- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:12 مصائب و آلام پر عفو و حلم)
رسول اللہ ﷺ عفو و حلم کے منافی تمام بری عادات سے بالکل پاک تھے ۔ غیظ و غضب، بد اخلاقی، جلد بازی، سختی روی اور ترش مزاجی جیسے باعث عار امور سے آپ کا دامن پاک تھا۔
مخلوق کی طرف سے در پیش مصائب و آلام پر بھی رسول اللہ ﷺ نے عفو و حلم کا دامن تھامے رکھا اور رب تعالیٰ کی طرف سے بطورِ ابتلا و آزمائش لاحق پریشانیوں پر بھی صبر وتحمل سے روگردانی نہیں کی۔ دونوں طرح کے دکھ درد اور رنج والم میں آپ بارگاہ الٰہی میں صبرو شکر ہی بجا لاتے رہے۔
رسول اللہ ﷺ کے چچا سیدنا حمزہ رضی اللّٰہ عنہ کی غزوہ احد درد ناک شہادت کا واقعہ پیش آیا، لیکن آپ نے اپنے محبوب چچا کی جدائی پر رب العالمین کا کوئی شکوہ نہیں کیا ، بلکہ بعد میں ان کے قاتل کو بھی معاف کردیا ۔ اس واقعہ میں نبوی عفو و درگزر بھی ہے اور حلم و بردباری بھی ،
اسی غزوے میں آپ کا چہرہ مبارک لہو لہان ہوا، دانت مبارک شہید ہوا، ٧٠ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی شہید ہوئے ، لیکن آپ نے بالکل بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا، اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہے ۔ زخم لگانے والوں کو بھی بعد میں معاف کر مثالی عفو و درگزر کا اسوہ پیش فرمایا،
اعلانِ نبوت کے بعد مشرکین نے آپ پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے ، اس کے باوجود آپ نے پیغامِ ربانی نوعِ انسانی تک پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا۔دعوتی مشن میں رکاوٹیں پیدا کرنے والوں کے برے طرزِ عمل پر بے مثل عفو و حلم آپ ہی کا اسوہ حسنہ ہے،
حجۃ الوداع میں دعوت دین کے عظیم مشن کی تکمیل کی گواہی امت سے لی۔ آپ کے اس عظیم مشن کی تکمیل میں آپ ﷺ اخلاق کریمانہ اور عفو و درگزر کا بہت کردار ہے ، رب العالمین نے آپ کو عفو و درگزر کا باقاعدہ حکم فرمایا تھا، آپ کی تمام حیات طیبہ اسی ربانی حکم کی آئینہ دار ہے،
رسول کریم ﷺ نے زندگی کے آخری لمحات میں ''اللّٰھُمَّ بِالرَّفِیقِ الْاَعْلٰی''کی خواہش سے اس پر مہر ثبت فرما دی کہ جس رب کی خاطر سب کچھ میں نے برداشت کیا ، اس سے میں بالکل نالاں نہیں ہوں ، بلکہ اس کی رضا میرے لیے ساری دنیا سے بڑھ کر عزیز ہے۔
دعوتی مصائب و آلام ، تبلیغی ابتلاء و آزمائش ، تعلیمی مشکلات اور تربیتی پریشانیاں پیغمبرانہ مشن کا لازمی حصہ ہیں، اس سے بندہ مومن کو بلکل پریشان نہیں ہونا چاہیے ، دعوتی و تبلیغی رستے میں ابتلاء و آزمائش سے ایمان وعقیدہ مضبوط ہوتا ہے ، صلاحیات نکھرتی ہیں اور کھوٹے کھرے میں فرق ہوتا ہے ، سب سے بڑھ کر یہ کہ رب العزت کی رضا مندی اور اجر عظیم کا بندہ مومن حقدار قرار پاتا ہے ،
لیکن اس عظیم الشان مشن ومقصد کے لیے عفو و حلم ، تحمل و بردباری ، صبر و برداشت اور مضبوط ایمان وعقیدہ انتہائی ضروری ہے ، عصر حاضر میں داعیان اسلام ، مربیان ملت اور مصلحین قوم ان عمدہ عادات و خصائل میں کئی طرح کی کمزوریوں سے دوچار ہیں ،
جدید فکر وتہذیب کے حاملین میں عفو و درگزر ، تحمل و بردباری اور صبر و برداشت بہت کم ہوتا ہے ، کیونکہ عفو و حلم کے بنیادی اسباب وعوامل میں ان کی حالت زار ناگفتہ بہ ہوتی ہے ، خاص کر مخالفیں اور اہل اسلام سے عفو و درگزر انتہائی مشکل ہے ، وہ بھی ملکی و عالمی سطح پر اور الحادی استعمار کی جانب سے ،اسلامی ممالک کی تباہی وبربادی اس کی شہادت کے لیے کافی ہے
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:12 مصائب و آلام پر عفو و حلم)
رسول اللہ ﷺ عفو و حلم کے منافی تمام بری عادات سے بالکل پاک تھے ۔ غیظ و غضب، بد اخلاقی، جلد بازی، سختی روی اور ترش مزاجی جیسے باعث عار امور سے آپ کا دامن پاک تھا۔
مخلوق کی طرف سے در پیش مصائب و آلام پر بھی رسول اللہ ﷺ نے عفو و حلم کا دامن تھامے رکھا اور رب تعالیٰ کی طرف سے بطورِ ابتلا و آزمائش لاحق پریشانیوں پر بھی صبر وتحمل سے روگردانی نہیں کی۔ دونوں طرح کے دکھ درد اور رنج والم میں آپ بارگاہ الٰہی میں صبرو شکر ہی بجا لاتے رہے۔
رسول اللہ ﷺ کے چچا سیدنا حمزہ رضی اللّٰہ عنہ کی غزوہ احد درد ناک شہادت کا واقعہ پیش آیا، لیکن آپ نے اپنے محبوب چچا کی جدائی پر رب العالمین کا کوئی شکوہ نہیں کیا ، بلکہ بعد میں ان کے قاتل کو بھی معاف کردیا ۔ اس واقعہ میں نبوی عفو و درگزر بھی ہے اور حلم و بردباری بھی ،
اسی غزوے میں آپ کا چہرہ مبارک لہو لہان ہوا، دانت مبارک شہید ہوا، ٧٠ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی شہید ہوئے ، لیکن آپ نے بالکل بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا، اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہے ۔ زخم لگانے والوں کو بھی بعد میں معاف کر مثالی عفو و درگزر کا اسوہ پیش فرمایا،
اعلانِ نبوت کے بعد مشرکین نے آپ پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے ، اس کے باوجود آپ نے پیغامِ ربانی نوعِ انسانی تک پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا۔دعوتی مشن میں رکاوٹیں پیدا کرنے والوں کے برے طرزِ عمل پر بے مثل عفو و حلم آپ ہی کا اسوہ حسنہ ہے،
حجۃ الوداع میں دعوت دین کے عظیم مشن کی تکمیل کی گواہی امت سے لی۔ آپ کے اس عظیم مشن کی تکمیل میں آپ ﷺ اخلاق کریمانہ اور عفو و درگزر کا بہت کردار ہے ، رب العالمین نے آپ کو عفو و درگزر کا باقاعدہ حکم فرمایا تھا، آپ کی تمام حیات طیبہ اسی ربانی حکم کی آئینہ دار ہے،
رسول کریم ﷺ نے زندگی کے آخری لمحات میں ''اللّٰھُمَّ بِالرَّفِیقِ الْاَعْلٰی''کی خواہش سے اس پر مہر ثبت فرما دی کہ جس رب کی خاطر سب کچھ میں نے برداشت کیا ، اس سے میں بالکل نالاں نہیں ہوں ، بلکہ اس کی رضا میرے لیے ساری دنیا سے بڑھ کر عزیز ہے۔
دعوتی مصائب و آلام ، تبلیغی ابتلاء و آزمائش ، تعلیمی مشکلات اور تربیتی پریشانیاں پیغمبرانہ مشن کا لازمی حصہ ہیں، اس سے بندہ مومن کو بلکل پریشان نہیں ہونا چاہیے ، دعوتی و تبلیغی رستے میں ابتلاء و آزمائش سے ایمان وعقیدہ مضبوط ہوتا ہے ، صلاحیات نکھرتی ہیں اور کھوٹے کھرے میں فرق ہوتا ہے ، سب سے بڑھ کر یہ کہ رب العزت کی رضا مندی اور اجر عظیم کا بندہ مومن حقدار قرار پاتا ہے ،
لیکن اس عظیم الشان مشن ومقصد کے لیے عفو و حلم ، تحمل و بردباری ، صبر و برداشت اور مضبوط ایمان وعقیدہ انتہائی ضروری ہے ، عصر حاضر میں داعیان اسلام ، مربیان ملت اور مصلحین قوم ان عمدہ عادات و خصائل میں کئی طرح کی کمزوریوں سے دوچار ہیں ،
جدید فکر وتہذیب کے حاملین میں عفو و درگزر ، تحمل و بردباری اور صبر و برداشت بہت کم ہوتا ہے ، کیونکہ عفو و حلم کے بنیادی اسباب وعوامل میں ان کی حالت زار ناگفتہ بہ ہوتی ہے ، خاص کر مخالفیں اور اہل اسلام سے عفو و درگزر انتہائی مشکل ہے ، وہ بھی ملکی و عالمی سطح پر اور الحادی استعمار کی جانب سے ،اسلامی ممالک کی تباہی وبربادی اس کی شہادت کے لیے کافی ہے
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے