﷺ کے خصائص وامتیازات ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))

آنحضرت ﷺ کی بددعا بھی باعث رحمت :

♻ رسول ﷲ ﷺ کو ﷲ تعالیٰ نے یہ خصوصیت عطا کی تھی کہ کسی امتی کے لیے آپ کی طرف سے سرزنش ہو جائے تو وہ اس کے لیے قربت و معافی کا ذریعہ بن جائے۔

♻ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: (( اَللّٰہُمَّ فَأَیُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتُہ فَاجْعَلْ ذٰلِکَ لَہ قُرْبَۃً إِلَیْکَ یَوْمَ القِیَامَۃِ )) (صحیح البخاری:٦٣٦١ و صحیح مسلم:٢٦٠١) ''اے اﷲ! جس مومن کو بھی میری طرف سے برا بھلا کہہ دیا جائے تو روزِ قیامت اس بات کو اس کے لیے اپنی قربت کا ذریعہ بنا لینا۔''

♻ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''اے ﷲ! میں تو بشر ہوں۔ جس مسلمان کو بھی میری طرف سے برا بھلا کہہ دیا جائے، سرزنش ہو جائے یا کوڑے لگ جائیں تو ان چیزوں کو اس آدمی کے لیےپاکیزگی کا ذریعہ اور باعث رحمت بنا لینا۔'' (صحیح مسلم:٢٦٠١ و أحمد بن حنبل، المسند:١٠٤٣٥)

♻ رسول اللہ ﷺ کی اسی خصوصیت کے بارے میں ﷲ تعالیٰ سے عہد لینے کا بھی تذکرہ ہے ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ صرف رب تعالیٰ کے حضور نبی کریم ﷺ کی درخواست ہی نہ تھی ، بلکہ عہد بھی تھا۔

♻ حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: ''اے ﷲ! میں نے تجھ سے ایک عہد کیا ہے، تو عہد کی خلاف ورزی ہرگز نہیں کرتا۔ میں تو بشر ہوں، اس لیے جس مومن کو مجھ سے کوئی دُکھ تکلیف پہنچے، اسے نامناسب بات کہہ دی جائے، اس پر سرزنش ہو جائے، یا اسے کوڑے لگ جائیں تو یہ چیز اس کے لیے باعث رحمت و پاکیزگی اور روزِ قیامت اپنی قربت کا ذریعہ بنا لینا۔'' (صحیح مسلم:٢٦٠١ و أحمد بن حنبل، المسند:٨١٩٩)

♻ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ کی خدمت میں دو آدمی آئے۔ انھوں نے آپ سے کسی چیز کے متعلق بات چیت کی جس کامجھے علم نہ ہو سکا۔ ان کی بات سے آپ کو شدید غصہ آیا۔ آپ نے ان کی سرزنش کی اور انھیں سخت ڈانٹا۔

♻ ان آدمیوں کے چلے جانے کے بعد میں نے کہا: اے ﷲ کے رسول! آپ سے جو دوسروں کو خیر ملتی ہے، یہ اس سے محروم ٹھہرے ہیں۔ آپ نے پوچھا: ''وہ کیسے؟'' میں نے بتایا کہ آپ نے ان کی سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ کی ہے۔

♻ آپ نے فرمایا: ''کیا تمھیں وہ شرط معلوم نہیں جو میں نے اپنے رب سے طے کی ہوئی ہے؟ میں نے کہا ہوا ہے کہ اے ﷲ! میں تو بشر ہوں، جس مسلمان کی بھی میری طرف سے سرزنش ہو جائے ، یا سخت الفاظ کہہ دیے جائیں تو یہ چیز اس آدمی کے لیے باعث پاکیزگی اور اجر و ثواب کا ذریعہ بنا لینا۔'' (صحیح مسلم:٢٦٠٠ و أحمد بن حنبل، المسند:٢٤١٧٩)

♻ اسی طرح ایک دفعہ رسول ﷲ ﷺ نے ایک یتیم بچی سے فرمایا: ''ﷲ کرے تو بڑی ہی نہ ہو۔'' وہ بچی روتی ہوئی حضرت ام ُسلیم رضی اللہ عنہا کے پاس گئی۔ حضرت ام ُسلیم نے رونے کی وجہ پوچھی ، تو بچی نے بتایا کہ رسول ﷲ ﷺ نے مجھے بددعا دی ہے کہ میں بڑی نہ ہوں، اس لیے اب میں بالکل بڑی نہ ہوں گی۔

♻ یہ سن کر حضرت ام ُسلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے رسول ﷲ ﷺ کے ہاں گئیں اور عرض کرنے لگیں: اے اﷲ کے رسول! کیا آپ نے اس یتیم لڑکی کو بددعا دی ہے؟ آپ نے پوچھا: ''ام سلیم! کون سی بددعا دی ہے؟'' بتایا کہ اس لڑکی کے بقول آپ نے اسے بددعا دی ہے کہ وہ بڑی نہ ہو۔

♻ حضرت ام سلیم کی یہ بات سن کر رسول ﷲ ﷺ مسکرا دیے اور فرمایا: ''اے ام ُسلیم! کیا تمھیں معلوم نہیں کہ میں نے اپنے پروردگار سے یہ عہد لیا ہے کہ اے ﷲ! میں تو بشر ہوں، دیگر انسانوں کی طرح میں ناراض اور خوش ہوتا ہوں۔ اپنے جس امتی کے خلاف بھی میرے ہاتھ اٹھ جائیں جس کا وہ حقدار نہ ہو ، تو اسے اس آدمی کے لیے طہارت و پاکیزگی کا سبب اور روز قیامت اپنی قربت کا ذریعہ بنا لینا۔'' (صحیح مسلم:٢٦٠٣ وابن حبان، الصحیح:٦٥١٤)

♻آنحضرت ﷺ کی اس خصوصیت کے بارے میں دوچیزیں قابل توجہ ہیں: ایک تو یہی کہ آپ ﷺ نے کسی کے خلاف دست دعا بلند کیے ہوں، رحمت سے دوری کی درخواست کی ہو ، یا ڈانٹ ڈپٹ کی ہو، یہ آپ کی حیات طیبہ کے ساتھ خاص تھا کہ آپ کی زندگی میں کسی کے ساتھ اس طرح ہوا ہو۔

♻ دوسرا یہ کہ یہ اس آدمی کے بارے میں ہے جس پر ناحق ایسا کچھ ہو گیا ہو ، جس کی تائید آنحضرت ﷺ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ وہ اس کا مستحق نہ ہو۔ حافظ ابن حجر نے اس نکتے پر تفصیلی بات کی ہے۔(ابن حجر، فتح الباری:172/11)

♻ مذکورہ بالا خصوصیت صرف رسول مقبول ﷺ کی ہے، یہ رسول مکرم ﷺ کا امت کے لیے رحمت ہونے کا ایک امتیازی انداز ہے، کسی امتی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے کے متعلق ناروا بد دعا کرے اور کسی کے بارے میں نازیبا الفاظ بولے ،

♻ جدید تہذیب والحاد کی وجہ سے انسان مذہب سے بیزار ہوئے ، عمدہ اقدار وروایات سے بے نیاز ہوئے اور حسن اخلاق و کردار سے ان کے دامن خالی ہوئے ، عصر حاضر میں مذہب بیزار انسان الزام تراشی ، کذب بیانی ، فحش گوئی ، دوسرے کو بد دعا دینے اور لعن طعن کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا،
 
Top