- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:14عفو وحلم والی خوبی کیسے پیدا کی جائے)
انسان میں تمام طرح کی اچھی صفات شروع ہی سے ہوتی ہیں ، اگرچہ ان میں درجات کا فرق ہوتا ہے، البتہ ان میں بہتری و کمال کا حصول محنت، کوشش، تعلیم و تربیت، ماحول، آب وہوا اور خوراک سےہوتا رہتا ہے
اس کی شہادت فرمان نبوی سے بھی ملتی ہے، رسول مقبول ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ ''ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ بعد میں اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بناتے ہیں۔'' (صحیح البخاری:٣٨٥ و صحیح مسلم:٢٦٥٨)
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے ، انسان ایمان وعقیدے ، اخلاق و کردار ، عادات و اطوار اور شخصیت پر ماحول اور افراد معاشرہ کا گہرا اثر ہوتا ہے ، عفو و حلم اور صبر و تحمل جیسے دین دار گھرانہ میں پرورش پانے والے بچوں میں یقیناً اپنے والدین ، اساتذہ اور تعلق داروں جیسی عمدہ صفات و عادات جنم لیتی ہیں، جبکہ کہ بد اخلاق و کردار ، سخت مزاج اور غیظ وغضب کے عادی افراد کی صحبت اختیار کرنے والے میں شعوری یا غیر شعوری طور پر بری عادات و اطوار پروان چڑھتی ہیں ،
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کے بارے میں فرمایا:( فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَھُمْ ) (اٰل عمران:159/3)''اے پیغمبر ! یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ اِن لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں، ورنہ اگر آپ تُندخو اور سنگ دل ہوتے ، تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔ اِن کے قصور معاف کر دیا کریں اور ان کے حق میں دُعائے مغفرت کیا کریں۔''
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی نرم مزاجی ، حسن اخلاق و کردار ، عمدہ عادات و خصائل اور عفو و حلم میں ﷲ کی خاص عنایت کار فرما تھی اور ان صفات عالیہ سے رب تعالیٰ نے آپ کو خصوصی طور پر نوازا تھا ، اگرچہ ان کی تکمیل اور اعلیٰ مدارج تک پہنچنے میں دیگر امور واسباب بھی کار فرما تھے، جیسے نبوت و رسالت سے سرفرازی، عقیدہ توحید، خاندانی اقدار و اخلاق اور گلہ بانی۔گلہ بانی کے بے شمار فوائد و مقاصد تھے، جیسے تواضع و انکسار، حلم و عفو، خیر خواہی و ہمدردی، شفقت و رحمت جیسی صفات کی تکمیل اور امت کی قیادت و سیادت کے لیے آپ کی تعلیم و تربیت کرنا۔
رسول اللہ ﷺ کے ہاں قبول اسلام کے لیے عبد قیس کا وفد آیا ۔ وفد میں اشج نامی ایک آدمی تھے، جنھوں نے دیگر اہل وفد کے برعکس انتہائی اطمینان اور سکون سے تیاری کی اور پھر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ پہلے اپنی سواری بٹھائی، اسے باندھا، اپنے کپڑے تبدیل کیے اور پھر رسول مقبول ﷺ کے پاس آئے ۔ یہ دیکھ کر آپ نے ان سے فرمایا: ''اے اشج ! تم میں دو خوبیاں ایسی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو بھی پسند ہیں اور وہ ہیں: صبر و تحمل اور اطمینان وسکون۔'' انھوں نے عرض کی: یہ خوبیاں میری جبلت میں تھیں یا بعد میں وجود میں آئیں؟ آپ نے فرمایا: ''تمھاری جبلت میں رکھی گئی تھیں۔'' (صحیح مسلم:١٧،١٨ و سنن ابن ما جہ:٤١٨٧)
اس واقعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ عنایت ربانی اور خاص رحمت الٰہی کے باعث انسان میں پیدائشی طور پر عمدہ عادات و خصائل بھی ہو سکتے ہیں ، اگرچہ دیگر اسباب وعوامل کی وجہ سے ان میں بہتری اور کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے، عفو و حلم اور تحمل و بردباری خاص عطیہ ربانی ہے جسے اللہ تعالیٰ چاہے عطا کر دے ،
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے عفو و حلم کے حصول کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:(( إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ وإِنَّمَا الْحِلْمُ بِالتَّحَلُّمِ وَمَنْ یَتَحَرَّی الْخَیْرَ یُعْطَہ، وَمَنْ یَتَّقِ الشَّرَّ یُوقَہ، ))(الطبرانی ، المعجم الأوسط:٢٦٦٣ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٣٤٢) ''علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور حلم و بردباری تحمل کی عادت ڈالنے سے پیدا ہوتی ہے۔ جو بھلائی کی جستجو میں لگا رہے، اسے بھلائی مل جاتی ہے اور جو شر سے بچاؤ کی کوشش کرتا رہے، اسے شر سے بچا لیا جاتا ہے۔ ''
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ حلم اور دیگر ایسے اوصاف ﷲ تعالیٰ کی خصوصی عطا سے حاصل ہوتے ہیں، البتہ ان میں کمی یا زیادتی ضرور ہو سکتی ہے ۔ کسی میں کوئی اچھی صفت شروع میں زیادہ ہوتی ہے اور بعد میں وہ محنت سے اس میں کمال حاصل کرلیتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شروع میں کوئی صلاحیت کم درجہ ہو جس کے اعلیٰ حصول کے لیے کثیر محنت درکار ہو۔ لیکن ہر طرح کی صلاحیت اور خوبی انسان میں ولادت ہی سے ضرور ہوتی ہے ۔ عفو و حلم بھی اسی قبیل سے ہیں۔
عصر حاضر میں امت مسلمہ ہمہ گیر زوال پذیر ہے ، انفرادی واجتماعی اور ملکی و عالمی سطح پر کئی طرح کے مسائل ومشکلات سے دوچار ہے ، فکری وروحانی ، اخلاقی وسماجی اور معاشرتی وسیاسی معاملات میں عفو و حلم ، تحمل و بردباری، صبر و برداشت اور دیگر عمدہ عادات و خصائل سے ان کا دامن خالی ہوتا جا رہا ہے، کمزور ایمان وعقیدہ، مسلکی عصبیت، استعماری منصوبہ سازی،اختلاف وانتشار اور ماحول ومیڈیا کی وجہ سے اہل اسلام مصائب و مشکلات کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں،
جدید تہذیب والحاد کے حاملین تمام شعبہ ہائے زندگی میں لا الہ الا الانسان کے قائل و فاعل ہیں ، اس لیے اسلام کی تعلیم کردہ عمدہ عادات و خصائل ، عفو و درگزر اور صبر و تحمل کا تو ان کے ہاں تصور بھی نہیں ، مذہب بیزاری پر مبنی ان کے نظام تعلیم وتربیت اور نظام معاشرت وسیاست کے انسانوں پر بھیانک اثرات مرتب ہوتے ، ظاہری طور پر الحادی ومغربی معاشرے کی کچھ خوبیاں باور کرائی جاتی ہیں ، لیکن انسانی تباہی وبربادی اور اخلاقی وسماجی بگاڑ کی نسبت ان کی ظاہری خوبیوں کی ذرہ بھر بھی اہمیت نہیں ، سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے انسانوں کا اپنے خالق حقیقی سے بیزار کیا اور حقیقی مقصد سے انہیں غافل کیا ، وہ ہے فکر آخرت ، رب العالمین کی رضا اور حصولِ جنت ومغفرت ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:14عفو وحلم والی خوبی کیسے پیدا کی جائے)
انسان میں تمام طرح کی اچھی صفات شروع ہی سے ہوتی ہیں ، اگرچہ ان میں درجات کا فرق ہوتا ہے، البتہ ان میں بہتری و کمال کا حصول محنت، کوشش، تعلیم و تربیت، ماحول، آب وہوا اور خوراک سےہوتا رہتا ہے
اس کی شہادت فرمان نبوی سے بھی ملتی ہے، رسول مقبول ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ ''ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ بعد میں اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بناتے ہیں۔'' (صحیح البخاری:٣٨٥ و صحیح مسلم:٢٦٥٨)
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے ، انسان ایمان وعقیدے ، اخلاق و کردار ، عادات و اطوار اور شخصیت پر ماحول اور افراد معاشرہ کا گہرا اثر ہوتا ہے ، عفو و حلم اور صبر و تحمل جیسے دین دار گھرانہ میں پرورش پانے والے بچوں میں یقیناً اپنے والدین ، اساتذہ اور تعلق داروں جیسی عمدہ صفات و عادات جنم لیتی ہیں، جبکہ کہ بد اخلاق و کردار ، سخت مزاج اور غیظ وغضب کے عادی افراد کی صحبت اختیار کرنے والے میں شعوری یا غیر شعوری طور پر بری عادات و اطوار پروان چڑھتی ہیں ،
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کے بارے میں فرمایا:( فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَھُمْ ) (اٰل عمران:159/3)''اے پیغمبر ! یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ اِن لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں، ورنہ اگر آپ تُندخو اور سنگ دل ہوتے ، تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔ اِن کے قصور معاف کر دیا کریں اور ان کے حق میں دُعائے مغفرت کیا کریں۔''
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی نرم مزاجی ، حسن اخلاق و کردار ، عمدہ عادات و خصائل اور عفو و حلم میں ﷲ کی خاص عنایت کار فرما تھی اور ان صفات عالیہ سے رب تعالیٰ نے آپ کو خصوصی طور پر نوازا تھا ، اگرچہ ان کی تکمیل اور اعلیٰ مدارج تک پہنچنے میں دیگر امور واسباب بھی کار فرما تھے، جیسے نبوت و رسالت سے سرفرازی، عقیدہ توحید، خاندانی اقدار و اخلاق اور گلہ بانی۔گلہ بانی کے بے شمار فوائد و مقاصد تھے، جیسے تواضع و انکسار، حلم و عفو، خیر خواہی و ہمدردی، شفقت و رحمت جیسی صفات کی تکمیل اور امت کی قیادت و سیادت کے لیے آپ کی تعلیم و تربیت کرنا۔
رسول اللہ ﷺ کے ہاں قبول اسلام کے لیے عبد قیس کا وفد آیا ۔ وفد میں اشج نامی ایک آدمی تھے، جنھوں نے دیگر اہل وفد کے برعکس انتہائی اطمینان اور سکون سے تیاری کی اور پھر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ پہلے اپنی سواری بٹھائی، اسے باندھا، اپنے کپڑے تبدیل کیے اور پھر رسول مقبول ﷺ کے پاس آئے ۔ یہ دیکھ کر آپ نے ان سے فرمایا: ''اے اشج ! تم میں دو خوبیاں ایسی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو بھی پسند ہیں اور وہ ہیں: صبر و تحمل اور اطمینان وسکون۔'' انھوں نے عرض کی: یہ خوبیاں میری جبلت میں تھیں یا بعد میں وجود میں آئیں؟ آپ نے فرمایا: ''تمھاری جبلت میں رکھی گئی تھیں۔'' (صحیح مسلم:١٧،١٨ و سنن ابن ما جہ:٤١٨٧)
اس واقعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ عنایت ربانی اور خاص رحمت الٰہی کے باعث انسان میں پیدائشی طور پر عمدہ عادات و خصائل بھی ہو سکتے ہیں ، اگرچہ دیگر اسباب وعوامل کی وجہ سے ان میں بہتری اور کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے، عفو و حلم اور تحمل و بردباری خاص عطیہ ربانی ہے جسے اللہ تعالیٰ چاہے عطا کر دے ،
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے عفو و حلم کے حصول کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:(( إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ وإِنَّمَا الْحِلْمُ بِالتَّحَلُّمِ وَمَنْ یَتَحَرَّی الْخَیْرَ یُعْطَہ، وَمَنْ یَتَّقِ الشَّرَّ یُوقَہ، ))(الطبرانی ، المعجم الأوسط:٢٦٦٣ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٣٤٢) ''علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور حلم و بردباری تحمل کی عادت ڈالنے سے پیدا ہوتی ہے۔ جو بھلائی کی جستجو میں لگا رہے، اسے بھلائی مل جاتی ہے اور جو شر سے بچاؤ کی کوشش کرتا رہے، اسے شر سے بچا لیا جاتا ہے۔ ''
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ حلم اور دیگر ایسے اوصاف ﷲ تعالیٰ کی خصوصی عطا سے حاصل ہوتے ہیں، البتہ ان میں کمی یا زیادتی ضرور ہو سکتی ہے ۔ کسی میں کوئی اچھی صفت شروع میں زیادہ ہوتی ہے اور بعد میں وہ محنت سے اس میں کمال حاصل کرلیتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شروع میں کوئی صلاحیت کم درجہ ہو جس کے اعلیٰ حصول کے لیے کثیر محنت درکار ہو۔ لیکن ہر طرح کی صلاحیت اور خوبی انسان میں ولادت ہی سے ضرور ہوتی ہے ۔ عفو و حلم بھی اسی قبیل سے ہیں۔
عصر حاضر میں امت مسلمہ ہمہ گیر زوال پذیر ہے ، انفرادی واجتماعی اور ملکی و عالمی سطح پر کئی طرح کے مسائل ومشکلات سے دوچار ہے ، فکری وروحانی ، اخلاقی وسماجی اور معاشرتی وسیاسی معاملات میں عفو و حلم ، تحمل و بردباری، صبر و برداشت اور دیگر عمدہ عادات و خصائل سے ان کا دامن خالی ہوتا جا رہا ہے، کمزور ایمان وعقیدہ، مسلکی عصبیت، استعماری منصوبہ سازی،اختلاف وانتشار اور ماحول ومیڈیا کی وجہ سے اہل اسلام مصائب و مشکلات کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں،
جدید تہذیب والحاد کے حاملین تمام شعبہ ہائے زندگی میں لا الہ الا الانسان کے قائل و فاعل ہیں ، اس لیے اسلام کی تعلیم کردہ عمدہ عادات و خصائل ، عفو و درگزر اور صبر و تحمل کا تو ان کے ہاں تصور بھی نہیں ، مذہب بیزاری پر مبنی ان کے نظام تعلیم وتربیت اور نظام معاشرت وسیاست کے انسانوں پر بھیانک اثرات مرتب ہوتے ، ظاہری طور پر الحادی ومغربی معاشرے کی کچھ خوبیاں باور کرائی جاتی ہیں ، لیکن انسانی تباہی وبربادی اور اخلاقی وسماجی بگاڑ کی نسبت ان کی ظاہری خوبیوں کی ذرہ بھر بھی اہمیت نہیں ، سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے انسانوں کا اپنے خالق حقیقی سے بیزار کیا اور حقیقی مقصد سے انہیں غافل کیا ، وہ ہے فکر آخرت ، رب العالمین کی رضا اور حصولِ جنت ومغفرت ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے