- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:13، عفو و حلم اور نبوی تعلیمات)
عفو و حلم کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو قیمتی اور بے مثل ہدایات ارشاد فرمائی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(( وَمَا زَادَ اللّٰہُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ )) (صحیح مسلم:٢٥٨٨) ''معاف کرنے سے اللہ عزوجل بندے کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو شخص اللہ کے لیے تواضع اختیار کرے، اللہ تعالیٰ اس کا رُتبہ بلند کر دیتا ہے۔''
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللّٰہ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
(( صِلْ مَنْ قَطَعَکَ، وَأَعْطِ مَنْ حَرَمَکَ وَاْعفُ عَمَّنْ ظَلَمَکَ)) (أحمد بن حنبل، المسند:١٧٤٥٢) ''جو شخص تم سے قطعی تعلقی کرے، تم اس سے صلہ رحمی کرو، جو تمھیں نہیں دیتا، تم اسے عنایت کر دو، اور جو تم پر ظلم و زیادتی کرے، تم اسے معاف کر دو۔''
رسولِ کریم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ میں بیان کردہ تیسرا پہلو واضح طور پر عفو وحلم کے بارے میں ہے، جبکہ دیگر دو امور بھی کسی طور پر عفو وحلم ہی سے متعلق ہیں، کیونکہ قطع تعلقی کرنے والے سے صلہ رحمی اور نہ دینے والے کو بھی عطا کرنا بغیر عفو و حلم کے ہو ہی نہیں سکتا، اس کے لیے عفو و حلم ناگزیر ہے۔
رسول اللہﷺ پر نازل کردہ نوشتہ ہدایت قرآن کریم میں بھی عفو و ِحلم کے متعلق بیش بہا تعلیمات ہیں، اللہ تعالیٰ نے عفو و درگزر کو متقی اور نیک لوگوں کی خوبی کے طور پر بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے( الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo) (عمران:134/3)''جو لوگ ہرحال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔ ''
اللہ تعالیٰ نے برے کردار کے حامل افراد سے درگزر کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپنے حبیب ﷺ سے فرمایا:( فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اصْفَحْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ o ) (المائدہ:13/5) ''آپ انھیں معاف کر دیں اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہیں۔ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کرتے ہیں۔''
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی کے ہر موڑ پر بُردباری اختیار کی۔ ان کے اسی وصف کا تذکرہ کرتے ہوئے رب العالمین نے فرمایا:(اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ )(ہود:75/11)''حقیقت میں ابراہیم بڑے حلیم (بُردبار) اور نرم دل آدمی تھے۔''
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی خوشخبری دی گئی۔ اس کے ساتھ ان کے حلیم ہونے کی صفت کا بھی خصوصی تذکرہ کیا گیا، فرمایا:( فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلاَمٍ حَلِیْمٍ)(الصافات:101/37)''ہم نے انھیں ایک بُردبار لڑکے کی بشارت دی۔''
انھی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی لڑی سے پیارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں،آپ تمام انسانیت سے بڑھ کر عفو و حلم کے پیکر تھے۔ آپ نے امت کو بھی اس کی پرزور تعلیم دی اور اس کے فوائد و ثمرات سے بھی آگاہ فرمایا ،
قرآن کریم اور احادیث وسیرت میں اہل اسلام کے لیے ہمہ گیر رہنمائی موجود ہے ، اسلامی کردار و گفتار اور نبوی عادات و خصائل اپنانے ہی میں دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی مضمر ہے ، انفرادی واجتماعی اور معاشی وسیاسی امور میں نبوی ہدایات کی کامل اتباع وپاسداری کے بغیر امت مسلمہ کا عروج و اقبال ناممکن ہے ، عفو و درگزر ، صبر و برداشت اور تحمل و بردباری اسلامی تہذیب ومعاشرے کا امتیازی وصف ہیں ، ان اوصاف وعادات کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں فکری وعملی طور پر قبول کیے بغیر مسائل ومشکلات سے کامل طور پر جھٹکارا بعید ہے ، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ربانی ہدایات اور نبوی تعلیمات پر مکمل ایمان ویقین ہو ،
* مغربی فکر وتہذیب مذہب بیزار اور اور عمدہ اقدار وروایات کی آفاقیت اور ہمہ گیری کی منکر ہے ، اس لیے وہ عقل و فلسفہ کی روشنی میں اپنے افراد ومعاشرے کو اپنے انداز میں بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن دین ومذہب سے بغاوت کے باعث مغربی معاشرے کی کلی طور پر اصلاح ناممکن ہی نہیں ، بلکہ بعید از تصور وقیاس ہے ،
انفرادی واجتماعی اور معاشی و معاشرتی اور سیاسی واقتصادی تمام طرح کے معاملات میں مغرب زدہ انسان عمدہ عادات و خصائل کا حامل ہو، اس کا تصور بھی بعید ہے، ایک معاملے میں حسن اخلاق و کردار کا حامل ہو گا ، تو دوسرے امور میں عمدہ عادات سے دامن خالی ہے گا، اسی طرح ایک وقت میں ظاہری طور پر حسن اخلاق سے متصف دکھائی دے گا، تو دوسرے وقت میں صورتحال بلکل برعکس ہو گی ،*
جدید مغربی تہذیب وثقافت کے حاملین افراد کی انفرادی واجتماعی زندگی میں فرق ہو گا ، سیاسی وعائلی حیات میں تفاوت ہو گا ، ملحدین عفو و درگزر ، تحمل و بردباری اور صبر و برداشت کے شرعی مفہوم ومطلب سے بالکل ناآشنا ہوتے ہیں ، ان کی زندگی کا واحد مقصد ہے اور وہ معاشی ترقی ، ذاتی مفاد اور حیوانی خواہشات کی تکمیل ، نہ دین ، نہ فکر آخرت اور نہ ہی حصول اجر و ثواب کا تصور ، ((وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ )) (محمد:12/47) ٫٫ کافر دنیا سے خوب فائدہ اٹھاتے اور جانوروں کی طرح کھاتے پیتے ہیں ، آخر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ،،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:13، عفو و حلم اور نبوی تعلیمات)
عفو و حلم کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو قیمتی اور بے مثل ہدایات ارشاد فرمائی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(( وَمَا زَادَ اللّٰہُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ )) (صحیح مسلم:٢٥٨٨) ''معاف کرنے سے اللہ عزوجل بندے کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو شخص اللہ کے لیے تواضع اختیار کرے، اللہ تعالیٰ اس کا رُتبہ بلند کر دیتا ہے۔''
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللّٰہ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
(( صِلْ مَنْ قَطَعَکَ، وَأَعْطِ مَنْ حَرَمَکَ وَاْعفُ عَمَّنْ ظَلَمَکَ)) (أحمد بن حنبل، المسند:١٧٤٥٢) ''جو شخص تم سے قطعی تعلقی کرے، تم اس سے صلہ رحمی کرو، جو تمھیں نہیں دیتا، تم اسے عنایت کر دو، اور جو تم پر ظلم و زیادتی کرے، تم اسے معاف کر دو۔''
رسولِ کریم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ میں بیان کردہ تیسرا پہلو واضح طور پر عفو وحلم کے بارے میں ہے، جبکہ دیگر دو امور بھی کسی طور پر عفو وحلم ہی سے متعلق ہیں، کیونکہ قطع تعلقی کرنے والے سے صلہ رحمی اور نہ دینے والے کو بھی عطا کرنا بغیر عفو و حلم کے ہو ہی نہیں سکتا، اس کے لیے عفو و حلم ناگزیر ہے۔
رسول اللہﷺ پر نازل کردہ نوشتہ ہدایت قرآن کریم میں بھی عفو و ِحلم کے متعلق بیش بہا تعلیمات ہیں، اللہ تعالیٰ نے عفو و درگزر کو متقی اور نیک لوگوں کی خوبی کے طور پر بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے( الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo) (عمران:134/3)''جو لوگ ہرحال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔ ''
اللہ تعالیٰ نے برے کردار کے حامل افراد سے درگزر کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپنے حبیب ﷺ سے فرمایا:( فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اصْفَحْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ o ) (المائدہ:13/5) ''آپ انھیں معاف کر دیں اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہیں۔ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کرتے ہیں۔''
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی کے ہر موڑ پر بُردباری اختیار کی۔ ان کے اسی وصف کا تذکرہ کرتے ہوئے رب العالمین نے فرمایا:(اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ )(ہود:75/11)''حقیقت میں ابراہیم بڑے حلیم (بُردبار) اور نرم دل آدمی تھے۔''
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی خوشخبری دی گئی۔ اس کے ساتھ ان کے حلیم ہونے کی صفت کا بھی خصوصی تذکرہ کیا گیا، فرمایا:( فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلاَمٍ حَلِیْمٍ)(الصافات:101/37)''ہم نے انھیں ایک بُردبار لڑکے کی بشارت دی۔''
انھی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی لڑی سے پیارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں،آپ تمام انسانیت سے بڑھ کر عفو و حلم کے پیکر تھے۔ آپ نے امت کو بھی اس کی پرزور تعلیم دی اور اس کے فوائد و ثمرات سے بھی آگاہ فرمایا ،
قرآن کریم اور احادیث وسیرت میں اہل اسلام کے لیے ہمہ گیر رہنمائی موجود ہے ، اسلامی کردار و گفتار اور نبوی عادات و خصائل اپنانے ہی میں دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی مضمر ہے ، انفرادی واجتماعی اور معاشی وسیاسی امور میں نبوی ہدایات کی کامل اتباع وپاسداری کے بغیر امت مسلمہ کا عروج و اقبال ناممکن ہے ، عفو و درگزر ، صبر و برداشت اور تحمل و بردباری اسلامی تہذیب ومعاشرے کا امتیازی وصف ہیں ، ان اوصاف وعادات کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں فکری وعملی طور پر قبول کیے بغیر مسائل ومشکلات سے کامل طور پر جھٹکارا بعید ہے ، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ربانی ہدایات اور نبوی تعلیمات پر مکمل ایمان ویقین ہو ،
* مغربی فکر وتہذیب مذہب بیزار اور اور عمدہ اقدار وروایات کی آفاقیت اور ہمہ گیری کی منکر ہے ، اس لیے وہ عقل و فلسفہ کی روشنی میں اپنے افراد ومعاشرے کو اپنے انداز میں بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن دین ومذہب سے بغاوت کے باعث مغربی معاشرے کی کلی طور پر اصلاح ناممکن ہی نہیں ، بلکہ بعید از تصور وقیاس ہے ،
انفرادی واجتماعی اور معاشی و معاشرتی اور سیاسی واقتصادی تمام طرح کے معاملات میں مغرب زدہ انسان عمدہ عادات و خصائل کا حامل ہو، اس کا تصور بھی بعید ہے، ایک معاملے میں حسن اخلاق و کردار کا حامل ہو گا ، تو دوسرے امور میں عمدہ عادات سے دامن خالی ہے گا، اسی طرح ایک وقت میں ظاہری طور پر حسن اخلاق سے متصف دکھائی دے گا، تو دوسرے وقت میں صورتحال بلکل برعکس ہو گی ،*
جدید مغربی تہذیب وثقافت کے حاملین افراد کی انفرادی واجتماعی زندگی میں فرق ہو گا ، سیاسی وعائلی حیات میں تفاوت ہو گا ، ملحدین عفو و درگزر ، تحمل و بردباری اور صبر و برداشت کے شرعی مفہوم ومطلب سے بالکل ناآشنا ہوتے ہیں ، ان کی زندگی کا واحد مقصد ہے اور وہ معاشی ترقی ، ذاتی مفاد اور حیوانی خواہشات کی تکمیل ، نہ دین ، نہ فکر آخرت اور نہ ہی حصول اجر و ثواب کا تصور ، ((وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ )) (محمد:12/47) ٫٫ کافر دنیا سے خوب فائدہ اٹھاتے اور جانوروں کی طرح کھاتے پیتے ہیں ، آخر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ،،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے